مرزا غالب کی شخصیت اور مرزا غالب کی شاعری کی خصوصیات

admin

مرزا غالب کی شخصیت اور مرزا غالب کی شاعری کی خصوصیات

 

 مرزا غالب کی شخصیت اور مرزا غالب کی شاعری کی خصوصیات


غالب کے حالاتِ زندگی


غالب کی سوانح جس زمانے میں مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹمار ہا تھا اور مشرقی تہذیب کا آفتاب غروب ہونے کو تھا اس وقت شعر و ادب کی دنیا میں چند ای شمعیں روشن ہوئیں جنہوں نے آنکھوں کو خیرہ کر دیا ۔ مرزا اسد اللہ خان غالب اس عہد کے سب سے نامور شاعر ہیں ۔ ان کے دم سے اردو شاعری کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا ۔ پر و فیسر آل احمد سرور کے قول کے مطابق " غالب سے پہلے اردو شاعری دل والوں کی دنیا تھی ، غالب نے اسے ذہن دیا ” انھوں نے غزل میں نئے موضوعات اور نئے مضامین داخل کر کے اس کا دامن وسیع کر دیا ۔ مرزا اسد اللہ خان نام اور غالب تخلص تھا ۔ 1796 ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے

۔

 مشہور محقق مالک رام نے " تذ کرہ ماہ و سال " میں غالب کی تاریخ پیدار ش 27 دسمبر 1797 ء بمطابق 8 رجب 1212 ھ لکھی ہے اور یوسف حسین خان بھی “ غالب اور آھنگ غالب " میں ان کی تاریخ ولادت 27 دسمبر 1797 ء بتاتے ہیں ۔ جبکہ رام بابو سکینہ " تاریخ ادب اردو میں مرزا کا سال ولادت 1796 ء قرار دیتے ہیں ۔ مرزا غالب کا خاندانی سلسلہ بقول رام بابو سکینہ " ابیک تر کمانوں ، جو وسط ایشیا کے رہنے والے تھے ، سے ملتا ہے جو اپنے آپ کو سلاطین سلجوقی کی وساطت سے فریدوں کی نسل میں سمجھتے تھے ۔

 مرزا کے دادا سب سے پہلے ہندوستان آئے اور شاہ عالم بادشاہ کے دربار میں عزت پائی ۔ غالب کے والد عبداللہ بیگ خان نے ایک متلون زندگی بسر کی ۔ کچھ دنوں دربار اور ان میں رہے پھر حید رآ باد آ گے جہاں نواب نظام علی خان بہادر کی سرکار میں 300 سوار کی حمیت میں ملازم رہے ۔ کئی برس بعد گھر آۓ اور الور کے راجہ بختاور سنگھ کی ملازمت اختیار کی اور یہاں کسی سرکش گھڑی کی لڑائی میں مارے گئے ۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان کے بیان کے مطابق دو راجگڑ ھ میں ہی دفن ہوئے جس کا ذکر بقول انکے غالب نے کیا ہے ۔ راجہ بختاور سنگھ نے عبد اللہ بیگ خان کے دونوں لڑکوں مرزا اسد اللہ خان غالب اور مرزا یوسف بیگ خان کے گزارے کے لیے روز یہ مقرر کر دیا اور دو گاؤں ان کے نام کر دیئے ۔

 مرزا عبداللہ بیگ کے انتقال کے وقت غالب کی عمر پانچ سال کی تھی۔ان کے پاپامر زا نصر اللہ بیگ نے جو لاولد تھے ، غالب اور ان کے چھوٹے بھائی مرزا یوسف کو اپنی سرپرستی میں لے لیا ۔ مرزا غالب ابھی صرف نو سال کے ہی تھے کہ ان کے چچا مر زا نصر اللہ بیگ کا بھی انتقال ہو گیا اور اب ان کے نانا خواجہ غلام حسین خان جو کہ فوج کے کمیدان اور آگرو کے مشہور رئیس تھے ، کے یہاں مرزا غالب کی پرورش ہونے لگی ۔ مرزا غالب کے چاچو نکہ انگریزی فوج میں رسالدار تھے ، اس لیے حسن خدمات اور وفاداری کے صلہ میں انگریزی سرکار سے جاگیر بھی پائی تھی اور ان کے انتقال کے بعد مرزا غالب کو انگریزی جاگیر کے عوض سر کار انگلیش سے پینشن بھی ملتی رہی ۔ مرزا کا بچپن بقول رام بابو سکینہ آگرہ میں گزرا جہاں وہ ایک کہنہ مشق استاد شیخ معظم علی سے تعلیم پاتے رہے اور کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں مشہور شاعر نظیر اکبر آبادی سے بھی کچھ ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں ۔ جب ان کی عمر 14 برس ہوئی تو مر مر نام کے ایک پارسی سے جو رند و پاژن کا عالم اور بڑا سیاح تھا ، سے فارسی پڑھی ۔ 

مرزا غالب کی شادی نواب ای بخش خان معروف کی بیٹی امرا ، بیگم کے ساتھ 1810 ء میں ہوئی جب مرزا کی عمر محض 13 سال کی تھی ۔ نواب الی بخش خان معروف چونکہ شاعر تھے لہذا مر زا غالب کو بھی اولی ماحول میسر آیا ۔ مرزا پہلے اسد تخلص کرتے تھے بعد کو غالب ہو گئے ۔ ان کا بچپن اور لڑکپن کا زمانہ عیش و آرام میں گزرا لیکن شادی کے بعد حالات دگرگوں ہو گئے ۔ غالب حالات سے مجبور ہو کر دلی منتقل ہو گئے اور پھر ہمیشہ نہیں کے ہو کے رہ گئے ۔ دلی کی فضا میں بقول رام بابوسکینہ ” شاعری گونج رہی تھی ، جگہ جگہ مشاعرے ہور ہے تھے ، شادی بھی ایک مشہور و معروف شاعر کی بیٹی کے ساتھ ہوئی تھی ۔ ان سب اسباب سے نو عمر غالب کی نوخیز طبیعت پر شاعری کا گہرا اثر مرزا غالب ہمیشہ دہلی میں ہی رہے سوائے ایک کلکتہ کے سفر کے جو انھوں نے 1828 ء میں کیا تھا ، یہ سفر پنشن کی بحالی کی خاطر تھا ، وہ پنشن جو ان کو سر کار انگلش کی جانب سے پچامر زا نصر اللہ بیگ کی جاگیر کی ضبطی کے عوض میں ملتی تھی ۔ یہ پیشن گو کہ بحال تو نہ ہوئی تاہم مرزانے مختلف علاقوں کی سیر کر لی ۔

 بقول رام بابو سکینہ ” کلکتہ کے راستے میں مرزا نے لکھنو اور بنارس کی بھی سیر کی تھی اور ایک قصیدہ نصیر الدین حیدر شاہ بادشاہ اودھ کے واسطے اور ایک نثر وزیر سلطنت کی مدح میں پیش کی تھی ۔ آخری تاجدار خود واجد علی شاہ کی سرکار سے بھی 500 روپیہ سالانہ ان کے واسطے مقرر ہوئے تھے مگر دو برس کے بعد جب سلطنت کا تنازعہ پیدا ہوا تو وہ موقوف ہو گئے ۔ پنشن کے مقد سے کی ذہنی کوفت کے علاوہ بقول یوسف حسین خان ایک اور واقع ایسا پیش آیا جس کی وجہ سے انہیں بے آبروئی کا گھاؤ کھانا پڑا جو تھوڑی بہت عزت باقی تھی وہ بھی جاتی رہی ۔ غالب کو جوانی کے زمانے میں شطر نج کھیلنے کا بڑا شوق تھا ۔ کچھ بدک کر کھیلا کرتے تھے ۔ آہستہ آہستہ اس عادت نے جوا کھیلنے کی لت لگادی ۔ شراب اور جوئے کا ساتھ دنیا کی ہر تہذیب میں قدیم سے پایا جاتا ہے ۔

 1841 ء میں جوئے کی علت میں انہیں سوروپے جرمانے کی سزا ہو چکی تھی اس کے بعد بھی یہ ان کا مشغلہ جاری رہا ۔ جب تک محمد مر زاخانی کوتوال شہر تھے ، مرزا کو کوئی خطرہ بابت کھیلنے جوۓ کے نہ تھا لیکن جب مند مر زاخانی کی جگہ فیض الحسن تبد میں ہو کر آۓ تو نئے کوتوال شہر نے جوئے کی انسداد کے لیے سخت کارروائی عمل میں لائی ۔ چناچہ مرزا غالب کو جنوں نے اپنے گھر کو جوا کھیلنے کا اڈا بنا رکھا تھا ، گرفتار کر لیا گیا اور عدالت فوجداری سے انہیں کچھ ماہ قید با مشقت اور دو سو روپے جرمانہ کی سزا ہو گی “ کہا جاتا ہے کہ اس عرصے میں صرف نواب مصطفی خان شیفتہ ہی ان کی خبر گیری کرتے رہے ۔

 1842 ء میں غالب کو دہلی کالج میں پروفیسر کے لیے منتخب کیا گیا مگر چونکہ ٹامسن صاحب جو کہ اس وقت سیکر ٹری گورنمنٹ تھے ، غالب کے استقبال کے لیے نہیں آیئے اس لیے انھوں نے ملازمت قبول نہ کی ۔ ر میں بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے انکو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا کیا اور مزید یہ کہ ان کو 50 روپے مہینہ کے صلہ 1849 میں تاریخ خاندان تیمور یہ لکھنے کا بھی حکم دیا ۔ 1854 ء میں شیخ ابراہیم ذوق کے انتقال پر غالب بادشاہ حضور کے استاد مقرر ہوۓ ۔

 رام بابو سکینہ کے بقول " غدر کے ایام میں بسلسلہ ملازمت اور تقریب شاہی کی مرزا بھی مصائب میں مبتلا ہو گئے تھے ۔ پیشن بند ہو گئی اور ان کے چال چلن کے متعلق تحقیقات کی جانے لگی اور آخر میں جب پوری صفائی ہو گئی اور یہ بے گناہ ثابت ہوئے تو ان کی پنشن بحال ہوئی اور عزت سابقہ بھی واپس دی گئی ۔ غالب تواب یوسف علی خاں والی را پور کے استاد بھی تھے جو ان کو سو روپے ماہوار بطور پنشن کے عمر بھر دیتے رہے ۔ غالب کا انتقال 15 فروری 1869 ء کو 72 برس چار ماہ بمقام و بلی ہوا اور وہیں دفن ہوئے ۔


غالب کی قصیدہ گوئی


 غالب ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ۔ اپنے زمانے کے مروجہ علوم پر انھیں عبور حاصل تھا ۔ غالب نے دوز بانوں ، اردو اور فارسی کو اپنا وسیلۂ اظہار بنایا ۔ انہوں نے نثر و نظم دونوں میں طبع آزمائی کی ۔ غزل کے علاوہ قصیدہ ، رباعی اور مثنوی میں بھی طبع آزمائی کی ۔ ابتدائی شعر گوئی سے لے کر عمر کے آخری حصے تک انہوں نے بہت سے قصیدے لکھے ۔ اردو میں کم اور فارسی میں زیادہ ۔ ان کے اردو قصائد کی تعداد صرف چار ہے ۔

 غالب کے دیوان کا پہلا قصیدہ " ساز یک ذرہ نہیں فیض جان سے بیکار " ۔ منقبت میں ہے اور اس کی تشبیب میں بہار کی کوئی زندہ تصویر بنتی نظر نہیں آتی ۔ دوسرا قصید و ” دمر جڑ جلوہ یکتائی معشوق نہیں ہے ۔ یہ قصیدہ حضرت علی کی شان میں ہے ۔ یہ پہلے قصیدے سے زیادہ پر اثر ہے ۔ اس قصیدے کی تکبیب متصوفانہ ہے ۔ کہیب کے دس اشعار میں فلسفہ وحدت الوجود کی تائید اور کثرت کی نفی کرتے ہوئے رونق دنیا سے دامن بچانے کی ترکیب کی گئی ہے ۔ یہاں پہنچ کر شاعر کو اچانک خیال آتا ہے کہ اسے کیا لکھنا تھا وہ کس مخمصے میں الجھ کر رہ گیا ہے وہ خود کو مدح کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ گریز کا ایک شعر ملاحظہ ہو ۔

 کس قدر مرزہ سرا ہوں کہ عیاذ باللہ یک

 قلم خارج آداب و قار و تمکیں 


اس کے بعد مدح کی طرف آتے ہیں


 کس سے ہو سکتی ہے مذاحی مدوج خدا

 کس سے ہو سکتی آرائش فردوس بریں


 اس کے بعد قصید ودعائیہ اشعار پر ختم ہوتا ہے ۔ یہ قصیدہ پہلے قصیدے کی متقابلے میں زیادہ صاف اور رواں ہے ۔ اندازہ ہوتا ہے کہ اس قصید ے کی تصنیف کے وقت شاعر کو الفاظ اور ترکیب پر حاکمانہ قدرت حاصل ہو چکی تھی اور بات کہنے کا اندازہ زیادہ پر اثر ہو گیا تھا ۔ زبان میں بھی نسبتا سادگی آ چکی تھی ۔ ان دو قصیدوں کے ساتھ غالب کی قصیدہ گوئی کے دور اول کا خاتمہ ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے پرانے کلام کو رد کر دیا اور ابہام اور پیچیدگی سے پر ہیز کرنے لگے لیکن قصیدے کی طرف توجہ نہیں کی ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میدان ذوق کے قبضہ میں تھا ۔

 ذوق کی وفات کے بعد بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے اپنے کلام کی اصلاح کا کام غالب کو سونپا ۔ چنانچہ غالب نے اپنا تیسرا قصیدہ بہادر شاہ ظفر کی مدح میں تحریر کیا ۔ " ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام ” مہر لحاظ سے ایک قابل توجہ قصیدہ ہے ۔ قصیدہ میں محبیب کی حیثیت تمہید کی ہوتی ہے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ قاری کی توجہ فورا گرفت میں لے لے ۔ اس قصیدے کی تشبیب اس مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوئی ہے ۔ ہلال عید کے خمیده چاند کو دیکھ کر شاعر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کس کے سامنے تسلیم خم کر رہا ہے ۔


 ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام 

جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام

چناچہ غالب سوال کرتے ہیں کہ اے چاند ! تیری کمر میں تم کیوں ہے ؟ وہ کون ہے جس کو تو سلام کر رہا ہے ؟ اس قصیدے میں غالب اپنا ایک الگ رنگ نکالے نظر آتے ہیں یہاں نہ ان کی پرانی مشکل کوئی نظر آتی ہے اور نہ پیچید وانداز بیان ۔ اس قصیدے میں ایک تازگی ہے اور کہیں کہیں لب و لہجہ بول چال کا ہے ۔ الفاظ کی ترتیب اور لب و لہجے کی بے ساختگی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی باتیں کر رہا ہے اور پھر مکالمے کی شان پیدا ہوتی ہے ۔ غالب کا چو تھا اور آخری قصیدو بھی دوسرے قصیدے کا ہم پلہ ہے ۔ تحسیب بھی دلکش ہے ۔ غالب کا کا تخیل صبح کے سورج کو بارہ گل سنگ کی شکل میں پیش کرتا ہے ۔ 


صبح دم دروازه خاور کھلا

 میر عالمتاب کا منظر کھلا


 یہ مختصر قصیدہ اس دعا پر ختم ہوتا ہے کہ جب تک روز و شب کا طلسم برقرار ہے اس وقت تک اس حکمران کی حکمرانی باقر ہے ۔ مختصر یہ کہ غالب ہر میدان میں اپنا راستہ آپ نکالتے تھے ۔ قصیدہ نگاری میں بھی دو اپنی طرز خاص کے خود ہی موجد اور خود ہی خاتم ہیں ۔ ان کی تحبیب دل آویز گریز فطری اور پر کشش ہوتی ہے ۔ مدح گوئی میں وہ زمین آسمان کے قلابے نہیں ملاتے لیکن ان کی مدح کسی حد تک حقیقت کے قریب ہوتی ہے اور اس لیے زیادہ پر اثر ہوتی ہے اور ان کے قصائد کے دعائیہ حصے تو آج تک زبان زد خلائق ہے ۔۔


غالب کا تصور حسن و عشق


 اردو شاعری اور بالخصوص اردو غزل کا مرکزی موضوع ہمیشہ واردات قلبی کا بیان اور حسن و عشق کے تجربات کا اظہار رہا ہے ۔ جہاں عشق ذاتی تجربہ ہے وہاں تاثیر غزل کا لازمی جزو بن گئی ہے لیکن جہاں عشقیہ اشعار روایتی طور پر در آئے ہیں وہاں مشاہدے کی گہرائی اور فن کی پتلی ایسے عناصر ہیں جن کی عدم موجودگی میں غزل کا پیکر بالکل بے جان اور حسن و دلکشی سے عاری نظر آئے گا ۔ شخص م شخص کا ذاتی تجربہ ہو نہ ہو مگر ہر ذہن میں عشق کا ایک دھند لا یا واضح تصور ضرور موجود ہوتا ہے ۔

 فنون لطیفہ سے متعلق ہر عام آدمی کے بر عکس اس کے اظہار پر بھی قادر ہوتا ہے ۔ غالب ایک ایسے ہی فنکار ہیں جن کی شاعری میں انسانی جذبات و احساسات اور مختلف حالات میں نفسیاتی رد عمل کا جمالیاتی اظہار پوری فنکارانہ آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔ عشق غزل کا سب سے بڑا موضوع ہے ۔ غالب کے غزل میں عشق کا تصور کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لیے جب ہم غالب کے دیوان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں تیسری غزل کے دوسرے شعر ہی میں غالب یوں نغمہ سرا ملتے ہیں ۔ 


عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

 درد کی دوا پائی درد لادوا پایا


 اور پھر جوں جوں آپ ورق پلتے جائیں ، آپ دیکھیں گے کہ غالب کے نزدیک تو بے عشق عمر کٹ ہی نہیں سکتی ۔ وہ اسی عشق خانہ ویراں ساز کو رونق ہستی قرار دیتے ہیں ۔ وہ عشق کے آلام سے گھبرا کر سو بار بند عشق سے آزاد ہونے کی کو شش کرتے ہیں ۔ مگر کہاں ؟ اند وہ عشق کی کشتمش تو جاہی نہیں سکتی ۔ نیا انہیں کافر قرار دیتی ہے مگر وہ اک بت کافر کا پو جنا نہیں چھوڑتے ۔ غالب جب عشق کو انسانی زندگی کے لیے اتنا ضروری قرار دیتے ہیں تو سوال ابھر تا ہے کہ کیا عشق کوئی شعوری کوشش ہے ؟ میر کے والد میر کو عشق اختیار کرنے کی ہدایت فرماتے ۔ تو کیا عشق کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے ؟ ان تمام سوالات کے جوابات غالب کی غزل میں موجود ہیں ۔ 


غالب کی غزل میں عشق کی سطح بالکل زمینی اور انسانی ہے ، مثالی یاماورائی نہیں ۔ ان کے نزدیک عشق ایک ایسی آگ ہے جسے اگر ہم لگانا چاہیں تو لگا نہیں سکتے اور اگر بجھانا چاہیں تو ہمارے اختیار میں نہیں ۔ عشق ایک ایسی کیفیت ہے جس میں خیال کی تمام رعنائیوں کا مرکز و محور صرف ایک شخص ہوتا ہے ۔ عشق زندگی کے تمام پہلوؤں پر غالب نہیں بلکہ حیات انسانی کا ایک جزو ہے ۔ یہ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی متاثر کر تا ہے اور ان سے اثر قبول بھی کرتا ہے ۔ اس لیے مختلف حالات میں محبوب کے ساتھ غالب کا تعلق اور محبوب کے رویوں پر ان کار و عمل مختلف ہوتا ہے ۔ کبھی وہ اپنے محبوب کو اپنی گردن پر مشتق ناز کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور دو عالم کا خون اپنی گردن پر لینے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ 

کبھی یہ کہہ کر جان صاف بچالے جاتے ہیں کہ میں زہر کھا تو لوں مگر ملتا ہی نہیں ۔ کبھی وہ صرف اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ دوپری پیکر ان سے کھلا اور کبھی محبوب کے عمر بھر کے پیان وفا باندھنے پر بھی راضی نہیں ہوتے کہ عمر بذات خود نا پائیدار ہے ۔ کبھی وہ محبوب کی بے نیازی کے باوجود ترک و فا پر آمادہ نہیں بلکہ تسلیم کی خو اپنا لیتے ہیں اور کبھی

 دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں 

خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں


 رویوں میں تضاد کی وجہ شاید یہی ہے کہ عشق ساری زندگی نہیں اور زمانے میں محبت کے سوا اور بھی غم ہیں اور یہ آلام عشق کے جذ باقی نظام کو بھی متاثر کرتے ہیں ۔


تری وفا سے ہو کیا تسلی کہ دہر میں 

تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے


 غالب اور ان کے محبوب کے تعلقات میں ایک بات اہم ہے کہ غالب کا محبوب جور و جفا کا پیکر ہی نہیں بلکہ نواز ش ہاۓ بے جا بھی فرماتا ہے ۔ اگر وہ غالب پر مہربان نہیں تو نامبر بان بھی نہیں ۔ ضد کی بات اور ہے مگر وہ سینکڑوں وعدے بھی وفا کر چکا ہے ۔ غالب ہی اس کے لیے تباہ حال نہیں اس کے چہرے کا رنگ بھی غالب کو دیکھ کر کھل اٹھتا ہے ۔ وہ غالب کو اپنی زندگی کہہ کر پکارتا ہے اور غالب کے گھر بھی : آتا ہے ۔ غالب کا محبوب ان کی طرح ہنگامہ آرا ہے ۔ رسوائی کی نعمت صرف عاشق کی سعی سے حاصل نہیں ہوتی ۔


 ہے وصل ، ہجر عالم تسکین وضبط میں

 معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے


 غالب کے اشعار میں عشق کا نظام یک طرفہ نہیں ۔ خود سپردگی کا وہ عالم نہیں کہ ہر طرح کے جور و جفا کے باوجود شیوہ تسلیم و رضا ہو بلکہ غالب کے ہاں ایک ا نا اور خود داری ہے ۔ اگر محبوب بزم میں بلانے کا تکلف گوارا نہیں کر تا تو سر راہ ملنے پر وہ بھی تیار نہیں ۔ اگر محبوب اپنی خو نہیں چھوڑ تا تو وہ اپنی وضع بدلنے پر راضی نہیں ۔ وہ محبوب سے سر گرانی کا سبب تک نہیں پوچھتے کہ اس میں سبک سری ہے یہاں تک کہ در کعبہ بھی اگروانہ ہو تو الئے پھر آتے ہیں ے بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود میں ہیں کہ ہم الٹے پھر آۓ در کعبہ اگروانہ ہوا غالب کی وفا جہاں شخصی خصوصیت ہے وہاں اس بات کا ثبوت بھی کہ غالب کا محبوب غالب سے محبت رکھتا ہے ۔ وہ عشق میں خود سپردگی کی بجاۓ برابری کے خواہش مند ہیں ۔

 وہ جب محبوب مہربان ہو کے بلاۓ تو ضرور آتے ہیں کیونکہ دو گیا وقت نہیں کہ پھر آ بھی نہ سکیں ۔ اور پھر کل تک اس کا دل مہر و وفا کا باب بھی تھا ۔ برابری کی سطح سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ جذ بہ عشق کی بنیاد کار و باری ذہنیت ہے اور وہ کچھ دے اور کچھ لے پر قائم ہے بلکہ غالب با وفا عاشق ہیں ۔ وہ خانہ زاد زلف ہیں اس لیے زنجیروں سے گھبراتے نہیں ۔ محبوب کو وہ ایمان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ۔ وہ محبوب کے راز کو رسوا نہیں کرتے ۔ وہ محبوب سے تعلق توڑ نانہیں چاہتے ۔ خواہ عداوت ہی کیوں نہ ہو تعلق قائم رہنا چاہیے ۔ بلکہ وفا میں استواری ان کے نزدیک ایمان کی اصل ہے ۔ ه فاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو ان کے نزدیک عشق اور وفا صرف سر پھوڑ نا ہی نہیں اور سر ہی چھوڑ نا ہو تو پھر کسی سنگ دل کا سنگ آستاں ہی کیوں ہو ۔

 غالب ہلاک حسرت پابوس ہونے کے باوجود سوتے میں محبوب کے پاؤں کا بوسہ نہیں لیتے کہ ایسی باتوں سے اس کے بد گماں ہو جانے کا خدشہ ہے ۔ کہیں کہیں ایسا لگتا ہے کہ غالب کا عشق ہوس کا درجہ اختیار کر رہا ہے اور جب عرض و نیاز سے دو راہ پر نہیں آتا تو وہ اس کے دامن کو حریفانہ کھینچے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ کبھی کبھی وہ پیش دستی بھی کر دیتے ہیں ۔ جوا با محبوب بھی دھول دھپا کر نے لگتا ہے ۔ لگتا ہے کہ غالب کے ہاں ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب محبوب اس گستاخی اور بے باکی کی اجازت دے دے ۔ اور جب یہ اجازت حاصل ہو تو : جب کرم رخصت بے باکی و گستاخی دے کوئی تقصیر بجز مجلات تقصیر نہیں۔


 غالب کی غزل میں عشق کی مثاث کے تیسرے زاویے لینی رقیب کے متعلق اشعار کا مطالعہ بڑا دلچسپ ہے ۔ غالب کے ہاں رقیب کے روایتی کردار کے خد و خال کچھ بہت مختلف نہیں مگر رقیبوں کے بارے میں غالب کا رویہ بڑا نرم اور لچک دار ہے ۔ برا بھلا کہنے اور اسے کونے کی بجاۓ وہ اسے بھی اپنی ہی طرح کا ایک انسان سمجھتے ہیں ۔ جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے ۔ اس میں مومن و کافر اور نیک وید کی تمیز نہیں ۔ نامہ پر رقیب ہو گیا تو اسے برا بھلا کہنے کی بجاۓ فرمایا :


 تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم 

میر اسلام کہیوا گر نامہ بر طے


 یعنی اسے سلام بجوار ہے ہیں ۔ اس کے لیے اس نرمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آخر وہ ہمارا نامہ پر رہا ہے ۔ دیا ہے دل اگر اس کو ، بشر ہے کیا کہیے ؟ ہوار قیب تو ہو ، نامہ بر ہے کیا کہیے ؟ بلکہ رقیبوں سے دوستی گانٹھ لیتے ہیں ۔ اور محبوب کی شکایت میں اسے اپنا ہم زبان بنا لیتے ہیں ۔ اس طرح دونوں دل کا چھولے بھی چھوڑ لیتے ہیں اور محبوب سے شکایت کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی ۔ تا کرے نہ غمازی ، کر لیا ہے دشمن کو دوست کی شکایت میں ، ہم نے ہم زباں اپنا البتہ محبوب کو اپنی طرف مائل کرنے کے عمل میں وہ رقیبوں کے مقابلے میں سر گرم نظر آتے ہیں ۔ انہیں بوالہوس کہتے ہیں اور اپنے آپ کو اہل نظر ۔ ہر بوالہوس نے حسن پر ستی شعار کی اب آبروۓ شیوہ اہل نظر گئی عاشق صادق اور بوالہوس میں کیا فرق ہے ؟ محبوب پر واضح کرتے ہیں ۔ فروغ شعلہ حس یک نفس ہے ہوس کو پاس ناموس و فا کیا ؟ محبوب مہربان ہو تو رقیب بھی گلہ کرتا ہے اور جب محبوب انہیں بتاتا ہے کہ فلاں نے یہ کہا تو محبوب کو مائل بہ کرم رکھنے کے لیے قاطع دلیل دیتے ہیں ۔ 


کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں

 ہوتی آئی ہے کہ انھوں کو برا کہتے ہیں


 بہر حال رقیب سے وہ اس قدر موافقت پر تیار ہیں کہ محبوب کا اپنا معاملہ ہے ۔ تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو ہم کو پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو ؟ موافقت کی یہ سطح مومن کے ہاں اتنی بڑھ گئی ہے کہ عشق بازاری نظر آتا ہے ۔ لے شب وصل غیر بھی کائی تو ہمیں آزمائے گا کب تک ؟

غالب کا عشق بازاری نہیں ۔ وہ تو عشرت کہ خسرو کی مزدوری کے جرم کی پاداش میں فرہاد کی عشق میں نکو نامی تسلیم ہی نہیں کرتے اور اپنی شاعری میں اس کے لیے جگہ جگہ طفر و استہزا سے کام لیتے ہیں ۔ ایک چیز جو غالب کے ہاں غم عشق کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ غم روزگار ہے ۔ وہ غم دنیا کو غم یار میں شامل نہیں کرتے ۔ غم ان کا نصیب ہیں اور غم عشق گر نہ ہو تا ، غم روزگار ہو تا ۔ محبوب کے خیال سے غافل نہیں مگر میں ستم ہائے روز گار ضرور ہیں ۔ 

ان غم وآلام کی تلافی محبوب کی وفا سے نہیں ہوتی ۔ اور غم زمانہ نشاط عشق کی ساری مستی تجاڑ دیتا ہے ۔ غالب غم زمانہ کو غم عشق کے سامنے لا کھڑا کرنے والا پہلا شخص ہے ۔ بعد میں اس رجحان نے بڑی قوت حاصل کی ۔ عشق بہت کچھ ہے مگر سب کچھ نہیں۔اس لیے غالب کا عشق زمینی اور انسانی ہے مثالی اور ماورائی نہیں ۔ عشق کا ایک تقاضا حوصلہ و استقامت بھی ہے ۔

 غالب نہ صرف حوصلہ مندی اور استقامت کا مظاہر ہ کرتے ہیں بلکہ ان کے ہاں ایک طرح کی اذیت پسندی تک کا رجحان ملتا ہے ۔ محبوب تن عاشق کو مجروح کر کے جانے لگتا ہے تو ان کا دل زخم اور اعضا نمک کا تقاضا کرتے ہیں ۔ تمنا بے تاب ہے مگر جانتے ہیں کہ عاشقی صبر طلب ہے ۔ سوز غم چھپانے کی حکمت مشکل ہے ۔ انہوں نے دل دیا تو نوا سنج فغاں نہیں ہوۓ ۔ واقعہ سخت ہے اور جان بھی عزیز مگر تاب لائے ہی بنے گی غالب و تیغ و کفن باند ھے محبوب کے پاس جاتے ہیں کہ تحتل کرنے میں عذر باقی نہ رہے ۔ بیداد عشق سے نہیں ڈرتے ہاں کبھی کبھی سیاست در باں سے ڈر جاتے ہیں ۔

 وہ محبوب کو بار بار دعوت قتل دیتے ہیں ۔ غرض عشق کے ہر امتحان میں ثابت قدم ہیں ۔ غالب عشق میں جان دینے کا دعوی تو کرتے ہیں مگر ان اشعار میں ان کی ظرافت بھی اپنا رنگ دکھاتی ہے اور اپنی جان صاف بچالے جانے کا بندوبست بھی کر لیتے ہیں ۔ میں اور حظ وصل خدا ساز بات ہے جاں نذر و نہی بھول گیا اضطراب میں ر از معشوق نہ رسوا ہو جائے ور نہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں ے زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر ورنہ کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں مندرجہ بالا تینوں اشعار میں عشق میں پامردی پر بھی حرف نہیں آنے دیتے اور جان صاف بچالے جاتے ہیں ۔ غالب بھی اپنے آپ پر بنتے ہیں کہ صورت دیکھو جو خوب رویوں پر مر رہے ہو اور بھی حاصل عشق جز شکست آرزو ہونے پر تاسف کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ تاہم وہ عشق کی اہمیت و ضرورت سے آگاہ ہیں ۔ مہر شخص کی طرح ان کی بھی خواہش ہے ۔ کاش کہ تم مرے لیے ہوتے۔


غالب کا عشق ماورائی نہیں زمینی ہے ۔ لہذا ان کا عشق بھی اسی مرکزی نقطے کے گرد طواف کرتا ہے ۔ ان کے عشق کا تانا بانا خواہشات کی انہی تاروں سے تیار ہوتا ہے ۔ غالب کے عشقیہ اشعار پڑھتے ہوۓ نہ تو ہماراول تھٹن سے تنگ ہوتا ہے اور نہ مومن و داغ کے عشقیہ اشعار کے مطالعے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نا نجار مسرت سے دو سپار ہوتا ہے ۔ بلکہ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ ایک ہم جیسا انسان ہمارے جیسے جذبات ہی کا اظہار کر رہا ہے اور دراصل یہی غالب کی زندہ و محرک قوت ہے جو اسے ہر دور میں زندہ و پائندہ رکھے گی ۔


غالب کی مشکل پسندی


 شمار سجه مرغوب بت مشکل پسند آیا

 تماشائ بہ یک کف برون صد دل پسند آیا

 غالب کے بارے میں ذوق نے کہا تھا کہ مرزانوشہ کو اپنے اچھے شعروں کی خبر بھی نہیں ہوتی ۔ بات تقریبا صیح ہے ، لیکن غالب کو اپنے مافی الضمیر کی پوری خبر تھی ۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ انھیں اپنے مافی الضمیر کو پوشید ور رکھنے کا فن بھی خوب آتا تھا ۔ چنانچہ انھوں نے بار بار یہ بات کہی کہ ان کے دور اول کے اشعار ( جو پیچید گی فکر اور نازک خیالی اور استعارو کے اعلی نمونے ہیں ۔ ) بیدل اور شوکت اور اسیر کی تقلید میں تھے اور تقریبا بے معنی بھی تھے ۔ عبد الرزاق شاکر کو لکھتے ہیں کہ ، " جب تمیٹر آئی تو اس دیوان کو دور کیا ۔ اوراق یک قلم چاک کیے ۔ دس پند رو شعر واسطے نمونے کے دیوان حال میں رہنے دیے ۔

 " نواب شمس الامراء کو لکھا کہ پچھلے دیوان کو انھوں نے گل دستہ طاق نسیاں ' ' کر ڈالا ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ متداول دیوان کے بھی سیکڑوں شعر اپنے اشکال کے باعث مسترد شده دیوان سے کسی طرح کم نہیں ہیں ۔ لیکن انتخاب واصلاح کی اس تشہیر کا یہ نتیجہ ہوا کہ ایک طرف تو لوگوں کو خیال ہوا کہ مرزا نوشہ نے طرز سخن عام کی پیروی کو آخر کار مستحسن سمجھا اور دوسری طرف یہ محسوس ہوا کہ جب منظور شدہ دیوان میں مشکل شعروں کا یہ رنگ ہے تو مسترد کر وہ دیوان کا کیا عالم ہو گا ۔

 چنانچہ ایک طرف تو یہ افواہ گرم ہوئی کہ غالب جو خود اپنے قول کے بموجب ایام جوانی میں بہت کچھ سکتے رہے تھے ، آخر سادگی اور سلامت کو پیچیدگی اور معنی آفرینی پر ترجیح دینے ہی لگے ۔ اور دوسری طرف یہ رائے عام ہوئی کہ غالب بہت مشکل پسند شاعر تھے اور طرز پیدل کے آخری اور شاید سب سے بہتر نمائندہ تھے ۔ ایک ہی تیر سے دو شکار اور وہ بھی ایسے کہ ان کی سمتوں میں بعد المشرقین ہو ، غالب کی ذہانت اور محال پسندی کا اچھا نمونہ ہے ۔ لیکن مستر و شده دایوان اگر واقعی یاوہ گوئی پر مبنی ہے تو معنی آفرینی پر یہ بار بار اصرار کیوں ؟ اس بات پر ضد کیوں کہ مولوی صاحب کیا الطیف معنی ہیں ! " یہ دعوی کیوں کہ " شعر میرا مہمل نہیں ، اس سے زیادہ کیا لکھوں ۔ " اس بات پر مباہات کیوں کہ " جملے کے جملے مقدر چھوڑ گیا ہوں ؟ " یہ شکایت کیوں کہ " بھائی ! مجھ کو تم سے بڑا تعجب ہے کہ اس بیت کے معنی میں تم کو شامل رہا ۔ 

یہ جملے منظور شدہ اشعار کے بارے میں ہیں ۔ اگر صفائی اور واشگافی ہی بہت بڑا ہنر تھا تو ان جملوں کا محل نہ تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب شروع سے آخر تک ایک ہی طرز کے پیرور ہے ۔ ان کا ارتقا خوب سے خوب تر کی طرف ہوا ، لیکن یہ ضرور ہوا کہ فارسی کے غیر عام اور محاورے سے خارج الفاظ کا بوجھ ، جو انھوں نے اپنے اردو کلام میں محض اس وجہ سے رکھا تھا کہ ان کے باپ دادا کی زبان اردو نہ تھی اور انھیں مروجہ اردو محاورے پر مکمل دست رسی نہ تھی ۔ مو و پو چھ اردو کے محاورے سے نیم مزاوات کی وجہ سے کم ہو تا گیا ، ورنہ جہاں تک سوال اشعار کے مشکل ہونے کا ہے ، ان کا دیوان سراپا اشکال ہے ، کیونکہ ان کی مابہ الامتیاز خصوصیت ذہن کی ایک ایسی روش ہے جو بہ یک وقت کئی تجربات کا احاطہ کر لیتی ہے اور ان تمام تجربات کا بہ یک وقت اظہار کرنے پر قادر ہے ۔


میں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے غالب کے کلام کے ساتھ " مشکل " کی صفت عام معنوں میں استعمال کی ہے ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میں ان کے کلام کو مشکل نہیں بلکہ مبہم سمجھتا ہوں اور ابہام کو اشکال سے کہیں زیادہ بلند منصب کی چیز سمجھتا ہوں ۔ میری نظر میں اشکال عموما شعر کا عیب ہے اور ابہام شعر کا حسن۔ایکال ایک قطعی صورت حال کا نتیجہ ہوتا ہے ، ابہام کی بنیادی خصوصیت کی ہوتی ہے ، جسے حل کر کے مافی الضمیر تک پہنچ سکتے ہیں ۔

 ابہام ایک ایسا معمہ ہے جس Code غیر قطعیت ہے ۔ اشکال کی نوعیت مجھے یا میں ہر طرف اشارے ہی اشارے ہیں اور ہر اشارہ صحیح ہوتا ہے ۔اشکال صرف ایک سیخ کو پہچانتا ہے ، ابہام بہ یک وقت مختلف سطحوں پر حاوی ہو تا ہے اور اس ذہن کی خصوصیت ہوتا ہے جو مختلف المعنی یا مختلف الکیفیت حقائق کو ایک ساتھ ظاہر کر سکے ۔ چونکہ غالب ابہام اور اشکال کے اس لطیف فرق سے ناواقف تھے ، اس لیے انھوں نے اپنے ابہام کو بھی اشکال ہی سے تعبیر کیا ہے ، لیکن وہ ابہام کی حقیقت سے فی نفسہ واقف تھے کیونکہ انھوں نے اشکال کی جو تعریف کی ہے وہ دراصل ابہام ہی پر پوری اترتی ہے ۔

 ابہام کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ شعر ہر ایک کے لیے کچھ نہ کچھ معنی رکھتا ہو ۔ اشکال کا تقاضا ہے کہ شعر کے معنی اس کو معلوم ہوں جو اس کے معمے کو حل کر سکے اور جب وہ معنی کھل جائیں تو وہ قطعی اور آخری مظہر ہیں ۔ ممکن ہے کہ کوئی شعر میرے لیے مشکل ہو ( کیونکہ میں اس کے الفاظ کے معنی نہیں جاننا یا محاورے سے بے خبر ہوں یا اس میں صرف کی ہوئی تلیج تک میری نظر نہیں ہے ۔ لیکن دوسروں کے لیے آسان ہو ۔ مندرجہ ذیل مثالیں دیکھیے ۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیر ہن ہر پیکر تصویر کا پھر مجھے دیدو تر یاد آیا دل جگر تشنه فر یاد آیا ثابت ہوا ہے گردن مینا پہ خون خلق لرزے ہے موج سے تری رفتار دیکھ کر اس بات سے قطع نظر کہ پہلے شعر میں کچھ ابہام بھی ہے ، شعر کا اشکال اس کی تالیج میں مضمر ہے ۔

 اگر تلمیح صاف ہو جائے تو ظاہری معنی سمجھ میں آجاتے ہیں ۔ دوسرے شعر میں " جگر تشنہ " کے صحیح معنی ( بہت پیاسا ) معلوم ہوں تو بات صاف ہو جاتی ہے ۔ تیسرے شعر میں معمائی کیفیت ہے جس کا اشارہ معشوق کی مست رفتاری ہے ، لہذا ان اشعار کا مشکل تخمیر ناخودان اشعار پر نہیں بلکہ پڑھنے والے کی ذہنی اور علمی استعداد پر منحصر ہے یا پھر اس کے ذہن کی ساخت پر ۔ بعض لوگ مجھے جلد حل کر لیتے ہیں لیکن دوسرے معاملات میں معمولی ذہن کے مالک ہوتے ہیں ۔ بعض لوگ معمے حل کرنے میں احمق ثابت ہوتے ہیں لیکن ان کی ذہانت مسلم ہوتی ہے ۔ مشکل شعروں  کی کچھ اور مثالیں دیکھیے : مگس کو باغ میں جانے نہ دیتا کہ ناحق خون پر وانے کا ہو گا نہ بٹھا حلقہ ماتم میں گرفتاروں کو نیل گوں خط توبه گرد خط رخسار نہ کھینچ کیا کہوں بیماری غم کی فراعنت کا بیاں جو کہ کھا یا خون دل بے منت کیموس تھا اس قسم کے اشکال کی مثالیں قصیدے اور مرثیے میں قدم قدم پر ملتی ہیں ۔ خود غالب کے قصیدے ایسے شعروں سے بھرے پڑے ہیں جن کا مفہوم سمجھنے کے لیے محاورے اور اصطلاح کا علم ہونا ضروری ہے ۔ لیکن یہ سطحی اور خارجی اشکال محض غالب کا طرہ امتیاز نہیں ، تاریخ اور مومن کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن میں یہی کیفیت ملتی ہے ۔

 غالب کے بارے میں یہ کہنا کہ انھوں نے اپنی مشکل گوئی ترک گردی ، گویا یہ کہنا کہ انھوں نے فطرت بدل دی ۔ چونکہ غالب کے کلام کی اساس جذبے سے زیادہ تجربے اور جذباتیت سے زیادہ عقلیت پر ہے ، اس لیے انھیں وہ چیچید گیاں بھی عزیز تھیں جو شعر میں ظاہر کیے ہوئے تجربے کو لفظی صنعتوں کے ذریعے ایک ایسی کیفیت بخش دیتی ہیں جو پڑھنے والے کے رد عمل کو مختلف راہیں تلاش کرنے میں معاون ہوتی ہے ۔ 

قاری سمجھتا ہے کہ شعر کا متقنا وہ نہیں ہے جس کی طرف اس کا ذہن منتقل ہو رہا ہے ، لیکن مفہوم کے واضح ہوتے ہوئے بھی وہ نسبتا غیر متعلق رو عمل جو ذہن میں پیدا ہورہے ہیں ، شعر کے لطف کو دو بالا کر رہے ہیں ، اس لیے وہ ان غیر متعلق رد عمل کو بھی اپنے محسوسات میں در آنے دیتا ہے ۔ میں نے اوپر کہا ہے کہ غالب اس لیے مشکل گو تھے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور تھے ۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ ان کی فطرت میں منفرد ہونے کا تقاضا شدت سے ودیعت ہوا تھا ۔ اس لیے انھوں نے خود کو دوسروں سے مختلف و ممتاز کر نے کے لیے ایسی راہ اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے مروجہ اسلوب کے بر خلاف ایک پیچید و اسلوب اختیار کیا ۔ 

محمد حسین آزاد کی تشخیص یہی ہے اور بہت صحیح ہے لیکن یہ تشخیص اپنی منطقی انتہا تک نہیں لے جائی گئی ہے ، کیونکہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ غالب نے مختلف ہونے کے لیے پیچیدہ اسلوب ہی کیوں اختیار کیا ؟ میر کا دیوان " کم از گلشن کشمیر نہیں تھا ، لیکن غالب کے ہم عصر میر کو صرف اوپری دل سے خراج دیتے تھے ۔ نہ ذوق کا اسلوب میر سے مستعار تھا ، نہ مومن کا ، نہ ناسخ کا ۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ غالب کا زمانہ آتے آتے لوگ میر کو بھول چکے تھے ۔ شعر کی بیت میں میر کا سب سے بڑا کارنامہ لینی ہندی بحروں کو اردو کے سانچے میں ڈھالنا لو گ اس درجہ فراموش کر چکے تھے کہ اس عہد کے صد ہا غزل گولیوں نے بھول کر بھی ان پھر وں میں غزل نہیں کہی ۔

 ( غالب نے البتہ " کام تمام کیا " کی زمین میں اپنے خاص رنگ کے چند شعر کہے ہیں ۔ میر کے لیے کی اپنائیت اور احساس ہم جلیسی اب اس درجہ متروک ہو چکے تھے کہ پہلوان سخن کی بے کیف مضمون آرائیاں اور انشا کے خم ٹھونکنے کے انداز اور مومن کی زنانہ نازک خیالیاں اور ذوق کے اخلاقی مضامین ، میر سب مروج تھے ، مگر میر کا کہیں پتہ نہ تھا ۔ مصحفی جو اپنے دہلوی ہونے پر فخر کرتے رہے ، میر کے اصل مقبوضہ علاقے میں در آنے سے ہمیشہ کتراتے رہے ۔ آتش اپنی قلندرانہ رعونت کے باوجود ( جو میر کے مزاج سے مشابہ ہے ) لفظی اور جسمانی بازی گری کے والہ وشیدار ہے ۔ ایسے عالم میں غالب کے لیے آسان راستہ یہ تھا کہ وہ میر کی طرح کے شعر کہتے اور محی طر ز میر کا لقب حاصل کر کے نام کماتے ۔ لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا ۔ دوسری صورت یہ تھی کہ دہلی کے متعین اور محفوظ لہجے کو ترک کر کے اپنے استاد نظیر اکبر آبادی کی ارضیت اور جسمیت پر توجہ کی جاتی ۔

 غالب یہ بھی نہ کر سکے ۔ تیسری صورت یہ تھی کہ جرات کی چوما چاٹی میں طنز و مزاح کی آمیزش کر کے اس کی چال ڈھال میں وقار اور اس طرز گفتار میں معنویت پیدا کی جاتی ۔ غالب اس سے بھی معذور ہے ۔ اللذا یہ بات مسلم ہے کہ غالب نے جان بوجھ کر ایک ایسا اسلوب اختیار کیا جو اس وقت مقبول نہیں تھا اور آج بھی بہت حد تک نامقبول ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ ایسا انھوں نے اس وجہ سے کیا کہ انھیں پابستگی رسم ورو عام گوارا نہ تھی ۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ انھوں نے بہت سے اسالیب میں وہی ایک اسلوب کیوں اختیار کیا جو اردو شاعری کی روایت سے تقریبا قطعاً منافی تھا ؟ منظر د ہونے کے اور بھی طریقے تھے ۔


 یہی ایک طریقہ کیوں ؟ اگر یہ کہا جاۓ کہ انھوں نے یہ طرز تقلید بیدل میں اختیار کیا اور دواس وجہ سے کہ غالب فارسی شاعری کی روایت کے پروردہ تھے اور پیدل ایک فارسی شاعر تھے ، تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر بیدل ہی کیوں ؟ حافظ و سعدی و نظیری کیوں نہیں ؟ غالب کے یہاں تصوف عالیہ کے اثرات پائے جاتے ہیں لہذا عراقی و عطار کیوں نہیں ؟ خسرو کے وہ بڑے معتقد تھے ، للذا خسرو کیوں نہیں ؟ ہند وستانی فارسی گویوں میں فیضی ممتاز تھا ، لہذا مکتب فیضی کیوں نہ اختیار کیا ؟ ان سوالات کا شافی جواب ایک ہی ممکن ہے اور وہ بھی بہت شافی نہیں ہے یعنی غالب اپنی فطرت سے مجبور تھے ۔

 ان کے مزاج کا خاصہ ہی یہ تھا کہ وہ ایک بلند آہنگ لہجہ اختیار کر میں جس کی تعمیر میں ان ذہنی اور عقلی مشاہدوں کا ہاتھ ہو جو تمام دنیاوی مسائل پر محیط ہوں ، لیکن کیفیت ہو ۔ ان ذہنی اور عقلی مشاہدوں کی مثال روشنی کی Visionary جن کا جزواعظم عام انسانوں کی دنیا نہ ہو بلکہ ایک فکری اور کشفی ان شعاعوں کی ہے جو کسی مشین سے بر آمد ہوتی ہیں ۔ وہ گرد و پیش کو تو منور کر دیتی ہیں لیکن خود مشین کو گرد و پیش سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا ۔ اس مزاج کا شاعر داخل سے خارج میں نفوذ کرتا کی Liver ہے لیکن خود اس کا وجود برقرار رہتا ہے ۔


 وہ داخل کو خارج میں ضم کرنے کے بجاۓ خارج سے الگ ہٹ کر اپنے وجود کو طرح استعمال کر تا ہے اور اس کے ذریعے سے خارج کی حقیقت کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے ۔ یہ لا شخصیت کی ایسی انوکھی مثال ہے جس کی نظیر اردو شاعری تو کیا دنیا کی شاعری میں بھی کم ملتی ہے ۔ یہاں پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان سب باتوں کی بنیادی اصل یہ ہے کہ چونکہ غالب نے بیدل کا مطالعہ بہت کم عمری میں کیا تھا اور ان کی زندگی کلام بیدل ہی کی صحبت میں گزرے تھے ، اس لیے کیا تعجب ہے اگر انھوں نے بیدل کا اثر Formative Years کے نشو و نمائی سال قبول کیا ۔ اول تو یہی بات محل نظر ہے کہ غالب نے سراسر بیدل کا اثر قبول کیا ۔ لیکن دوسری اور زیاد واہم بات یہ ہے کہ مہر حقیقی شاعر اپنے اوائلی دور کے غلط یا نامتناسب اثرات سے بہت جلد آزاد ہوتا ہے ۔

 کمیٹس نے ملٹن کی نظم معرا کا شد ید اثر قبول کیا تھا ، لیکن اس نے اپنی اس لیے نامکمل چھوڑ دی کہ وہ اس کے خیال میں بہت زیادہ ملٹن زدہ تھی ۔ اقبال نے داغ کا اثر قبول کیا لیکن چند Hyperion طویل نظم ہی دنوں میں وہ ان سے اس طرح الگ ہو گئے کہ داغ کے زیر اثر کہی ہوئی غزلیں اب اقبال کی غزلیں معلوم ہی نہیں ہو تیں ۔ بودلیئر ، گوئٹے کی رومانیت سے متاثر ہوا اور اڈ گرامین پو کے کلام سے اس کا تعارف خاصی شعوری عمر میں ہوا ۔ لیکن پو کا کلام پڑھتے ہی اسے محسوس ہوا کہ وہ اب تک اندھیرے میں تھا ۔ خود ہمارے عہد میں میرا جی نے ، بر خلاف میر سے فیض حاصل کیا ( ا کی غزلیں اس کی بین مثال ہیں ، لیکن انھوں نے اپنے اصلی اظہارات کو میر کی ہوا بھی نہ لگنے دی ، الملذا صرف یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا کہ چونکہ غالب نے نوعمری میں بیدل کو بہت پڑھا تھا اس لیے وہ ان کے دل دادہ ہو گئے ۔

 ہم سب نے ساحر لدھیانوی کو نو عمری میں بہت پڑھاتھا ، لیکن اب شاید ہی ان کا کوئی دل دادہ ہو ۔۔ مجد حسین آزاد کی تشخیص پر اتنا اضافہ کرنے کے بعد کہنے کی ایک دو باتیں اور میں تا کہ غالب کے شعری مزاج کو پہچاننے میں آسانی ہو ۔ سب سے پہلی بات تو وہی ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے ، یعنی غالب پر بیدل کا اثر ۔ خامہ بیدل کو شعری سفر میں اپنا عصافرض کرنے کے باوجود غالب بیدل پر کلیتا تکیہ نہیں کیے ہوئے تھے ۔


اسد ہر جانسن نے طرح باغ تاز ہ ڈالی ہے مجھے رنگ بہار ایجاد ی بیدل پسند آیا مجھے راہ سخن میں خوف گم راہی نہیں غالب عصاۓ خضر صحرائے سخن ہے خامہ بیدل کا ان اشعار اور اپنے اعترافات کے باوجود غالب کو سمجھنے کے لیے صرف بیدل کا حوالہ کافی نہیں ۔ اول تو جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں ، غالب پروپیگنڈا کے ماہر تھے ۔ انھوں نے لوگوں کو بر گشتہ دیکھ کر کہہ دیا کہ بھائی ہم تو بیدل کے پیروکار تھے ، اب جب عقل آئی ہے تو اس سے منحرف ہوئے ہیں ۔ 

جب یہ بات ثابت ہے کہ غالب بیدل سے منحرف نہیں ہوئے تو یہ بات بھی ماننا ضروری نہیں کہ وہ بیدل کے کلیتا غلام تھے ۔ بیدل کی سرشت میں ایک صوفیانہ پر اسراری تھی جس سے غالب بالکل خالی نظر آتے ہیں ۔ بیدل صرف شاعر نہ تھے ، وہ ایک سے بھی آگے کی چیز تھی ۔ 1 Ontology طرح کی مابعد الطبیعیات کے اگر موجود نہیں تو ماہر ضرور تھے ۔ یہ ما بعد الطبیعیات علم وجود غالب پر عقلیت اور ہوش مندی عادی تھی ۔ پیدل اس سے تقریبا بالکل معرا تھے ، لہذا کلام غالب کے لیے صرف کلام بیدل استعارہ نہیں غالب نے بیدل سے بہت کچھ سیکھا تھا ، لیکن اپنے مزاج میں عملی فکر کے غالب عنصر کی وجہ سے انھوں نے جو دنیا خلق کی وہ ہمارے لیے ہے ۔


 غالب نے بیدل سے شعر کا فن ضرور سیکھا لیکن انھوں نے بیدل کا اثر اس لیے قبول کیا کہ بیدل Relevant بیدل سے زیادہ صائب اور عربی سے زیادہ پیچیدہ خیال تھے ۔ اگر بیدل نہ ہوتے تو غالب عرفی اور صائب کو اپنا استاد مانتے ۔ شعر میں لفظ کو بر تنے کا اسلوب بیدل سے سیکھ کر غالب نے اس میں اپنی ہوش مندی داخل کی ۔ جن چیزوں کو وہ خیالی مضامین کہبہ کر ٹال گئے ہیں ، دراصل وہ اسی ہوش مندی اور عقلیت کا اظہار ہے جو بیدل کے یہاں نہیں ملتی ۔ بیدل کے بلند اور دور رس طرز اظہار کو اپنانے کی ایک اور وجہ ہو سکتی ہے ، غالب اردو کے ان چند بڑے شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے جاگیر دارانہ ماحول میں آنکھ کھولی ۔ انھیں اپنے حسب و نسب پر بھی فخر بہت تھا ۔ ذوق کے ہاتھ میں استراتھا یا زیادہ سے زیادہ تلوار ۔

 مومن میں رئیسانہ آن بان تھی لیکن ان کا سلسلہ نسب غالب کی طرح ممتاز و مفتخر نہ تھا ۔ اقتدار و اختیار کی جس فضا میں غالب نے پرورش پائی اور جس خاندان سے وہ تعلق رکھتے تھے ، اس میں شاعر کا وجود تقریبا قول محال تھا ۔ لیکن ایسی فضا میں آنکھ کھولنے والا شاعر دور میٹھا غبار میں اس سے عشق بن یہ ادب نہیں آتا کی طرح کا شعر نہیں کہہ سکتا تھا ۔ اس حقیقت پر کم نقادوں کی نظر گئی ہے کہ غالب کا گھریلو ماحول اس بات کا طالب تھا ( جس طرح جوش کا گھر یلو ماحول بھی اس بات کا متقاضی تھا کہ اس میں پروان چڑھنے والا شاعر قلند راشہ آزادہ روی کے بجائے شاہانہ آزادہ روی اور بلند کوشی کا حامل ہو ۔ نظیر اکبر آبادی اگر جوش کے گھرانے میں جنم لیتے تو شاید وہ بھی کڑ کتے گرجتے ہوئے شعر کہتے ۔

 غالب کی دانش ورانہ واقعیت جس میں حدود و قیود کو توڑ نکلنے کے رومانی ادا بھی ملتی ہے ، ایسے ماحول کی آئینہ دار ہے جو ذہنی اور عقلی برتری کا پروردہ تھا ۔ غالب کے یہاں جس ہوش مندی کی کارفرمائی ملتی ہے اس کے لیے دانش ورانہ ، مہم اور پیچید و اسلوب کے سوا کوئی اور اسلوب مناسب ہی نہ تھا ۔ اشیاء کو تو یہ نہ سمجھنا اور انھیں اس طرح پیش کر تا کہ ان کی تمام تمہیں بہ یک وقت دکھائی دے سکیں ، یہ جنون کے انداز نہیں ہیں ۔ جنون ( مثلا میر کا جنون ) اشیاء کی وحدت کو پہچانتا ہے ، چیچیدہ حقیقتوں کو آئینہ کر کے پیش کرتا ہے ۔ عقل اشیاء کی نیرنگی کو پہچانتی ہے اور سہل حقیقتوں میں بھی دو جہتیں ڈھونڈتی ہے جو دوسروں کی نظر سے پوشیدہ تھیں ۔ عقل کا اسلوب سادہ نہیں ہو سکتا ۔


شاعری ، اور خاص کر اردو شاعری میں جنون کو بڑا اہم مرتبہ حاصل رہا ہے ۔ ارسطو نے تو شاعروں کو مجنون قرار ہی دیا تھا ، شیکسپیئر نے بھی عاشق مجنون اور شاعر کو ایک ہی صف میں رکھا تھا ۔ تمام بڑے شاعر ، اور خاص کر تمام بڑے رومانی شاعر کسی نہ کسی حد تک عقل کے اس غیر توازن کے آئینہ دار ہیں جو ابتدائی شکل میں عقلی طر ز افہام کی نفی کرتا اور تفصیلی یا وحدانی طرز افہام پر اصرار کرتا ہے ، نیز ا پی آخری شکل میں عقلی بیوہار سے مکمل انکار کر کے باقاعدہ جنون میں بھی تبد میں ہو سکتا ہے ۔


 جنون اور عقل دراصل اشیاء کے افہام کے دو طریقے ہیں اور شاعری اور مابعد الطبیعیات میں جنون کو عقل پر فوقیت حاصل ہے ، جیسا کہ میں اور کہہ چکا ہوں ۔ تخیل اور وجدان کی قوت پر اس اصرار کی وجہ سے جو غیر توازن پیدا ہوتا ہے وہ اکثر شعراء کی ذاتی زندگی میں نظر آتا ہے اور اس کا اظہار لرزو خیز وخوف آگیں بھی ہو سکتا ہے ۔ بودلیئر نے اپنے روز نامچے میں ان کیفیات کا ذکر ایک انوکھی شدت اور دل ہلا دینے والی بے چینی کے ساتھ کیا ہے ۔ ایک جگہ وہ کہتا ہے ، میں نے اپنے ہسٹریا کو رونگٹے کھڑے کر دینے والے خوف اور اہتزاز کے ساتھ پالا ہے ۔ اب مجھے مسلسل دوران سر کی شکایت رہتی ہے ۔ آج ۲۳ جنوری ۱۸۲۴ ء کو مجھے ایک انوکھی طرح کا احساس ہوا ۔ میں نے جنون کے بال وپر کو اپنے سر پر سے گزرتے ہوئے محسوس کیا ۔ " آغاز جنون سے پہلے کی ایک نظم میں وہ کہتا ہے ، ہم اس وقت صحت مند ہوتے ہیں جب ہم زہر پیتے ہیں ۔ یہ آگ ہمارے دماغ کے خلیوں کو اس طرح جلا ڈالتی ہے کہ ہم چاہتے ہیں اس قعر میں غرق ہو جائیں ۔

 جنت ہو یا دوزخ ؟ کسے اس کی فکر ہے ؟ لا معلوم سے گزر کے ہم نئے کو پالیں گے بلاواسطہ علم پر اس شدت کا اصرار غالب کے یہاں مفقود ہے ۔ بال عتقا اور سایہ ہما کا ذکر بار بار کرنے کے باوجود وہ شاید ان چیزوں پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔ کیٹس کو اپنے آخری دنوں میں اندھیرے سے بہت وحشت ہونے لگی تھی ، اس لیے اس کا تیمار دار دوست شمعوں کو دھاگے سے اس طرح باندھ کر رکھ دیتا تھا کہ ایک بعد دوسری خود به خود جل اٹھے ۔

 ایک رات جب کمیٹس کی آنکھ اچانک کھل گئی اور اس نے خود بہ خود روشن ہوتی ہوئی شمع کو دیکھا تو ایک دم پکار اٹھا ، جان ! جان ! دیکھو پر یاں میری روح سلب کرنے کو آئی ہیں ۔ " غالب اگر یہ منظر دیکھتے تو موجہ گل کے چراغاں کا ذکر کرتے ۔ موت جس کا تذکرہ میر نے اس ذوق و شوق سے کیا ہے ۔ لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جاتا آب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزا جاتا کچھ نہ دیکھا پھر بہ جز یک شعلہ پر پیچ و تاب شمع تک ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا مت کر عجب جو میر ترے غم میں مر گیا جینے کا اس مریض کے کوئی بھی ڈھنگ تھا جم گیا خوں کف قاتل پہ ترا میر نر بس ان نے رو رود یا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے اس کی ایفائے عہد تک نہ جئے عمر نے ہم سے بے وفائی کی

 موت غالب کے لیے ذہنی پہلے پن ، تازہ گفتاری اور عقلی شکست وریخت کے موقع فراہم کرتی ہے ۔ مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی وائے ناکامی کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے بہار حیرت نظار و سخت جانی ہے حنائ پاۓ اجل خون کشیگاں تجھ سے جذ بہ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا زمیں کو صفحہ گلشن بنا یا خوں چکانی نے چون بالید نی با از رم نخچیر ہے پیدا بود لیٹر کی ڈائری کے تقریبا چھ مہینے پہلے لینی ۲۳ مئی ۱۸۲۱ ء کو غالب نے لکھا تھا ، نہ سخن وری رہی نہ سخن دانی ، کس برتے پر تا پانی ۔ ہاۓ دلی ! بھاڑ میں جاۓ دلی ! " غالب کا جنون اس سے آگے کبھی نہ بڑھا ۔


 میر کی طرح انھیں بھی اوراق مصور کے پارہ پارہ ہونے کا غم تھا لیکن انھوں نے میر کی طرح کسی چاند میں کسی کی شکل نہ دیکھی تھی ۔ دلی کا مرثیہ جو انھوں نے اس خط میں لکھا تھا ، دوسروں کو رلادیتا کے ساتھ Terror اور Delight ہے ۔ یہ وہ جنون ہے جو کثرت غم سے پیدا ہوا ہے ، وہ جنون نہیں جو بودلیئر نے عقل کی نفی کر کے چنانچہ غالب کا کلام ایک ایسے ہوش مند اور تعقل کوش انسان کا کلام ہے جو کائنات کے مظاہر میں خود کو کم نہیں کر دیتا ۔

 ان کی تمام رومانیت بغاوت کی رومانیت ہے ، لیکن رومانی ہونے کے باوجود وہ دل کو رو کے رہتے ہیں ، دماغ کو آگے لاتے ہیں ، اس لیے ان کا کلام مشکل ہے ۔ یہ اشکال پیچیدہ عبارت آرائی کا مرہون منت نہیں ہے ، بلکہ ایک فکری سلسلے کی آخری کڑی ہے ، جس میں وجدان ایک ایسی عقل کا تابع ہے جو ہمہ جہت ہے ۔ بر روۓ شش جہت در آئینہ باز ہے یاں امتیاز نا قص و کامل نہیں رہا وا کر دیے ہیں شوق نے بند نقاب حسن غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا غالب نے معشوق کو مشکل پسند کہاہے ، لہذاد کھنا یہ ہے کہ مشکل پسندی کی تعریف انھوں نے کیا کی ہے ۔ 

یہ بات ملے کرنے کے بعد کہ غالب مشکل پسند کیوں تھے اور یہ کہنے کے بعد کہ ان کا اشکال در اصل صد جہت ابہام کا مرہون منت ہے ، اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان کے شعر کی وہ داخلی مشینیات کیا ہے جس کے ذریعہ سے یہ صد جہت ابہام بروۓ کار آتا ہے ۔ شمار سجه مرغوب بت مشکل پسند آیا تماشائے بہ یک کف برون صد دل پسند آیا معشوق کو بہ یک کف برون صد دل کی اداخوش آتی ہے ۔ اپنی اس ادا کو ظاہر کرنے کے لیے وہ مجر دالفاظ سے کام نہیں لیتا ، بلکہ ہاتھ میں عقیق سرخ کی تشہیچ لے لیتا ہے ۔ گویا وہ اپنی سرشت کا استعاراتی اظہار کرتا ہے ۔

 یہ کہنے کے بجاۓ کہ میں مشکل پسند بھی ہوں اور ایک ہاتھ سے سیکڑوں دل اڑالے جانا مجھے اچھا لگتا ہے ، وہ اپنے ہاتھوں میں تشویچ لے کر بہ یک وقت دو حقائق کا اظہار کرتا ہے ، اور ایسا اظہار جو بلاواسطہ الفاظ کا مرہون منت نہیں ہے ۔ اس طرح استعاراتی انداز بیان مشکل پسندی کا معیار ٹھہرا ۔ استعاراتی انداز بیان سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ان میں سب سے بڑا فائدو یہ ہے کہ استعارہ اس حقیقت سے بڑا ہوتا ہے جس کے لیے دولا گیا ہوتا ہے ، چنانچہ جس حقیقت کی نمائندگی سے بڑی ہو جاتی ہے ، یا اس میں کسی ایسی جہت کا اضافہ Dimension کرنے کے لیے استعارہ لا یا جاتا ہے ، وہ حقیقت اپنے عمومی ہو جاتا ہے جو اس میں پہلے نہیں تھی ۔

 دوسر ا حاصل یہ ہوتا ہے کہ ایک استعارہ بہ یک وقت کئی حقیقتوں کی طرف اشارہ کر سکتا ہے ۔ اس طرح شعر کی روایتی خوبی ، یعنی ایجاز تو حاصل ہو ہی جاتی ہے ، لیکن ساتھ ہی ساتھ اکثر یہ بھی ممکن ہو جاتا ہے کہ دو متضاد حقائق کو ایک ہی ساتھ ظاہر کر دیا جائے ۔ اس سے بڑھ کر منزل یہ ہوتی ہے کہ دو متضاد حقائق کو اس طرح ظام کیا جاۓ کہ وہ دراصل ایک ہی نظر آئیں ۔ بودلیئر نے رومانیت کی تعریف یوں کی تھی کہ یہ محسوس کرنے کا ایک ڈھنگ ہے ۔ 

اس پر یہ اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ انسان کا ذہن اکثر مختلف کیفیات یا مشاہدات کو ایک ساتھ اپنے دائرے میں لے لیتا ہے ، اس لیے محسوس کرنے کے اس نئے ڈھنگ کو ظاہر نے کے لیے استعارے کی زبان استعمال کرنا پڑتی ہے ۔ میں نے ابھی متضاد حقائق کو ایک کر کے دکھانے کی بات کی ہے ۔ ہیئت اور موضوع بھی متضاد حقائق ہیں اور استعارہ ان کو بھی ایک دوسرے میں ضم کر دیتا ہے ۔ شلیگل نے ڈیڑھ سو برس پہلے کہا تھا کہ جدید ادب " بیت اور موضوع کے ، بہ حیثیت ضدین آپس میں کی کوشش کرتا ہے ، جس چیز کا استعارہ کیا جاۓ اسے موضوع اور استعارے کو ہیئت فرض کیا جائے تو Intimate Peneteration استعارے کی کارفرمائی کا عجیب عالم نظر آتا ہے ۔ موجودہ شعر میں معشوق نے اپنی صد دل ستانی کا استعارو از راہ مشکل پسندی تنسیخ کو ہاتھ میں لینے سے کیا ہے ۔

 اس طرح تشیع کے سرخ وانے دل کا مقام اختیار کر لیتے ہیں ، جس طرح تسبیح کے دانے معشوق کی انگلیوں کے لمس سے گرمی اور حرکت پاتے ہیں ، اسی طرح عاشقوں کے دلوں کو محبت کی انگشت نگاہ سے گرمی اور حرکت نصیب ہوتی ہے ۔ جس طرح تسبیح کامر دانہ انگلیوں کی حرکت کے ساتھ ساتھ اوپر سے نیچے تک کا سفر کر تا ہے لیکن جہاں کا تہاں رہتا ہے ، اسی طرح عاشقوں کے دل اپنی تمام وحشت خیزیوں ، امید و نیم ، قرب و بعد کے زیر و بم کے باوجود وہیں کے وہیں رہتے ہیں ۔

 محبوب کی حتا آلودہ ، سفید اور مخروطی انگلیاں سوچ کے سرخ دانوں کے ساتھ وہی رشتہ رکھتی ہیں جو صبح اور شفق کا ہوتا ہے ۔ شفق کے خو نہیں ہونے کے باوجود صبح کی سفیدی کم نہیں ہوتی ۔ اس طرح تسبیح کا ہاتھ میں لینا ، جو استعارہ ہے ، اور دل بری جو شے مشہود ہے ، ایک ہی ہو جاتے ہیں ۔ لہذا غالب کے نزدیک مشکل پسندی کا معیار استعارہ ہے ، لیکن اس استعارے میں اس مخصوص ہوش مندی کی بھی کار فرمائی ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے اور جو میر کے یہاں مفقود نظر آتی ہے ۔ اس ہوش مندی یعنی دانش وارانہ حاکمیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ غالب کا استعارو ہیت اور موضوع کے اس امتزاج کو حاصل کر لیتا ہے جہاں استعارے کو الگ نہیں کیا جا سکتا ، ورنہ استعارے کا روایتی استعمال تو استعارے کو لباس کی طرح برتا ہے جس کو شعر سے الگ بھی کر سکتے ہیں ۔ 

بہت ممکن ہے استعار و الگ کرنے سے شعر کے زور یا حسن میں کمی آجائے ، لیکن بنیادی مفہوم میں کمی نہیں آسکتی ۔ غالب کے یہاں استعارو چونکہ الگ نہیں ہو سکتا ، اس لیے الگ کرنے کی کو شش شعر کا خون کرنے میں کامیاب ہو جاۓ تو ہو جاۓ ، لیکن اور کچھ نہیں ہاتھ آسکتا ۔ یہی غالب کے شعر کا اشکال ہے ۔ ہم استعارہ الگ کرنے کی کو شش کرتے ہیں اور شعر کو تلف کر دیتے ہیں ۔ اگر استعارے کو الگ کر کے صرف یوں کہا جاۓ کہ معشوق مشکل پسند ہے اور اسے بہ یک کف صد دل بردن کی ادا پسند ہے تو وہ تمام معنویتیں جواس عمل میں شمار سجہ نے پیدا کی ہیں ، غائب ہو جائیں گی ۔

استعارے کے ذریعے موضوع اور ہیئت کا امتزاج ان شاعروں نے بھی حاصل کیا ہے جو جنون کے شاعر ہیں ، یعنی جن کے یہاں تحصیلی طر ز افہام وآگہی کو اس درجہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ دانش مندانہ تفکر کی نفی کرتے ہیں ۔ میر اور فیض کی مثالیں سامنے کی ہیں ۔ لیکن انوکھی بات یہ ہے کہ اس امتزاج کے باوجودان کے یہاں استعارے کا وہ فائد و کم کم نظر آتا ہے جس کی طرف میں نے شروع میں توجہ دلائی تھی ۔ یعنی ان کا استعار و حقیقت کو اس در جبہ بڑا نہیں کر د کھاتا کہ اس میں حقائق کی کئی ایسی جہتیں نظر آنے لگیں جو پہلے ناپید تھیں ۔

 غالب کے ابہام کار از اسی نکتے میں ہے اور یہ کیفیت ان کے کلام میں الفاظ کے ماورائی مفاہیم سے اس غیر معمولی اشغال کے ذریعے پیدا ہوتی ہے جو دوسرے شاعروں کے یہاں نہیں ملتا ۔ ایک شعر جو میں نے پہلے غالب کے عقلی اشغال کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے ، پھر دیکھیے ، جہ یہ بے اختیار شوق دیکھا جا ہے سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا اس شعر کے استعارے کی اساس چند حقائق پر ہے جو بہ ذات خود فرضی ہیں اور چند اور حقائق کا استعارہ ہیں ۔ یہ فرضی حقائق عام ہیں اور وہ حقائق بھی جن کا یہ استعارہ ہیں ۔ عاشق محبوب سے محبت کرتا ہے ، یہ بنیادی اور اصلی حقیقت ہے ۔

 اس کا استعارہ یہ ہے کہ عاشق محبوب پر جان دینے کو تیار ہے یا اس پر محبوب کے حسن کا اس قدر شدید اثر ہوتا ہے کہ اسے موت سے مشابہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس استعارے کو پلٹ دیجئے تو ظاہر ہوتا ہے کہ معشوق عاشق کی جان لیتا ہے ۔ اس استعارے کو اور پھیلا ہے تو ظاہر ہو تا ہے کہ معشوق کی بے رخی عاشق کو شاق گزرتی ہے اور اس کے لیے موت کے برابر ہے ۔ شاعری میں یہ استعارے حقائق کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔

 اب ان حقائق کا استعارہ یہ ہے کہ معشوق ، عاشق کی موت کے لیے تلوار یا اس طرح کے دوسرے ساز و سامان رکھتا ہے اور عاشق چونکہ معشوق پر مرتا ہے اس لیے دواس کی تلوار سے قتل ہونے کو تیار ہے ۔ قتل ہونے پر آمادگی اس شوق کا اظہار ہے جو معشوق کے لیے عاشق کے دل میں ہے اور معشوق بھی چونکہ بے رخی کا شیو ہور کھتا ہے ، اس لیے اسے قتل کرنے میں کوئی عار نہیں ۔ استعاره در حقیقت بمنزلہ حقیقت ہے ، اس درجے پر غالب کا شعر ظہور میں آتا ہے ۔ شدت شوق وجذبہ کے عالم میں تنفس تیز ہو جاتا ہے ۔

 یہ کیفیت جنسی ہیجان کی حالت میں خاص طور پر نمایاں ہوتی ہے ۔ تلوار جو ہوا میں لپ لپاتی ہوئی گردش کر رہی ہے اور عاشق کی گردن پر گرنے والی ہے ، ہیجان تنفس کا منظر پیش کرتی ہے ، گو یا تلوار عاشق کی گردن اتار دینے کو بے چین ہے ۔ لیکن یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ جذ بہ بے اختیار شوق کس کا ہے ؟ یہ جذ بہ تلوار کا بھی ہو سکتا ہے جو گردن اڑانے کو بے چین ہے ۔ یہ عاشق کا بھی ہو سکتا ہے جو مرنے کو بے چین ہے اور اس کی بے چینی نے تلوار کو بھی متاثر کر دیا ہے ۔ یہ جذ بہ معشوق کا بھی ہو سکتا ہے جو گردن اڑانے کے لمحہ میں اس قدر شد ید جذ باتی ہیجان کا شکار ہے کہ اس کا اثر تلوار پر بھی ظاہر ہو رہاہے ۔ گو حقیقت صرف اس قدر ہے کہ عاشق قتل ہونے کو تیار ہے ، لیکن استعارے نے اسے اتنا بڑا کردیا کہ اب اس میں ایسی بہت سی کیفیت میں موجود نظر آنے لگیں جو فی الواقع اس میں نہیں تھیں ۔

 اگر اس شعر میں فارسی یا عربی کا کوئی مخلق لفظ یا کوئی دور از کار تنی رکھ دی جاتی تو شعر صرف مشکل ہو جاتا لیکن یہاں عام الفاظ کے ان مفاہیم سے دل چسپی ظاہر کی گئی ہے جو فی الواقعہ ان الفاظ کے ماورا ہیں ۔ جذ بہ بے اختیار شوق " کی ماورائیت یہ ہے اگرچہ " شوق کا لفظ عاشق کے دل کا حال بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ، لیکن اس جگہ اسے یوں استعمال کیا گیا ہے کہ وہ اگر اس معنی کی بالکل نفی نہیں کرتا تو کم سے کم دوسرے معنی کو آنے سے روکتا بھی نہیں ۔ مطلس کی بے رابطی اگر غیر معمولی جوش و شوق کی طرف اشارہ کرتی ہے تو اس کے ساتھ جنسی پہچان کا پہلو بھی در آتا ہے جو " شمشیر " کے علامتی لفظ سے استحکام پاتا ہے ۔


شمشیر " کا ماورائی مفہوم شدید جنسیت کا حامل ہے ۔ اس طرح " شمشیر " اور " دم شمشیر " ایک دوسرے کے جنسی معنی کو تحکم کر رہے ہیں ۔ جنون کے خلق کردہ اشعار ان پیچیدگیوں کے اہل نہیں ہو سکتے ۔ ان کی مثالیں دیکھنے کے لیے تو بس شیکسپیئر ہی کے پاس جانا ہو گا ۔ استعارے کو عقل سے مدغم کرنے کا یہ تیور غالب کی مشکل گوئی کی اساس ہے ۔ اس کے مطالعے کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اسے قصیدے اور مریے کے تکنیکی مشکل پین سے الگ چیز سمجھا جاۓ ۔ غالب کا اشکال بالذات مقصود نہیں تھا بلکہ اس کا مقصود مشاہدات کی مختلف سطحوں کو یک جا کر نا تھا ۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مشکل شعر خراب ہو تا ہے اور آسان شعر خراب تر ۔ آسان ( بینی مجسم کی ضد ) شعر بھی اچھا اور بڑاشعر ہو سکتا ہے ۔

 مشکل شعر بھی اچھا ہو سکتا ہے ، لیکن مہم شعر اور مشکل شعر ہم معنی اصطلاحات نہیں ہیں ۔ غالب کو مشکل گو کہہ کر ٹال دینے کے معنی یہ ہیں کہ انھیں غزل میں قصیدہ نگار فرض کیا جائے یا انہیں الفاظ کو ٹکر ا ٹکرا کر زبردستی ایک بھونڈی شعری عمارت تعمیر کرنے کا مجرم ٹھہرایا جاۓ ۔ ایلز بجھ بیرٹ براؤٹنگ نے اپنے شوہر کے بارے میں کہا تھا کہ بہت سے شاعر چلتی دھوپ  میں کھڑا ہو نا پسند کرتے ہیں اور بہت سوں کو تاریک گھر کی ٹیم روشنی اچھی لگتی ہے ۔ میرا شوہر موخر الذکر میں سے تھا ۔ تاریخ نے عموما یہ فیصلہ کیا ہے کہ دھوپ میں کھڑے ہونے والوں کے شعر بہتر تھے ۔ لیکن ایلز بیٹے نے ایک تیسری قسم کے شعرا کو نظر انداز کر دیا تھا ۔ یعنی وہ شاعر جو تاریک گھر کی نیم روشنی میں رہتے ہیں لیکن ان کا وجود نیم روشنی کو دھوپ میں شہد میں کر دیتا ہے ۔ غالب انھیں میں سے تھے ۔

کلام غالب میں طنز و مزاح


 ہنسنا ، ہنسانا انسان کی فطرت میں داخل ہے ۔ اس کے ذریعے تھوڑی دیر کے لئے غم دور ہو جاتا ہے اور انسان خوشی سے ہمکنار ہو جا تا ہے ۔ بنے ہنسانے کا یہ فن ادب کی اصطلاح میں مزاح کسلاتا ہے ۔ مزاج کسی کھی ، کسی پر صورتی پر خوش دلی سے بننے کا نام ہے ، اس میں غم و غصہ شامل نہیں ہوتا اور مسرت حاصل کرنے کے سوا اس کا کوئی اور مقصد بھی نہیں ہوتا ۔ اس کے بر خلاف طنر با مقصد ہوتا ہے ۔ طنز نگار کسی برائی کو اور زیادہ برا بنا کر اس طرح پیش کرتا ہے کہ لوگ اس برائی سے نفرت کرنے لگیں اور اسے ختم کرنے کی کو شش کر یں ۔

 مرزاسد اللہ خاں غالب ( 1797-1869 ) کو اردو کا پہلا مزاح نگار مانا گیا ہے ۔ اردوادب میں انہوں نے جدید طنز و مزاح کی ابتداء کی ہے ۔ ان کے طنز اور مزاحیہ خیالات نثر اور نظم دونوں میں ملتے ہیں ۔ نائب فطر ناظر ایف انسان تھے ۔ ان کے مزاج میں ظرافت اور شوخی کا عنصر بہت غالب تھا ۔ اپنی ذاتی زندگی میں ، دوستوں کی محفلوں میں وہ اپنی باتوں سے لوگوں کو ہنساتے رہتے تھے ۔ یہی ظرافت اور شوخی ان کے کلام میں بکثرت ملتی ہے ۔ غالب کے مزاج میں ظرافت اس قدر تھی کہ اگر ان کو بجاۓ حیوان ناطق کے حیوان کہا جائے تو بجا ہو گا ۔

 حسن بیانی ، حاضر جوابی اور بات میں بات پیدا کرنا ان کی خصوصیات میں سے تھے ۔ غالب کا ظرف بہت وسیع ہے ۔ جہاں دوسرے کے جگر شق ہو جاتے ہیں وہاں غالب صرف دھیرے سے مسکرا دیتے ہیں ۔ ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں ہی خوش ہوا ہے راو کو پر خار دیکھ کر غالب کی ظرافت تبسم زیر اب کی ظرافت ہے ۔ اس میں لطافت و بلندی ہے ، فرحت اور انبساط ہے ، مسرت اور خوش دلی ہے لیکن تعلنی یا کڑواہٹ ، تنقیص یا تنقید ، دل کلنی بالڈیت رسانی کا شائبہ تک نہیں ملتا ۔ پلادے اوک سے ، ساتی ! جو ہم سے نفرت ہے پیالہ نہیں دیتا ، نہ دے ، شراب تو دے امد خوشی سے مرے ہاتھ پانو پھول گئے کہا جو اس نے ، ذرا میرے پانو واب تو دے غالب کے طنز و مزاح کو گل افشانی گفتار اور دلفریبی رفتار کا نام تو و یا جا سکتا ہے لیکن ان کی ظرافت کو عریانی ابتدال یا استہزاء سے موسوم نہیں کیا جا سکتا ۔ 


مارا زمانہ نے اسد اللہ خاں تمہیں وہ ولولے کہاں ، وہ جوانی کدھر گئی رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے و ھوۓ گئے ہم اتنے کہ اس پاک ہو گئے غالب کے طنز و مزاح کی مماثلت کے لئے سیکٹر یا اس کا کچھ حد تک ایڈیشن کا ذکر کیا جا سکتا ہے لیکن غالب کی ظرافت کے سلسلے میں انشاسی ، سودا ، جاندن سویلت بر نارڈ شدہ کا نام نہیں لیا جا سکتا ۔


جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو ؟ اگ تماشہ ہوا ، گلا نہ ہوا پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا ؟ غالب سے پہلے کی شہ عربی صرف دل والوں کی دنیا تھی ۔ غالب نے اسے ذہن دیا ۔ انہوں نے غزل میں نئے نئے مضامین اور نئے نئے موضوعات داخل کئے اور اس کے موضوعات کو بہت وسیع کیا ۔ شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا قیں تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملالیں یارب ؟ سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی جہاں تک غالب کا تعلق ہے ، ان کے کلام کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرزانہ توز ند گی کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں اور نہ ہی ساج کی دوسری باتوں کو بلکہ بیشتر دو خود اپنی ہی ذات کو طنز کا موضوع بناتے ہیں ۔ ہو گا کوئی ایسا بھی ، کہ غالب کو نہ جائے ؟ شاعر تو وہ اچھا ہے ، پہ نام بہت ہے غالب براند مان ، جو واعظ برا کہے ایسا بھی کوئی ہے ، کہ سب اچھا نہیں ہے ؟ غالب کا طنران کی ظرافت مزاج اور شوی وطیع کا نتیجہ ہے ۔ غالب کے کلام میں شوٹی ، بے تفتی ، لاتی پیر جتنی بھی خوب ملتی ہے ۔

 عشق نے غالب نکما کر دیا 

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

 کعبہ کس منہ سے جائو گے غالب

 شرم تم کو مگر نہیں آتی


 غالب مذ ہبی جذبات پر مزاحیہ طنز بھی کرتے اور کہتے ہیں ۔ واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی جس میں لاکھوں پر اس کی حور میں ہوں ایسی جنت کا کیا کرے کوئی نہ پونچھ اس کی حقیقت حضور والانے مجھے جو بھیجی ہے مین کی روشنی روٹی نہ کھاتے کیوں نکلتے وہ خلد سے بام جو کھاتے حضرت آدم یہ ٹیسٹی روٹی غالب کی شاعری میں سلامت روانی ، حدت ، بلند خیالی اور فلسفہ پا یا جاتا ہے ۔

 فلسفیانہ انداز میں غالب طنز کرتے ہیں ۔ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت ، لیکن ول کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کوٹی مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں بہرا ہوں میں تو چاہے وہ نا التفات سنتا نہیں میں بات مکرر کے بغیر غالب کے اکثر اشعار کا ظاہر کچھ اور ہو تا ہے اور وہ کہنا کچھ اور چاہتے ہیں ۔ کوئی ویرانی کی پرانی ہے وشت کو کچھ کر گھر یاد آیا غالب نے جگہ جگہ اپنی ویرانی مفلسی ، بد حالی اور شکستگی پر بھی بھر پور ملکر کیا ہے ۔ ان کا لہ منہ میچ تو لہ فی ہر گز نہیں ہے ۔ 


انگ رہا ہے درو دیوار پر سیر و غالب

 ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

 ر ہے اب اسکی جگہ چل کر جہاں 

کوئی نہ ہو ت فن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ


 ہو پڑیئے کر پیار تو کوئی نہ ہو تیمار دار اور اگر مر جائے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو آنلایک ، انکار اختلافات او استفسار غالب کے طر یہ اشعار کے موضوعات ہیں ۔ جب میکدہ چھٹا ، تو پھر اب کیا نگہ کی قید مسجد و مدرسہ کو کوئی فائدہ ہو غالب نے اردو ادب کو ایک نئی بصیرت اور تاز و آگہی سے روشناس کرایا ہے ۔ جنہوں نے ماورائیت کو مجروح کئے بغیر ارضیت کی ایک نئی روایت کو اردو غزل کی تاریخ میں شامل کر دیا ۔


لازم نہیں کہ خضر کی نام پیروی کر میں ما تا کہ ایک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے حيف 1 اس پیار کرو کپڑے کی قیمت غالب جس کی قسمت میں ہو عاشق کا کر یہاں ہو تا غالب کے طنزیہ اور مزاحیہ اشعار کو سمجھے ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے ۔ مرزا غالب کی شاعری میں جدید طنز و مزاح کے خیالات نجر پور ملتے ہیں ۔

 غالب نے طنز و مزاح کے لئے وہ کام کئے ہیں ، جن سے بعد کے طنز و مزاح والوں کی راہ آسان ہو گئی ۔ غالب کی شاعری میں طنز و مزاح کے نوع بہ نوع اسالیب جلوہ گر ہیں ۔ یعنی کہیں تو محض طفر ہے اور کہیں طنز ومزاح بیک وقت موجود ہیں اور کہیں جھنجلاہٹ وار مزاح ہے اور کہیں صرف مزاج ہے ۔ غالب سے پہلے اردو شاعری کے پاس جذبات تھے احساسات تھے ، زبان و بیان کے کر تے تھے ، لیکن وہ حسین و شوخ ذہانت نہ تھی جو پیکر الفاظ میں روح پھونک دیتی ہے ۔ یہ مرزا کا عطیہ ہے اور اس پر اردو جتنا بھی نظر کرے کم ہے ۔


کلام غالب میں صوفیانہ عناصر 


شاعری میں تصوف کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے ۔ صوفیا کبھی بھی اپنا علم بلا واسطہ عام نہیں کرتے لیکن بہت سے صوفیا نے شاعری کے ذریعے اللہ کی ذات ، قرآن کے معنی اور اللہ سے اپنے عشق کو بیان کیا ہے ۔ صوفیا نے اپنی بات کو شاعری کی شکل میں اس لیے بھی بیان کیا کہ اس طرح بات بدلتی نہیں ہے کیونکہ شعر کو ہمیشہ لفظ بہ لفظ نقل کیا جاتا ہے ۔

 ادب بتنا اپنے نفس کو صورت پزیر کرنے میں کامیاب ہو تا ہے اتنا ہی اعلی متصور ہوتا ہے ۔ صوفی جب اپنے نفس میں جھانک کر آگہی کو اشعار کاروپ دیتا ہے تو تخلیق کے عمل سے گزر کر ایسا کر پاتا ہے ۔ صوفی کا اپنی زندگی کے ساتھ ایسا رشتہ ہوتا ہے کہ وزندگی کی گہما گہمی عامل بھی ہوتا ہے اور خارج بھی ، یہی حال شاعر کا ہوتا ہے اس لیے صوفی کے لیے یہ آسان ہو تا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو شعر کی شکل دے کر اپنامدعا بیان کرے ۔ شاعری پر بھی تصوف کا بہت گہرا اثر پڑا ۔

 شاعری نے تصوف کی تعلیمات میں راز داری کی لہر سے ہی " اخفائے راز ” کا گر اور رمزیت سیکھی ۔ بہت سے شعرا ایسے گزرے ہیں جنہیں عموما صوفی نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن انہوں نے صوفیانہ شاعری کی ، دراصل وہ خدا کی ذات سے معرفت حاصل کر چکے تھا لیکن جیسا کہ صوفی کی تعریف میں کہا جاتا ہے کہ اسے عام آنکھ نہیں پہچان سکتی ۔ تصوف میں جناب غوث الاعظم کا بہت اونچا مقام ہے ، انہوں نے شاعری کی صورت میں اپنے علم کو بیان کیا ۔ آپکا ایک شعر ہے ۔ 

وقت خیلی خد اور رقص آمده کوه طور اندرول سلمین سنگ از پیدا شد طرب یعنی تجلی خدا کے وقت کوہ طور پر رقص کی کیفیت طاری ہو گئی اور یوں سخت دل پتھر کے اندر بھی طرب اور مستی پیدا ہو گئی ۔ یہ اثر تھی جیلوں حق کی کیفیت کا ۔ اسی طرح اکبر الہ آبادی کی شاعری میں بھی تصوف کی جھلک ملتی ہے ۔ پس جان گیا میں تری پہچان نہیں ہے تحول میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آیا اکبر نے خدا کی ذات میں موجود ایک راز کا ذکر کیا ہے کہ اللہ کو دل والے پہچان سکتے ہیں لیکن عام آنکھ نہیں پہچان سکتی ۔ اس شعر سے یہ لگتا ہے کہ اکبر کو بھی اللہ کی ذات کو جانے کا موقع اللہ کی طرف سے دیا گیا اور اکبر نے یہ جانا کہ ا للہ کو جاننا بہت مشکل ہے اور پھر اسے دل میں رکھا جاتا ہے زبان پر نہیں لایا جا سکتا ۔

 

بہرام جی کی شاعری میں بھی تصوف کے ذرات ملتے ہیں ، آپ کا ایک شعر ہے ۔ ے یار کو ہم نے پر ملا دیکھا آشکار کہیں چھپا دیکھا صوفیا کہ دو گروہ میں ایک وہ جو وحدت الوجود کا قائل ہے اور دوسرا وحدت النشود کا ۔ زیادہ صوفیا کا جھکاؤ وحدت الوجود کی طرف رہا ، جن صوفیا نے شاعری کی ان میں مومن خان مومن کے علاوہ سب ہی کسی نہ کسی بد تک وحدت الوجود کے قائل تھا ، صرف مومن نے اس نظریہ کی سختی سے تردید کی ۔ مومن کہتے ہیں ۔


مومن ہے اگر چہ سب اسی کا یہ ظلمبور توحید وجودی کا نہ کر نا ند کور ین کے بنائے ہیں خدا نے بندے بند سے کو خدا بناۓ کس کا مقصود جب کہ خوجہ میر در و جنہیں تصوف کا سب سے بڑا اردو شاعر گردانا جاتا ہے دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ے جنگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا توی آیا نظر جید عمر دیکھا بہت سے صوفی شعرا ، دونوں نظریات کو صحیح مانتے ہیں جیسا کہ سید جلال الدین توفیق لکھتے ہیں ۔ دھر دیکھوانہی کاظاہر و باطن میں ہے جلوہ کبھی دو دل میں رہتے ہیں بھی چشم تماشائیں ان تمام شعراء میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کو ایک منفرد مقام حاصل ہے ۔

 حالی کہتے ہیں : " لٹریری قابلیت کے لحاظ سے مرزا ( غالب ) جیها جامع حثیت آدمی فیضی اور خسرو کے بعد آج تک نہیں آیا غالب کے کلام میں فلسفہ ، حکمت ، تصوف اور فکر سب کچھ ملتا ہے ۔ غالب کی شخصیت ہمہ گیر تھی ۔ شاعروں کی محفل میں سند صدارت پر نظر آتے ، صوفیوں کی صحبت میں شاہد و مشہور کے راز بیان کرتے ، مذہب کے حقائق کو اشعار میں بیان کرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا ۔ اور انہیں اس بات کا دراک بھی تھا آپ فرماتے ہیں ۔ ے پر اور پر گرا میں جا بو سخندانے غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد یعنی اگر شہر میں کوئی سخن ور ہے تو اسے میرے سامنے لاؤ کیونکہ مجھے بھی کچھ کہتا ہے ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں شاعر بنے پر آمادہ نہ تھا لیکن فن شاعری نے مجھ سے خود استدعا کی کہ مجھے اپنا بچیے ۔ 

کسی قدیم شاعر کی زمین یا خیال پر شعر لکھا جاتا تو فرماتے کی میں نے توارد نہیں کی بلکہ اس شاعر نے ازل میں ہیں میری متاع چرالی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ غالب زمانے کی نہ قدری سے تنگ آکر قنوتیت پسند بن گئے تھے ، آخر ایک وقت ایسا آ گیا کہ آپ کو زمین و آسمان بھی جام واژگوں نظر آتے تھے پھر بات یہاں تک پچی کی خدا اور عشق کی بات کرتے ہوے بھی بادہ و  ساغر کئے بغیر نہ رہے ۔ 

اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ عمر خیام ، حافظ اور غالب منے معرفت سے سرشار ہیں لیکن تینوں شراب نوشی میں اتنے مشہور ہوئے کہ عام لوگ انہیں صوفی نہیں بلکہ مئے خواری سمجھتے ہیں ۔ اسی لیے ان کے بہت سے اشعار جن میں تصوف کو گوندھا گیا ہے لوگوں نے محمل قرار دیا ۔ جبکہ غالب حضرت کالے صاحب جیسے بڑے بزرگ کے مکان میں رہتے رہے اور ان سے سیکھتے رہے ۔۔ 


حالی لکھتے ہیں کہ " علم تصوف میں جس کی نسبت کہا گیا ہے کہ برائے شر گفتن خوب است اس سے مرزا غالب کو خاص نسبت تھی ۔ آزاد لکھتے ہیں " غالب مولا نا فخر الدین دہلوی کے خاندان کے بیت تھے ۔ لیکن اس سب کے باوجود غالب کو خالص صوفی شاعر نہیں کیا جا سکتا ، وہ معرفت رکھتے تھے لیکن شاعری میں تصوف کم جگہ پر دیکھنے کو ملتا ہے ، اسکی دو وجوہات تھیں ایک تو فارسی شاعری میں تصوف کو اہمیت حاصل تھی اس لیے غالب تصوف کی طرف مائل ہوۓ دوسراطبیعت بھی غم والم اور بغاوت کی طرف مائل تھی ۔ لیکن جب جب آپ نے شاعری میں صوفیانہ

انداز اختیار کیا آپ نے کمال درجے تک محقق اور خدا کی ذات کو بیان کیا ۔ غالب نے اس شعر میں خدا کی خدائی کی حقیقت کو چند لفظوں میں : بیان کرنے کی سعی کی ہے جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ۔ نہ تھا ہاتھ تو خدا تھا یا نہ ہوتا تو میرا ہوتا ڈیو یا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا غالب بھی واحدت الوجود کے ماننے والے تھے ، ان کا کہنا تھا سب کچھ خدا کی ذات کا حصہ ہے انسان ، جن کا ئنات ، منہ ، پھر سب خدا کی ذات کا حصہ ہیں ، اور وہ اسی بات پر ایمان رکھتے ہوئے کہتے ہیں ۔ ے جب کہ کچھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا ! کیا ہے ؟ غالب خدا کے ایک ہونے پر اپنے یقین کو بھی صوفیانہ انداز میں بیان کرتے ہیں ، اور ایسے خوب بیان کرتے ہیں کہ کوئی کافر بھی سنے تو اکار اٹھے کہ ہاں خدا ایک ہے ۔ غالب کہتے ہیں ۔ ا سے کون دیکھ سکتا ہے بیگانہ ہے وہ یکتا جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہو تا غالب کے دیوان کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے ۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیر ہن ہر پیکر تصویر کا بعض ناقدروں نے اس شعر کو کیف شراب کا ماحاصل سمجھ کر بے معنی قرار و یا جب کہ اگر صرف استعارہ کا غذی پیرہن ' کو سمجھ لیا جاۓ تو شعر سمجھ آسکتا ہے ۔ ایران میں داد خواہ کا غذی پیر بہن پہن کر بادشاہ کے سامنے فریاد پیش کرتے تھے ، غالب کہہ رہے ہیں کہ ہر ہر بن کاغذی دکھائی دیتا ہے بادشاہ کون ہے اور اصل اس شعر میں بھی غالب وحدت الوجود کا ذکر کر رہے ہیں ۔ صوفی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ بے خود ہو تا ہے ، بے نیاز ہو تا ہے ، غالب چونکہ با قائد و یا خالص صوفی نہ تھا اس لئے وہ بے خودی کی کیفیت محسوس کرنے کے لیے منہ نوشی کرتے ، ان کے لیے یہ خدا کی ذات سے رابلے کا ذرایہ تھا ۔ غالب ہر وقت اس کیفیت میں رہنا چاہتے تھے اور اپنے ایک شعر میں اس بات کا ذکر یوں کرتے ہیں ۔ مئے سے غرض نشاط ہے ، کسی رو سیاہ کو یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے غالب خود اعتراف کرتے ہیں کہ وہ عرفان رکھتے ہیں ، وہ اپنی شاعری میں کئی بار اس بات کا ذکر کرتے پائے جاتے ہیں کہ وہ علم اور فقر کے حامل ہیں ۔ جیسا کہ اس شعر میں غالب اس بات کو بیان کر رہے ہیں ۔ ے غالب ! ندیم دوست سے آتی ہے ہوئے دوست مشغول حق ہوں بند گئی بوتر اب میں غالب بہت بڑے خدا پرست اور حق شناس تھے انہوں نے خدا کو دیکھا ، جانا ، اپنی فکر کے مطابق سمجھا اور پھر اپنے اشعار میں اپنے سننے پڑھنے والوں کو بھی ان حقیقتوں سے روشناس کروایا ۔ غالب خدا کو اپنے ارد گرد پاتے ہیں وہ کہتے ہیں ۔ 

ے پارے ذرے میں ہے خدائی دیکھو تربت میں شان کبریائی دیکھو اعداد تمام مختلف ہیں باہم مر ایک میں ہے مگر اکائی وکیو غالب خدا کی ذات کو ہر شے پہ حاوی پاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہر شے کو مہر ہر پہلو سے دیکھا ، پر کھا اور سوچا لیکن آخر میں نتیجہ ایک ہی نکلا وہ سب خدا کی ذات تھی ہر جانب اللہ اللہ اور اس اللہ کا نور ہے ۔ نجر یک نموش دو صد رنگ در هر یک نوروش صد آنک در یعنی اس ( ہر شے ) کے ایک ایک روپ میں دو دو سو رنگ پوشیدہ ہیں ، اور اس شے کو جتنی بار کھو گے اتنے سینکڑوں تناسب ملیں گے ۔ 

خدا کی ذات ہر چیز پر حاوی ہے ۔ غالب کہتے ہیں کہ مجھ سے اکثر لوگ نالاں رہتے ہیں کہ میں نے فلاں بات کہہ دی یا فلاں بات کہہ دی لیکن میں جو کہتا ہوں وہ خود نہیں کہتا ، مشریعت کی رضا سے کہتا ہوں ، کیونکہ ۔ ے ہاں اگر چه من دار اماز تست به است از چه گفتارم اماز تست یعنی کہ غالب شکایت کرنے والوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ میری زبان کا گلہ کرنے والو سنو کہ بینک میں زبان رکھتا ہوں اس کا استعمال بھی کر تا ہوں لیکن یہ زبان مجھے خدا نے دی ہے ، اور میں جو کچھ کہتا ہوں وہ اس کی مرضی سے کہتا ہوں کیوں کہ اس کے چاہے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ اس شعر میں بھی صوفیا والاوحدت الوجود کا تصور نظر آتا ہے ۔ اور غالب اپنے اندر موجود صوفی سے بھی آگاہ تھے ، آپ جانتے تھے کہ اپنے اندر کیا چھپائے بیٹھے تھے ۔ آپ نے برملا اظہار کیا کہ میں جانتا ہوں کہ میں حق پرست ہوں ۔ آپ نے ایک محفل میں کہا کہ میں موجود ہوں ۔ غالب یہ بھی جانتے تھے کے اگلی شراب نوشی کی وجہ سے انکو صوفی کا مقام نہیں دیا جاتا لیکن آپکو اس سے فرق نہیں پڑتا تھا وہ کہتے ہیں کہ مجھے اور صرف مجھے اپنے شعر صحیح سمجھ آتے ہیں اور کسی کو نہیں آتے اور مجھے اس بات فرق بھی نہیں پڑتا ۔ آپی بادہ نوشی کا ذکر کرتے ہوۓ ایک شعر میں کہتے ہیں کہ : ے یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہو یعنی وہ جانتے تھے کہ انکی منہ نوشی انکے مقام کو بدل رہی تھی لیکن وہ اس عیش کو نچوڑ نے کے روادار نہ ہوئے صرف اس لیے انہیں شاعری میں صوفی کا مقام نہ دیا گیا اور نہ ان کی قابلیت اور عرفان بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہے ۔


کلام غالب کے فکری عناصر 


زندگی کے رموز و نکات ، تہذیب و ثقافت سے منسلک ہیں لیکن ادب کسی وقت یا دور کا پابند نہیں ہو تا تاہم اس کا عکس ادب میں ضرور نظر آتا ہے ۔ وہیں چند تخلیق کار اپنے وقت کے ممتاز و میز ہوتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بھی قرار پاتے ہیں ان میں سے ایک عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب ( 1796-1869ء ) بھی ہیں ۔

 غالب کے عہد میں ہندوستان کی غیر مستحکم حکومت مغلیہ کا شیرازہ بکھر رہا تھا جس میں ہند ایرانی اثرات سے مملو تمدن آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری بڑھتی جارہی تھی گو یا زندگی اور تند نی انقلاب کے نئے نئے تقاضوں سے ہندوستانی عوام نیرو آزما تھے ۔ ان مایوس کن حالات میں غالب نے اپنے کلام میں تخیل کی بلندی او راپنے منفر داورانھوتے طرز بیان سے اردو کو ایک نئی قسم کی شاعری اور فلسفہ حیات سے روشناس کروایا ، دراصل غالب کی شاعری کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے متعدد بار قائر مطالعہ کے بعد ہی سمجھ میں آتی ہے اور مرزا غالب کا کلام دنیائے ادب کی وحدت کا جزو لا ینفک بن گیا ہے عمومی طور پر غالب ایک مشکل پسند اور فکری شاعر سمجھے جاتے ہیں آپ بھی دیکھ لیجئے

 آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے

 مد عانتا ہے اپنے عالم تقریر کا

 ہو گرمئی نشاط اقصور سے اقمہ نے 

میں عند ایب کاشن ناآفریدہ ہوں 


دام شنیدن گر منی نشاط تصور اور گلشن ناآفریدہ جیسے نامانوس تراکیب کی بابت غالب کی شاعری مشکل سمجھی گئی ۔ اس طرح نادر تشبیہات اور حشر خیز خیالات کو عہد غالب میں اسی زمرہ میں رکھا گیا تھا ۔ 


تھا میں گلد شتہ احباب کی بندش کی گیا 

 متفرق ہوئے میرے رفتار میرے بعد


 الفرض غالب کی شاعری کے تجزیہ نگاروں نے غالب کی مشکل پسندی اور ان کے خیالات کی انفرادیت کو ان کی خوش پر ستی ، انفرادیت پسندی سے تعبیر کیا جاتا رہا ، لیکن یہ مشکل پسندی در اصل جذبات و احساسات کی تہہ داری ہے ۔ ان کے گرد و پیش کے خیالات جبر و اختیار واقعات کی کشائشی اور ان کی زندگی کی تلخیاں انہیں فلسفہ زندگی کی جمالیات اور معیارات کا دوسرے ہم عصر شعراء سے الگ الگ ہے جو غور و فکر کر نے والے ادب کی بنیاد گزار بھی ہے ۔ غالب کی ایک اور ( Thinking poetry ) شناحت عطا کی جو مشکل پسندی قطری عنصر تصوف کو ملاحظہ فرمایئے : 


نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

 ڈیو یا مجھ کو ہونے نے ، نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا 


مندرجہ بالا شعر عبارت کی د شوار ترکیب ، استعارات کی پیچیدگی ، نقطہ نظر ، فلسفہ ادب اور زاویہ نگاہ کی دین ہے ۔ اسی لئے تو وہ خود کہتے ہیں ۔


ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

 کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور 


غالب نے اپنی شاعری کو فکری اور فلسفیانہ رنگ روپ دیا ہے ۔ گو یا تہذیب و ثقافت کی ایک طویل ارتقائی سفر کو اپنی شاعری میں سمودیا ہے ۔ شاعری بنیادی طور پر جذ بات پر مبنی ہوتی ہے لیکن غالب کی شاعری میں خیالات اور جذبات کے ساتھ فکر بھی رواں دواں نظر آتی ہے ۔ اس فکری عنصر نے متعدد نتائج پیدا کئے ہیں ۔


 سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں 

خاک میں کیا صورتیں ہو گئی کہ پنہاں ہو گئیں


 غالب کے مطابق لالہ و گل اور کیسی کیسی حسین و جمیل صورتیں پو بند خاک ہو ئیں جو اپنے وقت میں بے نظیر تھیں یہ تصور غالب کی فکری حقیقت نگاری سے عبارت ہے ۔ 


ول میں شوق وصل دیار یار تک باقی نہیں

 آگ اس گھر میں گئی ایسی کہ جو تھا جل گیا 

غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج

 شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک


 سیاہ خانے کو روشن و منور کرنے والی شمع سحر ہونے تک بلتی رہتی ہے ۔ خدا معلوم اس وقفہ میں اس پر کیا گذرتی ہو گی ایک اور خیال میں غالب محبوبہ کے ہونٹوں کی تصویر بھی اس طرح کرتے ہیں ۔ 


کتنے شیر میں ہیں تیرے اب کے رقیب

 گالیاں کھا کے بے مزونہ ہوا


 غالب اس شعر میں محبوب کی گالیوں کو میٹھی بولی سے تعبیر کر رہے ہیں مزید محبوب کی بے وفائی سے متعلق کہتے ہیں ۔


 یہ پری چہرولوگ کیسے ہیں 

غمز و و عشوہ و ادا کیا ہے

 بہر حال غالب کا دور سیاسی لحاظ سے ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا لہذا اس پر آشوب زمانہ کی نت و پریشان کن حالات ان کی اقتصادی زندگی کو تہس نہس کر رکھا تھا ، غالب کی نینی زندگی کی تصاویر ان کی شاعری میں محسوس ہوتی ہے ۔ 


نقش فریادی ہے کس شوخی تحریر کا 

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

 کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالب 

تم کو یہ مہری یاران وطن یاد نہیں


 شکوہ سنجی کی طبیعت ناب کی ہر گز نہیں تھی

 لیکن ہم عصروں کی چشمک ، زمانہ کی ناقدروانی ، حکومت کا زوال ، وظیفہ کی مسدودی نے قالب کی زندگی کو بد مزد کر دیا ۔ انسانی نفسیاتی کا تقاضہ بھی یہی ہیکہ انسان جن حالات کا شکار ہوتا ہے اس کے اثرات اس کی شخصیت پر ظاہر ہوتے لکھتے ہیں ۔


گیا وہ نمرود کی خدائی تھی 

بندگی سے مرا بھلا نہ ہوا 

زندگی اپنی جب اس شکل میں گذری غالب

 ہم بھی کیا یاد کر لیں گے خدا رکھتے تھے


 غالب کا جو عملی فلسفہ حیات رہا ہے اس میں غم روزگار بھی شامل ہے ۔ بے روزگاری زندگی کے لئے ایک ناسور کی طرح تکلیف دہ شئے ہے جس سے غالب دو چار تھے ، زندگی کی اسی ویرانی کو دو مختلف مضامین میں دیکھئے ۔


 اگ رہا ہے در و دیوار سے بہتر ہ غالب 

تم بیا باں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

 کوئی ویرانی کی ویرانی ہے 

دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا


 غالب کے اشعار میں زندگی کی شکست و ریخت کے فکری و حقیقی عناصر کے ساتھ ان میں مادی عنصر ان کا فلسفیانہ انداز بیان ہے اس تاثر کو انہوں نے ظاہر کی اور باطنی معانی میں مخفی رکھاتا کہ قاری اپنی بساط اور مشاہدے کے مطابق الفاظ اور معانی کی تہہ کھولتا چلا جائے ۔


 گنجینہ معنی کا علم اس کو مجھئے 

 جو الفاظ کے غالب مرے اشعار میں آوے 

گر خامشی سے فائدو انشائ حال ہے 

خوش ہوں کہ مر کی بات سمجھنا محال ہے


 وقت زندگی کے فیصلے صادر کرتا ہے اس حقیقت کو غالب اپنی شاعری میں ندرت فکر اور حدت بیان کے ساتھ اور موضوعات کی انفرادیت روز مرواور محاورہ کے استعمال اور منفرد منظرانہ طریقہ اظہار کی بابت غالب کی شاعری سمجھنے اور سمجھانے کی چیز بن گئی ہے ۔


 بیان کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی

 شب مد جو جو پنبہ رکھر میں دیواروں کے روزن میں


 میرے خیاں میں غالب کے کلام کا مطالعہ اسلوب اور فکر کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے مشکل اور آسان کا تصور محض بے جا ہے ۔ آپ کا تصور احساسات جلد بات اور تجربات کا رد عمل ہے ۔ اسی لئے غالب کی شاعری کی فہم مشاہدات اور حقائق کا فہم کا تقاضہ کرتی ہے ۔


 نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں

 تری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گئیں


 جہاں غالب نے اپنی شاعری میں قاری کے لئے نامانوس اجنبی تشبیہات اور استعارات ، غیر مرئی اشیا کو مر کی اشیا کی حیثیت سے پیش کیا ہے وہیں نشتریت ، کثیر المعانی خیالات ، ایجاد وابداع ، فکر و تصوف ، تصورات کی ندرت ، دقیق مطالب ، تراکیب ، مضامین الفاظ کی بندش ، معنی آفرینی ، شوخی تحریر اسلوب ، فلسفہ حیات ۔ فرض ہے کہ غالب کے بیشتر ساخرات ذاتی تجربات اور عینی مشاہدات کی بنیاد پر مبنی محسوس ہوتے ہیں جس میں صداقت کی تبہ واری پنہاں ہے ، قدرتی جبر وانسان کی بے چارگی ، ظریفانہ شوشی اور طر یہ اشعار ملاحظہ فرمایئے ۔ 

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھنے پر ناحق

 آدمی کوئی ہمارا  دمِ تحریر بھی تھا


جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو

 روزہ اکر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے


 کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے تو بہ

 ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا


 اس بحث کا محاصل یہ ہے کہ غالب ایک ذی شعور فنکار تھے ۔ ان کے اشعار کی نفسیاتی اور عملی زندگی کے علاوہ ان کی نظریاتی تھیوری کو سمجھنے میں مددگار ہیں ۔