new sad poetry by Tehzeeb Hafi 2023

admin

Tehzeeb Hafi Latest urdu poetry


مسلسل وار کرنے پر بھی ذرہ بھر نہیں ٹوٹا 

میں پتھر ہو گیا لیکن ترا خنجر نہیں ٹوٹا 


ترے ٹکرے مری کھڑکی کے شیشوں سے زیادہ ہیں 

نصیب اچھا ہے میرا تو مرے اندر نہیں ٹوٹا 


مجھے برباد کرنے تک ہی اُس کے آستاں ٹوٹے 

مرا دل ٹوٹنے کے بعد اُس کا گھر نہیں ٹوٹا 

طلسم ِ یار میں جب بھی کمی آئی، نمی آئی 

اُن آنکھوں میں جنہیں لگتا تھا جادوگر نہیں ٹوٹا 


سروں پر آسماں ہاتھوں سے آئینے نظر سے دل 

بہت کچھ ٹوٹ سکتا تھا بہت کچھ پر نہیں ٹوٹا 


ہم اُس کا غم بھلا قسمت پہ کیسے ٹال سکتے ہیں 

ہمارے ہاتھ میں ٹوٹا ہے وہ گر کر نہیں ٹوٹا 

تیرے بھیجے ہوئے تیشوں کی دھاریں تیز تھیں حافی 

مگر ان سے یہ کوہ ِ غم زیادہ تر نہیں ٹوٹا 


تہذیب حافی


آگ ہے میری تقدیر میں 

گرم ہے عشق تاثیر میں 


میں محبت سے بھاگا بہت 

آ گیا پاؤں زنجیر میں 


اتنی عجلت میں کھینچی گئی 

میں نہیں میری تصویر میں 


زندگی صرف ہو جائےگی 

ایک لمحے کی تفسیر میں 


قید کر رکھا ہے میرا دل 

اُس نے آزاد کشمیر میں 

تہذیب حاف

موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں

زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری  پٹیاں کھول دیں 


ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے 

تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں 


اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا 

اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں 


دشت ِ غربت میں ، میں اور میرا یار ِ شب زاد باہم ملے 

یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں


کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی 

اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں


اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے

اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں 


آج ہم کر چکے عہدِ ترک ِ سخن پر رقم دستخط

آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں 


تہذیب حافی

چمک تیغ ِ شہنشاہ ِ نجف جیسی تھی آنکھوں میں 

کہ جب میدان میں آئے سخی آہستہ آہستہ 


غمِ شبیر ہے اس غم میں سینے پھٹ بھی جاتے ہیں 

چلا زنجیر !  پر اے ماتمی آہستہ آہستہ 


کبھی مخدومہ ء عالم کی آنکھوں کا تصور کر 

کہ جن سے بہہ گئے ابن ِ علی آہستہ آہستہ 


علی گردن پہ شجرے دیکھ کر تلوار رکھتے تھے 

کبھی لو تیز کر دیتے کبھی آہستہ آہستہ 


حسین ِ ابن ِ علی کو خط ملا کربل میں صغری کا 

علی اکبر سے کہنا یا اخی آہستہ آہستہ


تہذیب حافی


سب کی کہانی ایک طرف ہے میرا قصہ ایک طرف 

ایک طرف سیراب ہیں سارے اور میں پیاسا ایک طرف 


ایک طرف تمہیں جلدی ہے اُس کے دل میں گھر کرنے کی

ایک طرف وہ کر دیتا ہے رفتہ رفتہ ایک طرف 


میری مرضی تھی میں ذرے چنتا یا لہریں چنتا 

اس نے صحرا ایک طرف رکھا اور دریا ایک طرف 


میں نے اب تک جتنے بھی لوگوں میں خود کو بانٹا ہے 

بچپن سے رکھتا آیا ہوں تیرا حصہ ایک طرف 


جب سے اس نے کھینچا ہے کھڑکی کا پردہ ایک طرف 

اس کا کمرا ایک طرف ہے باقی دنیا ایک طرف 


یوں تو آج بھی تیرا دکھ دل دہلا دیتا ہے لیکن 

تجھ سے جدا ہونے کے بعد کا پہلا ہفتہ ایک طرف 


تہذیب حافی