سب رس کی خصوصات اور تنقیدی جائزہ

admin

سب رس کی خصوصات اور تنقیدی جائزہ

 



 سب رس کی خصوصات اور تنقیدی جائزہ


 پروفیسر افتخار احمد شاہ اپنے مضمون ” دکن میں اسالیب نثر " میں لکھتے ہیں 

 سب رس اپنے موضوع ، زبان اور اسلوب کے اعتبار سے ایک ایسی تصنیف ہے کہ جسے اس دور کی جملہ تصانیف میں سب سے زیادہ ادبی اہمیت کی مالک ہونے کا مقام حاصل ہے ۔ جسے موضوع کی و چپی ، جذبے کی موجودگی ، زبان کی دلکشی اور اسلوب کی انفرادیت پر خالص ادبی تحریر قرار دیا جاسکتا ہے ۔ 


سب رس ایک تمثیل 


 سب رس کو عبد اللہ قطب شاہ کی فرمائش پر وجہی نے لکھا ۔ اس کتاب کو اردو نثر کی اولین کتاب ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ یہ وجہی کہ اپنی طبع زاد نہیں اس کتاب میں فتاحی نیشاپوری کی مثنوی ” دستور العشاق " ( نظم ) اور ” قصہ حسن و دل ” کو نثر کے پیرائے میں تمثیل کے انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ تمثیل انشاء پردازی کی اس طرز کو کہتے ہیں جس میں کسی تشبیہ یا استعارہ کو یا انسان کے کسی جذبے مثلا غصہ ، نفرت ، محبت وغیرہ کو مجسم کر کے یا دیوی دیوتاؤں کے پردے میں کوئی قصہ گھڑ لیا جاتا ہے ۔ یہ قصہ صوفیانہ مسلک کا آئینہ دار ہے ۔ مگر اپنے اسلوب اور بیان میں سب رس ایک کامیاب تمثیل ہے ۔ اس میں حسن و دل اور عقل و دل کی جنگ کو بڑی خوبصورت اور کامیاب تمثیل کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے ۔


 سنگ میل 


 سب رس اردو نثر کا سب سے ممتاز اور ترقی یافتہ شاہکار ہے ۔ اس میں اسلوب بیان نے ایک خاص انگڑائی لی ہے اور زندگی کی آنکھ کھولی ہے ۔ سب رس سے پہلے جو نمونے اردو نثر میں ملتے ہیں ۔ اسے اردو نثر کا دور بددیت کہا جاسکتا ہے ۔ یعنی اس دور میں وہ انداز بیان تھا جس میں لیجے کاد یہاتی پن ، کہنے کا سادہ بے تکلف اور درست انداز اور آرائش کی ہر کوشش سے آزاد تھا ۔ جتنے لوگوں نے اس زمانے میں لکھا ، مذہبی مسائل پر لکھا اور ان کے مخاطب عوام تھے جن تک بات پہنچانا مقصود تھا ۔ اس لیے سادگی ، سلاست و راست بیانی کے علاوہ شیرازہ بندی اور فقروں کی ساخت سے بے پروائی کا رویہ عام تھا ۔ مگر " سب رس " اردو نثر کا ایک ایسا سنگ میل ہے جس میں اس بات کی کوشش نظر آتی ہے کہ مصنف اپنی بات کو موثر بنانے کے لیے کوشاں ہے ۔ 


سب رس کا اسلوب 


 سب رس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی ترقی یافتہ زبان اور اس کا اسلوب بیان ہے ۔ سب رس میں پہلی دفعہ زبان اردو کی ایک ترقی یافتہ صورت ہمارے سامنے آئی اور پہلی دفعہ زبان کے ایسے اسالیب اور زبان کے ایسے ایسے خصائص وجود میں آۓ جن کی بنا پر " سب رس " کی زبان اس سے پہلے کے مصنفوں کی زبان سے اور اپنے معاصروں کی زبان و اسلوب سے علیحدہ ہو گئی ۔ پروفیسر شیرانی لکھتے ہیں جو چیز ” سب رس " کو ہماری نگاہ میں سب سے زیادہ قیمتی بناتی ہے ۔ وہ اس کے اسالیب ہیں ۔ جب ہم ان اسالیب کا موجودہ زبان سے مقابلہ کرتے ہیں تو آج کی زبان میں اور اس زبان میں خفیف سافرق معلوم ہوتا ہے ۔


قافیه بندی 


وجہی نے اپنے ترقی یافتہ اسلوب بیان میں قافیہ بندی کا بڑا خیال رکھا ہے ۔ وجہی کی عبارتوں میں دو دو تین تین جملے عام طور پر باہم قافیہ دار ہوتے ہیں ۔ اسے مسجع اور مقتفی نثر کا بڑا شوق ہے ۔ یہ شوق شاید قران پاک کی تلاوت سے پیدا ہوا ۔ فارسی کے تتبع میں بھی وجہی نے منتفی اور مسجع عبارت لکھی ۔ " سب رس " میں تقریبا ہر فقرہ دوسرے فقرے کے ساتھ ہم قافیہ نظر آتا ہے ۔ مثلا یو کتاب سب کتاباں کا سر تاج ، سب باتاں کا راج ، ہر بات میں سو سو معراج ، اس کا سواد مجھے نا کوئی عاشق باج ، اس کتاب کی لذت پانے عالم سب محتاج ۔


 نثر میں شاعری 


سب رس پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے گو یا غزل کے مصرعوں کی نثر بنادی گئی ہو اور اصل کتاب دیکھیں تو اس میں منفی اور مسجع عبارت کی بنا پر شاعری کا گماں ہوتا ہے ۔ اردو نثر میں اگر رنگین نگاری کا سراغ لگانا مقصود ہو تو نیاز فتح پوری اور بلید رم کے بجائے ملا وجہی تک جانا ہو گا ۔ مثال کے طور پر 


" قدرت کا دھنی سہی جو کر تا سو سب وہی ۔ خدا بڑا ، خدا کی صفت کرے کوئی کب تک ، وحدہ لا شریک ، ماں نہ باپ" 


فارسی اور عربی کا اثر 


 وجہی کی عبارتوں میں عربی فارسی ضرب الامثال بکثرت موجود ہیں بلکہ اس نے عربی فارسی ترکیبوں کو اردو میں جذب کر کے زبان کا ڈھانچہ تیار کیا اور پھر ہندوستان بھر کی زبانوں کے مطالعے کی وجہ سے ہر خطے کی زبان اور خصوصاً شمالی ہند کے محاورے کو اپنے ہاں جگہ دی اور ایک وسیع تر زبان کی بنیاد رکھی ۔ وجہی نے اس تجربے سے ثابت کر دیا کہ اردوزبان دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ وجہی نے اردو زبان کے بارے میں یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ ایک اور آہنگ بھی تیار ہو سکتا ہے ۔ وجہی کی زبان آج کل کی زبان کے بہت قری ہے اس میں عربی فارسی کے الفاظ کثرت سے ملتے ہیں ۔


 دانا یاں میں یوں چپل ہے بات ، المعقل نصف الكرمات 


صرفی نحوی خصوصیات 


 سب رس " کے متن میں صرفی نحوی نکات جس مہارت سے استعمال ہوئے ہیں ان سے " سب رس " کی صرفی و نحوی خصوصیات کا بخوبی پتہ چلتا ہے ۔ مثلا ایک طرف اگر عربی الفاظ کے املا کو سادہ کر دیا گیا ہے تو دوسری طرف فارسی میں گی کا لاحقہ استعمال کر کے بعض الفاظ بنائے گئے ہیں ۔ مثلا بندہ سے بند گی وغیرہ ۔


 بقول حافظ محمود شیرانی : ادبی پہلو سے قطع نظر اور اوصاف میں جن کی بناء پر یہ کتاب گو ناگوں دلچسپیوں کا مرکز بن جاتی ہے ۔

 لغت ولسان اور قدیم صرف و نحو کے محقق اس کو نعمت غیر متبرقہ سمجھیں گے ۔ بالخصوص اس کا وہ حصہ جو قدیم محاورات اور ضرب الامثال سے تعلق رکھتا ہے ۔


 اردو کے نقوش 


سب رس کی زبان کو اس کا مصنف ہندی زبان کے نام سے یاد کرتا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس زمانے میں ہندی زبان ( شمالی ہند کی زبان ، کا دکن والوں پر اتنا اثر پڑ چکا تھا کہ دکن کا مصنف اس زبان کو گجری ، گجراتی یا دکنی زبان کہنے کی بنائے ہندی زبان کہتا ہے ۔ بظاہر تو یہ معمولی بات ہے لیکن دراصل یہ اس حقیقت کی داعی ہے کہ " اردویت " نے سب سے پہلے نمایاں طور پر اس کتاب کے  زمانے میں اور اس کے زیر اثر ہی دکن میں زور پکڑا ۔

 شمالی ہند میں مغلوں سے پہلے کے سلاطین کے دور میں جو زبان رائج تھی ۔ اس میں عربی فارسی کے الفاظ تو مل جاتے ہیں لیکن اس کا نقش مسلمانی نہیں ہے اور اردو زبان کی روح اور سپرٹ مسلمانی ہے ۔ وجہی نے اپنے زمانہ کی با محاورہ اور فصیح ترین زبان لکھی اور اس کا اس کو احساس بھی تھا ۔ وہ خود لکھتا ہے : آج لگن کوئی اس جہاں میں ہندوستان میں ہندی زبان سوں اس لطافت اور اس چنداں سوں نظم ہور نثر ملا کر گھلا کر نہیں بولیا ۔


 سب رس کی زبان 


 سب رس کی زبان تقریبا چار سو سال پرانی اور وہ بھی دکن کی ہے ۔ اس میں بہت سے الفاظ ایسے بھی ہیں جو اب بالکل متروک ہیں اور خود اہل دکن بھی نہیں بولتے اور اس پرانی اور قدیم زبان کے بعض پرانے الفاظ خوداہل دکن بھی نہیں بولتے اور پرانی اور قدیم زبان کے بعض پرانے الفاظ و محاورات آجکل سمجھ میں نہیں آتے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ وجہی نے اپنے زمانے کی بامحاورہ اور فصیح ترین زبان لکھی اور اس بات کا خود اسے بھی احساس تھا ۔ وجہی نے عربی فارسی الفاظ کے ساتھ ہندی الفاظ بکثرت استعمال کیے ہیں ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ چار سو سال قبل بھی بالکل اسی طرح استعمال کیے جس طرح آجکل ہو رہے ہیں ۔ شان نہ گمان ، خالہ کا گھر ، کہاں گنگا تیلی کہاں راجہ بھوج ، شرم حضوری ، اور دیکھا دیکھی ، گھر کا بھیدی نے لنکا جائے ، دھو کا جلیا چانچھ پھونک پیاد غیرہ وغیرہ ۔ 


لسانی اہمیت 


 سب رس اور وجہی کے معاصرین کے ذریعے ہماری اردو نے جڑ پڑی ۔ سب رس کا لسانی دائرہ بھی کافی وسیع ہے ۔ اس میں شمالی ہند کی زبانوں برج بھاشا ، گوالیاری ، راجستھانی اور دوسری زبانوں کے محاورے ، ضرب الامثال اور اثرات بھی پائے جاتے ہیں ۔ وجہی نے شمالی ہند اور جنوبی ہند کی زبانوں کی خلیج مٹانے کی کو شش کی ہے ۔ اگرچہ میر تقی میر نے دکنی زبانوں کو توجہ کے قابل نہیں سمجھا اور اسے " نثر بے رتبہ " کہہ کر نظر انداز کر دیا ۔ لیکن " سب رس " کی لسانی حیثیت مسلمہ ہے ۔ اس نے باب مراتب اور فرق مراتب ختم کر کے ایک نئی زبان دی ہے ۔ وجہی کی نثر کو اگر آج بھی غور سے پڑھا جائے تو ہم تقریبا تمام کی تمام زبان کو سمجھ سکتے ہیں ۔


 کردار نگاری 


 کہانی میں کل 76 کر دار ہیں جو کہ غیر مجسم کیفیت انسانی ہیں جن کو مجسم کر کے پیش کیا گیا ہے ۔ یوں یہ کہانی انسانی زندگی کاروز مرہ تماشا ہے اور اسی تماشے کو وجہی نے تمثیل کے روپ میں پیش کیا ہے ۔ کسی دیو مالا کا سہارا لیے بغیر اپنی کیفیات کو کردار بنا کر پیش کرنے میں یہ خامی ضرور ہے کہ کردار کو اسم بامسمی ہونے کی وجہ سے ہم اس کے کردار اور سیرت سے آگاہ ہو جاتے ہیں اور کسی مختلف عمل کی توقع نہیں رکھ سکتے ۔ وجہی نے اس قصے کو جاندار بنانے کی حتی الوسع کوشش کی ہے اور اس میں وہ کہیں کہیں کامیاب بھی نظر آتے ہیں ۔ جہاں کہیں اس نے اپنے کسی کردار کی کردار نگاری کی ہے یا کہیں مکالمہ نگاری کی ہے وہ اس کا اپنا کمال ہے اور اس کا تخلیقی عمل ہے ۔ مثلا حسن کاروپ اس طرح پیش کیا ہے ۔ حسن ناز ، اوتار ، خوش گفتار ، خوش رفتار ، ویدیاں کا سنگار ، دل کا آدھار ، پھول ڈالی تے خوب لکتی ، چلنے میں ہنس کوں ہٹ گئی ، روائیں تے میٹھی بولی بات ، آواز تے قمری کو کرے مات ، کنول پھول کے پنکھڑیاں جیسے بات ، چین میں پھول شرم حضور ، لاج تے آسمان پر چڑھے ۔ 


معاشرت کی عکاسی 


 سب رس میں جابجا اس زمانے کی معاشرت اور تہذیبی تمدنی زندگی کی جھلکیاں ملتی ہیں ۔ اس زمانے کے طر ز و بود باش ، خوراک ، لباس ، وضع قطع ، ظروف ، زیورات ، حکومت و حکمت ، تجارت و معیشت غرضیکہ ہر پہلو سے اس زمانے کی معاشرتی زندگی کے آثار کی تصویر نظر آتی ہے ۔ جس سے معلوم ہو تا ہے کہ مصنف ایک زندہ معاشرے کا ایک نکتہ دان ادیب ہے جس نے اپنے عہد کی معارتی زندگی کو بڑی گہری نظر سے دیکھا ہے اور اس کے خد و خال کو بڑی چابکدستی سے احاطہ تحریر میں لایا ہے ۔ " سب رس " اگرچہ ایک تمثیل ہے مگر اس کے مطالعے سے اس عہد کی معاشرتی زندگی ، افکار اور رجحانات کی ایک مکمل تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے ۔


 سیاسی حالات 


 وجہی عبد الله قلی قطب شاہ کا در باری شاعر اور ادیب ہے ۔ وہ دربار سے وابستہ تھا اور اس سیاسی عمل کا حصہ ہے ۔ اس لیے اس کی نظر در باری معاملات پر بڑی گہری ہے ۔ وہ قدیم ایشائی حکومتوں کے رنگ ڈھنگ اور ان کی سیاسی حکمت عملی سے خوب آگاہ ہے ۔ وہ ان قدیم مطلق العنان حکومتوں کے درباروں میں ہر قسم کی سیاسی از شوں اور جوڑ توڑ سے واقف ہے یہی وجہ ہے کہ جب قصے میں بھی در بار سجایا سیاسی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو وجہی کا قلم اس تمثیل کی آڑ میں اپنے در بار کی تمام تر سیاسی حکمت عملیوں کا ذکر کرنے بیٹھ جاتا ہے ۔ وہ شہزادے کے عام اخلاقی رویوں کا ذکر بھی کرتا ہے اور شہزادی کی شراب نوشی کا جواز بھی تلاش کر تا ہے ۔ وہ در بار سر کار کے معاملات سے خوب واقف ہے ۔ اس واقفیت سے اس نے اپنی کتاب میں خوب کام لیا ہے ۔ 


صوفیانہ خیالات ، اخلاقی تعلیمات 


 وجہی نے اس فرضی داستان میں جگہ جگہ صوفیانہ خیالات ، موضوعات ، مذہبی روایات اور اخلاقی تعلیمات کی تبلیغ کی ہے اور یہی روش اس زمانے کے معاشرتی رجحانات کے مطابق تھی ۔ چنانچہ عشقیہ واردات کے بیان میں وجہی نے نہایت حزم و احتیاط سے کام لیا ہے ۔ کہیں بھی پست خیالات اور عریانی کا مر تکب نہیں ہوا ۔ وجہی عالم دین صوفی تھا اور مسلم معاشرے کا فرد تھا جس میں نیکی اور اخلاق کے مثبت پہلوئوں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور منفی پہلوئوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔ چنانچہ وجہی نے اپنی کتاب میں اخلاق کے اچھے پہلوئوں کی تعلیم و تر و پیج پر زور دیا ہے ۔ اور اخلاق کے برے پہلوئوں کی برائی کی ہے ۔


 و جہی پہلا انشائیہ نگار 


 بھارت میں ڈاکٹر جاوید شٹ نے ” ملاد نہی کو ” ارد وانشائیہ کا باوا آدم قرار دیا ہے ۔ اور اسے موتین کا ہم پلہ ثبات کیا ہے ۔ انہوں نے سب رس میں ایسے 21 حصوں کی نشاندہی کی ہے ۔ جن کی بنا پر انہوں نے یہ لکھا میں ملا وجہی کو اردو انشائیہ کا موجد اور باوا آدم قرار دیتا ہوں اور اس کے ان اکسٹھ انشائیوں کواردو کے پہلے انشایئے ۔۔۔ اردو کے یہ پہلے ایسے انشایئے ہیں جو عالمی انشائیہ کے معیار پر پورے اترتے ہیں ۔ 


مجموعی جائزہ 


 زبانیں مقام عروج تک پہنچنے میں بہت زیادہ وقت لیتی ہیں ۔ اردو نثر نے تو بہت تیزی سے ارتقائی مسافتوں کو قطع کیا ۔ الغرض اس طومیں ارتقائی سفر کا نقطہ آغاز " سب رس " ہے ۔اردو نثر کا خوش رنگ اور خوش آہنگ نقشہ اور ہیئت جو آج ہمیں نظر آ رہی ہے اس میں ابتدائی رنگ بھرنے کا اعزاز و جہی کو حاصل ہے اور اردو کی نثری ادب میں " سب رس " کا درجہ نہایت بلند و بالا اور وقیع ہے ۔ " سب رس " اگرچہ اولین کو شش مگر بہترین کوشش ہے ۔