پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی نگاری اور مثنوی گلزار نسیم کا جائزہ

admin

پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی نگاری اور مثنوی گلزار نسیم کا جائزہ

 



پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی نگاری اور مثنوی گلزار نسیم کا جائزہ


مثنوی گلزارِ نسیم کا تعارف

 اردو میں دو ہی مثنویوں نے بے پناہ شہرت حاصل کی ہے ایک میر حسن کی مثنوی ” سحرالبیان “ نے دوسری پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی ” گلزار نسیم ۔ ان میں سے اگر ایک فتنہ ہے تو تو دوسری " عطر فتنہ " دونوں نے اردو شاعری کی دنیا میں قیامت بر پا کر دی ہے ۔ " سحر البيان " میں سادگی کا حسن ہے اور " گلزار نسیم ” میں پر کاری کا جادو ہے ، غرضیکہ دونوں میں ساحری اور عشوہ طرازی موجود ہے ۔ مولانا محمد حسین آزاد لکھتے ہیں : 


ہمارے ملک سخن میں سے کلکڑوں مثنویاں لکھی گئیں مگر ان میں فقل دو نسخے ایسے نکلے جنہوں نے طبیعت کی موافقت سے قبول عام کی سند " پائی ۔ ایک ” سحرالبیان “ اور دوسرے " گلزار نسیم " اور تعجب یہ ہے کہ دونوں کے رتبے بالکل الگ الگ ہیں ۔ مثنوی ” گلزار نسیم " پنڈت دیا شنکر نسیم کی وہ مثنوی ہے جس نے انہیں حیات جاوید عطا کی اور یہی وہ مثنوی ہے جسے لکھنو کے دبستان شاعری کی پہلی طویل نظم کا شرف حاصل ہے ۔


 نسیم حیدر علی آتش کے شاگرد تھے ۔ اور اس مثنوی کی تصنیف کے دوران شاگرد کو قدم قدم پر استاد کی رہنمائی حاصل رہی آ تش کی ہدایت پر ہی نسیم نے مثنوی کو مختصر کر کے نئے سرے سے لکھا او را ایجاز واختصار کا معجزہ کملا یا ۔ 

بقول فرمان فتح پوری که ، اس میں کردار نگاری ، جذ بات نگاری اور تسلسل بیان کی کم و بیش دو سبھی خصوصیات ہیں جو کہ ایک افسانوی مثنوی کے لئے ضروری خیال " کی جاتی ہیں لیکن اس کی دلکشی کا راز دراصل اس کی رنگین بیانی ، معنی آفرینی ، کنایاتی اسلوب ، لفظی صناعی اور ایجاز نوئی میں پوشیدہ ہے ان " اوصاف میں بھی اختصار ایجاز کا وصف امتیازی نشان کی حیثیت رکھتا ہے ۔


مثنوی گلزارِ نسیم کی خصوصیات


 گلزارِ نسیم کا پلاٹ


 گلزار نسیم “ کے پلاٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بادشاہ کا نام زین الملوک تھا ۔ اس کے چار بیٹے تھے کچھ عرصہ بعد پانچواں بیٹا پیدا ہوا جس " کا نام تاج الملوک تھا ۔ اس بیٹے کے بارے میں نجومیوں نے پیش گوئی کی کہ اگر بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ بینائی سے محروم ہو گا اور ایسا ہی ہوا ۔ چنانچہ طبیبوں نے اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ ایک پھول ہے " گل بکاولی ” اس سے اس کی بے نائی واپس آسکتی ہے بس اس طرح سارے قصے کا تانا بانابینا گیا ہے ۔

 گلزار نسیم کی ایک خصوصیت اس کے پلاٹ کی پیچید گیا ہے یہ صرف تاج الملوک اور بکاولی کی کہانی نہیں نہ صرف ایک پھول حاصل کرنے کی کہانی ہے بلکہ اس میں کئی کہانیاں گتھ گئی ہیں ۔ تاج الملوک کی شادی کے ساتھ ہی قصہ ختم ہو جانا چاہئے تھا مگر راحیہ اندر اور چتراوت اس کہانی کو آگے لے جاتے ہیں دراصل یہ کہانی ایک استعارہ ہے کہ مقصد کے حصول میں کتنی دشواریاں ہوتی ہیں کس طرح آگ کے دریا میں گزرنا پڑتا ہے ۔ پھر مقصد حاصل ہونے کے بعد ہاتھ سے نکل جاتا ہے ۔ مگر ارادہ پختہ اور کوشش متظام ہو تو پھر ہاتھ آ جاتا ہے ۔


 معاشرت کی تصویر کشی 


 اگرچہ " گلزار نسیم " کا پلاٹ مکمل طور پر فرضی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعر اپنے دور سے مواد حاصل کر تا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ " گلزار نسیم " میں نوابین اودھ کے عہد کی تہذیب نظر آتی ہے ۔ پنڈت دیا شنکر نسیم نے نواب غازی الدین حیدر ، نواب نصیر الدین حیدر ،نواب محمد علی شاہ ، نواب امجد علی شاہ کا زمانہ دیکھا تھا ۔ اس لئے اس عہد میں لکھنو میں جو رواج تھے ان کی جھلک " گلزار نسیم " مےں نظر آتی ہے ۔ جب تاج الملوک اور بکاولی کی شادی ہوئی تو کچھ رسمیں ادا کی گئیں جن کا ذکر نسیم یوں کرتے ہیں :


 گل سے خوانوں میں زرد ہ لا یا

 ان غنچہ دہانور کو کھلایا

 جب عقد کی انکے ساعت آئی

 دور شتوں میں ایک گرہ لگائی

 حق پاکے جو رکھتی تھیں قدامت

 بول اٹھیں مبارک و سلامت 

ان اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنو کے نوابی دور میں گا نا ، ناچ کے علاوہ حقہ ، پان ، کھانے کا رواج تھا ۔ اور بھی بہت سے رواج اور رسم مثنوی گلزار نسیم " میں ملتے ہیں۔


 مرصع کاری ، بندش الفاظ 


مرصع کاری میں ” گلزار نسیم " اپنی مثال آپ ہے اس کے لکھنے والے پنڈت دیا شنکر نیم ، خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد تھے ۔ اور خود آتش کے خیال میں شاعری مرصع ساز کا کام ہے چنانچہ بندش الفاظ نگوں کے جڑے کی مثل ہیں ۔ دیا شنکر نسیم نے بھی بندش الفاظ کے معاملے میں اپنے استاد جیسی فنی مہارت کا ثبوت بہم پہنچایا ہے ۔ ودیا شنکر نسیم کی اس مثنوی میں اس مرصع سازی کے نمونے جگہ جگہ بکھرے دکھائی دیتے ہیں مندرجہ زیل اشعار دیکھیں : 


عریانی کے ٹنگ سے لے جائیں

 ستار کی سب قسمیں کھائیں 

ہم بستر آدمی پری تھی

 ساۓ کی بغل میں چاندنی تھی 


منظر نگاری 


دیا شنکر نسیم کو منظر نگاری پر پورا عبور حاصل ہے لیکن مثنوی کو مختصر کرنے کے سلسلے میں بعض جگہوں پر اس کی کمی نظر آنے لگتی ہے یقینی طور پر اگر وہ اپنی مثنوی کو پوری طوالت کے ساتھ پیش کرتے تو ایسا نہ ہوتا ۔ اس کے باوجود ” گلزار نسیم " میں عمدہ منظر نگاری کے نمونے موجود ہیں یہ نمونے مناظر میں بھی ہیں اور کیفیات میں بھی ۔ تاج الملوک کا گزر ایک ہولناک دشت میں ہو تا ہے دکھا نا یہ ہے کہ ایک صحرا ہے بے برگ و گیاہ ، سیع لق و دق جہاں کبھی کسی جاند از کا گزر نہیں ہوا چاروں طرف ایک ہو کا عالم طاری ہے اس بیان کے ساتھ ساتھ تناسب لفظی موجود ہے اس میں عام نگا میں الجھ کر رہ جاتی ہیں اور عکاسی و مصوری کا جو کمال اس میں صرف کیا گیا ہے بادی النظر میں معلوم نہیں ہوتا ۔


 اک جنگل میں جاپڑا جہاں گرد

 صحرائے عدم بھی تھا جہاں گرد 

سائے کو پتا نہ تھا شجر کا

عنقا تھا نام جانور کا 


شب کو جنگل میں سانپوں کے اوس چاٹنے کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں :

 لہرا لہرا کے اوس چائی

 بن میں کالوں نے رات کافی

 راجہ جب لونڈیوں سے سوال کرتا ہے

 ، پوچھا پر یوں سے کچھ خبر ہے 

شہزادی بکائولی کدھر ہے 


تولونڈیوں کی طرف سے مناسب جواب نہ سوجھنے پر کیا کیفیت ہوئی اس کا منظر ملاحظہ ہو :


 آنکھ ایک نے ایک کو دکھائی 

منہ پھیر کے ایک مسکرائی 

چتون کو ملا کے رہ گئی 

ایک ہونٹوں کو ہلا کے رہ گئی 


ایک اس سلسلے میں ایک اور دلچسپ منظر وہ ہے جب تاج الملوک پر یوں کے کپڑے چرالیتا ہے اور وہ شرمائی شر مائی بدن کو چراتی آگے بڑھتی ہیں ، یہ منظر دیکھیں :


 جب خوب وہ شعلہ رو نہائیں

 باہر بصد آب و تاب آئیں 

پوشاک دھری ہوئی نہ پائی 

جانا کہ حریف نے اڑائی 

جھک جھک کے بدن چراتی آئیں

 رک رک کے قدم اٹھائی آئیں


 کیفیت کی منظر نگاری دیکھیں بکاولی کی فراق میں حالت یوں بیان کی ہے ۔


 سنسان وہ دم بخود تھی رہتی

 کچھ کہتی تو ضبط سے تھی کہتی

 کرتی تھی جو بھوک پیاس بس میں

 آنسو پیتی تھی کھا کے قسمیں


 تاج الملوک اور گل بکاولی کا راز فاش ہونے پر ان کا کیا حال ہوتا ہے ذرا منظر دیکھیں : 


دونوں کی رہی نہ جان تن میں

 کاٹو تو لہو نہ تھا بدن میں


جذبات نگاری 

پنڈت دیا شنکر ٹیم کو جذبات نگاری میں ید طولی حاصل ہے انہوں نے مختلف کرداروں کی جذبات کی عکاسی نہایت خوبی کے ساتھ کی ہے مثلاً جب بکاولی کا پھول غائب ہوتا ہے تو گھبراۓ ہوۓ کہتی ہے ۔


 گھبرائی کہ میں کدھر گیا گل

 گھبرائی کہ کون دے گیا جل 

ہے ہے مرا پھول لے گیا کون 

ہے ہے مجھے خار دے گیا کون 


ان اشعار میں بکاولی کی جذبات کی صحیح عکاسی کی گئی ہے بکائولی کا گھبرانا اور افسوس کرنا بالکل فطری ہے اس لئے ان کے جذبات میں صداقت موجود ہے ۔ اس طرح تاج الملوک اور بکائولی کی شادی ہو گئی تو دونوں خوشی کے مارے پھولے نہ سمائے


 راتوں کو سکتے تھے ستارے 

دن سگنے لگے خوشی کے مارے


 اس طرح ایک اور جگہ بکائولی کی ماں نے جب تاج الملوک کے ساتھ اس کو اختلاط میں پایاتو اس کو سخت غصہ آیا ۔ اس نے اپنے غصے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ۔


 حرمت میں لگا یا داغ تو نے

 لٹوائی بہار باغ تو نے

 تھرتا نہیں غصہ تھامنے سے

 چل دور ہو میرے سامنے سے 


غرضیکہ " گلزار نسیم “ میں مختلف مقامات پر جذ بات نگاری کی صحیح اور حسین تصویر میں ملتی ہیں ۔


 جزئیات نگاری 

پنڈت دیا شنکر نسیم نے مختلف واقعات کو موقع و محل کے اعتبار سے پیش کیا ۔ اس لئے اس میں بلاغت کی شان پیدا ہو گئی ہے مثلا جب چاروں شہزادے گل بکاولی لے کر آئے تو اس کی مدد سے زمین الملوک کی آنکھوں میں دوبارہ روشنی واپس آگئی اس وقت بادشاہ بہت خوش ہوا اور اس نے جشن آ راستہ کیا ۔ اس واقعے کو نسیم صاحب نے ان اشعار میں بیان کیا ہے ۔ 


نورآ گئے انچشم آرزو میں

 آیا پھر آب رفتہ جو میں 

نیچے سے پالک کے پھول اٹھا یا 

اندھے نے گل آنکھوں سے لگایا 


نسیم نے تاج الملوک اور زین الملوک کی ملاقات کا واقعہ مندرجہ ذیل اشعار میں بیان کیا ہے ۔ 


دونوں میں ہوئیں چار آنکھیں 

دولت کی کھلیں ہزار آنکھیں


راجا نے ایک روز بکائولی کو اپنی محفل میں یاد کیا کیونکہ وہ ایک عرصہ سے غیر حاضر تھی ٹیم اس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے ۔ 


ایک شب را جاتا محفل آرا

 یاد آئی بکائولی دل آرا 

پو چھا پریوں سے کچھ خبر ہے 

شہزادی بکائولی کدھر ہے


 مکالمہ نگاری 


 گلزار نشیم “ میں کئی مقامات پر مکالمے بھی ملتے ہیں ، اگرچہ مثنوی میں یہ ایک مشکل کام گنا جاتا ہے چلتی ہوئی کہانی کے بہائو میں مکالمے " مانکنا یقینی طور پر مشکل کام ہی ہے ۔ لیکن دیا شنکر نسیم نے قصے میں کئی جگہ اپنے فنی کمال کا ثبوت دیتے ہوۓ مکالمے پیش کئے ہیں ، روح افتراء اور اس کی بہن کے مکالمے دیکھیں :


 روح افتر ، نے کہا بہن سے

 بہتر کوئی جانہیں پہن سے 

کاشت کر میں چلو کہا خیر

 کیا جانے کہ ہو گی سیر 

میں سیر بولی وو یوں کہ آشنا تمہارا 

پیارا نہیں پیاری کا ہے پیارا 


راجا نے بکائولی کے متعلق پوچھا تو پریوں نے خاموشی اختیار کی ، اصرار پر بتایا کہ :


 ناتا پرے وں سے اس نے توڑا 

رشتہ ایک آدمی سے جوڑا

 وہ سن کے خفا ہوا کہا جائو

 جس طرح سے بے بھی ہو اٹھا لائو


 مافوق الفطرت عناصر 

 قدیم دور کی مثنویوں کا ایک نمایاں عنصر مافوق الفطرت عناصر کا بیان ہے ۔ یہ عناصر ان مثنویوں میں خاص طور سے داخل ہو جاتے ہیں جن کے پلاٹ فرضی ہوتے ہیں ۔ کیونکہ وہ تاریخی واقعات کے پابند نہیں ہوتے ہیں چنانچہ یہ عن اصر ” سحر البیان میں بھی موجود ہیں اور " گلزار نسیم " میں بھی مگر " گلزار نسیم " میں یہ عناصر زیادہ تعداد میں ملتے ہیں ۔ جو اسکے ساتھ محیر العقول انداز میں پیش کئے گئے ہیں یہ بیانات دلچسپ ضرور ہیں مگر اس کے ساتھ ہی دو مثنوی کے تصنع میں بھی اضافہ کرتے ہیں ۔


 ڈرامائی عناصر 


گلزار نسیم " میں جا بجاڈرامائی عناصر موجود میں نسیم نے اس مثنوی میں مکالمے پیش کئے ہیں ، جو ڈرامہ نگاری کی شان پیدا کر دیتے ہیں ، جب " روح افتراء رہا ہو کر آئی تو جمیلہ اور بکائولی اس سے ملنے گئیں اور اس کا حال پوچھا ٹیم نے اس موقع پر یوں مکالمہ پیش کیا ہے ۔


 روح افزاء سے ہوئیں بغلگیر

صورت پونچھی کہا کہ " تقدیر 


دوسرے مصرعے میں مکالمہ نگاری کی شان موجود ہے ، 

تاج الملوک دلبر بیسوا سے رخصت ہو رہا ہے اس موقعہ کی تصویر نسیم نے یوں کھینچی " 


یہ کہہ کے اٹھا کہ " لو جان

 جاتے ہیں کہا ” خدانگہبان


 غرضیکہ " گلزار نیم " میں مختلف مقامات پر ڈرامائی شان موجود ہے ۔


 سیرت کشی ما کردار نگاری 


 مثنوی ” گلزار نسیم " کے سارے کر دار اگرچہ بڑی حد تک مصنوعی اور بناوٹی ہیں تاہم ان کرداروں کی کچھ نمایاں خصوصیات میں انہی خصوصیات کی بنا پر ہم ان کرداروں کو سمجھ سکتے ہیں اس لئے ذیل کی سطروں میں کچھ کر داروں کی خصوصیات کا احاطہ کیا جاتا ہے ۔ تاج الملوک : ۔ مثنوی ” گلزار نسیم " کا ہیر و تاج الملوک ہے اس کے گرد ساری مثنوی کے واقعات گردش کرتے ہیں مگر تاج الملوک ایک بد بخت شہرادہ ہے کیونکہ اس پر جب باپ کی نظر پڑتی ہے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے یوں اسے ملک بدر کیا جاتا ہے ۔ نسیم نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے :


 صاد آ نکھوں کی دیکھ کر پسر کی

 بینائی کے چہرے پر نظر کی

 مہراب شد ہوئی خموشی

 کی نور بھر نے چشم پوشی

 تاج الملوک ایک حساس اور فرشناس انسان ہے جب بادشاہ کی بینائی جاتی رہی تو چاروں شہرادے گل بکائولی کے پیچھے روانہ ہوۓ اس وقت تاج الملوک نے بھی اسے اپنا فرض سمجھا اور گل بکائولی کی تلاش میں روانہ ہوا ۔ تاج الملوک ایک ذہین شہزادہ تھا اس کے مقابلے میں چاروں بھائی بے وقوف اور کم عقل تھے ۔ تاج الملوک بہت موقع شناس تھا ۔ جب تلاش گل بکائولی میں سلطنت ارم کی سرحد تک پہنچا تو سر حد کا دیو انہیں کھانے کو دوڑا ۔ لیکن اسی اثناء میں وہاں سے کچھ اونٹوں کا گزر ہوا ۔ جن پر سامان خوردونوش لدا ہوا تھا ۔ جن ان کو کچا کھا نا چاہتا تھا لیکن تاج الملوک کے ذہن میں آیا کہ اس کو پکا کر کھلایا جائے تو یہ خوش ہو جائے گا ۔ چنانچہ اس نے حلوہ پکا یا ۔ اس واقعے کو پنڈت دیا شنکر  ٹیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : 


حلوے کی پکا کر اک کڑ ھائی

 شیر یی دیو کو چڑھائی

 حلوے سے کیا منہ اس کا میٹھا 


تاج الملوک نے موقع سے فائد واٹھایا ، اور اس سے کہا مجھے گل بکائولی کی تلاش ہے ۔ اس کے علاوہ تاج الملوک بہت حوصلہ مند اور باہمت نوجوان تھا اس نے گل بکائولی حاصل کرنے کے لئے بے شمار مصائب اٹھائے مگر ہمت نہیں ہاری ۔ جب اسکے بھائیوں نے دھو کے سے اس سے گل بکائولی چھین لی تو اس نے ہمت نہیں ہاری اور ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کیا اور آخر میں ان کو اس کا صلہ بھی ملا ۔ غرضیکہ تاج الملوک میں بے پناہ خوبیاں ہیں وہ ساری مثنوی پر چھایا ہوا ہے ۔ اور نمایاں کردار ہے ۔ بکاولی : ۔ مثنوی " گلزار شیم " کی ہیروئین بکائولی ہے اس مثنوی میں دوسرا کر دار اسی کا ہے ۔ ابکائولی ایک پری ہے اس کا حسن چار دانگ عالم میں مشہور ہے ۔ جب تاج الملوک اس کی خواب گاہ میں پہنچا تو وہ اس کے حسن کو دیکھ کر دنگ رہ گیا نسیم یوں کہتا ہے ۔


 پردہ وہ نجاب سے اٹھا یا

 آرام میں اس پری کو پایا 

بند اس کی وہ چشم نرگسی تھی 

چھاتی کچھ کچھ کھلی ہوئی تھی


 بکائولی کی خوبی یہ ہے کہ وہ ذہین و ہو شیار ہے جب اس کا پھول چرا یا گیا تو وہ اس کے تلاش میں گھر سے نکلی آخر کار زین الملوک کے شہر میں داخل ہو گئی بادشاہ کے پوچھنے پر اس نے خود کو غریب اور غریب زدہ بتایا اور اپنا نام فرخ اور باپ کا نام فیروز بتا یا بادشاہ نے اسے شہر ادہ جان کر اپنا وزیر بٹالیا ۔ بکائولی ایک و فادار بیوی بھی ہے جب زین الملوک وطن روانہ ہو رہاتھاتو بکائولی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوۓ انکے ہمراہ جانے کے لئے تیار ہو گئی انہوں نے والدین سے اجازت چاہی ۔

 پردیسیوں سے جو کی نسبت

 اب کیجئے ہنسی خوشی سے رخصت


 بکائولی آخر وقت تک تاج الملوک کو نہیں بھولی اور آخر وقت تک تاج الملوک کا ساتھ دیا جب اس نے دھقان کے گھر میں دوبارہ جنم لیا تب اس نے تاج الملوک سے دوبارہ شادی کی ۔ غرضیکہ بکائولی اپنے حسن ، عظمندی اور وفاداری کی بنا پر ایک کامیاب ہیروئن نظر آتی ہے ۔ دیگر کر دار : ۔ " گلزار نسیم " میں دیگر کردار بھی ہیں جو اہم نہیں ہیں مثلا دلبر ایک بیسوا ہے جو لوگوں کو چوسر کھلاتی ہے اور ان کو شکست دے کر دولت کرتی ہے ۔ محمودہ حمالہ دایونی کے ساتھ رہتی تھی جس کو وہ دم دلا سا دے کر اپنے ساتھ لے آتی تھی ۔ اس نے حمالہ سے تاج الملوک کی سفارش کی کہ وہ بکائولی حاصل کرنے میں مدد کرے ۔ چتر اوت سنگل دیپ کے راجا کی بیٹی ہے جو تاج الملوک پر عاشق ہو گئی ہے ۔ بہرام ایک وزیر زادہ ہے اور تاج الملوک کا دوست ہے ۔ مگر سارے کر دار ضمنی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے ان پر بحث ضروری نہیں ۔ 


مثنوی گلزارِ نسیم کا اسلوب


گلزار نسیم " ، " سحر البیان " کے تقریبا نصف صدی بعد لکھی گئی اس وقت تک لکھنوی معاشر وایک واضح شکل اختیار کر چکا تھا ۔ اب زندگی " کے لوازمات میں ہی نہیں بلکہ طرز فکر اور طرز گفتار میں بھی تکلف اور رنگینی آگئی تھی ۔ چنانچہ ” گلزار نسیم “ پڑھتے ہوئے قدم قدم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کی زبان اور اسلوب وہ نہیں جو نصف صدی پہلے میر حسن نے ختیار کیا تھا ۔ میر حسن کے انداز نگارش میں دہلوی اور لکھنوی دونوں دبستانوں کی آمیزش ہے ۔ جبکہ گلزار شیم " خالصتاً لکھنوی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ ” سحر البیان " کے بنیادی اوصاف صفائی ، زبان ، لطف ، محاورہ ، جذ بات نگاری اور منظر نگاری اور منظر کشی تھے ۔ لیکن ٹیم کے زمانے تک لکھنو کی زندگی اس قدر رنگین ہو گئی تھی کہ لوگ تحریر اور تقریر میں تکلف کو لازمی قرار دینے لگے تھے ۔ چنانچہ نسیم اور ان کے ہمعصر شعراء کارنگینی اور مرصع کاری کی طرف غالب رجحان ہے ۔ نسیم کی اپنی طبیعت میں مرصع کاری اور ذوق جمال کے عناصر موجود تھے اس کے علاوہ انہوں نے مثنوی کے لئے جس تھے انتخاب کیا کے واقعات اس قدر مربوط حیران اور پر اسرار تھے کہ انسان کی یہ کی تھی ۔ اس مثنوی کے بارے میں آزاد لکھتے ہیں :


 ” لوگ اسے پڑھتے ہیں اور جتنی سمجھ آتی ہے اس پر لوٹے جاتے ہیں " 


رعائت لفظی 

" گلزار نسیم " کی ایک نمایاں خصوصیت رعایت لفظی ہے اس میں ٹیم نے یہ کمال کیا ہے کہ یہ احساس نہیں ہوتا کہ کوئی لفظ دوسرے لفظ سے مناسبت کی وجہ سے خواہ مخواہ بھر دیا گیا ہے ۔ رعایت لفظی مشکل صنعت ہے اور اس کا نباہنا آسان نہیں ، اس سلسلے میں یہ اشعار دیکھیں :


 سایہ کو پتا نہ تھا شجر کا

 عنقا تھا نام جانور کا

 ہم بستر آدمی پری تھی

 ساۓ کی بغل میں چاندنی تھی


 تشبیہ واستعارہ 


 نسیم نے اس مثنوی میں تشبیہوں اور استعاروں کا استعمال بڑی خوبی سے کیا ہے یہ تشبیہیں اور استعارے نیم کے اشعار میں کلام کا ایک جزو بن کر آتے ہیں ۔ ان کے الگ وجود کا احساس نہیں ہوتا ۔ 


یوں پیج پہ آ کے سوئی بے تاب 

جس شکل سے آۓ آنکھ میں خواب 

آغوش کی موج سے وہ مضطرب کے 

مچھلی سی نکل گئی تڑپ کے 


صنائع و بدائع کا استعمال 


 " گلزار نسیم " میں صنائع بدائع کا استعمال بھی اچھی طرح کیا گیا ہے اس وقت کی لکھنوی شاعری میں صنائع بدائع کثرت سے استعمال ہوتے تھے اور شعرا ، بعض اوقات محض زور کلام کے لئے صنعتوں کا استعمال کرتے تھے " گلزار  نسیم " کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں :


 سوال جواب 


پوچھا کہ طلب کیا قناعت

 پو چھا کہ سیب کہا قناعت


 حسن تعلیل


 گوشے میں کوئی لگانہ ہو توے 

خوشہ کوئی تا کتا نہ ہووے


 تجنيس


 اک جنگل میں جاپڑا جہاں گرد 

صحرائے عدم بھی تھا جہاں گرد سے


ضرب المثال 

 بعض اشعار اس قدر حقیقت سے قریب ہوتے ہیں ان میں اتنی سچائی ہوتی ہے کہ دل میں گھر کر لیتے ہیں یا ان کے اسلوب میں اتنی سلاست اور شیر کی ہوتی ہے کہ وہ فورا ز بان پر چڑھ جاتے ہیں ۔ ایسے اشعار ضرب المثال کی طرح مشہور ہو جاتے ہیں کئی دفعہ ضرب المثال کو نظم کر دیتے ہیں ، یہاں دونوں قسم کے اشعار ملتے ہیں ۔