سر سید احمد خان کی ادبی ، سیاسی ، مذہبی خدمات اور تصانیف

admin

سر سید احمد خان کی ادبی ، سیاسی ، مذہبی خدمات اور تصانیف

 

سر سید احمد خان کی ادبی ، سیاسی ، مذہبی خدمات اور تصانیف


سر سید احمد خان کے حالاتِ زندگی


سر سید احمد خان سید احمد بن منتقی خان ( 17 اکتوبر 1817 ء - 27 مارچ 1898 ء ) المعروف سر سید انیسویں صدی کا ایک ہندوستانی مسلم نظر یہ عملیت کا حامل ، مصلح اور فلسفی تھے ۔ آپ کو بر صغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے جو کے آ گے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنی ۔ میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 1867 ء وہ چھوٹے مقدمات کے لیے بیج مقرر کیے گئے ۔ 


1876 ء میں 18380 ملازمت سے مستعفی ہوۓ ۔ 1857 ء کی جنگ آزادی کے دوران میں دوایسٹ انڈیا کمپنی کا وفادار رہے اور یور پیوں کی جانیں بچانے میں اس کے کردار کی سلطنت برطانیہ کی طرف سے ستائش کی گئی ۔

 بغاوت ختم ہونے کے بعد انہوں نے اسباب بغاوت ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں ہندوستان کی رعایا کو اور خاص کر مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے بری کیا ۔ اس رسالہ کا فائدہ سلطنت برطانیہ کو ہوا جس نے اس کی بنیاد پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے بر صغیر کا تمام قبضہ لے لیا اور ہندوستان کے تمام معاملات پر اور است اپنے قبضہ میں لے لیے ۔


 مسلمانوں کے رائج الاعتقاد طرز کو ان کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے سر سید نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا اپنے کلامی مکتب فکر کی بنیاد ڈالی جو معتزلہ کے افکار کا پر یہ تھا مگر اس کے کلامی نظریات مقبول نہ ہو سکے اس لیے صرف سائنسی علوم کی اشاعت تک محدود رہا ۔ میں سر سید نے مرادآ باد میں گلشن اسکول ، 1863 ء میں غازی پور میں وکٹوریہ اسکول اور 1864 ء میں سائنسی سوسائٹی براۓ 1859 مسلمانان قائم کی ۔ 


1875 ء میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج و جنوبی ایشیا میں پہلی مسلم یونیورسٹی بنا ۔ اپنے کردار کے دوران میں سر سید نے بار بار مسلمانوں کو سلطنت برطانیہ سے وفاداری پر زور دیا اور تمام ہندوستانی مسلمانوں کو اردو کو بطور زبان نانے کی کوشش کی ۔۔ وہ اپنی برطانوی وفاداریوں کے سبب انڈین نیشنل کانگریس کی طرف سے گہری تنقید کا نشانہ بنا ۔

 سر سید کو پاکستان اور بھارتی مسلمانوں میں ایک موثر شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اکثر دو قومی نظریہ کا بانی تصور کیا جاتا ہے ۔ کچھ لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور تاریخی بددیانتی کرتے ہوئے دو قومی نظریے کو ستر ہو میں صدی کے غیر اہم کردار حضرت مجدد الف بانی کے سر منڈھ دیتے ہیں ۔ جس کا کوئی ٹھوس علمی ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ اثر اور متاثر کی اتنی نسبت ہے جتنی کہ سکندراعظم اور نپولین میں موجود ہو سکتی ہے ۔ 


سر سید کی اسلام کو سائنس اور جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کے لیے عقلیت پسند ( معتزلہ ) روایت کی وکالت نے عالمی طور پر اسلامی اصلاح پسندی کو متاثر کیا اور نا قابل تلافی نقصان و یا ۔ پاکستان میں کئی سرکاری عمارتوں اور جامعات اور تدریکی اداروں کے نام سر سید کے نام پر ہیں ۔


 ابتدائی زندگی 


سر سید احمد خان 17 اکتوبر 1817 ء میں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ آباؤ اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے ۔ دستور زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل کی ۔ ابتدائی تعلیم میں آپ نے قرآن پاک کا مطالعہ کیا اور عربی اور فارسی ادب کا مطالعہ بھی کیا ۔ اس کے علاوہ آپ نے حساب ، طب اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل کی ۔ جریدے القرآن اکبر کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ان کے بڑے بھائی نے شہر کے سب سے پہلے پر تلنگ پر لیس کی بنیاد رکھی ۔ ورژن کی ضرورت سر سید نے کئی سال کے لیے ادویات کا مطالعہ کی پیروی کی لیکن اس نے کورس مکمل نہیں ہے ۔

ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی کام سیکھا ۔ 1837 ء میں آگرہ میں کمیشنر کے دفتر میں ابطور نائب منشی کے فرائض سنبھالے ۔ 1841 ء اور 1842 ء میں مین پوری اور 1842 ء اور 1846 ء تک فتح پور سیکری میں سرکاری خدمات سر انجام دیں ۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوۓ 1846 ء میں دہلی میں صدرامین مقرر ہوئے ۔ دہی میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی مشہور کتاب " آثار الصنادید " 1847 ء میں لکھی ۔


 1857 ء میں آپ کا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا ۔ ضلع بجنور میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی کتاب " اسر کشی ضلع بجنور " لکھی ۔ جنگ آزادی ہند 1857 ء کے دوران میں آپ بجنور میں قیام پزیر تھے ۔ اس کٹھن وقت میں آپ نے بہت سے انگریز مردوں ، عورتوں اور بچوں کی جانیں بچائیں ۔ آپ نے یہ کام انسانی ہمد روی کے لیے ادا کیا ۔ جنگ آزادی ہند 1857 ء کے بعد آپ کو آپ کی خدمات کے عوض انعام دینے کے لیے ایک جاگیر کی پیشکش ہوئی جسے آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ ، میں آپ کو ترقی دے کر صدر الصدور بنادیا گیا اور آپ کی تعیناتی مراد آ باد کر دی گئی ۔ 

1862 ء میں آپ کا تبادلہ غازی پور ہو گیا 1857 اور 1857 ء میں آپ بنارس میں تعینات ہوئے ۔ میں آپ کو امپر میل کو نسل کار کن نامزد کیا گیا ۔ 1888 ء میں آپ کو سر کا خطاب دیا گیا اور 1889 ء میں انگلستان کی یونیورسٹی 1877 او نیرا نے آپ کو ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی ۔1864 ء میں غازی پور میں سائنسی سوسائٹی قائم کی ۔ علی گڑھ گئے تو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکالا ۔ انگلستان سے واپسی پر 1870 ء میں رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا ۔ اس میں مضامین سر سید نے مسلمانان ہند کے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا اور ادب میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی ۔ سر سید کا کارنامہ علی گڑھ کالج ہے ۔


 1887 ء میں ستر سال کی عمر میں پینش لے لی اور اپنے کالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے وقف کر یا ۔ کے ( Spectator ) اور ( Tatler ) ۔ میں وہ اپنے بیٹے سید محمود کے ساتھ انگلستان گئے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں 1869 مطالعے کا موقع ملا ۔ یہ دونوں رسالے اخلاق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصلاح معاشرہ کے علم بردار تھے ۔ آپ نے مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی ۔ ظرافت اور خوش طبعی فطری طور پر شخصیت کا حصہ تھی ۔ سر سید احمد خاں بر صغیر میں مسلم نشات ثانیہ کے بہت بڑے علمبر دار تھے ۔ 


انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے ۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انھیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جد و جہد کی آپ ایک زیر دست مفکر ، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے ۔ " سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز ان کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے ۔ وہ تو پوں سے اڑائے جاتے تھے ، سولی پر لٹکائے جاتے تھے ، کالے پانی بھیجے جاتے تھے ۔ ان کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی تھی ۔ انکی جائداد میں ضبط کر لیں گئیں تھیں ۔ 

نوکریوں کے دروازے ان پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں ۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان " سائیس ، خانساماں ، خد متگار اور گھاس کھود نے والوں کے سوا کچھ اور نہر میں گئے ۔... سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے ۔۔۔۔ اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے ۔ انکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور ساجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جد وجہد کرتے رہے۔


جب بھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا ، جہاں کہیں عدہ مکانات دیکھے ، جب بھی عمد و پھول دیکھے ۔۔۔ مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہاۓ ہماری قوم ایسی کیوں نہیں۔


 سر سید بادشاہ اکبر شاہ کے دربار میں 


سر سید کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہو تا تھا مگر اخیر میں انہوں نے دربار کو جانا کم کر دیا تھا اور اپنا خلعت سر سید کو ، باوجودیکہ ان کی عمر کم تھی ، دلوانا شروع کر دیا تھا ۔ سر سید کہتے تھے کہ ایک بار ضعت ملنے کی تاریخ پر ایسا ہوا کہ والد بہت سویرے اٹھ کر قلعہ چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اٹھا ۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہو گئی ۔ جب لال پر دو کے قریب پہنچا تو قاعدہ کے موافق اول در بار میں جا کر آداب بجالانے کا وقت نہیں رہا تھا ۔


 داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ ور بار میں جاتا ۔ جب خلوت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو در بار بر خاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اٹھ کر ہوادار پر سوار ہو چکے تھے ۔ بادشاہ نے مجھے دیکھ کر والد سے ، جو اس وقت ہوادار کے پاس ہی تھے ، پوچھا کہ " تمہارا بیٹا ہے ؟ " انہوں نے کہا ، " حضور کا خانہ زاد ! " بادشاہ چکے ہو رہے ۔ لوگوں نے جان بس اب محل میں چلے جائیں گے ، مگر جب تسبیح خانہ میں پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے ۔ شہیچ خانہ میں بھی ایک چبوترا بنا ہوا تھا جہاں کبھی کبھی در بار کیا کرتے تھے ۔

 اس چبوتراپر بیٹھ گئے اور جواہر خانہ کے داروغہ کو کشتی جوامر حاضر کرنے کا حکم ہوں ۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا تھا ۔ بادشاہ نے مجھے اپنے سامنے بلا یا اور کمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ " دیر کیوں کی ؟ " حاضرین نے کہا ، " عرض کرو کہ تقصیر ہوئی مگر میں چپکا کھڑارہا ۔ جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ " سو گیا تھا ! " بادشاہ مسکرائے اور فرمایا ، بہت سویرے اٹھا کرو ! " اور ہاتھ مچھوڑ دیے ۔ لوگوں نے کہا ، " آداب بجالاؤ ! " میں آداب بجا لایا ۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے پہنائیں ۔ میں نے نذر دی اور بادشاہ اٹھ کر خاصی ڈیوڑھی سے محل میں چلے گئے ۔ تمام در باری میرے والد کو بادشاہ کی اس عنایت پر مبارک سلامت کہنے لگے ۔ ۔۔۔ اس زمانہ میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہو گی ۔ 


 مرزا غالب سے تجدید مراسم


 اکبر نامہ سے اکبر کا دربار میں سر سید نے اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف " آئین اکبری “ کی تصیح کر کے اسے دوبارہ شائع کیا ۔ مرزا غالب نے اس 1855 پر فارسی میں ایک منظومہ تقریط ( تعارف ) لکھا ۔ اس میں انہوں نے سر سید کو سمجھایا کہ مردہ پروران مبارک کار نیست " یعنی مرده پرستی انچھا شغل نہیں بلکہ انہیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخر کر کے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں ۔ انہوں نے اس پوری تقرینہ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی در یافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے ۔


 غالب نے ایک ایسے پہلو سے مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی ، جو اگر مسلمان اختیار کر لیتے تو آج دنیا کی عظیم ترین قوتوں میں ان کا شمار ہوتا ۔ مگر بد قسمتی سے لوگوں نے شاعری میں ان کے کمالات اور نثر پر ان کے احسانات کو تو لیا ، مگر قومی معاملات میں ان کی رہنمائی کو نظر انداز کر دیا ۔ دہلی کے جن نامور لوگوں کی تقر یقیں آثار الصنادید کے آخر میں درج ہیں انہوں نے آئین اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی کی تقریظ چھپی ہے ۔ مرزا غالب کی تقریڈ جو ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی ہے وہ کلیات غالب میں موجود ہے مگر آئین اکبری میں سر سید نے اس کو قصد انہیں چھپوایا ۔

 اس تقریڈ میں مرزانے یہ ظاہر کیا ہے کہ ابوالفضل کی کتاب اس قابل منانے کا کام کیا ہے نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے ۔ جب میں مرادآ باد میں تھا ، اس وقت مرزا صاحب ، نواب یوسف علی خان مرحوم سے ملنے کو رام پور گئے تھے ۔ ان کے جانے کی تو مجھے خبر " نہیں ہوئی مگر جب دلی کو واپس جاتے تھے ، میں نے سنا کہ وہ مرادآ باد میں سرائے میں آکر مظہرے ہیں ۔ میں فوراسرائے میں پہنچا اور مرزا " صاحب کو مع اسباب اور تمام ہم راہیوں کے اپنے مکان پر لے آیا ۔ ظاہر آجیب ہے کہ سر سید نے تقریظ کے چھاپنے سے انکار کیا تھا وہ مرزا سے اور مرزاان سے نہیں ملے تھے اور دونوں کو حجاب دامن گیر ہو گیا تھا اور اسی لیے مرزانے مرادآ باد میں آنے کی ان کو اطلاع نہیں دی تھی ۔


 الغرض جب مرزا سرائے سے سر سید کے مکان پر پہنچے اور پاکی سے اترے تو ایک بوتل ان کے ہاتھ میں تھی انہوں نے اس کو مکان میں لا کر ایسے موقع پر رکھ دیا جہاں پر ایک آتے جاتے کی نگاہ پڑتی تھی ۔ سر سید نے کسی وقت اس کو وہاں سے اٹھا کر اسباب کی کو ٹھڑی میں رکھ دیا ۔ مرزا نے جب بوتل کو وہاں نہ پایا تو بہت گھبرائے ، " آپ خاطر جمع رکھیے ، میں نے اس کو بہت احتیاط سے رکھ دیا ہے ۔ " مرزا صاحب نے کہا ، " بھئی مجھے دکھا دو ، تم نے کہاں رکھی ہے ؟ " انہوں نے کو ٹھڑی میں لے جا کر بوتل و کھا دی ۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے بوتل اٹھا کر دیکھی اور مسکرا کر کہنے لگے کہ ، بھئی ! اس میں تو کچھ خیانت ہوئی ہے ۔ پچ بتاؤ ، کس نے پی ہے ، شاید اسی لیے تم نے کو ٹھڑی میں لا کر رکھی تھی ، حافظ نے سچ کہا ہے : واعظاں کا میں جلوو در محراب و منبر میکنند چوں بحلوت میروند آن کار دیگر میکنند سر سید نہس کے چپ ہو رہے اور اس طرح وور کاوٹ جو کئی برس سے چلی آتی تھی ، رفع ہو گئی ، میر زادو ایک دن وہاں مظہر کر دلی چلے آئے۔


سر سید احمد خان کی تصانیف 


 رسالہ نمیقہ


 سر سید کی تصانیف کی فہرست میں جو ایک رساله موسوم به " نمیقه " به زبان فارسی تصور شیخ کے بیان میں ہے اس کی نسبت سر سید کہتے تھے کہ میں نے اسے شاد احمد سعید صاحب کو دکھایا تھا ، انہوں نے اس کو دیکھ کر یہ فرمایا کہ جو باتیں اس میں لکھی گئی ہیں دواہل حال کے سوا کوئی " نہیں لکھ سکتا ۔ بس یہ اس توجہ کی برکت ہے جو شاہ صاحب کو تمہارے ساتھ تھی اور اب تک ہے ۔

 تاریخ ضلع بجنور 


سر سید نے یہ تاریخ بھی اپنی جبلی عادت کے موافق نہایت تحقیق اور کاوش اور محنت کے ساتھ لکھی ۔ ان کا بیان ہے کہ : گواس تاریخ میں ضلع کے حالات کے سوا کوئی عام دلچسپی کی بات نہ تھی مگر اثنائے تحقیقات بعض قانون گویوں کے پاس اکبر اور عالمگیر " کے زمانہ کے ایسے کاغذات ملے جن سے نہایت عمدہ نتیجے نکلتے تھے ۔


ان سب کا غذات کی نقلیں اپنے اپنے موقع پر اس تاریخ میں درج تھیں ۔ جب ی تاریخ لکھی جای صاب کلکٹر نے اسکو ملاحظہ کے لیے صدر بورڈ میں بھیج دیا ۔ ابھی وہ بورڈ سے واپس نہ آئی تھی کہ غدر ہو گیا اور آگرہ میں تمام دفتر سر کاری کے ساتھ وہ بھی ضائع ہو گئی ۔


 اسباب بغاوت ہند 


انہوں نے مراد آباد میں آکر اسباب بغاوت ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایاۓ ہندوستان کو اور خاص کر مسلمانوں کو ، جن پر سارا نچوڑ انگریزوں کی بد گمانی کا تھا ، بغاوت کے الزام سے بری کیا ہے اور اس خطر ناک اور نازک وقت میں وہ تمام الزامات جو لوگوں کے خیال میں گورنمنٹ پر عائد ہوتے تھے ، نہایت دلیری اور آزادی کے ساتھ پوست کندہ بیان کیے ہیں اور جو اسباب کہ انگریزوں کے ذہن میں جا گزیں تھے ، ان کی تردید کی ہے اور ان کو غلط بتایا ہے ۔ اس کی پانچ سو جلد میں چھپ کر ان کے پاس پہنچ گئیں ۔ جب سر سید نے ان کو پارلیمنٹ اور گور نمنٹ انڈ یا بھیجنے کا ارادہ کیا تو ان کے دوست مانع آۓ اور ماسٹر رام چند کے چھوٹے بھائی رائے شنکر داس جو اس وقت مراد آباد میں منصف اور سر سید کے نہایت دوست تھے ، انہوں نے کہا کہ ان تمام کتابوں کو جلا دو اور ہر گز اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالو ۔


 سر سید نے کہا میں ان باتوں کو گورنمنٹ پر ظاہر کر نا ملک اور قوم اور خود گورنمنٹ کی خیر خواہی سمجھتا ہوں ۔ پس اگر ایک ایسے کام پر جو سلطنت اور رعایا " " دونوں کے لیے مفید ہو ، مجھ کو کچھ گزند بھی پہنچ جائے تو گوارا ہے ۔ رائے شنکر داس نے جب سر سید کی آمادگی بدرجہ غایت دیکھی اور ان کے سمجھانے کا کچھ اثر نہ ہوا تو وہ آبدیدہ ہو کر خاموش ہو رہے ۔ لارڈ کیننگ نے فرخ آباد میں دار بار کیا اور سر سید بھی اس در بار میں بلائے گئے تو وہاں ایک موقع پر مسٹر سسل بیڈن فارن سیکرٹری گورنمنٹ انڈیا سے مڈ بھیٹر ہو گئی ۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ سید احمد خان یہی شخص ہے اور اسی نے اسباب بغاوت پر وہ مضمون لکھا ہے تو سر سید سے دوسرے روز علاحدہ مل کر اپنی نہایت ر بخش ظاہر کی اور بہت دیر تک سی گفتگو ہوتی رہی ۔

 انھوں نے کہا کہ اگر تم گور نمنٹ کی خیر خواہی کے لیے یہ مضمون لکھتے تو ہر گز اس کو چھپوا کر ملک میں شایع نہ کرتے بلکہ صرف گور نمنٹ پر اپنے یارعایا کے خیالات ظاہر کرتے ۔ سر سید نے کہا : میں نے اس کتاب کی پانچ سو جلد میں چھپوائی تھیں جن میں سے چند جلد میں میرے پاس موجود ہیں اور ایک گورنمنٹ میں بھیجی ہے اور " کچھ کم پانچ سو جلد میں ولایت روانہ کی ہیں جن کی رسید میرے پاس موجود ہے ۔ میں جانتا تھا کہ آج کل بسبب غیظ و غضب کے حاکموں کی رائے صائب نہیں رہی اور اس لیے وہ سیدھی باتوں کو بھی الٹی سمجھتے ہیں ، اس لیے جس طرح میں نے اس کو ہندوستان میں شائع نہیں کیا اسی طرح انگریزوں کو بھی نہیں دکھا یا صرف ایک کتاب گورنمنٹ کو بھیجی ہے۔اگر اس کے سوا ایک جلد بھی کہیں ہندوستان میں مل جاۓ تو میں فی جلد ایک ہزار روپیہ دوں گا ۔ مسٹر بیڈن کو اس بات کا یقین نہ آیا اور انہوں نے کئی بار سر سید سے پوچھا کہ کیا فی الواقع اس کا کوئی نسخہ ہندوستان میں شائع نہیں ہوا ؟ جب ان کا اطمینان ہو گیا پھر انہوں نے اس کا کچھ ذکر نہیں کیا اور اس کے بعد ہمیشہ سر سید کے دوست اور حامی و مددگار رہے ۔ انہوں نے زبانی مجھ سے اس طرح بیان کیا کہ : ولایت میں مر جان ۔ کے ۔ فارن سیکر ٹری وزیر ہند سے پرائیویٹ ملاقات ہوئی تو ان کی میز پر ایک دفتر کا غذات کا موجود تھا ۔ انہوں نے " ہنس کر کہا کہ ، " کیا تم جانتے ہو ، یہ کیا چیز ہے ؟ " یہ تمہارا رسالہ اسباب بغاوت اصل اور اس کا انگریزی ترجمہ ہے ۔ اور اس کے ساتھ وہ تمام مباحثات ہیں جو اس پر پارلیمنٹ میں ہوئے ۔ مگر چونکہ وہ تمام مباحثے کا نفیڈنشل تھے اس لیے وہ نہ چھے اور نہ ان کا ولایت کے کسی اخبار میں تذکرہ ہوا۔


 خطبات احمدیہ


 سر سید کہتے تھے کہ 

 میں جبکہ خطبات احمد یہ چپ کر لندن میں شائع ہوئی تو اس پر لندن کے ایک اخبار میں کسی انگریز نے لکھا تھا کہ مسیحیوں کو 1870 " ہوشیار ہو جانا چاہیے کہ ہندوستان کے ایک مسلمان نے ان ہی کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے دکھایا ہے کہ " اسلام ان داغوں اور دھبوں سے پاک ہے جو مسیحی اس کے خوش نما چہرے پر لگاتے ہیں ۔ 


تفسیر القرآن


 قرآن مجید کی تفسیر لکھنے سے سر سید کا مقصد ، جیسا کہ عموماً خیال کیا جاتا ہے ، یہ ہر گز نہ تھا کہ اس کے مضامین عام طور پر تمام اہل اسلام کی نظر سے گزر میں ۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مولوی نہایت معقول اور ذی استعداد ان کے پاس آئے اور کہا کہ ، " میں آپ کی تفسیر دیکھنے کا خواہش مند ہوں اگر آپ مستعار د میں تو میں دیکھنا چاہتا ہوں ۔ " سر سید نے ان سے کہا کہ " ! آپ کو خدا کی وحدانیت اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر تو ضرور یقین ہو گا ؟ " انہوں نے کہا ، " احمد اللہ " " آپ حشر و نشر اور عذاب و ثواب اور بہشت و دوزخ پر اور جو کچھ قرآن میں قیامت کی نسبت بیان ہوا ہے ، سب پر یقین رکھتے ہوں گے ؟ " " انہوں نے کہا ، " الحمد اللہ سر سید نے کہا ۔ بس تو میری تفسیر آپ کے لیے نہیں ہے ۔ 

وہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو مذکورہ بالا عقائد پر پختہ یقین نہیں رکھتے یا ان پر معترض یا " ان میں متر دو ہیں ۔ سر سید نے ایک موقع پر تفسیر کی نسبت کہا کہ " اگر زمانہ کی ضرورت مجھ کو مجبور نہ کرتی تو میں کبھی اپنے ان خیالات کو ظاہر نہ کرتا بلکہ لکھ کر اور ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے چھوڑ جاتا اور یہ لکھ جاتا کہ جب تک ایسا اور ایسا زمانہ نہ آئے ، اس کو کوئی کھول کر نہ دیکھے ۔ اور اب بھی میں اس کو بہت کم چوت اور گراں بیچتا ہوں تا کہ صرف خاص خاص لوگ اس کو دیکھ سکیں ۔ سر دست عام لوگوں میں اس کا شائع " ! ہونا اچھا نہیں رسالہ تہذیب وغیرہ ان کے علاوہ سیرت فرید ، جام جم بسلسلۃ الملکوت ، تاریخ ضلع بجنور اور مختلف موضوعات پر علمی وادبی مضامین ہیں جو “ مضامین سرسید " اور " مقالات سرسید " کے نام سے مختلف جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔ 


سر سید احمد خان کی تعلیمی خدمات 


سر سید کا نقطہ نظر تھا کہ مسلم قوم کی ترقی کی راہ تعلیم کی مدد سے ہی ہموار کی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کر میں اوار دوسری اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں ۔ انہوں نے محض مختور و ہی نہیں دیا بلکہ مسلمانوں کے لیے جدید علوم کے حصول کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی ۔ انہوں نے سائنس ، جدید ادب اور معاشرتی علوم کی طرف مسلمانوں کو راغب کیا ۔ انہوں نے انگریزی کی تعلیم کو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے زمینہ قرار دیا تا کہ وہ ہندوئوں کے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل کر سکیں ۔ ء میں سر سید نے مراد آباد اور 1862 ء میں غازی پور میں مدر سے قائم کیے ۔ 


ان مدرسوں میں فارسی کے علاوہ انگریزی زبان اور 1859 جدید علوم پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا ۔ میں انہوں نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ایم۔اے۔ او کالج اور آپ کی وفات کے بعد 1920 ء 1875 میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا ۔۔ ان اداروں میں انہوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور مورین جیسے انگریز اساتذہ کی خدمات حاصل کیں ۔ ء میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد مغربی زبانوں میں 1863 لکھی گئیں کتب کے اردو تراجم کرانا تھا ۔ 


بعد ازاں 1876 ء میں سوسائٹی کے دفاتر علی گڑھ میں منتقل کر دیے گئے ۔ سر سید نے نئی نسل کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تا کہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سکے ۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم کا بہت سا سر مایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا ۔ سوسائٹی کی خدمات کی بدولت اردو زبان کو بہت ترقی نصیب ہوئی ۔ میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجو کیشنل کا نفرنس کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی ۔ مسلم قوم کی تعلیمی ضرورتوں کے 1886 لیے افراد کی فراہمی میں اس ادارے نے بڑی مدد دی اور کا نفرنس کی کارکردگی سے متاثر ہو کر مختلف شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی سر گرمیوں کا آغاز کیا ۔ لاہور میں اسلامیہ کالج کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام ، پشاور میں اسلامیہ کالج اور کانپور میں حلیم کالج کی بنیاد رکھی ۔ محمڈن ایجو کیشنل کا نفرنس مسلمانوں کے سیاسی ثقافتی معاشی اور معاشرت حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کوشاں رہی ۔ 

مسلمانوں کی بھلائی کی فکر


 بمقام بنارس کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان منعقد ہو گئی جس کے سیکر ٹری سر سید قرار پائے ۔ اس کمیٹی کا کام یہ تھا کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس بات کے دریافت کرنے میں کوشش کرے کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں مسلمان طالب علم کس لیے کم پڑھتے ہیں ، علوم قدیمہ ان میں کیوں گھٹ گئے اور علوم جدیدہ ان میں کیوں نہیں رواج پاتے اور جب یہ مواقع ٹھیک ٹھیک دریافت ہو جائیں تو ان کے رفع کرنے کی تدبیر میں دریافت کرے اور ان تد بیروں پر عمل درآمد کرنے میں کوشش کرے ۔ نواب محسن الملک کا بیان ہے کہ ، " جس تاریخ کو کمیٹی نمد کور کے انعقاد کے لیے جلسہ قرار پایا تھا اس سے ایک روز پہلے میں بنارس میں پہنچ گیا تھا ۔


 رات کو سر سید نے میرا پلنگ بھی اپنے ہی کمرے میں کچھوا یا تھا ۔ گیارہ بجے تک مسلمانوں کی تعلیم کے متعلق باتیں ہوتی رہیں ، اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی ۔ دو بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میں نے سر سید کو ان کے پلنگ پر نہ پایا ۔ میں ان کے دیکھنے کو کمرے سے باہر نکلا ، دیکھتا کیا ہوں کہ برآمدے میں ٹہل رہے ہیں اور زار و قطار روتے جاتے ہیں ، میں نے گھبرا کر پوچھا کہ کیا خدانخواستہ کہیں سے کوئی افسوسناک خبر آئی ہے ؟ یہ سن کر اور زیادورونے لگے اور کہا کہ : " اس سے زیادہ اور کیا مصیبت ہو سکتی ہے کہ مسلمان بگڑ گئے اور بگڑتے " جاتے ہیں اور کوئی صورت ان کی بھلائی کی نظر نہیں آتی ۔ پھر آپ ہی کہنے لگے کہ : " جو جلسہ کل ہونے والا ہے ، مجھے امید نہیں کہ اس سے کوئی عدہ نتیجہ پیدا ہو ۔ 


ساری رات ادھیڑ بن میں گزر گئی ہے کہ دیکھیے ، کل کے جلسے کا انجام کیا ہوتا ہے اور کسی کے کان پر جوں چلتی ہے یا نہیں ۔ نواب محسن الملک کہتے ہیں کہ سر سید کی یہ حالت دیکھ کر جو کیفیت میرے دل پر گزری اس کو بیان نہیں کر سکتا اور جو عظمت اس شخص کی اس دن سے میرے دل میں بیٹھی ہوئی ہے اس کو میں ہی خوب جانتا ہوں ۔ "

مدرسہ کے لیے دوروں کے اخراجات مدرسہ کے لیے انہوں نے بڑے بڑے لمبے سفر کیے ۔۔۔ ہزار ہارو پیران سفر وں میں ان کا صرف ہوا ۔ اگرچہ ان کے دوست اور رفیق بھی ، جو ان کے ہمراہ جاتے تھے ، اپنا اپنا خرچ اپنی گرہ سے اٹھاتے تھے لیکن وہ اکثر بدلتے رہتے تھے اور سر سید کاہر سفر میں ہو نا ضروری تھا ۔ اس کے سوا ہمیشہ ریز روڈ گاڑیوں میں سفر ہو تا تھا اور جس قدر سواریاں کم ہوتی تھیں ان کی کمی زیادہ تر سر سید کو پوری کرنی پڑتی تھی۔ایک بار ان کے ایک دوست نے ان سے کہا کہ آپ راجپوتانہ کا بھی ایک بار دورہ کیجئے ۔ " سر سید نے کہا ، " روپیہ نہیں ہے ۔ " ان کے منہ سے نکلا کہ جب آپ کا لج کے واسطے سفر کرتے ہیں تو آپ کا سفر خرچ کمیٹی کو دینا چاہیے ۔ سر سید نے کہا میں اس بات کو ہر گز گوارا نہیں کر سکتا ۔ مدرسہ چلے یانہ چلے مگر میں اس حالت میں مدرسہ کے لیے سفر کر سکتا ہوں جب سفر کے کل " اخراجات اپنے پاس سے اٹھا سکوں ۔


 کالج کا قیام ، قومی احساسات کی ترجمانی


 ء میں جبکہ سر سید پہلی بار چندہ کے لیے لاہور گئے ہیں اس وقت انہوں نے راقم کے سامنے بابو نوین چندر سے ایک سوال کے جواب 74 : میں یہ کہا تھا کہ صرف اس خیال سے کہ یہ کالج خاص مسلمانوں کے لیے ان ہی کے روپے سے قائم کیا جاتا ہے ، ایک تو مسلمانوں میں اور دوسری طرف » " ان کی ریس سے ہندوؤں میں توقع سے زیادہ جوش پیدا ہو گیا ہے ۔ اور پھر خان بہادر برکت علی خان سے پوچھا کہ : " کیوں حضرت اگر یہ قومی کا لج نہ ہوتا تو آپ ہماری مدارات اسی جوش محبت کے ساتھ کرتے ؟ " انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ، " ہر گز نہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سر سید اپنے کام کے شروع ہی میں اس قومی فیلنگ سے بخوبی واقف تھے ۔ 


کالج فاؤنڈرز ڈے کی بجاۓ فاؤنڈیشن ڈے


 ایک دفعہ کالج کے بعض یورپین پر و فیسروں نے یہ تحریک کی کہ یہاں بھی ولایت کے کالجوں کی طرح فاؤنڈرز ڈے ( یعنی بانی مدرسہ کی سالگرہ کا دن ) بطور ایک خوشی کے دن کے قرار دیا جاۓ جس میں ہر سال کالج کے ہوا خواہ اور دوست اور طالبعلم جمع ہو کر ایک جگہ کھانا کھا یا کر میں اور کچھ تماشے تفریح کے طور پر کیے جایا کر میں ۔ سر سید نے اس کو بھی منظور نہیں کیا اور یہ کہا کہ : " ہمارے ملک کی حالت انگلستان کی حالت سے بالکل جداگانہ ہے ۔ وہاں ایک ایک شخص لاکھوں کروڑوں روپیہ اپنے پاس سے دے کر کالج قائم کر دیتا ہے اور یہاں سوا اس کے کہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں سے کہ چندہ جمع کر کے کالج قائم کیا جائے اور کوئی صورت ممکن نہیں ۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ جو کا لج قوم کے روپیہ سے قائم ہو اس کے کسی خاص بانی کے نام پر ایسی رسم ادا کی جائے ، اس لیے میرے نزدیک بجاۓ فاؤنڈرز ڈے کے فاؤنڈیشن ڈے ( کالج کی سالگر و کادن ) مقرر ہو نا چا ہیے ۔ " چنانچہ اس تجویز کے موافق کئی سال تک یہ رسم ادا کی گئی ۔ 


مدرسہ کے علاوہ دیگر رفاہی کاموں میں کوشش کرنے سے انکار 


سر سید نے مدرسہ کی خاطر اس بات کو بھی اپنے اوپر لازم کر لیا تھا کہ کوئی بھی اور کو شش کسی ایسے کام میں صرف نہ کی جائے جو مدرسی العلوم سے کچھ علاقہ نہ رکھتا ہو ۔۔۔ سر سید کے ایک معزز ہم وطن نے ایک رفاہ عام کے کام میں ان کو شریک کرنا اور اپنی کمیٹی کارکن بنا نا چاہا ۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ : " میں صلاح و مشورے سے مدد دینے کو آمادہ ہوں لیکن چندو نہ خود دوں گا اور نہ اوروں سے دلوانے میں کوشش کروں گا ، اگر اس شرط پر ممبر بنانا ہو تو مجھ کو ممبری سے کچھ انکار نہیں ۔


قومی بھلائی کے لیے لاٹری کا جواز 


صیغہ تعمیرات کے سوا کالج کے اور اخراجات کے لیے سر سید نے نئے نئے طریقوں سے روپیہ وصول کیا جس کو سن کر لوگ تعجب کر میں گے ۔ ایک دفع تھیں ہزار کی لاٹری ڈالی ۔ ہر چند مسلمانوں کی طرف سے سخت مخالفت ہوئی ، مگر سر سید نے کچھ پروانہ کی اور بعد تقسیم انعامات کے ہیں مزار کے قریب بیچ رہا ۔ لطیفہ : جن دنوں میں لاٹری کی تجویز در پیش تھی ، دور ئیس سر سید کے پاس آئے اور لاٹری کے ناجائز ہونے کی گفتگو شروع کی ۔ سر سید نے کہا : " جہاں ہم اپنی ذات کے لیے ہزاروں ناجائز کام کرتے ہیں وہاں قوم کی بھلائی کے لیے بھی ایک ناجائز کام سہی ۔

 " سائنٹفک سوسائٹی ( غازی پور ) 


سر سید نے زیادہ دور جدید تعلیم پر دیا ۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی تھی کہ جدید تعلیم کے بغیر مسلمانوں کا مستقبل بالکل تاریک ہے ۔ سر سید کی دور میں نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ زندگی نے جو رخ اختیار کر لیا ہے اس کو بدلا نہیں جا سکتا ۔ اس میں رکاوٹ پیدا کر کے اس کی رفتار کو بھی روکا نہیں جا سکتا بلکہ ایسا کرنے والے خود تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گے ۔ اس لیے انہوں نے تمام تر توجہ جدید تعلیم کے فروغ پر مرکوز کر دی ۔ سائنٹفک سوسائٹی کا مقصد ہی اپنے ہم وطنوں کو جدید علوم سے روشناس کرانا تھا ۔ 


اس سوسائٹی کے جلسوں میں جس میں نئے نئے سائنسی مضامین پر لیکچر ہوتے اور آلات کے ذریعہ تجربے بھی کیے جاتے ، کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانیوں کو بتایا جا سکے کہ بنا جدید علوم خاص طور پر سائنس کے میدان میں ترقی نہیں کی جاسکتی اور اسی لیے سائنٹفک سوسائٹی نے جن دو در جن کتابوں کا ترجمہ کرایا ان میں چند کو چھوڑ کر زیادہ تر ریاضی اور سائنس سے متعلق تھیں ۔ سر سید احمد خاں کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ بیورپ جس راستے پر جا رہا ہے اور جو تعلیم حاصل کر رہا ہے وہی راستا اور تعلیم مستقبل کی ترقی کی گارنٹی ہے ۔ وہ جانا چاہتے تھے کہ وہ ور سگا میں کی ہیں اور ان کا نظام تعلیم کیا ہے ؟ اس لیے وہ خود انگلستان گئے ، وہاں کے تعلیمی نظام کو دیکھا ، تعلیمی اداروں میں رہے ، اساتندو سے ملاقاتیں کیں اور اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ انگلستان کی ہر چیز نے ان کو متاثر کیا ۔


 انہوں نے کہا : ” میں نے صرف اس خیال سے کہ کیا راہ ہے جس سے قوم کی حالت درست ہو ، دور دراز سفر اختیار کیا اور بہت کچھ دیکھا جو دیکھنے کے لائق تھا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب میں نے کوئی عمدہ چیز دیکھی ، جب بھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا ، جب بھی علمی مجلسیں دیکھیں ، جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے ، جب کبھی عمدہ پھول دیکھے ، جب کبھی کھیل کود ، عیش و آرام کے جلسے دیکھے ، یہاں تک کہ جب کبھی کسی خوب صورت شخص کو دیکھا مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہاۓ ہماری قوم ایسی کیوں نہیں ، جہاں تک ہو سکاہر موقع پر میں نے قومی ترقی کی تد بیروں پر غور کیا سب سے اول یہی تدبیر سوجھی کہ قوم کے لیے قوم ہی کے ہاتھ سے ایک مدرسہ العلوم قائم کیا جاۓ جس کی بنا آپ کے شہر میں اور آپ کے سایہ پڑی ۔


 علی گڑھ تحریک


 سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا ۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا ۔ لیکن جنگ آزادی نے سر سید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی ۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے ۔ مثلا را جارم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا ۔ لیکن سب سے بڑا واقعہ سکوت دلی کا ہی ہے ۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم بر پا کر دیا ۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجه یارو عمل تو مایوسی ، پر مر د گی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا ۔

 علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پارہا تھا اب زمین سے باہر آنے کی کو شش کرنے لگا ۔ چنانچہ اس واقعے سے متاثر ہو گر سر سید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا ۔ ابتداء میں سر سید احمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لیے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے ۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے ۔ اور ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے ۔ لیکن ورینکلر یو نیورسٹی کی تجویز پر ہندوؤں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا ، اس واقعے نے سر سید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا ۔


 اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جا گزیں ہو گیا تھا اور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہو گئے ۔ اس مقصد کے لیے کالج کا قیام عمل میں لا یا گیار سالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جاۓ ۔ 1869 ء میں سر سید احمد خان کو انگلستان جانے کا موقع ملا اس یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کر یں گے ۔ وہاں کے اخبارات سپکٹیٹر ، ٹیشلر اور سے متاثر ہو کر ۔ سر سید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذ یہی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے اسی قسم کا اخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ اور " رسالہ تہذیب الاخلاق " کا اجراء اس ارادے کی تکمیل تھا ۔ اس رسالے نے سر سید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلی خدمات سر انجام دیں ۔ علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی ۔ 


سر سید احمد خاں نے 1875 ء میں ” محمڈن اینگلو اورینٹل کالج * کی داغ بیل ڈالی جسے 1920 ء میں یو نیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے ۔ انہوں نے کہا : میں ہندوستانیوں کی ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل ہونے کی قدرت ہو جاۓ ، اگر گورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجو کیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کر ہا ہم کو دلا دے اس تحریک کے دیگر قائدین میں سے محسن الملک ، و قار الملک ، مولانا شبلی نعمانی ، مولانا الطاف حسین حالی اور مولا نا چراغ علی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ان لوگوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ آنے والی مسلم نسلیں ان کی جنتین بھی قدر کر میں کم ہے ۔سر سید اور ان کے ساتھیوں نے علی گڑھ تحریک کو ایک ہمہ گیر اور جامع تحریک بنادیا ۔ یوں مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا ۔


 تحریک علی گڑھ کا آغاز


 جنگ آزادی کی تمام تر ذمہ داری انگریزوں نے مسلمانوں پر ڈال دی تھی اور انہیں سزا دینے کے لیے ان کے خلاف نہایت 1857 ظالمانہ اقدامات کیے گئے ہند و جو جنگ آزادی میں برابر کے شریک تھے ۔ انہیں بالکل کچھ نہ کہا گیا ۔ انگریز کی اس پالیسی کی وجہ سے مسلمان معاشرتی طور پر تباہ ہو گئے اور ان معاشی حالت ابتر ہو گئی انگریزوں نے فارسی کی بجائے جو مسلمانوں کی زبان تھی ۔ انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا ۔ مسلمان کسی صورت بھی انگریزی زبان سیکھنے پر رضامند نہ تھے ، دوسری طرف ہندوؤں نے فوری طور پر انگریزی زبان کو اپنا لیا تھا اور اس طرح تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے ۔ ان اقدامات نے مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی حالت کو بہت متاثر کیا تھا مسلمان جو بھی ہندوستان کے حکمران تھے ، ادب ادنی درجے کے شہری تھے ۔ جنہیں ان کے تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا ۔

سر سید احمد خان مسلمانوں کی ابتر حالت اور معاشی بد حالی کو دیکھ کر بہت کڑھتے تھے آپ مسلمانوں کو زندگی کے باعزت مقام پر دیکھنا چاہتے تھے اور انہیں ان کا جائز مقام دلانے کے خواہاں تھے ۔ آپ نے مسلمانوں کی راہنمائی کا ارادہ کیا اور انہیں زندگی میں اعلی مقام حاصل کرنے کے لیے جد و جہد کی تلقین کی ۔ سر سید احمد خان نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ حالت کی زیادہ ذمہ داری خود مسلمانوں کے انتہا پسند رویے کی وجہ سے ہے ۔


 ہندوستان کے مسلمان انگریز کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور انگریزی تعلیم سیکھنا اپنے مذہب کے خلاف تصور کرتے تھے ۔ مسلمانوں کے اس رویے کی وجہ سے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان میں ایک خلیج حائل رہی ، سر سید احمد خان نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ جب تک مسلمان انگریزی تعلیم اور انگریزوں کے متعلق اپنا رویہ تبد میں نہ کر لیں گے ان کی حالت بہتر نہ ہو سکے گی اور وہ تعلیمی میدان میں ہمیشہ ہندووں سے پیچھے رہیں گے ۔ آپ نے مسلمانوں کو یہ تا یہ تلقین کی کہ وہ انگریزوں کے متعلق اپنا رویہ بدلیں کیونکہ انگریز ملک کے حکمران ہیں ۔ آپ نے اپنی تحریک کا آغاز مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان میں غلط منہی کی فضا کو ختم کرنے سے کیا ۔ 


تحریک علی گڑھ کا تعلیمی پہلو 


سر سید احمد خان یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی موجودہ بد حالی کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کا انگریزی علوم سے بے بہرہ ہو تا ہے ۔ آپ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو انگریزی زبان اور تہذیب سے نفرت کا رویہ ترک کر کے مفاہمت کا راستہ اختیار کر نا چاہیے ۔ دوسری طرف ہندو جدید تعلیم حاصل کر کے تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے تھے اور اعلی ملازمتیں حاصل کر لی تھیں ۔ آپ نے مسلمانوں کو اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے کی تلقین کی اور انہیں یہ باور کرایا کہ جب تک وہ اپنا انتہا پسند رویہ ترک کر کے انگریزی علوم نہیں سیکھیں گے وہ کسی طرح بھی اپنی موجودہ بد حالی پر قابو نہ پا سکیں گے ۔


 آپ نے قرآن پاک کے حوالے دے کر مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ انگریزی علوم سیکھنا اسلام کے خلاف نہیں ہے آپ نے انتہا پسند عناصر سے مسلمانوں کو خبردار کیا ۔ مسلمانوں کی تعلیمی بہتری کے لیے آپ نے متعد داقدامات ء میں مراد آباد کے مقام پر ایک مدرسہ قائم کیا گیا جہاں فارسی کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ اس مدرسے میں انگریزی بھی پڑھائی جاتی 1859 تھی ۔ 1863 ء میں غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی گئی جس کا مقصد انگریزی علوم کو اردو اور فارسی میں ترجمہ کرنا تھا تا کہ ہندوستانی عوام جدید علوم سے استفادہ کر سکیں ۔ 

1866 ء میں سائنٹیفک سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک اخبار جاری کیا گیا جسے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کہا جاتا ہے یہ اخبار اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کیا جاتا تھا ۔ اس اخبار کے ذریعے انگریزوں کو مسلمانوں کے جذ بات سے آگاہ کیا جاتا تھا ۔ ، میں آپ کے بیٹے سید محمود کو حکومت کی طرف سے اعلی تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا گیا ۔ آپ بھی 1869 ء میں اپنے بیٹے کے 1869 ہمراہ انگلستان چلے گئے ۔ وہاں جا کر آپ نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کا مشاہدہ کیا ۔


 آپ ان نیورسٹیوں کے نظام تعلیم سے بہت متاثر ہوئے اور یہ ارادہ کیا کہ ہندوستان جا کر ان یو نیورسٹیوں کی طرز کا ایک کالج قائم کر یں گے ۔ آپ انگلستان سے 1870 ء میں واپس آئے اور ہندوستان میں انجمن ترقی مسلمانان ہند کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا ۔ 1870 ء میں آپ نے رسالہ تہذیب الاخلاق لکھا جس میں آپ نے مسلمانوں کے ان معاشرتی پہلووں کی نشان دہی کی جن کی اصلاح کرنا مقصود تھی اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے ان پہلووں کی فوری اصلاح کر میں ۔ 


علی گڑھ کالج کا قیام


 انگلستان سے واپسی پر آپ نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی جس نے اعلی تعلیم کے لیے ایک کالج کے قیام کے لیے کام شروع کیا ۔ اس کمیٹی کو محمڈن کا لج کمیٹی کہا جاتا ہے ۔ کمیٹی نے ایک فنڈ کمیٹی قائمہ کی جس نے ملک کے طول و عرض سے کالج کے لیے چندہ اکٹھا کیا ۔ حکومت سے بھی امداد کی درخواست کی گئی ۔ ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول قائم کیا ۔ اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم پڑھانے کا 1875 بند وبست کیا گیا ۔


 1877 ء میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دے دیا گیا جس کا افتتاح لارڈلٹن نے کیا ۔ یہ کالج رہائشی کالج تھا اور یہاں پر تمام علوم پڑھائے جاتے تھے ۔ سر سید کی یہ دلی خواہش تھی کہ اس کا لج کو یونیورسٹی کا درجہ دلا دیں ۔ یہ کالج سر سید کی وفات کے بعد 1920 ء 1 میں یونیورسٹی بن گیا یہاں سے فارغ التحصیل طلباء نے آگے چل کر تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ 


محمڈن ایجو کیشنل کا نفر نس 

سر سید احمد خان نے 27 دسمبر 1886 ء کو محمڈن ایجو کیشنل کا نفرنس کی بنیاد رکھی اس کا نفر نس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے اقدامات کرنا تھا ۔ اس کا پہلا اجلاس علی گڑھ میں ہوا ۔ کا نفرنس نے تعلیم کی اشاعت کے لیے مختلف مقامات پر جلسے کیے ۔ ہر شہر اور تمھبے میں اس کی ذیلی کمیٹیاں قائم کی گئیں ۔ اس کا نفرنس کی کوششوں سے مسلمانوں کے اندر تعلیمی جندیہ اور شوق پیدا ہوا اس کا نفرنس نے ملک کے ہر حصے میں اجلاس منعقد کیے اور مسلمانوں کو جدید تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرایا ۔ اس کا نفرنس کے سربراہوں میں نواب محسن الملک ، نواب وقار الملک ، مولانا شیلی اور مولانا حالی جیسی ہستیاں شامل تھیں ۔ 


محمڈن ایجو کیشنل کا نفرنس کا سالانہ جلسہ مختلف شہروں میں ہوتا تھا ۔ جہاں مقامی مسلمانوں سے مل کر تعلیمی ترقی کے اقدامات پر غور کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کے تجارتی تعلیمی ، صنعتی اور زراعتی مسائل پر غور کیا جاتا تھا ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی 1906 ء میں محمڈن ایجوکیشنل کا نفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ڈھاکہ کے مقام پر عمل میں آیا ۔ محمڈن ایکو کیشنل کا نفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بر صغیر کے مختلف صوبوں سے آۓ ہوۓ مسلم عمائدین نے ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خاں کی دعوت پر ایک خصوصی اجلاس میں شرکت کی ۔ 


اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی سیاسی راہنمائی کے لیے ایک سیاسی جماعت تقلیل دی جاۓ ۔ یادر ہے کہ سر سید نے مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا ۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے کہ مسلمان ایک سیاسی پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت محسوس کرنے لگے ۔ڈھا کہ اجلاس کی صدارت نواب وقار الملک نے کی ۔ نواب محسن الملک ، مولانامحمد علی جوہر ، مولانا ظفر علی خاں ، حکیم اجمل خاں اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اکابرین اجلاس میں موجود تھے ۔ مسلم لیگ کا پہلا صدر سر آغا خان کو چنا گیا ۔ مرکزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا ۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں ۔ برطانیہ میں لندن برانچ کا صد رسید امیر علی کو بنایا گیا ۔ 


اردو ہندی تنازع 

جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں میں بڑھتے ہوۓ اختلافات کے پیش نظر سر سید احمد خاں نے محسوس کرنا 1857 شروع کر دیا تھا کہ سیاسی بیداری اور عالم ہوتے ہوۓ شعور کے نتیجہ میں دونوں قوموں کا اکٹھار ہنا مشکل ہے ۔ مولانا حالی نے حیات جاوید میں سر سید کے حوالے سے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے ان کے خیال میں سر سید احمد نے 1867 ء میں ہی اردو ہندی تنازع کے پیش نظر مسلمانوں اور ہندوؤں کے علاحدہ ہو جانے کی پیش گوئی کر دی تھی ۔ انہوں نے اس کا ذکر ایک برطانوی افسر سے کیا تھا کہ دونوں قوموں میں اسانی خلیج وسیع تر ہوتی جارہی ہے ۔ اور ایک متحدہ قومیت کے طور پر ان کے مل کے رہنے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں ۔ اور آگے چل کر مسلمانوں اور ہندوؤں کی راہیں جدا ہو جائیں گی ۔ 


اردو زبان کی ترقی و ترویج کا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور یہ زبان جلد ہی ترقی کی منزلیں سے کرتی ہوئی ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان بن گئی۔اردو کئی زبانوں کے امتزاج سے معرض وجود میں آئی تھی ۔ اس لیے اسے لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی ترقی میں مسلمانوں کے ساتھ ہند وادیوں نے بھی بہت کام کیا ہے سر سید احمد خان نے بھی اردو کی ترویج و ترقی میں نمایاں کام کیا لیکن چونکہ ہند و فطری طور پر اس چیز سے نفرت کرتا تھا جس سے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور ثقافت وابستہ ہو لہذا ہندووں نے اردو زبان کی مخالفت شروع کر دیا ۔ ء میں بنارس کے چیدہ چیدہ بند ور ہنماوں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی کو یکسر ختم کر دیا جاۓ اور 1867 اس کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جائے ۔


 ہندووں کے اس مطالبے سے سر سید احمد خان پر ہندووں کا تعصب عیاں ہو گیا اور انہیں ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں اپنے خیالات بدلنے پڑے اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اب ہندو اور مسلمان بطور ایک قوم کے بھی نہیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے ۔ سر سید احمد خان نے ہندوؤں کی اردو زبان کی مخالفت کے پیش نظر اردو کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کا ارادہ کیا 1867 ء میں سر سید نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ " دار الترجمہ " قائم کیا جائے تا کہ یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے کتابوں کا اردو ترجمہ کیا جاسکے ہندوؤں نے سر سید احمد خان کے اس مطالبے کی شدت سے مخالفت کی لیکن آپ نے تحفظ اردو کے لیے ہندووں کا خوب مقابلہ کیا ۔


 آپ نے الہ آباد میں ایک تنظیم سنٹرل ایسوسی ایشن قائم کی اور سائنٹیفک سوسائٹی کے ذریعے اردو کی حفاظت کا بخوبی بند و بست کیا ۔ ہندوؤں نے اردو کی مخالفت میں اپنی تحریک کو جاری رکھا ۔ 1817 ء میں بنگال کے لیفٹینٹ گورنر کیمبل نے اردو کو نصابی کتب سے خارج کرنے کا حکم دیا ۔ ہندوؤں کی تحریک کی وجہ سے 1900 ء میں یو پی کے بد نام زمانہ گورنرانٹونی میکڈانلڈ نے احکامات جاری کیے کہ دفاتر میں اردو کی بجاۓ ہندی کو بطور سرکاری زبان استعمال کیا جاۓ ۔ اس علم کے جاری ہونے پر مسلمانوں میں زبر دست ہیجان پیدا ہوا ۔ 13 مئی 1900 ء کو علی گڑھ میں نواب محسن الملک نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے اقدام پر سخت نکتہ چینی کی ۔


 نواب محسن الملک نے اردو ڈنینس ایسو سی ایشن قائم کی جس کے تحت ملک میں مختلف مقامات پر اردو کی حمایت میں جلسے کیے گئے اور حکومت کے خلاف سخت غصے کا اظہار کیا گیا ۔ اردو کی حفاظت کے لیے علی گڑھ کے طلبانی نے پر جوش مظاہرے کیے جس کی بنائی پر گونر میکڈانلڈ کی جانب سے نواب محسن الملک کو یہ دھمکی دی گئی کہ کالج کی سرکاری گرانٹ بند کر دی جائے گی ۔ اردو کے خلاف تحریک میں کا نگر میں اپنی پوری قوت کے ساتھ شامل کار رہی اور اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ اردو زبان کی مخالفت کے نتیجے میں مسلمانوں پر ہندو ذہنیت پوری طرح آشکار ہو گئی ۔ اس تحریک کے بعد مسلمانوں کو اپنے ثقافتی ورثے کا پوری طرح احساس ہوا اور قوم اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے متحد ہوئی ۔ 


سر سید احمد خان نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی ۔ آپ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کے حصول اور معاشی و معاشرتی طور پر بھای پر دین تا کہ وہ ہندوؤں کے برابر مقام حاصل کر سکیں ۔ سر سید ہند و مسلم اختلافات کو ختم کر کے تعاون اور اتحاد کی راہ رپ گامزن کرنے کے حق میں بھی تھے ۔ انہوں نے دونوں قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی مسلسل کوششیں کیں ۔ اپنے تعلیمی اداروں میں ہند و اساند و بھرتی کیے اور بند و طلبہ کو داخلے دیے ہندوں نے اردو کے مقابل ہندی کو سرکاری دفاتر کی زبان کا درجہ دلوانے کے لیے کوششیں شروع کر دیں ۔

 1857 ء میں اردو ہندی تنازعے نے سر سید کو بد دل کر دیا اور انہوں نے صرف اور صرف مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی تحریک کے ذریعے کام شروع کر دیا ۔ زبان کا تنازع سر سید کی سوچ اور عمل کو بدل گیا ۔ انہوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بر صغیر کے سیاسی اور دیگر مسائل کے حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا ۔ سرسید کی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا ۔ سر سید نے مسلمانوں کو ایک علاحدہ قوم ثابت کیا اور حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے افکار کو آگے بڑھایا ۔


 وہ قومی نظریہ کی اصطلاح سر سید نے ہی سب سے پہلے استعمال کی ۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان جداگانہ ثقافت رسم و رواج اور مذہب کے حامل ہیں اور ہم انتہار سے ایک مکمل قوم کا درجہ رکھتے ہیں ۔ مسلمانوں کی علاحدہ قومی حیثیت کے حوالے سے سر سید احمد نے ان کے لیے او کل کو نسلوں میں نشستوں کی تخصیص نہ ہی اعلی سرکاری ملازمتوں کے لیے کھلے مقابلے کے امتحان کے خلاف مہم چلائی اکثریت کی مرضی کے تحت قائم ہونے والی حکومت والے نظام کو ناپسند کیا ۔ 


انہوں نے مسلمانوں کی علائدہ پہچان کروائی اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ان کے لیے تحفظات مانگے ۔ سر سید مسلمانوں کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے ۔ اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کو 1885 ء میں ایک انگریز اے او ہیوم کی کو ششوں سے قائم ہونے والی آل انڈیا کانگر میں سے دور رکھا ۔ بعد میں ہونے والے واقعات نے سر سید کی پالیسی کی افادیت کو ثابت کر دیا ان کو بجا طور پر پاکستان کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ مولوی عبدالحق نے سر سید کی قومی و سیاسی خدمات کے حوالے سے لکھا ہے : ، قصر پاکستان کی بنیاد میں پہلی اینٹ اسی مرد چی نے رکھی تھی ۔


اردو ادب اور سر سید


 اردوزبان پر سر سید کے احسانات کا ذکر کرتے ہوۓ مولوی عبدالحق کہتا ہے : اس نے زبان ( اردو ) کو پستی سے نکال ، انداز بیان میں سادگی کے ساتھ قوت پیدا کی سنجیدہ مضامین کا ڈول ڈالا ، سائنٹیک سوسائٹی کی " بنیاد ڈالی ، جدید علوم و فنون کے تر بے انگریزی سے کرواۓ ، خود کتابیں لکھیں اور دوسروں سے لکھوائیں ۔ اخبار جاری کر کے اپنے انداز تحریر بے لاگ تنقید اور روشن صحافت کا مر تبہ پڑھا یا تہذیب الاخلاق " کے ذریعے اردو ادب میں انقلاب پیدا کیا ۔ عمر سید کے زو نے تک اردو کا سر ما یہ صرف قصے کہانیاں ، داستانوں ، تذکروں سوانح عمریوں اور مکاتیب کی شکل میں موجود تھا ۔ 


سر سید تک پہنچتے پہنچتے اردو نثر کم از کم دو کروٹیں لے لی تھی جس سے پرانی نثر نگاری میں خاصی تہد میں آچکی تھی ۔ خصوصاً غالب کے خطوط نثر پر کافی حد تک اثر انداز ہوئے اور ان کی پرولت نثر میں مسجع و منفی عبارت کی جگہ سادگی اور مدعا نگاری کو اختیار کیا گیا لیکن اس سلسلے کو صرف اور صرف سر سید نے آگے بڑھایا اور اردو نثر کو اس کا مقام دلایا ۔ سر سید نے برطانوی ایما پر فارسی اور عربی کو اردو کے ذرایہ بے دخل کروادیا تا کہ مسلمانان ہند اپنے ہزار سالہ علمی مواد اور خطے میں موجود دیگر مسلمانوں سے رابط کا واحد ذریچہ کھو بیٹھیں اور کوئی منظم شورش برطانوی نظام کے خلاف اٹھ کھڑی نہ ہو ۔ ایسی تدابیر سے مسلمان سرکاری نوکریوں تک دین ایمان خراب کروا کر پہنچ ضرور جاتے تھے مگر آزادی کی نعمت مزید دور ہوتی جاتی تھی ۔


 جدید اردو نثر کے بانی 


بقول مولانا شبلی نعمانی اردو انشاء پردازی کا جو آج انداز ہے اس کے جد امجد اور امام سر سید تھے "


سر سید احمد خان ، " اردو نثر " کے بانی نہ سہی ، البتہ " جدید اردو نثر " کا بانی ضرور ہے ۔ اس سے پہلے پائی جانی والی نثر میں فارسی زبان کی حد سے زیادہ آمیزش ہے ۔ کسی نے فارسی تراکیب سے نثر کو مزین کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی نے قافیہ بندی کے زور پر نثر کو شاعری سے قریب تر لانے کی جد و جہد کی ہے ۔ ان کو ششوں کے نتیجے میں اردو نثر تکلف اور تصنع کا شکار ہو کر رہ گئی ہے ۔ 

سر سید احمد خان پہلے ادیب ہے جس نے اردو نثر کی خوبصورتی پر توجہ دینے کی بجائے مطلب نویسی پر زور دیا ہے ۔ اس کی نظر نویسی کا مقصد اپنی علمیت کا رعب جتانا نہیں ۔ بلکہ اپنے خیالات و نظریات کو عوام تک پہنچانا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ۔ نہایت آسان نثر میں لکھا ، تاکہ اسے عوام لوگ سمجھ سکیں اور یوں غالب کی تنتبع میں اس نے عہد ید نثر کی ابتداء کی ۔


 رہنمائے قوم


 سرسید نے مسلمانوں کی رہنمائی دستگیری اور اصلاح کا کام برطانوی اعانت سے اس وقت شروع کیا جب غدر کے بعد یہ قوم سیاسی بے بسی کا شکار تھی اور اس پر مایو سی طاری تھی ۔وہ بے یقینی کے عالم میں تھی اور اسے کوئی راہ بھائی نہیں دے رہی تھی ۔ اس کی تہذیب اور تدان ار بار کا شکار تھی ۔ عزت نفس مجروح اور فاری الہالی عنقا تھی ۔ ( سر سید اور ان کے جیسے حضرات کی معاونت سے بنے والی ) حکمران قوم کا عتاب ، ہندو کی مکاری اور خود مسلمان قوم کی نا اہلی ( کہ ایسے دین وایمان فروش پیدا کیے اور احساس زیاں کی کسی ایسے عناصر تھے جن میں کسی قوم کاز ندور بنا یا ترقی کی طرف بڑھنا معجزہ سے کم نہ تھا ۔ 


سر سید رجائی فکر کے حامل ایک ایسے رہنما تھے جسے اس قوم کو موجود داد بار کے اندر بھی ترقی کرنے ، آگے بڑھنے اور اپنا کھویا ہوا مقام پانے کی لگن اور جوت نظر آئی ۔ سر سید نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اس قوم کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے ایک بھر پور اصلاحی تحریک کا آغاز کیا ۔ اس منصوبہ بندی میں مسلمانوں کی تعلیمی ، تمدنی ، سیاسی ، ند ہیں ، معاشی اور معاشرتی زندگی کو ترقی اور فلاح کے لئے راستے پر ڈالنا تھا ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں قنوطیت کو ختم کر کے اعتماد اور یقین پیدا کرنا تھا ۔


 مضمون نگاری 


 اردو میں مضمون Essay سر سید احمد خان کو اردو مضمون نگاری کا بانی تصور کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے ایک مغربی نثری صنف نگاری شروع کی ۔ وہ بیکن ، ڈرائڈن ، ایڈیشن اور سٹیل جیسے مغربی مضمون نگاروں سے کافی حد تک متاثر تھے ۔ انہوں نے بعض انگریزی انشائ ہ نگاروں کے مضامین کو اردو میں منتقل کیا ۔ انہوں نے اپنے رسالہ ” تہذیب الاخلاق " میں انگریز انشائیہ نگاروں کے اسلوب کو کافی حد تک اپنایا اور دوسروں کو بھی اس طر ز پر لکھنے کی ترغیب دی ۔ کی حد میں داخل نہیں ہو سکتے ، مگر مضامین کی کافی تعداد ایسی ہے جن کو اس صنف میں شامل کیا جا Essay سید صاحب کے سارے مضامین سکتا ہے ۔ مثلا تہذیب الاخلاق کے کچھ مضامین تعصب ، تعلیم و تربیت ، کاہلی ، اخلاق ، ریا ، مخالفت ، خوشامد ، بحث و تکرار ، اپنی مدد آپ ، خورتوں کے حقوق ، ان سب مضامین میں ان کا اختصار قدر مشترک ہے ۔جو ایک باقاعدہ مضمون کا بنیادی وصف ہے ۔ 

سر سید کا اسلوب 


اس سے پہلے کہ ہم امر سید کے تصور اسلوب کے بارے میں لکھیں ۔ اپنے اسلوب کے بارے میں سر سید کے قول کو نقل کرتے ہیں ، ہم نے انشائیہ کا ایک ایسا طرز نکالا ہے جس میں ہر بات کو صاف صاف ، جیسی کہ دل میں موجود ہو ، نشیانہ تکلفات سے بچ کر ، راست " چیرا یہ اور بیان کرنے کی کو شش کی ہے اور لوگوں کو بھی تلقین کی ہے ۔


در اصل سر سید احمد خان " ادب برائے ادب " کے قائل نہیں ، بلکہ وہ ادب کو مقصدیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ وہ کسی خاص طبقہ کے لیے نہیں لکھتے ۔ بلکہ اپنی قوم کے سب افراد کے لیے لکھتے ہیں ۔ جن کی و اصلاح کے خواہاں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سے قریب تر ہونے کے لیے انہوں نے تکلف اور تصنع کا طریقہ اپنانے سے گریز کیا اور سہل نگاری کو اپنا شعار بنایا ہے ۔ کیونکہ وہ مضمون نگاری میں اپنے دل کی بات دوسروں کے دل تک پہنچانے کے خواہں ہیں ۔ ان کی تحریر کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں ۔


 سادگی 


سر سید احمد کی نثر سادہ ، سہل اور آسان ہوتی ہے اور اسے پڑھتے ہوئے قاری کو کوئی الجھن محسوس نہیں کر تا ۔ ذیل میں ان کے ایک مضمون دنیا بہ امید قائم ہے " سے ایک اقتباس دیا جار ہا ہے ۔ جو سادگی کا خوبصورت نمونہ ہے ۔ اس مضمون میں دو خوشامد کے بارے میں کتنے آسان اور سادہ الفاظ میں بات کر رہے ہیں جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے کی پیاری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہر یلی باتوں کے زہر کو " چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے ۔ جس طرح کہ خوش گلو گانے والے کی راگ اور خوش آئند باجے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ” ہے ۔ اسی طرح خوشامد بھی انسان کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ہر ایک کانٹے کے چھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے ۔


 بے تکلفی اور بے ساختگی


 سر سید احمد خان نہایت بے تکلفی سے بات کرنے کے عادی ہیں ۔ وہ عام مضمون نگاروں کی طرح بات کو گھما پھرا کر بیان کرنے کے قائل نہیں ۔ ان کی تحریر میں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان میں آمد ہے آورد نہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ فی الد یہ بات چیت کر رہے ہیں ۔ یہ بات ان کی تحاریر میں بے ساختگی کا ثبوت ہے ۔ لیکن بعض ناقدین کے خیال میں اس بے ساختگی کی وجہ سے ان کی تحریر کا ادبی حسن کم ہو گیا ہے ۔ لیکن اگر یہ بھی تو سوچیے کہ جب آدمی بے ساختہ طور پر باتیں کرتا ہے ، تو د فقرات اور تراکیب کو مد نظر نہیں رکھتا ۔ آپس کی باتیں ادبی محاسن کی حامل ہوں ، نہ ہوں ان میں بے ساختگی کا عنصر ضرور شامل ہو تا ہے ۔ ویسے بھی سر سید احمد خان کا مقصد خود کو ایک ادیب منوانا نہیں تھا ۔ بلکہ تحریروں کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچانا تھا ۔ سر سید کی بے ساختگی کا نمونہ دیجیے ، وہ اپنے مضمون " امید کی خوشی " میں لکھتے ہیں ۔ تیرے ہی سبب سے ہمارے خوابیدہ خیال جاگتے ہیں ۔ تیری ہی برکت سے خوشی خوشی کے لیے ۔ نام آوری ، نام آوری کے لیے " بہادری ، بہادری کے لیے ، فیاضی ، فیاضی کے لیے ، محبت ، محبت کے لیے ، نیلی ، نیکی کے لیے تیار ہے ۔ انسان کی تمام خوبیاں اور ساری نیکیاں تیری ہی تابع اور تیری ہی فرماں بردار ہیں ۔


 مدعا نویسی


 سر سید کے مضامین میں مقصد کا عنصر غالب ہے اور وہ ہمیشہ اپنے مقصد ہی کی بات کرتے ہیں ۔ ان کی کسی بھی تحریر کے ایک دو پیرا گراف پڑھ کر ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہمیں کس جانب لے جانا چاہتے ہیں ۔ اور ان کا اصل مقصد کیا ہے وہ اپنے مدعا کو چھپاتے نہیں بلکہ صاف صاف بیان کر دیتے ہیں ۔ کوئی مضمون تحریر کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک بلند پایہ ادیب ہیں ۔ وہ صرف یہ یاد رکھتے ہیں کہ وہ ایک مصلح قوم ہے ۔ اس ضمن میں وہ اپنے نظریات کو واضح طور بیان کر دینے کے عادی ہیں ۔ ان کی تحریروں میں مقصدیت وافادیت کا عنصر اس حد تک غالب ہے کہ انہیں زبان کے حسن اور ادب کی نزاکت و جمال پر توجہ دینے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔ نزاکت خیال اور خیال آفرینی ان کے نزدیک تصنع کاری ہے ۔ جو عبارت کا مفہوم سمجھنے میں قاری کے لیے وقت کا موجب بنتی ہے ۔



خالفتگی اور ظرافت 

سر سید کی تحاریر میں کافی حد تک شلنگی پائی جاتی ہے ۔ وہ اپنے مضامین میں تنگی پیدا کرنے کے لیے کبھی کبھی ظرافت سے بھی کام لیتے ہیں ۔ لیکن اس میں پھکڑ پن پیدا نہیں ہونے دیتے ۔ اس کے متعلق ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں ، سر سید کی تحریروں میں ظرافت اس حد تک ہے ، جس حد تک ان کی سنجید گی ، متانت اور مقصد کو گوارا ہے ۔ " ذیل میں ان کی ظرافت کی ایک مثال مندرجہ ذیل ہے ۔ اس نے کہا کیا عجب ہے کہ میں بھی نہ مروں ، کیونکہ خدا اس پر قادر ہے ایک ایسا شخص پیدا کرے ، جس کو موت نہ ہو اور مجھ کو امید ہے ۔ کہ شاید وہ شخص میں ہوں ۔ یہ قول تو ایک ظرافت ( ظریف ) کا تھا مگر چ یہ ہے کہ زندگی کی امید ہی موت کا رنج مٹاتی ہے ۔


 متانت اور سنجیدگی


 سر سید کے زیادہ تر مضامین سنجیدہ ہوتے ہیں ، دو چو نکہ ادب میں افادیت کے قائل ہیں ، اس لیے ہر بات پر سنجیدگی سے غور کرتے اور اسے سنجید وانداز ہی سے بیان کرتے ہیں ۔ اکثر مقامات پر ان کے مصلحانہ انداز فکر نے ان کی تحریروں میں اس حد تک سنجید گی پیدا کر دی ہے ۔ کہ قافتگی کا عنصر غائب ہو گیا ہے ۔ بقول سید عبد اللہ ، سر سید کے مقالات کی زبان عام فہم ضرور ہے ۔ ان کا انداز بیان بھی گفتگو کا انداز بیان ہے مگر سنجیدگی اور متانت شاتگلی پیدا نہیں ہونے " دی ۔ البتہ ایسے مقامات جن میں ترغیبی عنصر کی کمی ہے ۔ اثر آفرینی سر سید احمد خاں اپنی تحاریر میں اثر پیدا کر نے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔


 ان کے بات کرنے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے ۔ کہ کسی نہ کسی ڈھب سے قاری کے ذہن پر اثر انداز ہوا جاۓ اور اسے اپنے نظریات کی لپیٹ میں لے لیا جائے ۔ اس مقصد کے لیے وہ کئی حربے اختیار کرتے ہیں ۔ مذہب اور اخلاقیات کا حربہ اثر آفرینی کے لیے ان کا سب سے بڑا حربہ ہے ۔ اس ضمن میں وہ اشارات و کنایات ، تشبیہات اور دیگر ادبی حربوں سے بھی کام لیتے ہیں ۔ لیکن قدرے کم ، بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ اثر و تاثیر کی وجہ تو یہ ہے کہ ان کے خیالات میں خلوص اور سچائی ہے ۔ یعنی دل سے بات نکلتی ہے ۔ کل پر اثر کرتی ہے ۔ " روانی سر سید کا قلم رواں ہے ۔ وہ جس موضوع پر لکھتے ہیں ، بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں ۔


 ان کی بعض تحریر میں پڑھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مشتاق کھلاڑی بلادم لیے بھا گتا ہی چلا جاتا ہے ۔ بقول ڈاکٹر سید عبد الله : وہ ہر مضمون پر بے تلکان اور بے تکلف لکھنے پر قادر تھے چنانچہ انہوں نے تاریخ ، فن تعمیر ، سیرت ، فلسفہ ، مذہب ، قانون ، سیاسیات ، تعلیم ، " اخلاقیات مسائل ملکی وعظ و تد کبیر ، سب مضامین میں ان کا رواں قلم کیساں پھرتی اور ہمواری کے ساتھ رواں دواں معلوم ہو تا ہے ۔ یہ ان کی قدرت کا کرشمہ ہے ۔ 


متنوع اسلوب


 سر سید کا نظریہ تھا کہ ہر صنف نثر ایک خاص طرز نگارش کی متقاضی ہے ۔ مثلا تاریخ نگاری ، فلسفہ ، سوانح عمری الگ الگ اسلوب بیان کا تقاضا کرتی ہیں ۔ چنانچہ ہر صنف نثر کو سب سے پہلے اپنے صنفی تقاضوں کو پورا کر نا چا ہیے ۔ چنانچہ ہر لکھنے والے صنفی تقاضوں کے مطابق اسلوب اختیار کر نا چا ہیے ۔


سر سید کے ہاں موضوعات کا تنوع اور رنگارنگی ہے اور سر سید کے اسلوب نگارش کی یہ خوبی اور کمال ہے کہ انہوں نے موضوع کی مناسبت سے اسلوب نگارش اختیار کیا ہے ۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کو بیان پر اس حد تک قدرت حاصل تھی کہ وہ سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، علمی ، ادبی اخلاقی ، ہر قسم کے موضوعات پر لکھتے وقت موضوع جس قسم کے اسلوب بیان کا متقاضی ہوتا اس قسم کا اسلوب اختیار کرتے ۔ خلوص و سچائی سر سید کے فقروں اور پیرا گراف میں تناسب اور موزونیت کی کمی ہے ۔ جملے طویل ہیں ۔ انگریزی الفاظ کا استعمال بھی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے ۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سرسید کی تحریر میں ادبیت سے خالی ہیں ۔ خلوص اور سچائی ادب کی جان ہے ۔ سر سید اکھڑی اکھڑی تحریروں ، بے رنگ اور بے کیف ، جملوں ، بو نجل ، متیل اور طویل عبارتوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کہ لکھنے والا محسوس کر کے لکھ رہا ہے ۔ کسی جذبے کے تحت لکھ رہا ہے ۔ اس کے پیش نظر نہ کوئی ذاتی غرض ہے اور نہ اسے کسی سے کوئی بغض و عناد اور ذاتی رنجش ہے ۔ ان تحریروں کو دیکھ کر جہاں ہم سچائی محسوس کرتے ہیں جو دل پر اثر کرتی ہے ، وہاں ان کی تحریروں میں مقصد کی جلالت اور عظمت پائی جاتی ہے ۔


 سرسید کی تحریر میں یقین واعتماد تو پیدا کرتی ہیں مگر قاری کو محفوظ اور مسرور بہت کم کرتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مقصد کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں ۔ وہ خیالات کے اظہار میں اتنے بے تکلف اور بے ساختہ ہو جاتے ہیں کہ الفاظ کی خوبصورتی ، فقروں کی ہم آہنگی کی کوئی پروا نہیں کرتے ۔ وہ کسی پابندی ، رکاوٹ اور احتیاط کا لحاظ نہیں کرتے ۔ وہ اسلوب اور شوکت الفاظ پر مطلب اور مدعا کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس طرح سرسید کی تحریروں میں حسن کی کمی پیدا ہو جاتی ہے ۔ اور یہی کمی اس کے اسلوب کا خاصہ بھی بن جاتی ہے ۔ اور ان کی تحریر ہمہ رنگ خیالات ادا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے ۔ مولانا حالی ان کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ کسی شخص کے گھر میں آگ لگی ہو تو وہ لوگوں کو پکارے کہ آؤ اس آگ کو بجھائو ۔ اس میں الفاظ کی ترتیب اور فقروں کی ترکیب کا خیال " نہیں ہوتا کیونکہ ان کے پاس ایک دعوت تھی ، اس دعوت کو دینے کے لیے انہیں جو بھی الفاظ ملے ، بیان کر دیے ۔


 مجموعی جائزہ 

جب ہم سر سید کی اولی کاوشوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ خود اپنی ذات میں دبستان نظر آتے ہیں ۔ سر سید نے اپنی تصانیف کے ذریعے اپنے زمانے کے مصنفوں اور اور یوں کو بہت سے خیالات دیے ۔ ان کے فکری اور تنقید کی خیالات سے ان کا دور خاصہ متاثر ہوا ۔ ان سے ان کے رفقا ، ای خاص متاثر نہیں ہوئے ۔ بلکہ دو لوگ بھی متاثر ہو ئے جو ان کے دائرے سے بام بلکہ مخالف تھے ۔ خالص ادب اور عام تصانیف دونوں میں زمانے سنے ان سے بہت ہاتھ سیکھا اور ادب میں ایک خاص قسم کی معقولیت ، نیا بہت ، ہمہ گیری ایک مقصد اور سنجید گی پیدا ہو گئی جس کے سدیب ادب برکاروں کا مشغلہ نہ رہا بلکہ ادب برائے زندگی بن گیا ۔ ان کے اپنے رفقاء نے ان کے اس مشن کو اور بھی آگے بڑھایا ۔ مولانا الطاف حسین حالی ، مولوی ذکا اللہ ، چراغ علی ، محسن الملک اور مولوی نذیر احمد جیسے لوگوں کی نظریات میں سر سید کی جھلک نمایا لیا ہے ۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللند سر سید کا ہم عصر مرادیپ ایک دیو ادب تھا اور کسی نہ کسی رنگ میں سر سید سے متاثر قبلہ۔


 سر سید احمد کی وفات 


وفات سر سید احمد خان 81 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898 ء میں فوت ہوئے اور اپنے کالج کی مسجد میں دفن ہوئے ۔