اقبال کے تصورِ خودی کے مراحل اور اشعار کی تشریح

admin

اقبال کے تصورِ خودی کے مراحل اور اشعار کی تشریح

 

اقبال کے تصورِ خودی کے مراحل اور اشعار کی تشریح


اقبال کا تصور خودی

 محمد اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ” خودی “ کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انہوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے ۔ اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے ۔ انسان کیا ہے ؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے ؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے ؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیا ہے ؟ اس طرح کے اور جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سر گرداں رہا ہے ۔ اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے ۔ اردو شاعری میں اقبال سے پہلے غالب نے بھی اٹھائے تھے ۔


 جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

 پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے 

سبز دو گل کہاں سے آئے ہیں

 ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

 لیکن اقبال کے سوالات و جوابات کی نوعیت اس سلسلے میں غالب سے بہت مختلف ہے ، یہ غالب نے " عالم تمام حلقہ دام خیال ہے " اور ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے ۔ " کے عقیدے سے قطع نظر کر کے ، وجدانی طور پر ایک لمحے کے لیے محسوس کیا ہے اسے بیان کر دیا ہے اقبال نے ان سوالوں کے جواب میں دلائل وب رہان سے کام لیا ہے ۔ اور اسے ایک مستقل فلسفہ حیات میں ڈھال دیا ہے ۔


 اگر کوئی که من و تام و گمان است 

نمودش چون نود این و آن است


 یہی فلسفہ حیات ہے جو بعض عناصر خاص سے ترکیب پا کر اقبال کے یہاں مغرب و مشرق کے حکمائے عبد بید سے بالکل الگ ہو گیا ہے اس کا نام فلسفہ خودی ہے اور اقبال اس کے مفسر و پیغامبر ہیں ۔ اس فلسفے میں خدا بیٹی خود بینی لازم و ملزوم ہیں ۔ خود بینی ، خد امنی میں سے خارج نہیں بلکہ معاون ہے ۔ خودی کا احساس ذات خداوندی کا ادراک اور ذات خداوندی کا ادراک خودی کے احساس کا اثبات و اقرار ہے ۔ خدا کو فاش تر دیکھنے کے لیے خود کو فاش تر دیکھنا از بس ضروری ہے ۔

 اقبال کا تصور خودی


 تصور خودی کو اقبال کے فلسفہ حیات و کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ اگر خودی کے تصور کو سمجھ لیا جاۓ تو اقبال کی شاعری کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے اقبالیات کے ہر نقاد نے خودی پر کسی نہ کسی شکل میں اظہار خیال کیا ہے ۔ ڈاکٹر سعی د عبد اللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں ۔ خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے ۔ خودی عشق کے مترادف ہے ۔ خودی ذوق تسخیر کا نام ہے ۔ خودی سے مراد خود آگاہی ہے ۔ خودی ذوق طلب ہے ۔ خودی ایمان کے مترادف ہے ۔ خودی سر چشمہ عبدت و ندرت ہے ۔ خودی یقین کی گہرائی ہے ۔ خودی سوز حیات کا سر چشمہ ہے اور ذوق تخلیق کا ماخذ ہے ۔


اقبال کے ہاں خودی سے مراد

 خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے درج ذیل معانی رکھتا ہے ) انانیت ۲ ) خود پرستی ۳ ) خود مختاری ۴ ) خودسری ۵ ) خودرائی ۲۲ ) خود غرضی ۷ ) نخوت ، تکبر ۸ ) اپنے اوپر بھر پور بھروسہ کرتے ہوئے سب کچھ حاصل کر لینا خودی کا لفظ اقبال کے پیغام یا فلسفہ حیات میں تکبر و غرور یا اردو فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا ۔ خودی اقبال کے نزدیک نام ہے احساس غیرت مندی کا ، جلد بہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا ، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا ، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا ، مظاہرات فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہار اتلاش کرنے کی بجاۓ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے ” خودی " زندگی کا آغاز ، وسط اور انجام کبھی کچھ ہے فرد وملت کی ترقی و تنزل ، خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے ۔ خودی کا تحفظ ، زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام ، زندگی کا استحکام ہے ۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے ۔ اس کی کامرانیاں اور کار کشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلند یاں بے کنار ہیں ۔ اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نئے انداز میں کیا ہے ۔


 خودی کیا ہے راز دوران حیات 

خودی کیا ہے بیدار کی کائنات

 ازل اس کے پیچھے ابد سامنے 

شد حداس کے پیچھے نہ حد سامنے

 زمانے کی دھارے میں بہتی ہوئی

 ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی

 ازل سے ہے ۔ ۔ ی تلاش میں اسیر

 ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر

 خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے 

فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے

 کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لا الہ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے توحید ، خودی کی تلوار کو آب دار بناتی ہے اور خودی ، توحید کی محافظ ہے ۔


 خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ 

خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ 


کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے ۔ قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے ۔ خودی از ند اور پائند ہ ہو تو فقر میں شہنشائی کی شان پیدا ہو جاتی ہے ۔ اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تصرف میں آ جاتا ہے ۔


 خودی ہے زندہ تو ہے فقر میں شہنشاہی

 ہے سنجرل و طغرل سے کم شکوہ فقیر

 خودی ہو زند و تو دریائے بیکراں پایاب

 خودی ہو زند و تو کہسار پر نیاں و حریر 


ڈاکٹر افتخار صدیقی فروغ اقبال میں اقبال کے نظریہ خودی کے بارے میں رقمطراز ہیں ۔

نظریه خودی ، حضرت علامہ اقبال کی فکر کا موضوع بنارہا ۔ جس کے تمام پہلوئوں پر انہوں نے بڑی شرح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔ اقبال نے ابتداء ہی میں اس بات کو واضح کر دیا کہ خودی سے ان کی مراد غرور و نخوت ہر گز نہیں بلکہ اس سے عرفان نفس اور خود شناسی چنانچہ اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں لکھتے ہیں ، ہاں لفظ ” خودی " کے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی " غرور " استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعین ذات ہے ۔ تقریبا یہی مفہوم اقبال کے اس شعر میں ادا ہوا ہے ۔


 خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں 

جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں 

اقبال کے تصور خودی میں صوفیانہ فکر کے بیشتر عناصر ملتے ہیں لیکن صوفیوں کی خودی کا تصور روحانی ہوتا ہے ان کی روحانی انا اس درجہ مقام ہے کہ وہ مادی خودی کو وجود مطلق کا جز قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ اقبال خودی کے مادی لوازم کو نظر انداز نہیں کرتے اور اس مادی خودی کو بھی بر حق اگرچہ تغیر پزیر جانتے ہیں ، صوفی وجود اور خودی کو تسلیم کر لینے کے بعد فناۓ خودی میں اپنی نجات سمجھتا ہے ۔ اس کی پوری کو شش ہوتی ہے کہ اس خودی کو بے خودی میں بدل دے تا کہ وہ اپنی اصل سے مل جاۓ ۔ صوفی اسے ترک خود یا نمی خود کے نا م سے یاد کرتے ہیں جبکہ اقبال عارضی خودی کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں اور بے خودی تک پہنچنے کے لیے خودی کو ہی ذرایہ اور وسیلہ بناتے ہیں ۔ 


اقبال کے تصور خودی کے ماخذ 


اقبال کے تصور خودی کا ماخذ ڈھونڈنے کے لیے نقادوں نے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کیں ۔ اس سلسلے میں نطشے ، برگساں ، ہیگل اور لائڈ ماتھر و غیر و کا نام لیا گیا ۔ جبکہ خود اقبال نے اس قسم کے استفادے سے انکار کیا ۔ خلیفہ عبدالحکیم کے خیال میں اقبال نطشے سے نہیں فٹے سے متاثر تھے ۔ کیونکہ نطشے تو منکر خدا ہے ۔ اقبال کو نطشے کی تعلیم کا وہی پہلو پسند ہے جو اسلام کی تعلیم کا ایک امتیازی عنصر ہے ۔ اگرچہ ” اسرار خودی کے اکثر اجزاء فلسفہ مغرب سے ماخوذ ہیں اور یہاں مسلمان فلسفیوں کے خیالات بہت کم ہیں لیکن اسلامی تصوف میں عشق کا نظریہ اقبال نے مولانا روم سے لیا ہے ۔ اور اقبال کی شاعری کا انقلاب انگیز پیغام در اصل روی کے فیض کا نتیجہ ہے ۔

اس بارے میں عبد السلام ندوی لکھتے ہیں کہ ، خودی کا تصور ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ کی اساس ہے اور اسی پر ان تمام فلسفیانہ خیالات کی بنیاد ہے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ پور پین فلسفہ بالخصوص نطشے سے ماخوذ ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تخیل کو ڈاکٹر صاحب نے مولا ناروم سے اخذ کیا ہے ۔ بقول خلیفہ عبدا تحکیم ، روی انفرادی بقاء کا قائل ہے اور کہتا ہے کہ خدا میں انسان اس طرح محو نہیں ہو جاتا جس طرح کہ قطرہ سمندر میں محو ہو جاتا ہے ۔ بلکہ ایسا ہوتا ہے جیسے کہ سورج کی روشنی میں چراغ جل رہا ہے جیسے لوہا آگ میں پڑ کر آگ ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی انفرادیت باقی رہتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ خودی کے لیے بھی یہی نظریہ مناسب تھا اس لیے انہوں نے اس کو مولانا روم سے اخذ کیا ہے ۔ اس سے یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب کے فلسفے کی اپنی کوئی حیثیت نہیں بلکہ ان کے فلسفہ خودی کے تمام اساسی مضامین در حقیقت قرآن سے ماخوذ ہیں ۔

خودی اور فطرت 


اقبال کے نزدیک خودی اپنی تکمیل اور استحکام کے لیے غیر خودی سے ٹکراتی ہے جس نسبت سے کوئی شے خودی میں مستحکم اور غیر خود پر غالب ہے اسی نسبت سے اس کا درجہ مدارج حیات میں نفیس ہوتا ہے ۔ مخلوقات میں انسان اس لیے برتر ہے کہ اس کی ذات میں خودی ہے ۔ اور اس خودی سے فطرت انسانی مشاہدہ کی پابند ہے ۔ اقبال کہتا ہے کہ خودی کی منزل زمان و مکاں کی تسخیر پر ختم نہیں ہوتی شاعر کا چشم تخیل انسان کی جد و جہد و عمل کے لیے نئے نئے میدان دکھاتا ہے ۔ 


خودی کی یہ ہے منزل اولیں 

مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں 

تری آگ اس خاکداں سے نہیں

 جہاں مجھ سے تو جہاں سے نہیں


 خودی اور عشق


 خودی کو آگے بڑھانے میں ایک چیز بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ اقبال نے اسے بھی آرزواور بھی عشق کا نام دیا ہے ۔   خودی میں 

عشق سب سے بڑا محرک ثابت ہوتا ہے 

 عشق سے پید انواۓ زندگی میں زیر و بم

 عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بدم 

اقبال نے عشق کے کئی مدارج بیان کیے ہیں 

 عشق فقیه حرم ، عشق امیر جنود 

عشق ہے ابن اسمبیل ، اس کے ہزاروں مقام 


چنانچہ کہیں عشق جمالی صورت اختیار کر لیتا ہے اور کہیں جلالی رنگ میں جھلک دکھاتا ہے ۔


 عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات

 عشق سے نور حیات عشق سے نارحیات


 ڈاکٹر عابد حسین ” خودی اور عشق کا راستہ واضح کرتے ہوۓ اپنے مضمون ' اقبال کا تصور خودی میں لکھتے ہیں ، اس راہ میں ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور وہ رہنما عشق ہے عشق اس مرد کامل کی محبت کو کہتے ہیں جو معرفت نفس کے مدارج سے گزر کر خودی کی معراج پر پانچ چکا ہے ۔


 مرد خدا کا عمل ، عشق سے صاحب فروغ 

عشق سے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام


 خودی اور فقر 

طلب و ہدایت کے لیے کسی مرد کامل کے آگے سر نیاز جھکانات خودی کو مستحکم کر تا ہے ۔ لیکن مال و دولت و منصب کے لیے دست نگر ہو نا اس ضعیف بناتا ہے ۔ گدائی صرف اسی کا نام نہیں کہ مفلس دولت مند کا طفیلی بن جاۓ بلکہ دولت جمع کرنے کا ہر وہ طریقہ جس میں انسان

محنت نہ کرے بلکہ دوسروں کی محنت سے فائدہ اٹھاۓ اقبال کے نزدیک گدا گری ہے ۔ حتی کہ بادشاہ جو غریبوں کی کمائی پر بسر کرتا ہے سوال و گدا گری کا مجرم ہے ۔


 میکدے میں ایک دن ایک مرد زیرک نے کہا

 ہے ہمارے شہر کا سلطان گدائے بے نوا 

اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی

 دینے والا کون ہے مرد غریب و بے نوا


 گدائی اور فقر میں زمین و آسمان کا فرق ہے گدائی مال کی حاجت میں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے جبکہ فقر مادی لذتوں سے بے نیاز کائنات کی تسخیر کرنا ، فطرت پر حکمرانی اور مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلانا ہے ۔


 ایک فقر سکھاتا ہے صیاد کو تھمچری 

اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری 

اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری

 اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری 

تربیت خودی کے تین مراحل 


خودی سے تعمیری کام لینے کے لیے اس کی تربیت ضروری ہے بے قید و بے ترتیب خودی کی مثال شیطان ہے ۔ اقبال بھی گوئٹے کی طرح اسے تخلیق کی عظیم الشان قوت سمجھتے ہیں جو صراط مستقیم سے بھٹک گئی ہے ۔ خودی کی منازل کے علاوہ تربیت خودی کے مراحل انتہائی اہم ہیں یہ مراحل تین ہیں ۔


 اطاعت الہی : اقبال کے نزدیک خودی کا پہلا درجہ اطاعت ہے یعنی کہ اللہ کے قانون حیات کی پابندی کر نا ۔


 ضبط نفس : دوسرا درجہ ضبط نفس سے انسان نفس کو جس کی سرکشی کی کوئی حد نہیں قابو میں لائے ۔ نیابت الی ان دونوں مدارج سے گزرنے کے بعد انسان اس درجے پر فائز ہو جائے گا ۔ جسے انسانیت کا اوج کمال سمجھنا چاہیے ۔ یہ نیابت الہی کا درجہ ار تقاۓ خودی کا بلند ترین نصب العین ہے ۔ 


خودی اور خدا کا تعلق 


طالب خودی " مرد خدا " کی محبت اس قدر برتر اور سر شار ہوتی ہے اور کیف و سرور کی وجہ سے خدا کی اتنی محبت اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ خودی کے کل مراحل طے کرنے کے باوجود اپنے آپ کو نا تمام محسوس کرتا ہے اسی کشش کا نام عشق حقیقی ہے ۔ 

عشق بھی ہو حجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں

 یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

 تو ہے محیط بیکراں ، میں ہوں ذرا سی آب جو

 یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر

 متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزومندی 

مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی


بند گی میں انسان کو سکون ملتا ہے بحر حال یہ جدائی انسان کے لیے مبارک ہے کیونکہ یہی خودی وجہ حیات ہے ۔


 مجموعی جائزہ 


الفرض خودی کا تصور اقبال کی شاعری کا بنیادی تصور ہے جس کے بغیر ہم اقبال کی شاعری کا تصور بھی نہیں کر سکتے یہ اقبال کے فلسفہ حیات کی بنیادی اینٹ ہے خودی کا لفظ اقبال نے غرور کے معنی میں استعمال نہیں کیا بلکہ اس کا مفہوم احساس نفس یا اپنی ذات کا تعین ہے یہ ایک چیز یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ۔ ہے ، جس کے بارے میں احادیث میں بھی موجود ہے ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال ہمیں اپنی ذات کے عرفان کا جو درس دے رہے ہیں وہ دراصل اپنے رب کو پہچاننے کی تلقین کا دوسرا نام ہے ۔ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے