علامہ اقبال کی زندگی پر ایک مفصل مضمون

admin

علامہ اقبال کی زندگی پر ایک مفصل مضمون

 

علامہ اقبال کی زندگی پر ایک مفصل مضمون


 علامہ اقبال کی سوانح اور شخصیت


 ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال ( ولادت : 9 نومبر 1877 ء - وفات : 21 اپریل 1938 ء ) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر ، مصنف ، قانون دان ، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے ۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے ۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا ۔ " دار یکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام " کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی ۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے ۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کار نامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے ، جو انہوں نے 1930 ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا ۔

 یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا ۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے ۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے ۔ 

i

والد کا خواب


 علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد نے خواب دیکھا تھا کہ لق و دق میدان ہے ۔ ایک سفید کبوتر براق فضا میں چکر لگا رہاہے ۔ کبھی اتنا نیچے اتر آتا ہے کہ بس اب زمین کی قسمت جاگی اور کبھی ایسی اونچائی پڑتا ہے کہ تارا بن کر آسمان سے جڑ گیا ۔ ادھر بہت سے لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر اسے پکڑنے کی کو شش کر رہے ہیں ۔ سب کے سب دیوانے ہو رہے ہیں مگر وہ کسی کے ہاتھ نہیں آتا ۔ کچھ وقت گزر گیا تو اچانک اس نے غوطہ لگایا اور میری جھولی میں آن گرا ۔ آسمان سے زمین تک ایک قوس بن گئی ۔ 

جب شیخ نور محمد یہ خواب دیکھ کر اٹھے تو اپنے دل کو اس یقین سے بھرا ہوا پایا کہ خدا نھیں ایک بیٹا تا کرے گا جو دین اسلام میں بڑا نام پیدا کرے گا ۔ 


علامہ اقبال کی ولادت و ابتدائی زندگی


 اقبال کے والد شیخ نور محمد کشمیر کے پروپر ہمنوں کی نسل سے تھے ۔ غازی اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک جد نے اسلام قبول کیا ۔ اقبال کے آباء و اجداد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آۓ اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوۓ ۔ ہر پشت میں ایک نہ ایک ایسا ضرور ہوا جس نے فقط دل سے راور کھی ۔ یہ بھی انہی صاحب دلوں میں سے تھے ۔ بزرگوں نے کشمیر مچھوڑا تو سیالکوٹ میں ہے ۔

 شیخ نور محمد کے والد شیخ محمد رفیق نے محلہ کھٹیکاں میں ایک مکان آباد کیا ۔ کشمیری لوئیوں اور ڈھتوں کی فروخت کا کاروبار شروع کیا ۔ لگتا ہے کہ یہ اور اقبال کے والد کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد یہیں پیدا ہوۓ ، پلے بڑھے ۔ بعد میں آج رام سپرد بازار چوڑ میگراں میں اٹھ آۓ جو اب اقبال بازار کہلاتا ہے ۔ ایک چھوٹا سا مکان لے کر اس میں رہنے لگے اور مرتے دم تک یہیں رہے ۔ اقبال کے دادا سج رام سپرد کی وفات کے بعد شیخ نور محمد نے اس سے ملحق ایک دو منزلہ مکان اور دو دکانیں خرید کر مکانیت کو پڑھا لیا ۔

 اقبال 9 نومبر 1877 ء ( بمطابق 3 ذوالقعدہ 1294 ھ ) کو برطانوی ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوۓ ۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا ۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر 1877 ء کو ہی اقبال کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتی ہے ۔


شیخ نور محمد دیندار آدمی تھے ۔ بیٹے کے لیے دینی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے ۔ سیالکوٹ کے اکثر مقامی علما کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے ۔ اقبال بسم للہ کی عمر کو پہنچے توانھیں مولا نا غلام حسن کے پاس لے گئے ۔ مولانا ابوعبد اللہ غلام حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے ۔ شیخ نور محمد کا وہاں آنا جانا تھا ۔ یہاں سے اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا ۔ حسب دستور قرآن شریف سے ابتدا ہوئی ۔

 تقر یباسال مجر تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ شہر کے ایک نامور عالم مولانا سید میر حسن ادھر آ نکلے ۔ ایک بچے کو بیٹھے دیکھا کہ صورت سے عظمت اور سعادت کی پہلی جوت چہکتی نظر آ رہی تھی ۔ پوچھا کہ کس کا بچہ ہے ۔ معلوم ہوا تو وہاں سے اٹھ کر شیخ نور محمد کی طرف چل پڑے ۔ دونوں آپس میں قریبی واقف تھے ۔ مولانا نے زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ رکھو ۔ اس کے لیے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا جاۓ ۔ کچھ دن تک تو شیخ نور محمد کو پس و پیش رہا ، مگر جب دوسری طرف سے اصرار بڑھتا چلا گیا تو اقبال کو میر حسن کے سپرد کر دیا ۔ ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں تھا ۔ 

یہاں اقبال نے اردو ، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا ۔ تین سال گزر گئے ۔ اس دوران میں سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھا نا شروع کر دیا ۔ اقبال بھی وہیں داخل ہو گئے مگر پرانے معمولات اپنی جگہ رہے ۔ اسکول سے آتے تو استاد کی خدمت میں پائی جاتے ۔ میر حسن ان عظیم استادوں کی یادگار تھے جن کے لیے زندگی کا بس ایک مقصد ہوا کرتا تھا ، پڑھنا اور پڑھانا ۔ لیکن یہ پڑھنا اور پڑھا نا نری کتاب خوانی کا نام نہیں ۔ اس اچھے زمانے میں استاد مر شد ہوا کرتا تھا ۔ 

میر حسن بھی یہی کیا کرتے تھے ۔ تمام اسلامی علوم سے آگاہ تھے ، جدید علوم پر بھی تھی نظر تھی ۔ اس کے علاوہ ادبیات ، معقولات ، لسانیات اور ریاضیات میں بھی مہارت رکھتے تھے ۔ شاگردوں کو پڑھاتے وقت ادبی رنگ اختیار کرتے تھے تا کہ علم فقط حافظے میں بند کر نہ رہ جائے بلکہ طرز احساس بن جائے ۔ عربی ، فارسی ، اردو اور پنجابی کے ہزاروں شعر از بر تھے ۔ ایک شعر کو کھولنا ہوتا تو بیسیوں مترادف اشعار سناڈالتے ۔ مولانا کی تدریسی مصروفیات بہت زیادہ تھیں مگر مطالعے کا معمول قضا نہیں کرتے تھے ۔ قرآن کے حافظ بھی تھے اور عاشق بھی ۔ شاگردوں میں شاہ صاحب کہلاتے تھے ۔ 

انسانی تعلق کا بہت پاس تھا ۔ حد درجہ شفیق ، سادہ ، قانع ، متین ، منکسر المزاج اور خوش طبع بزرگ تھے ۔ روزانہ کا معمول تھا کہ فجر کی نماز پڑھ کر قبرستان جاتے ، عزیزوں اور دوستوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ۔ فارغ ہوتے تو شا گردوں کو منتظر پاتے ۔ واپسی کا راستہ سبق سننے اور دینے میں کٹ جاتا ۔ یہ سلسلہ گھر پہنچ کر بھی جاری رہتا ، یہاں تک کہ اسکول کو چل پڑتے ۔ شاگرد ساتھ لگے رہتے ۔ دن بھر اسکول میں پڑھاتے ۔ شام کو شاگردوں کو لیے ہوئے گھر آتے ، پھر رات تک درس چلتارہتا ۔ اقبال کو بہت عزیز رکھتے تھے ۔

 خود وہ بھی استاد پر فدا تھے ۔ اقبال کی شخصیت کی مجموعی تشکیل میں جو عناصر بنیادی طور پر کار فرما نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر شاہ صاحب کی صحبت اور تعلیم کا کرشمہ ہیں ۔ سید میر حسن سر سید کے بڑے قائل تھے ۔ علی گڑھ تحریک کو مسلمانوں کے لیے مفید سمجھتے تھے ۔ ان کے زیر اثر اقبال کے دل میں بھی سر سید کی محبت پیدا ہو گئی جو بعض اختلافات کے باوجود آخر دم تک قائم رہی ۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذ بہ تو خیر اقبال کے گھر کی چیز تھی مگر میر حسن کی تربیت نے اس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی ۔ اقبال سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں آگے تھے ۔

 بچپن ہی سے ان کے اندر وہ انتہاک اور استغراق موجود تھا جو بڑے لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ مگر وہ کتاب کے کیٹرے نہیں تھے ۔ کتاب کی لت پڑ جاۓ تو آدمی محض ایک دماغی وجود بن جاتا ہے ۔ زندگی اور اس کے نیچ فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ زندگی کے حقائق اور تجربات بس دماغ میں منجمد ہو کر رہ جاتے ہیں ، خون گرم کا حصہ نہیں بنتے ۔ انھیں کھیل کود کا بھی شوق تھا ۔ بچوں کی طرح شوخیاں بھی کرتے تھے ۔ حاضر جواب بھی بہت تھے ۔ شیخ نور محمد یہ سب دیکھتے مگر منع نہ کرتے ۔ جانتے تھے کہ اس طرح چیزوں کے ساتھ اپنائیت اور بے تکلفی پیدا ہو جاتی ہے جو بے حد ضروری اور مفید ہے ۔ غرض اقبال کا بچپن ایک فطری کشادگی اور بے ساختگی کے ساتھ گزرا ۔ قدرت نے انھیں صوفی باپ اور عالم استاد عطا کیا جس سے ان کا دل اور عقل یکسو ہو گئے ، دونوں کا ہدف ایک ہو گیا ۔ یہ جو اقبال کے یہاں جس اور قبر کی نادر یکجائی نظر آتی ہے اس کے پیچھے یہی چیز کارفرما ہے ۔ باپ کے قلبی فیضان نے جن حقائق کو اچھالا محسوس کر وا یا تھا استاد کی تعلیم سے تفصیلاً معلوم بھی ہو گئے ۔ 

سولہ برس کی عمر میں اقبال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ فرسٹ ڈویژن آئی اور تمغا اور وظیفہ ملا ۔ اسکاچ مشن اسکول میں انٹر میڈیٹ کی کلاسیں بھی شروع ہو چکی تھیں لہذا اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا ، وہیں رہے ، یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا با قاعد وآغاتر ہو تا ہے ۔ یوں تو شعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی ، کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کر لیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے ، نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے ۔ لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی ۔ اس وقت پورا بر صغیر داغ کے نام سے گونج رہا تھا ۔ خصوصاً اردوزبان پر ان کی مجزانہ گرفت کا مہر کسی کو اعتراف تھا ۔ اقبال کو یہی گرفت درکار تھی ۔

 شاگردی کی درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی ۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا ۔ داغ جگت استاد تھے ۔ متحدہ ہندوستان میں اردو شاعری کے جتنے بھی روپ تھے ، ان کی تراش خراش میں داغ کا قلم سب سے آگے تھا ۔ لیکن یہ رنگ ان کے لیے بھی نیا تھا ۔ گو اس وقت تک اقبال کے کلام کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہ ہوئی تھی مگر داغ اپنی بے مثال بصیرت سے بھانپ گئے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا ۔ یہ کہ کر فارغ کر دیا کہ اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مگر اقبال اس مختصر سی بنا گردی پر بھی ہمیشہ نازاں رہے ۔ کچھ یہی حال داغ کا بھی رہا ۔


 اعلی تعلیم 


مئی 1893 ء میں اقبال نے میٹرک کیا اور 1895 ء میں اقبال نے ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہورآ گئے ۔ یہاں گورنمنٹ 6 کالج میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے لگے ۔ اپنے لیے انگریزی ، فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کیے۔انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے اور پینٹل کا لج جاتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری ایسے بے مثال استاد تشریف رکھتے تھے ۔ اس وقت تک اورینٹل کالج لاہور ، گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصے میں قائم تھا اور دونوں کالجوں کے درمیان بعض مضامین کے سلسلے میں باہمی تعاون اور اشتراک کا سلسلہ جاری تھا ۔ 1898 میں اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے ( فلسفہ ) میں داخلہ لے لیا ۔ یہاں پر وفیسر ٹی ڈبلیوآ ر نل کا تعلق میسر آیا ۔ جنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رخ متعین کر دیا ۔

 مارچ 1899 ء میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں اول آئے ۔ اس دوران میں شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا ، مگر مشاعروں میں نہ جاتے تھے ۔ نومبر 1899 ء کی ایک شام پڑھ بے تکلف ہم جماعت انھیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفل مشاعرہ میں کھینچ لے گئے ۔ بڑے بڑے سنگہ بند اساند و ، شاگردوں کی ایک کثیر تعداد سمیت شریک تھے ۔ سننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا ۔ اقبال چونکہ بالکل نئے تھے ، اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پکارا گیا ۔ غزل پڑھنی شروع کی ، جب اس شعر پر پہنچے کہ : 


موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے 

قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے

 تو اچھے اچھے استاد کچل پڑے ۔ بے اختیار ہو کر داد دینے لگے ۔ یہاں سے اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا ۔ مشاعروں میں باصرار بلاۓ جانے لگے ۔ اسی زمانے میں انجمن حمایت اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا ۔ اس کے ملتی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دیتے ۔ اقبال کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے کاموں کو آسان کر دیا ۔ کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور پیدا ہو نا شروع ہو گیا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کر دار ادا کیا ۔

 ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال 13 مئی 1899 ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہو گئے ۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پر نسپل مقرر ہوۓ ۔ اقبال تقریبا چار سال تک اور مینٹل کالج میں رہے ۔ البتہ بچے میں کچھ ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی۔اعلی تعلیم کے لیے کینیڈا یا امریکا جانا چاہتے تھے مگر آرنلڈ کے کہنے پر اس مقصد کے لیے انگلستان اور جرمنی کا انتخاب کیا ۔

 ۱۹۰۴ ء کو آرنلڈ جب انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ان کی دوری کو بے حد محسوس کیا ۔ دل کہتا تھا کہ اثر کر انگلستان پہنچ جائیں ۔ اور مینٹل کالج میں اپنے چار سالہ دور تدریس میں اقبال نے اسٹبس کی " ارلی پلانٹس اور واکر کی پولٹیکل اکانومی کار دو میں تلخیص و ترجمہ کیا ، شیخ عبد الکریم الجیلی کے نظریہ توحید مطلق پر انگریزی میں ایک مقالہ لکھا اور علم الاقتصاد ” کے نام سے اردو زبان میں ایک مختصر سی کتاب تصنیف کی جو 1904 ء میں شائع ہوئی ۔ 

اردو میں اپنے موضوع پر یہ اولین کتابوں میں سے ہے ۔ اور پینٹل کالج میں بطور عربی ریڈر مدت ملازمت ختم ہو گئی تو 1903 ء میں اسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے اقبال گورنمنٹ کالج میں تقرر ہو گیا ۔ بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے ۔ وہاں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ کم اکتوبر 1905 ء کو یورپ جانے کے لیے تین سال کی رخصت کیا ۔

 علامہ اقبال کا سفرِ یورپ


 دسمبر 1905 ء کو علامہ اقبال اعلی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا ۔ چونکہ کالج میں 25 ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے لیے گئے تھے اس لیے ان کے لیے عام طالب علموں کی طرح ہوسٹل میں رہنے کی پابندی نہ تھی ۔ قیام کا بندوبست کا لج سے باہر کیا۔ابھی یہاں آۓ ہوۓ ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ پیر سٹری کے لیے لنکنز ان میں داخلہ لے لیا ۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی ۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔

 سر عبد القادر بھی یہیں تھے ۔ اسی زمانے میں کیمبرج کے استادوں میں وائٹ ہیڈ ، مینگ ٹیگرٹ ، وارڈ براؤن اور نکلسن جیسی نادر و روزگار اور شہرۂ آفاق ہستیاں بھی شامل تھیں ۔ مینگ ٹیگرٹ اور نکلسن کے ساتھ اقبال کا قریبی رابط ضبط تھا بلکہ نکلسن کے ساتھ تو برابر کی دوستی اور بے تکلفی پیدا ہو گئی ۔ البتہ مینگ ٹیگرٹ کی جلالت علمی کے ساتھ ان کی عمر بھی تھی ، وہ اقبال سے خاصے بڑے تھے جب کہ نکلسن کے ساتھ ان کا کوئی ایسا تفاوت نہ تھا ۔ میگ ٹیگرٹ ٹرنٹی کالج میں کان اور ہیگل کا فلفہ پڑھاتے تھے ۔ خود بھی انگلستان کے بڑے فلسفیوں میں گنے جاتے تھے ۔ براؤن اور نکلسن عربی اور فارسی زبانوں کے ماہر تھے ۔ آگے چل کر نکلسن نے اقبال کی فارسی مثنوی " اسرار خودی " کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جو اگرچہ اقبال کو پوری طرح پسند نہیں آیا مگر اس کی وجہ سے انگریزی خواں یورپ کے شعری اور فکری حلقوں میں اقبال کے نام اور کام کا جزوی سا تعارف ضرور ہو گیا ۔ 

انگلستان سے آنے بعد بھی اقبال کی مینگ ٹیگرٹ اور نکلسن سے خط کتابت جاری رہی ۔ آرنلڈ جو کیمبرج میں نہیں تھے ، لندن یونیورسٹی میں عربی پڑھاتے تھے ، لیکن اقبال بڑی باقاعدگی سے ان سے ملنے جایا کرتے تھے ۔ ہر معاملے میں ان کا مشورہ لے کر ہی کوئی قدم اٹھاتے ۔ انہی کے کہنے پر میونخ یونیورسٹی میں پی ۔ ایچ ۔ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروایا ۔ کیمبرج سے بی اے کرنے کے بعد جولائی 1907 ء کو ہائیڈل برگ چلے گئے تاکہ جرمن زبان سیکھ کر میونخ یو نیورسٹی میں اپنے تحقیقی مقالے کے بارے میں اس زبانی امتحان کی تیاری ہو جاۓ جو اسی زبان میں ہوتا تھا ۔ یہاں چار ماہ گزارے ۔ " ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا " کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ پہلے ہی داخل کر چکے تھے ، ایک زبانی امتحان کا مرحلہ بھی رہتا تھا ، اس سے بھی سرخروئی کے ساتھ گزر گئے ۔

 4 نومبر 1907 ء کو میونخ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے دی ۔ 1908 ء میں یہ مقالہ پہلی بار لندن سے شائع ہوا ۔ انتساب آرتلہ کے نام تھا ۔ ڈاکٹریٹ ملتے ہی لندن واپس چلے آۓ ۔ پیرسٹری کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کر دی ۔ کچھ مہینے بعد سارے امتحان مکمل ہو گئے ۔ جولائی 1908 ء کو نتیجہ نکلا ۔ کامیاب قرار دیے گئے ۔ اس کے بعد انگلستان میں مزید نہیں ان کے وطن واپس آ گئے ۔ لندن میں قیام کے دوران میں اقبال نے مختلف موضوعات پر لیکچروں کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا ، مثلا اسلامی تصوف ، مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پر ، اسلامی جمہوریت ، اسلام اور عقل انسانی و غیرہ بد قسمتی سے ان میں ایک کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملتا ۔

 ایک مرتبہ آرنلڈ لمبی رخصت پر گئے تو اقبال ان کی جگہ پر لندن یونیورسٹی میں چند ماہ کے لیے عربی کے پروفیسر مقرر ہوۓ ۔ مئی 1908 ء میں جب لندن میں آل انڈیا مسلم لیگ کی برٹش کمیٹی کا افتتاح ہوا تو ایک اجلاس میں سید امیر علی کمیٹی کے صدر چنے گئے اور اقبال کو مجلس عاملہ کارکن نامزد کیا گیا ۔ اسی زمانے میں انھوں نے شاعری ترک کر دینے کی ٹھان لی تھی ، مگر آرنلڈ اور اپنے قریبی دوست شیخ عبد القادر کے کہنے پر یہ ارادہ چھوڑ دیا ۔ فارسی میں شعر گوئی کی ابتدا بھی اسی دور میں ہوئی ۔ قیام یورپ کے دوران میں اقبال کے دو بنیادی خیالات تبدیل ہونے شروع ہوۓ ۔ اقبال وطنی قومیت اور وحدت الوجود کی طرف میلان رکھتے تھے ۔

 اب وہ میلان گریز میں بدلنے لگا تھا ۔ خاص طور پر وطنی قومیت کے نظریے کے تو اس قدر خلاف ہو گئے جسے نفرت کہنا زیادہ یورپ پہنچ کر انھیں مغربی تہذیب و تمدن اور اس کی روح میں کار فرما مختلف تصورات کو براہ راست دیکھنے کا موقع ملا ۔ مغرب سے مرعوب تو خیر وہ بھی نہیں رہے تھے ، نہ یورپ جانے سے پہلے نہ وہاں پہنچنے کے بعد ۔ بلکہ مغرب کے فکری ، معاشی ، سیاسی اور نفسیاتی غلبے سے آ نکھیں چرائے بغیر انھوں نے عالمی تناظر میں امت مسلمہ کے گزشتہ عروج کی باز یافت کے لیے ایک وسیع دائرے میں سوچنا شروع کیا ۔ یہاں تک کہ ان پر مغربی فکر اور تہذیب کا چھپا ہوا بودا پن منکشف ہو گیا ۔

 جولائی 1908 ء میں وطن کے لیے روانہ ہوئے ۔ بمبئی سے ہوتے ہوۓ 25 جولائی 1908 ء کی رات دہلی پہنچے ۔


 تدریس ، وکالت اور سماجی خدمات


 ابتدا میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا ۔ وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعر و شاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھر پور انداز میں حصہ لیا ۔ 1922 ء میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا ۔ اقبال انجمن حمایت اسلام کے اعزازی صدر بھی رہے ۔

 اگست 1908 ء میں اقبال لاہور آ گئے ۔ ایک آدھ مہینے بعد چیف کورٹ پنجاب میں وکالت شروع کر دی ۔ اس پیشے میں کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایم ۔اے ۔ او کالج علی گڑھ میں فلسفے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کی پروفیسری پیش کی گئی مگر اقبال نے اپنے لیے وکالت کو مناسب جانا اور دونوں اداروں سے معذرت کر لی ۔ البتہ بعد میں حکومت پنجاب کی درخواست اور اصرار پر 10 مئی 1910 ء سے گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کر دیا ، لیکن ساتھ ساتھ وکالت بھی جاری رکھی ۔ ہوتے ہوتے مصروفیات بڑھتی چلی گئیں ۔ کئی اداروں اور انجمنوں سے تعلق پیدا ہو گیا ۔

 مارچ 1910 ء کو حید را با رد کن کا سفر پیش آیا ۔ وہاں اقبال کے قدیمی دوست مولانا گرامی پہلے سے موجود تھے ۔ اس دورے میں سر 18 اکبر حیدری اور مہاراجہ سر کشن پرشاد کے ساتھ دوستانہ مراسم کی بنا پڑی ۔ مارچ کی تنیسو میں کو حیدرآباد سے واپس آۓ ۔ اور نگزیب عالمگیر کے مقبرے کی زیارت کے لیے راستے میں اورنگ آباد اتر گئے ۔ دو دن وہاں ٹھہرے ۔ 28 مارچ 1910 ء کو لاہور پہنچے اور پھر سے اپنے معمولات میں مشغول ہو گئے ۔ اب معلمی اور وکالت کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوتا جارہا تھا ۔

 آخر کار 31 دسمبر 1910 ء کو گورنمنٹ کالج سے مستعفی ہو گئے ، مگر کسی نہ کسی حیثیت سے کالج کے ساتھ تعلق برقرار رکھا ۔ ایک گورنمنٹ کالج ہی نہیں بلکہ پنجاب اور بر صغیر کی کئی دوسری جامعات کے ساتھ بھی اقبال کا تعلق پیدا ہو گیا تھا ۔ پنجاب ، علی گڑھ ، الہ آباد ، ناگ پور اور دہلی یونیورسٹی کے ممتحن رہے ۔ ان کے علاوہ بیت العلوم حید رآ باد دکن کے لیے بھی تاریخ اسلام کے پرچے مرتب کرتے رہے ۔ بعض اوقات زبانی امتحان لینے کے لیے علی گڑھ ، الہ آباد اور ناگ پور وغیرہ بھی جانا ہوتا ۔ ممتحن کی حیثیت سے ایک اٹل اصول اپنارکھا تھا عزیز سے عزیز دوست پر بھی سفارش کا دروازہ بند تھا ۔

 مارچ 1910 ء کو پنجاب یونیورسٹی کے فیلو نامزد کیے گئے ۔ لالہ رام پرشاد ، پروفیسر تاریخ ، گورنمنٹ کالج لاہور کے ساتھ مل کر نصاب 2 کی ایک کتاب " تاریخ ہند " مرتب کی جو 1913 ء کو چپ کر آئی ۔ آگے چل کر مختلف اوقات میں اور پینشل اینڈ آرٹس فیکلٹی ، سینیٹ اور سنڈیکیٹ کے ارکان بھی رہے ۔ 1919 ء میں اور مینٹل فیکلٹی کے ڈین بناۓ گئے ۔ 1923 ء میں یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل کی رکنیت ملی ، اسی سال پروفیسر شپ کمیٹی میں بھی لیے گئے ۔ اپنی بے پناہ مصروفیات سے مجبور ہو کر تعلیمی کونسل سے استعفا دے دیا تھا مگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر سر جان مینارڈ نے انھیں جانے نہ دیا ۔ اس طرف سے اتنا اصرار ہوا کہ مر و تا استعفا واپس لے لیا ۔ 

اس دوران میں پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے بھی رکن رہے ۔ میٹرک کے طلبہ کے لیے فارسی کی ایک نصابی کتاب " آئینہ عجم ’ مرتب کی جو 1927 ء میں شائع ہوئی ۔ غرض ، پنجاب یونیورسٹی سے اقبال عملا 1932 ء تک متعلق رہے ۔ 


علامہ اقبال کی سیاسی زندگی


بیسویں صدی کے عشر واول میں پنجاب کی مسلم آبادی ایک مظہر اؤ میں مبتلا تھی ۔ کہنے کو مسلمانوں کے اندر دو سیاسی دھڑے موجود تھے مگر دونوں مسلمانوں کے حقیقی تہذیبی ، سیاسی اور معاشی مسائل سے بیگانہ تھے ۔ ان میں سے ایک کی قیادت سر محمد شفیع کے ہاتھ میں تھی اور دوسراسر فضل حسین بھی اپنے اپنے حمایتیوں کو لے کر پہنچے ، طے پایا کہ پنجاب میں صوبائی مسلم لیگ قائم کی جائے ۔ اس فیصلے پر فوری عمل ہوا ۔ میاں شاہ دین صدر بنائے گئے اور سر محمد شفیع سیکر ٹری حیزل ۔ سر فضل حسین عملا الگ تھلگ رہے ۔

 اقبال ان سب قائدین کے ساتھ دوستانہ مراسم تو رکھتے تھے مگر عملی سیاست سے انھوں نے خود کو غیر وابستہ ہی رکھا ۔ تک متحدہ ہندوستان کے اکثر مسلمان قائدین ، سر سید کے حسب فرمان ، انگریزی حکومت کی وفاداری کا دم بھرتے رہے ، لیکن 1911 اور 1912 ء کے بیچ کے عرصے میں حالات جو ایک ڈھرے پر چلے جا رہے تھے ، اچانک پلٹا کھا گئے ۔ مسلمان سیاست دان بنگال کی تقسیم کے حق میں تھے ، انگریز بھی ایسا ہی چاہتے تھے ، مگر ہندو اس منصوبے کے سخت مخالف تھے ۔ ان کی جانب سے تشدد کی راہ اختیار کی گئی تو انگریزی حکومت نے سپر ڈال دی ۔ تقسیم بنگال کو منسوخ کر دیا گیا ۔ 

اس جھٹکے نے مسلمان قائدین کی آنکھیں کھول دیں اور ان کے گذشتہ انداز فکری کی غلطی ان پر واضح ہو گئی ۔ انھیں اب آ کر احساس ہوا کہ اپنی قومی اور سیاسی زندگی کے تحفظ کے لیے صرف سرکار کی وفاداری پر کمر بستہ رہنا یا انگریزوں کے بناۓ ہوۓ آئینی ذرائع اختیار کیے رکھنا ناکافی اور بے معنی ہے ۔ بقول مولانا شبلی نعمانی تقسیم بنگال کی تنسیخ مسلمانوں کے چہرے پر ایک ایسا تھپڑ مارنے کے مترادف تھی ، جس نے ان کے منہ کا رخ پھیر کر رکھ دیا ۔ تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان ہوا تو تیم فروری ، 1912 ء کو موچی دروازہ لاہور میں مسلمانوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا ، جس میں اقبال بھی شریک ہوۓ ۔ مقررین نے بڑی جذباتی اور جو شیلی تقریر میں کیں ۔ اقبال کی باری آئی تو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا مینار بن کر اٹھے اور فرمایا ، مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پاؤں مارنے چاہیئں ۔ 

ہندوؤں کو اب تک جو کچھ ملا ہے ، محض اپنی کوششوں سے ملا ہے ۔ اسلام کی تاریخ دیکھو وہ کیا کہتی ہے ۔ عرب کے خطے کو اور چین معماروں نے ردی اور بیکار پتھر کا خطاب دے کر یہ کہہ دیا تھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہو سکتی ۔ ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل سے کام لیا تو یہی پتھر دنیا کے ایوان تمدن کی محراب کی کلید بن گیا اور خدا قسم ! روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی ، یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بل پر کھڑی ہوئی ۔ اس تقریر سے مجمع میں رواں دواں لھاتی اور بے جہت جوش و خروش اپنی قوم کے زندہ تشخص کے لیے درکار ایک بامعنی قوت میں بدل گیا جوا بھی محدود تھی مگر آگے چل کر اسے وسعت پڑنی تھی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسلمانوں کے چند حلقوں میں بیداری کے آثار پیدا ہو چلے تھے ۔ مگر اس بیداری کے مراکز ایک دوسرے سے لا تعلق جھوٹے چھوٹے جزیروں کی طرح بے ہوئے تھے ۔ 

متفقہ ملی قیادت میسر نہیں تھی ۔ نتیجہ مسلمانوں کے اندر متحدہ ہندی قومیت کا رجحان پیدا ہو چلا تھا ۔ مسلم لیگ اور ہندو کانگریس کے اجلاس ساتھ ساتھ ہونے لگے تھے ۔ ابھی اقبال عملی سیاست سے الگ تھے مگر مسلم قومیت کے اس اصول پر پوری طاقت کے ساتھ قائم تھے جو ان پر قیام انگلستان کے زمانے میں منکشف ہوا تھا ۔ یورپ سے والی کے بعد 1914 ء تک کا زمانہ اقبال کی بنیادی فکر کی تشکیل و تکمیل کا زمانہ ہے ۔ یورپ میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی ۔

 

اس کے اثرات ہندوستان میں بھی نمایاں ہوۓ ۔ انگریزی حکومت کا رویہ سخت سے سخت تر ہوتا گیا جو جنگ کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہا ۔ انگریزی حکومت کے خلاف تحریکوں نے زور پکڑ لیا تھا ۔ اپریل 1919 ء کوامر تسر شہر کے جلیانوالہ باغ میں ایک احتجاجی جلسہ کیا گیا ۔ رسوائے زمانہ حنزل ڈائر نے لوگوں کو گھیرے میں 13 لے کر اندھادھند فائرنگ کروائی اور سیکڑوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ گو کہ اقبال نے اس زمانے میں خانہ نشینی اختیار کر رکھی تھی لیکن اس حادثے کی دھمک ان کے دل تک بھی پہنچی ۔ انھوں نے مرنے والوں کی یاد میں یہ اشعار کہے ۔


 ہر زائر چین سے یہ کہتی ہے خاک پاک

 غافل نہ رہ جہان میں گردوں کی چال سے


 سینچا گیا ہے خون شہیداں سے اس کا تخم

 تو آنسوؤں کا نخل نہ کر اس نہال سے 


عبدالمجید سالک اپنی کتاب " ذکر اقبال میں تحریر کرتے ہیں : اب پورا ملک بلا امتیاز مذہب و ملت احتجاج اور تنفر کا ہنگامہ زار بن رہا تھا ۔ مسلمانوں کے دلوں پر جلیانوالہ باغ اور پنجاب کے مظالم سے بھی زیادہ گہراچر کاتر کی کی شکست سے لگ چکا تھا جس کی وجہ سے خطرہ تھا کہ ترکان آل عثمان کی آزادی و خود مختاری خاک میں ملا دی جائے گی خلافت اسلامیہ کی مسند کے گرو فرنگی گرہ منڈ لارہے تھے ۔

اسی سال ستمبر کے مہینے میں مولانا محمد علی جوہر چار سالہ نظر بندی کاٹ کے آل انڈیا مسلم کا نفر نس کے اس مشہور احتجاجی جلسے میں شرکت کے لیے لکھنو پہنچے جس میں خلاف کا نفرنس کا قیام عمل میں آیا ۔ خلافت کا نفرنس کی تشکیل سے مسلمانوں نے بڑی امید میں باندھ رکھی تھیں مگر بد قسمتی سے آگے چل کر اس نے کانگریس سے اتحاد کر لیا اور اس کے لیڈروں نے گاندھی کو اپنا قائد مان لیا ۔ اقبال صوبائی خلافت کمیٹی کے رکن تھے لیکن حالات کی اس تبد یلی نے ان کا قائد ین خلافت سے شدید اختلاف پیدا کر دیا ۔ وجہ اختلاف دو باتیں تھیں ، اول میں کہ اقبال اس حق میں نہ تھے کہ خلافت وفد مذاکرات کے لیے انگلستان جاۓ ، وہ اسے انگریز کی چال سمجھتے تھے ۔

 دوم یہ کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر عدم تعاون کی تحریک چلانے کو مسلمانوں کے لیے مضر خیال کرتے تھے کیونکہ کسی قابل قبول ہند و مسلم معاہدے کے بغیر محض انگریز دشمنی کی مشتر کہ بنیاد پر متحد و قومیت کا ناقص تصور مسلمانوں کی جداگانہ ملی حیثیت کو ختم کر دے گا ۔ یہ اختلافات حل نہ ہوئے تو اقبال صوبائی خلافت کمیٹی سے الگ ہو گئے ۔ اقبال کی بصیرت نے بھانپ لیا تھا کہ خود خلافت عثمانیہ کا مستقبل مخدوش ہے لہذا مسلمان اقوام کے ملی اتحاد کی بنیاد اس کی بجاۓ کسی اور اصول پر رکھنی چاہیے ۔ اپریل ، 1922 ء کو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں اقبال نے اپنی طویل نظم " خضر راہ ’ ’ سنائی ۔ عبدالمجید سالک وہاں موجود 16 تھے ۔

n

 وہ لکھتے ہیں کہ : ایک تو اس نظم میں اقبال کے شاعرانہ تخیل اور بد بیع اسلوب کا جمال پوری تا بانیوں کے ساتھ جلوہ گر تھا اور ایک ایک شعر پر ارباب ذوق سلیم وجد کر رہے تھے ، دوسرے اس میں علامہ نے جنگ عظیم کے سلسلے میں فاتح اقوام کی دھاندلی ، ان کی اہلیسانہ سیاست ، سرمایہ داری کی عیاری ، مزدور کی بیداری عالم اسلام خصوصیاتر کان آل عثمان کی بے دست و پائی پر موثر اور بلیغ تبصرہ کیا ہے اور اسی سلسلے میں نسلی قومیت اور امتیاز رنگ و خون کے خیالات پر بھر پور چوٹ کی ہے ۔ 

جنوری 1923 ء کو اقبال کر سر کا خطاب ملا ان کے پرانے دوست میر غلام بھیک نیرنگ نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اب آپ شاید آزادی اظہار سے کام نہ لے سکیں تو اقبال نے جواب میں تحریر کیا کہ ، میں آپ کو اس اعزاز کی اطلاع خود دیتا مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے والے ہیں ، اس دنیا میں اس قسم کے واقعات احساس سے فروتر ہیں ۔ سیکڑوں خطوط اور تار آۓ اور آ رہے ہیں اور مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ لوگ ان چیزوں کو کیوں گراں قدر جانتے ہیں ۔ باقی رہاوہ خطرہ جس کا آپ کے قلب کو احساس ہوا ہے ۔ سو قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جس کی وجہ سے مجھے خدا پر ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں ، دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی ۔

 ان شاء اللہ ۔ مارچ 1923 ء کو انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال نے اپنی معروف نظم طلوع اسلام ” پڑھی ۔ یہ نظم یونانیوں پر ترکوں کی فتح 30 کے واقعے پر لکھی گئی تھی ۔ نظم کیا ہے ، مسلمانوں کے روشن مستقبل کا پیغام ہے۔ 


دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی

 افق سے آفتاب ابھرا گیا اور گراں خوابی


 خلافت کا نفرنس نے بر صغیر کے مسلمانوں کے جذبات ابھار کر انھیں اس طرح اپنی گرفت میں لے رکھا تھا کہ مسلم لیگ کا وجود آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ۔ ۱۹۴۴ ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی لگاتار کو ششوں سے اس کا احیاء ہوا ۔ ادھر پنجاب میں بھی مسلم سیاست بحران کا شکار تھی ۔ مسلمانوں کے اندر شہری اور دیہاتی جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا جس نے یونینسٹ پارٹی کو جنم دیا ۔ 1923 ء کے صوبائی انتخابات کے موقع پر اقبال سے اصرار کیا گیا کہ لیجسلیٹو کونسل کا الیکشن لڑیں مگر انھوں نے انکار کر دیا کیونکہ ان کے قریبی دوست میاں عبدالعزیز بیرسٹر اسی حلقے سے اپنی امیدواری کا اعلان کر چکے تھے جو اقبال کے لیے تجویز کیا جارہا تھا ۔ اقبال حسب معمول وکالت میں مصروف تھے کہ 1926 ء آ گیا ۔ اس سال پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے دو بار انتخابات ہونے تھے ۔ دوستوں نے پھر زور ڈالا ۔ اس مرتبہ میاں عبدالعزیز نے بھی کہہ دیا کہ وواقبال کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں گے بلکہ ان کی مد و کمرے میں گئے ۔ اس بار اقبال مان گئے ۔ 

امید واری کا با قاعدہ و اعلان چھاپ دیا گیا ۔ الیکشن ہوئے ، ظاہر ہے کہ اقبال ہی کو کامیاب ہو تا تھا ۔ کو نسل کے اندر یونینسٹ پارٹی اکثریت میں تھی ۔ اس کی قوت کو مسلمانوں کے قومی مفاد میں استعمال کرنے کے لیے اقبال یو نینسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے مگر جب اس جماعت کی ناقابل اصلاح خرابیاں مشاہدے میں آئیں تو اقبال نے علیحدگی اختیار کر لی ۔ باقی مدت ایک تنہار کن کی حیثیت سے گزار دی۔اسی سال پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے سیکر ٹری بنائے گئے جس سے بر صغیر ی مسلم سیاست کا دروازوان پر کھل گیا ۔ 

اب اقبال عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھ چکے تھے ۔ ہندوؤں کی طرف شدھی اور سنگھٹن کی رسوائے زمانہ تحریکوں کا زور تھا جس کی وجہ سے قدم قدم پر ہندو مسلم فسادات ہو رہے تھے ۔ ان فتنوں کا تدارک کرنے کے لیے مسلمانوں میں بھی مختلف تبلیغی مشن بنائے جارہے تھے ۔ غلام بھیک نیرنگ نے ایسی ہی ایک جماعت کی مدد کے لیے لکھا تو علامہ نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوۓ تحریر کیا میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پر مقدم ہے ۔ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظت اسلام اس مقصد کا عنصر نہیں ہے جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے رونے سے معلوم ہوتا ہے ، تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے ۔ دیکھنے میں تو یہ سیدھے سادے دو جملے ہیں مگر علامہ کے اس ارشاد میں تحریک پاکستان کا جوہر کا یا ہوا ہے ۔

 جنوری 1929 ء کو اقبال دہلی سے جنوبی ہند کے دورے پر روانہ ہو گئے ۔ وہاں الهیات اسلامیہ کی نئی تشکیل کے موضوع پر مدراس ، 2 میسور ، بنگلور اور حیدرآباد دکن میں خطبات دیے ۔ جنوری کے آخر میں لاہور واپس پہنچ گئے ۔ ر ہی میں افغانستان کے ساتھ اقبال کے عملی تعلق کی ابتدا ہوئی ۔ 17 جنوری 1929 ء کو بچہ سقہ نے امیر امان اللہ خان والی 1929 افغانستان کو ملک بدر کر کے کابل پر قبضہ کر لیا ۔ پوراملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا ۔ آخر حنزل نادر خان بچہ سقا کی سرکوبی کے لیے اٹھ کھڑے ہوۓ ۔ اقبال انھیں جانتے تھے ۔ علامہ نے مختلف ذرائع سے ان کی مدد کی ۔

 حنزل نادر خان کو مالی امداد فراہم کرنے کے لیے اقبال نے بر صغیر کے مسلمانوں کے نام ایک اپیل شائع کی جسے دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج ہم بھی اس کے مخاطب ہیں ، کہ اس وقت اسلام کی ہزار ہا مربع میل سر زمین اور لاکھوں فرزندان اسلام کی زندگی اور ہستی خطرے میں ہے اور ایک درد مند اور غیور ہمسایہ ہونے کی حیثیت سے مسلمانان ہند پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کو باد فنا کے آخری طمانچے سے بچانے کے لیے جس قدر دلیرانہ کوشش بھی ممکن ہو کر گزریں ۔ فلسطین میں یہودیوں بڑھتے ہوۓ پر تشدد غلبے اور خاص طور پر مسجد اقصی پر ان کے ناپاک قبضے کے خلاف ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے احتجاجی جلسے ہو رہے تھے ، 7 ستمبر 1929 ء کو اقبال کی صدارت میں ایسا ہی ایک عظیم الشان جلسہ ہوا ۔ 

اقبال نے اپنے خطبے میں فرمایا ، کہ یہ بات قطعا غلط ہے کہ مسلمانوں کا ضمیر حب وطن سے خالی ہے ۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ جب وطن کے علاوہ مسلمانوں کے دل میں دینیت و محبت اسلام کا جذبہ بھی برابر موجود رہتا ہے اور یہ وہی جذبہ ہے جو ملت کے پریشان اور منتشر افراد کو اکٹھا کر دیتا ہے اور کر کے تھوڑے گا اور ہمیشہ کر تا رہے گا ... 1914 ء میں انگریز مدریزوں نے اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے یہودیوں کو آہ کار بنایا ، صہیونی تحریک کو فروغ دیا اور اپنی غرض کی تکمیل کے لیے جو ذرائع استعمال کیے ان میں ایک کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔ یہودی مسجد اقصی کے ایک حصے کے مالکانہ تصرف کا دعوی کر رہے ہیں۔انھوں نے آتش فساد مشتعل کر رکھی ہے ۔ مسلمان ، ان کی عورتیں اور بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جارہے ہیں ... اب حکومت برطانیہ نے فلسطین میں تحقیقات حالات کے لیے ایک کمیشن بھیجنا منظور کیا ہے مگر میں اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتماد نہیں ۔

 1930 ء کا سال پاکستان اور اقبال ، دونوں حوالوں سے ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ دسمبر کی انتیسو میں تاریخ کو الہ آباد کے شہر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا ۔ قائداعظم پہلی گول میز کا نفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے ہوۓ تھے ۔ آپ کے ارشاد کے مطابق اس اجلاس کی صدارت اقبال کو کرنی تھی ۔ یہیں انھوں نے وہ تاریخ ساز خطبۂ صدارت دیا جو خطبہ الہ آباد کے نام سے مشہور ہوا ۔ اس خطبے میں پہلی مرتبہ ہندوستان کے اندر ایک آزاد مسلم ریاست کا ٹھوس اور غیر مبہم خاکہ پیش کیا گیا ۔ بر طانوی حکومت نے دوسری گول میز کانفرنس میں اقبال کو بھی مدعو کیا ۔

 لندن جانے کے لیے 8 ستمبر 1931 ء کو لاہور سے روانہ ہوۓ ۔ اگلی صبح و بلی پہنچے ۔ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہزاروں کا مجمع استقبال کو موجود تھا ۔ ستمبر 1931 ء کو بمبئی پہیے ۔ اگلے روز وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے انگلستان کے لیے روانہ ہو گئے اور 27 ستمبر کو لندن پہنچ گئے ۔ 10 ویسے تو اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہونے گئے مگر انگلستان میں ان کی علمی اور ادبی شہرت نے جو سیاسی شہرت سے کہیں بڑھی ہوئی تھی ، ان کی مصروفیات کو دو حصوں میں بانٹ دیا ۔ کا نفرنس کی ابتدا ہی سے کچھ ایسے آثار رونما ہونے شروع ہوۓ کہ اقبال بد ول ہو گئے ۔ پکچھ اجلاسوں میں ایک انداز لا تعلقی کے ساتھ شریک رہے مگر جب کسی بھی مثبت نتیجے سے بالکل مایوسی ہو گئی تو بالاخر 19 نومبر 1931 ء کو مسلمان وفد سے الگ ہو کر اس کا نفر نس سے علانیہ کنارہ کش ہو گئے ۔ اب لندن میں مظہر نا بیکار تھا ۔ مولا نا غلام رسول مہر کو ساتھ لے کر 22 نومبر کی رات روم پہنچے ۔

 مارچ 1932 ء کو لاہور میں اقبال کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم کا نفرنس کا اجلاس ہوا ۔ اقبال نے مخطبہ صدارت پڑھا ، جس میں 21 انھوں نے دوسری گول میز کانفرنس کا ماجرا سنایا ، اس زمانے کے اہم سیاسی مسائل کا گہرا جائزہ لیا اور مستقبل کی تعمیر کے امکانات پر نظر ڈالی ۔ یہ خطبہ ہر لحاظ سے بہت اہم ہے ۔ اسے نظر انداز کر کے بر صغیر کی مسلم تاریخ کے جوہر کو نہیں سمجھا جا سکتا ۔ ء کے آخر میں برطانوی حکومت کی طرف سے لندن میں تیسری گول میز کا نفرنس کا اہتمام کیا گیا ۔ اقبال اس مرتبہ بھی بلاۓ گئے ۔ 1932 17 اکتوبر 1932 ء کو انگلستان روانہ ہوۓ ۔ 300 دسمبر تک وہیں رہے ۔

 اقبال نے پھر کا نفرنس میں کوئی دلچسپی نہ لی ، کیوں کہ اس میں اٹھائے گئے بیشتر مباحث وفاق سے متعلق تھے ، جس سے اقبال کوئی سروکار نہ رکھتے تھے ۔ وہ تو ہندوستان کے اندر صوبوں کی ایسی خود مختاری کے قائل تھے جس میں مرکزی حکومت نام کی کوئی شے موجود نہ ہو بلکہ صوبوں کا براہ راست تعلق لندن میں بیٹھے ہوئے وزیر ہند سے ہو ۔ بر صغیر میں مسلم سیاسی جماعتیں سخنٹ انتشار اور افتراق میں مبتلا تھیں ۔ اپنا اپنا راگ الاپا جا رہا تھا ۔ مسلمانوں کے قومی مستقبل کا مسئلہ عماا فراموش کیا جا چکا تھا ۔ قائد اعظم مایوس ہو کر لندن جاچکے تھے ، یہ سب دیکھنے اور گڑ ھنے کو ایک اقبال رہ گئے تھے ، لیکن قدرت کو مسلمانوں کی بہتری منظور تھی ، اقبال اور دوسرے مفلسوں کے اصرار پر قائد اعظم ہندوستان واپس آ گئے اور 4 مارچ 1934 ء کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوۓ ۔ لیگ کے تن مردہ میں جان پڑ گئی اور بر صغیر کے مسلمانوں کے دن پھر نے کا آغاز ہو گیا ۔ مئی 1936 ء کو حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اقبال سے ملنے جاوید منزل " تشریف لائے ۔

 آپ نے اقبال کو مسلم لیگ کے 6 مرکزی پارلیمانی بورڈ کا رکن بننے کی دعوت دی جسے اقبال نے اپنی شدید علالت کے باوجود بخوشی قبول کر لیا ۔ مئی کو اقبال دو بارہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر مقرر ہوئے ۔ آپ کی تعلیمات اور قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہو 12 گیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا ۔


علامہ اقبال کی تصانیف 


صرف اولین اشاعتوں کے سنیں دیے گئے ہیں ۔


 کلیات اقبال


علامہ اقبال کی نثری تصنیف


 علم الاقتصاد - 1903


  علامہ اقبال کی فارسی شاعری تصانیف

 اسرار خودی - 1915 ء 

رموز بے خودی – 1917 ء 

پیام مشرق - 1923 ء

 زبور عجم - 1927 ء 

جاوید نامہ - 1932 ء

 مسافر - 1936 ء

 پس چہ باید کرداے اقوام شرق - 1931 ء 


 علامہ اقبال کی اردو شاعری کی تصانیف


مہدف مقاله : اردو شاعری

 بانگ درا - 1924

 بال جبریل – 1934

 ضرب کلیم - 1936

 فارسی + اردو شاعری ارمغان حجاز - 1938


 علامہ اقبال کی انگریزی تصانیف


 فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء - 1908 

 اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو - 1930 ء


علامہ اقبال کی وفات 


علامہ محمد اقبال 21 اپریل 1938 ء بمطابق ۲۰ ، صفر المصفر ۱۳۵۷ ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث خالق حقیقی سے جاملے۔ علامہ اقبال کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا ۔

آپ کا مزار لاہور بادشاہی مسجد کے احاطے میں ہے۔