فورٹ ولیم کالج کلکتہ کی ادبی خدمات||فورٹ ولیم کالج کی خصوصیات اور نثر نگار

admin

فورٹ ولیم کالج کلکتہ کی ادبی خدمات||فورٹ ولیم کالج کی خصوصیات اور نثر نگار

 

فورٹ ولیم کالج کی خصوصیات اور نثر نگار


فورٹ ولیم کالج فورٹ ولیم کالج کی بنیاد 780 1 ء میں مدرسے کی شکل میں قائم ہوئی ، جس کی بنیاد گورنر جنرل وارن ہیپینٹنگز نے ڈالی تھی ۔ جس میں زیادہ ت انگریز ملازم اور ہندستانی طلباء فارسی پڑھا کرتے تھے ۔ کیونکہ اس عہد میں فارسی کا رواج تھا ۔ مدرسے میں پڑھنے والے تمام طلباء فارسی کی تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ لیکن مغلیہ سلطنت کے زوال کی طرف بڑھتے ہوئے قدم اور انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار نے کچھ اور بھی تقاضے پیش کیے جو اردو کے حق میں تھے ۔ یعنی فارسی در باری زبان تھی اور دربار ختم ہو رہا تھا ۔ دربار اور زبان کے تنزل نے اردو کے لیے ارتقا کی صورت اختیار کی اور انگریزوں نے شدت سے محسوس کیا کہ اردو تعلیم و تعلم سے مفر نہیں ہے ۔


 بقول حامد حسن قادری : " مغلیہ سلطنت اور فارسی کا منزل اور اردوزبان کی ترقی اس سرعت کے ساتھ جاری تھی کہ لارڈ ویلزلی نے انگریزوں کے لیے اردو کی ضرورت کو محسوس کر لیا ۔ اور یہی ضرورت ہی فورٹ ولیم کالج کی وجہ قرار پائی ۔ دوسری بات جو اس سلسلے میں مزید اہم مماثلت رکھتی ہے وہ یہ کہ انگریز ہندستان پر حکومت کرنے کی غرض سے داخل ہوئے ۔ لہندا وہ جو بھی عملی قدم اٹھاتے ان کے سامنے یہی نقطہ نظر ہو تا تھا ۔


 اس سلسلے میں بھی انھوں نے یہ سوچا کہ جب حکومت کر تا ہے تو یہاں کی تمام زبانوں کو ہر حالت میں سیکھنا پڑے گا ۔ لنڈا کمپنی کے تمام حکام کو اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ فارسی کے ساتھ ساتھ یہاں کی اور دوسری زبانیں سیکھنا لازمی ہیں ۔ المذاو ملزلی نے وقت کے تقاضے کو محسوس کیا اور انگریزوں کو ہندستانی تعلیم سیکھنے کے لیے ایک سمجھا بوتھا منصوبہ بنا ۔ اس طرح کالج کے قیام اور استحکام کے سلسلے میں لارڈ ملز لی نے بہت محنت کی اور پھر اس کی نظر ملکر سٹ پر پڑی ۔ جان گلکرسٹ اردو اور فارسی سے خاص و کپی رکھتا تھا ۔ اس سے قبل اس نے ہندستانی زبانوں کے قواعد پر کئی کتابیں تیار کی تھیں جس کے باعث اس کو خاصی شہرت مل چکی تھی ۔


 8 اگست 1800 ء کو اس کا رکھا اور بہ حیثیت ہندستانی ( inary Oriental S ) با قاعد و تقرر ہوا ۔ گلکرسٹ نے ابتدا میں اس مدرسہ کا نام اور ینٹل سیمیتری زبان کے معلم کے دل و جان سے کام کرنے لگا ۔ گلکرسٹ کے سایہ عاطلقت میں یہ مدرسہ پروان چڑھنے لگا ۔ کورٹ آف ڈائر کٹر یں اور ویلزلی و گلکرسٹ کے درمیان نہ جانے کتنی پیچیدہ منزلوں کو طے کرتا ہوالڑ کھڑاتا اور تھپیڑے کھاتا ہوا یہ مدرسہ گلکرسٹ کی زبردست خدمات کی بنا پر ایک دن رنگ لے آیا ۔ اور اپنی ڈیڑھ سالہ مدت گزارنے کے بعد العظیم الشان موڑ پر گامزن ہو گیا ۔ عتیق صدیقی لکھتے ہیں : اس کے ساتھ اور مینٹل سیمیٹری کی ڈیڑھ سالہ مختصر زندگی کا خاتمہ ہو گیا ۔ پھر اسی مدرسہ کی بنیادوں پر وہ عظیم الشان عمارت تعمیر کی جو - " ادبی تاریخ میں فورٹ ولیم کالج کے نام سے مشہور ہوئی ۔ 


 جولائی 1800 ء میں اس کا حج کا باضابطہ آغاز ہو گیا ۔ ٹیپو سلطان کی شکست و شہادت کے چودہ مہینے کے بعد 10 جولائی 1800 ، 10 مطابق 4 م ساون 7 185 ء سمبت اور 17 عفر 1215 ء کو گورنر جیزل مار کوئس آف ویلزلی نے فورٹ ولیم کالج کی باضابطہ داغ بیل ڈالی ۔ اس تاریخ یعنی 10 جولائی کو گورنر حیزل کی کونسل نے کالج کے آئین و ضوابط کا مسودہ منظور کر کے کالج کے قیام کو قانونی شکل دیا ۔ یہ کالج جو پہلے مدرسے کی شکل میں تھا ، اب کالج کی شکل میں تبد میں ہو گیا ۔ انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کی طرف بھر پور انشار و کرتا ہے ۔ کالج کے آئین و ضوابلا میں جو بات لکھی گئی دو اہم ہے ۔ 


خدائے قدوس کے فضل و کرم سے ہندستان میں برطانیہ عظمی کے سپاہی ، فوجی اقتدار کو جو سلسل کامیابی و کامرانی اور جنگوں میں جو چیم فتح و نصرت نصیب ہوئی ، اس کی وجہ سے نیز ( برطانیہ عقلمی منصفانه ، دانش مندانہ اور اعتدال پسندانہ پالیسی کی بدولت ہندستانی دکن کے وسیع علاقے برطانیہ عظمی کے تحت اور انگلش ایسٹ انڈیا کے زیر حکومت آ گئے ہیں اور حالات کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط سلطنت قائم ہو گئی ہے ، جو متعدد آباد اور زر نیز صوبوں پر مشتمل ہے ۔ یہاں مختلف قومیں آباد ہیں ۔ جن کے مذہب جن کی زبان نیز جن کے عادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔


 ان سب پر الگ الگ مختلف آئین و ضوابط اور مختلف رسوم کے مطابق اب تک حکومت کی جاتی رہی ۔ برطانوی قوم کے مقد میں فرض ، ان کے حقیقی مفاد ، ان کی عزت اور ان کی حکمت عملی۔اب تقاضہ یہ ہے کہ ہندستان کی برطانوی سلطنت کے حدود میں عدم عمل داری قائم کرنے کے لیے مناسب اقدام قائم کیے جائیں ۔ متذکرہ بالا عنوان سے کالج کے مقاصد پر روشنی پڑتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ مقصد ہی ہندستانی زبانوں کے روشن مستقبل کا باعث بن گیا ۔ گلکرسٹ ہندستانی زبانوں کے صدر منتخب ہوۓ ۔


 گلکرسٹ اردو زبان پر مہارت رکھتا تھا ۔ اپنی ذات سے گذشتہ برسوں میں اردو کی خدمات انجام دے چکا تھا ۔ کا لج میں اس نے با قاعد وار دو تعلیم کا آغاز کیا ۔ اردو تصنیف و تالیف کی ابتدا کی ۔ سب سے پہلے اس نے اردو تعلیم کے لیے منشیوں کا تقرر کیا ۔ اور سال بھر کے اندر ہی اس نے اردو کی تالیف و تصنیف کا ایک محکمہ قائم کر دیا ۔ اس نے اس وقت کے ہندستانی ماہر زبان کی تقرری کی اور ان سے اردو زبان میں ترجمہ اور تصنیف کا کام لینا شروع کر دیا ۔


 اس وقت اردو کا سرمایہ بہت زیادہ مضبوط نہ تھا ۔ چھپی ہوئی کتابوں کا دستیاب ہو تا تو تقر یا نا مکن سا تھا ۔ چند قلمی کتا ہیں اس سے قبل فضلی کی " کر بل کتھا " یا تحسین کی " نو طرز مرصع " آ چکی تھیں ۔ گلکرسٹ نے تمام ماہرین اردو فارسی کو یکجا کیا ۔ جس میں بہادر علی حسینی ۔ شیر علی افسوس ۔ مرتضی خاں ۔ غلام اکبر ۔ میرامن ۔ غلام اشرف ۔ نصراللہ ۔ میر حیدر بخش حیدری ۔ اور کاظم علی جو ان اہم تھے ۔ ان تمام منشیوں کو مر طرح کی آسانیاں مہیا کی جاتیں ۔ ان کی ہمت افترائی کے لیے تمام وسائل فراہم کیے جاتے تھے ۔ چار سال کے عہد میں گلکرسٹ نے عتیق صدیقی کے قول کے مطابق کم از کم چالیس ہندستانی مصنفین ، مترجمین اور منشی مختلف اوقات میں کالج سے وابستہ رہے ۔ 


فورٹ ولیم کالج کے اس ہندستانی شعبہ سے گلکرسٹ کے زیر سایہ جن کتابوں کے تر تھے یا تصنیف ہوئی ان کو زبان اردو کے ارتقاء کے سلسلے میں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ۔ میر امن کی " باغ و بہار “ ان سب میں اہم ہے ۔ میرامن نے اس کا لج سے وابستہ ہو کر دواہم کتابیں لکھیں " باغ و بہار " اور " گنج خوبی " ۔ لیکن " باغ و بہار نے اپنی زبان کی سلاست ، روانی کے لیے جو شہرت حاصل کی وہ ان کی دوسری کتاب کو قطعی نہ مل سکی ۔ یہ کتاب تحسین کی " نو طرز مرصع " کا ترجمہ ہے ، لیکن میرامن نے اسے دتی کی سلیس زبان ، روز مرد کے محاورے ، فقروں کی دل کشی سے اس کی شہرت میں چار چاند لگا دے ۔ یہ حقیقت ہے کہ تقریبا ڈیڑھ سو سال سے زیاد وعدت گذر جانے کے بعد بھی اس کتاب کی عظمت اور شہرت میں ذرا بھی فرق نہ آیا ۔


 باغ و بہار " نے اردو زبان کے لیے جو سلاست ، روانی و داغر مبنی کا راستہ کھولا اس کے اثرات آج تک قائم ہیں ۔ دوسرے اہم مصنفین میں حیدر بخش حیدری ، میر شیر علی افسوس ، مرزا علی لطف ، میر بہادر علی حسینی ، مظہر علی خاں والا اور کاظم علی جوان ہیں ، جو اپنے مختلف ترجموں و تالیف کی وجہ سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں ۔ حیدر کی کتابوں میں ان کام کر پا گلشن ہند " اور " آرائش محفل " اہم ہیں ۔ یہ دونوں کتا میں بھی اپنے زبان کی سلاست کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ " توتا کہانی بھی ان کی مشہور کتاب ہے ۔ افسوس کی تصانیف میں " باغ اردو " بہت اہم ہے ۔ گلشن ہند ( لطف ) نثر بے نظر ( میر بہادر علی حسینی ) ، بیتال پیپی ( مظہر علی خاں والا ) ، شکنتلا ناٹک ( کاظم علی جوان ) مذہب عشق ( نہال چند لاہوری و غیر واہم کتابیں ہیں جن کی ذات سے اردو دنیا میں تصنیف و تالیف کا ایک ایسا ثبت انقلاب آیا جو اردو زبان کے لیے خوش گوار ثابت ہوا ۔ فورٹ ولیم کالج کی عمر بہت زیادہ نہیں رہی ۔ صرف پندرہ سال میں ہی اس نے ایسے کارنامے انجام دے جوار دو دنیا میں نا قابل فراموش ہیں ۔ 


جان گلکرسٹ کی اس کالج سے وابستگی صرف چار سال رہی ۔ فروری 1804 ء میں استعفی دے کر انگلینڈ واپس چلے گئے ۔ اس کے بعد 1806 ء میں کینٹین ماؤنٹ آئے اور ان کے بعد 1808 ء میں جان ولیم ٹیلر کی آمد ہوئی جو 3 182 ء تک رہے اور ان کے بعد ولیم پرائس23 ء میں آئے اور 1831 ء تک رہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کلکرسٹ کے بعد کا مسلسل مائل بہ زوال رہا ۔ تصنیف و تالیف کے سارے کارناموں کا سہر الکرسٹ کے سر ہے ۔ اور جب 24 فروری 1804 ء میں کالج کو نسل نے گلکرسٹ کے استعفی کو قبول کیا تو لکھا ۔ 


مسٹر گلکرسٹ نے جس جوش و خروش ، لیاقت و قابلیت اور انتھک محنت کے ساتھ ہندستانی زبان کے پروفیسر کی خدمات انجام و میں ان کا " اعتراف کر نا کا لج کونسل اپنافرض سمجھتی ہے ۔ نیز اس کا اعتراف بھی کرتی ہے کہ گلکرسٹ کی تصانیف ہندستانی زبان کی ان کتابوں نے جو انھوں نے بھائی ہیں ، کالج کے قیام کے مقاصد کو بدرجہ اتم پورا کیا ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ گلکرسٹ نے خود اپنی تصنیفات اور ترجموں کے ذرایہ فورٹ ولیم کاج میں اردو ادیوں کا تقرر کر کے ان سے ترجمے کرا کے خودان اوبیوں اور اردو کی جو خدمات کی ہیں اس سے زبان اردو ہمیشہ ان کے احسانوں سے دلی رہے گی ۔ 


اردو نثر کی تاریخ میں فورٹ ولیم کالج کی اہمیت اور خدمات سے کسی کو انکار ہو سکتا ہے ۔ اس کالج کی تخلیقات کے ذرایہ اردو نثر کو جو زندگی ، روشنی اور توانائی حاصل ہوئی ۔ وہ اس سے قبل نہ تھی ۔ باغ و بہار ، گلشن ہند ، آرائش محفل ، توتا کہانیجیسی تخلیقات سے اردو نثر میں ایک قسم کا مظہر اؤ اور سنجید کی آئی ۔ اس سے قبل اردو کا نثری سرمایہ چند کتابوں پر پر مشتمل تھا ۔ ان تخلیقات نے اس میں وسعت ، و قمار ، بلندی کا اضافہ کیا ۔ فورٹ ولیم کالج کی تمام تخلیقات اگرچہ ایک  خاص نقطہ نظر کے تحت لکھی گئیں ۔ فارسی کے بڑھتے ہوۓ اثرات کوار دوز بان سے الگ کر نا ۔ انگریزوں کا اقتدار ہندستان پر جو بڑھتا جارہا تھا ، ان کے خیالات اور ریحانات عوام تک نہیں پہنی پارہے تھے ۔ انگریزی طلبہ یہاں کی دیسی زبانوں سے ناواقف تھے ۔ 


لندا ان کو یہاں کی زبانوں سے متعارف کرانا ہی در اصل اس کا بج کا اہم مقصد تھا ۔ اردو نثر کے ارتقاء میں اس وقت کے حکمراں طبقہ کا اپنا جو بھی مقصد ہو ، لیکن یہ کہنے میں ذرا بھی شامل نہ ہو نا چاہئے کہ اردو نثر کا ارتقاء دراصل انگریزوں کی دین ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اس کا لنچ کی چھپی ہوئی تمام کتابیں کسی علمی اور سنجیدہ موضوع پر نہیں لکھی گئیں ۔ ان میں اکثر و بیشتر کہانیوں اور قصوں پر مشتمل ہیں ۔ لیکن یہ آسان راستہ اردو نثر کے فروغ کا سبب بن گیا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر حکومت ( 1857-1751ء ) اردو نثر کے ارتقاء کی جب بھی بات آئے گی فورٹ ولیم کالج کا نام لیے بغیر آگے نہیں پڑھا جا سکتا ۔ اردو نثر کی اس اندھیری رات میں اس کا نچ نے ایک تو ہاں سورج کا کام کیا ۔