مولانا شبلی نعمانی کے اسلوب کی خصوصیات

admin

 
مولانا شبلی نعمانی کے اسلوب کی خصوصیات

مولانا شبلی نعمانی کے اسلوب کی خصوصیات


مولانا شبلی نعمانی کی شعر العجم 

عبدالشکور کہتے ہیں ، کہ حالی کی بعد قبلی تنقید کے سٹیج پر جلوہ فرما ہوتے ہیں متعدد و دلچسپ اور اہم تنقیدی تصانیف ملک کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ شبلی حیرت انگیز اوصاف کا مجموعہ تھے ۔ بلند پایہ مورخ ، ادیب ، شاعر ، محقق اور تنقید نگار تھے ۔ طبیعت میں بلا کی شوخی اور ” میری موجود تھی بڑے گہرے عالم ، دقیقہ رس فاضل اور سخن سنج ماہر اور ماہر ادبیات تھے ۔ 

تنقید کے حوالے سے شبلی کی شخصیت اس قدر مقبول عام نہیں جتنی کہ ایک مورخ ، سوانح نگار ، سیرت نگار اور شاعر و غیرہ کے حوالے سے معروف ہے ۔ فنون نظر کے بارے میں بھی شیلی کے تنقیدی افکار مختلف مقالات اور تصانیف میں خال خال پاۓ جاتے ہیں ۔ مگر ان کا خاص میدان شاعری کی تنقید ہے ۔

 جہاں تک ” موازنہ انیس و دبیر " کا تعلق ہے اس میں شبلی نے مرثیہ نگاری کے فن پر اصولی بحث کی ہے اور ساتھ ہی انیس اور دبیر کے مرثیوں کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے ۔ اس سلسلے میں انھوں نے انیس کے کلام کو خاص طور پر اپنے پیش نظر رکھا ہے ۔ اور اس کی مختلف خصوصیات کو واضح کرنے کی کو شش کی ہے ۔

 کچھ جانبداری کے ساتھ ساتھ اس بحث کا انداز تشریحی اور توضیحی زیادہ ہے لیکن اس میں جگہ جگہ اعلی درجہ کی تنقید کا احساس ضرور انجر تا ہے ۔ ایک اور اہم بات اس کتاب میں یہ ہے کہ اس میں شبلی نے فصاحت و بلاغت پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے مختلف پہلوئوں پر اصولی اور نظریاتی انداز نقد برتا ہے جس میں شیلی کا تنقیدی شعور نمایاں ہے ۔ بہر حال یہ کتاب بھی تنقیدی اعتبار سے اہمیت رکھتی ہے ۔ چونکہ شبلی کا اہم موضوع شعر و شاعری ہے اس سلسلے میں انہوں نے شاعری کے اصولوں پر بھی بحث کی ہے ۔

 اصناف سخن کے اصول بھی وضع کئے ہیں ۔ اور شاعروں پر عملی تنقید بھی کی ہے ۔ پروفیسر احسان الحق لکھتے ہیں کہ ، شیلی کی سب سے اہم تنقیدی تصنیف " شعر انجم " ہے جس کی تمام جلدوں میں عمل تنقید غالب ہے ۔ اس لحاظ سے ان کی تصنیف شعر اہم خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے جس کی کل پانچ جلد میں ہیں ان میں چوتھی اور پانچویں جلد تنقیدی اعتبار سے زیادہ اہم ہے ۔ جن میں نظریاتی ، اصولی اور عملی تنقید کے دلنشین مظاہر ہیں ۔ شاعری کے مختلف پہلوئوں پر بصیرت افروز تنقیدی بحث اور اصناف سخن کا تنقیدی تجزیہ ہے ۔


 تصور شعر

 قبلی شعر کو ذوقی اور وجدانی شے قرار دیتے ہیں اسی بناء پر ان کے خیال میں شاعری کی جامع اور مانع تعریف آسانی سے نہیں کی جاسکتی بلکہ مختلف ذریعوں سے اور مختلف انداز میں اس حقیقت کا ادراک کر نا پڑ تا ہے ۔ شعر الحجم جلد چہارم میں شبلی کے اپنے الفاظ کچھ یوں ہیں ۔ شاعری چونکہ وجدانی اور ذوقی چیز ہے اس لئے اس کی جامع مانع تعریف چند الفاظ میں نہیں کی جاسکتی اس بناء پر مختلف طریقوں سے اس حقیقت کا سمجھاناز یادہ مفید ہو گا کہ ان کے مجموعہ سے شاعری کا ایک صحیح نقشہ پیش نظر ہو جاۓ ۔ یوں شبلی نے مختلف مثالیں دے کر شاعری کی اہمیت واضح کی ہے ان کے نزدیک شاعری کا منبع ادراک نہیں بلکہ احساس ہے ۔ احساس سوچنے اور غور کرنے کا نام نہیں ، وہ اس سے مختلف قوت ہے ۔

 جو ہر انسان میں پائی جاتی ہے ۔ انسان متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے مختلف واقعات اس پر اثر کرتے ہیں اور اس طرح اس پر مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں ۔ بقول شبلی جب انسان کو کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ متاثر ہوتا ہے ۔ عبادت بریلوی کہتے ہیں ، کہ ان کا خیال صحیح ہے کیونکہ احساس کے بغیر شاعری کوئی معنی نہیں رکھتی یہ احساس جب شدید ہوتا ہے تو فطری اور اضطراری طور پر انسان کی زبان سے موزوں الفاظ نکلتے ہیں ۔ اسکا نام شعر ہے ۔ اس میں شاعر کی شعور کا دخل نہیں ہوتا ۔

 شبلی کے نزدیک یہ کم و بیش ایک ایسی کیفیت ہے جو شیر کو گرجنے ، مور کو چنگھاڑنے ، کو ئل کو کوکنے ، مور کو ناچنے اور سانپ کو لہرانے پر مجبور کرتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شبلی شاعری میں جذ بات کی اہمیت کے قائل ہیں ۔ جذبات کے بغیر شاعری کا وجود نہیں ہوتا اور وہ جذبات سے پیدا ہوتی ہے شاعری کا کام جذبات میں تحریک پیدا کر نا اور ان کو ابھار نا ہے ۔ مگر اس کا مطلب بہیجان اور ہنگامہ بر پا کر نا نہیں بلکہ جذبات میں زندگی اور جولانی پیدا کرنا ہے ۔ شبلی کے نزدیک شاعری کے لئے جذ بات ضروری ہیں اور وہ شاعری کو حید بات کے براستہ کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ 

شاعری اور جمالیاتی پہلو 


مبلی کے خیال میں تمام عالم ایک شعر ہے زندگی میں شاعری بھری پڑی ہے ۔ جہاں زندگی ہے وہاں شاعری موجود ہے اور جہاں شاعری موجود ہے وہاں زندگی ہے ایک یورپین مصنف کے حوالے سے وود دیکھتے ہیں کہ ہر چیز جو ول پر استعجاب یا حیرت یا جوش اور کسی قسم کا اثر پیدا کرتی ہے ۔ شعر ہے ۔ 

اس بنا پر فلک نیلگوں ، نجم درخشاں ، نسیم سحر ، تبسم گل ، خرام صبا ، ناله بلبل ، دیرانی دشت ، شادابی چن ، غرض تمام عالم شعر ہے اور ساری زندگی میں یہ شعریت پائی جاتی ہے ۔ اور اس کے سبب یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیلی کے شعر و شاعری پر مبنی تنقیدی نظریات شاعری کے جمالیاتی پہلو پر زور دیتے ہیں ، اسی لئے ڈاکٹر سید عبداللہ " اشارات تنقید " میں لکھتے ہیں ، کہ یہ تو ظاہر ہے کہ شبلی کی تنقید میں اجتماعی اور عمرانی نقطہ نظر بھی ہے مگر اس کے باوجود ان کا مزاج ، جمالیاتی اور تاثراتی رویے کی طرف خاص جھکائو رکھتا ہے ۔ 

شبلی کا مزاج فلسفیانہ ہے اور انہوں نے مغرب سے بھی کسی قدر استفادہ کیا ہے مگر جمالیاتی حس ہی کی وجہ سے تمام زیر غور مباحث میں ان کا رجحان مشرقی نظریہ تنقید کی طرف ہے ۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں ، کہ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ( شبلی ) جمالیاتی پہلو کو زیاد واہمیت دیتے ہیں چنانچہ ان کی تنقید میں جمالیاتی تنقید کی جھلک نظر آتی ہے ۔ شبلی کے نزدیک شاعری تمام فنون لطیفہ میں بلند تر حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ تاثر کے لحاظ سے بہت سی چیزیں مثلا موسیقی ، مصوری ، صنعت گری و غیر اہم ہیں ۔ مگر شاعری کی اثر انگیزی کی حد سب سے زیادہ وسیع ہے ۔

 شاعر کے الفاظ سے ایک موثر منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے یہی حسن کاری کے احساس اور تاثر کو غیر شاعر کے لئے اثر انگیز بنانا شاعری کے جمالیاتی پہلو کا مظہر ہے جو غائب کے جلوے دکھاتا ہے ۔ دل میں احساسات اور تاثرات یا حسن کاری کی جو لہریں اٹھتی ہیں انہیں الفاظ کے سانچے میں ڈھال دینا شاعری کا مقصد ہے ۔

 اس سلسلے میں شبلی نے صاف صاف لکھا ہے کہ اصلی شاعر وہی ہے جس کو سامعین سے کچھ غرض نہ ہو ۔ اسکا مطلب یہی ہے کہ شاعر عوام کو سامنے رکھ کر شاعری نہیں کرتا ۔ اس کی مخصوص کیفیات اسے شعر کی تخلیق کے لئے مجبور کرتی ہیں ۔ اس کے پیش نظر تواپنی داخلی کیفیات کا جمالیاتی اظہار ہوتا ہے اور یہی شاعری کی اصل روح ہے ۔ شبلی خود شاعری کی صراحت میں مزید یہ کہتے ہیں کہ ایک عمدہ شعر میں بہت سی باتیں پائی جاتی ہیں ۔ اس میں وزن ہوتا ہے محاکات ہوتے ہیں خیال بندی ہوتی ہے ۔ الفاظ سادہ اور شعر ہوتے ہیں ۔ 

جمالیاتی اظہار کے ضمن میں شعر و شاعری کی اصل نوعیت کو بعد ازاں واضح حیثیت دیتے ہوئے شبلی اس مقام پر پہنچتے ہیں کہ جہاں وہ یہ الفاظ ادا کرتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ شاعری دراصل دو چیزوں کا نام ہے محاکات اور تخیل ان میں سے ایک بات بھی پائی جائے تو شعر کہلانے کا مستحق ہو گا ۔ باقی اوصاف لینی سلاست ، صفائی ، حسن بندی و غیر و شعر کے اجزاۓ اصلی نہیں بلکہ عوارض و مستحسنات ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شبلی کی نظر شعر و شاعری کی بنیادی عناصر تک پہنچتی ہے تی ہے اور وہ فروعی کی بجائے انہی بنیادی عناصر کو اہمیت دیتے ہیں ۔ 


محاکات کیا ہیں ؟ 

محاکات کی تعریف کے ضمن میں مولانا شبلی " شعر العجم ' میں رقمطراز ہیں ۔ محاکات کے معنی کسی چیز یا کسی حالت کا اس طرح ادا کر نا ہے کہ اس شے کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے ۔ تصویر اور محاکات میں یہ فرق ہے کہ تصویر میں اگر چہ مادی اشیاء کے علاوہ حالات یا جذ بات کی بھی تصویر کھینچی جاسکتی ہے ۔ ۔ ۔ تا ہم تصویر ہر جگہ محاکات کا ساتھ نہیں دے سکتی ۔

 سینکڑوں گوناگوں حالات و واقعات تصور کی دسترس سے باہر ہیں ۔ اس کی وضاحت شبلی ایک مثال سے یوں کرتے ہیں کہ ہوس پیشہ عاشقوں کو اکثر یہ واردات پیش آتی ہے کہ کسی معشوق سے دل لگاتے ہیں چند روز کے بعد اس کے بے مہریوں اور کج ادائیوں سے تنگ آکر چاہتے ہیں کہ اس کو چھوڑ دیں اور کسی اور سے دل لگائیں ۔ پھر رک جاتے ہیں کہ ایسا دل فریب معشوق کہاں ہاتھ آئے گا ۔ اس طرح آپ ہی آپ روٹھتے اور منتے ہیں ۔

 شاعر اس حالت کو یوں ادا کر تا ہے ۔


 صد باز جنگ کرده به او صلح کرده ایم 

اور اخبر نبوده صلح و ز جنگ ما


 اب دیکھئے کھلا اس حالت کو ایک مصور اپنی تصویر کے ذریعے سے کیسے ادا کر سکتا ہے جبکہ شاعری مصوری یا محاکات ہر خیال ، ہر واقعہ اور ہر کیفیت کی تصویر کھینچ سکتی ہے ۔ اسی طرح ایک بڑافرق عام مصوری اور شاعرانہ مصوری محاکات میں یہ ہے کہ تصویر کی اصلی خوبی تو یہ ہے کہ جس چیز کا نقش بنا یا جاۓ اس کا ایک ایک خال و خط دکھایا جائے ورنہ تصویر نا تمام اور نا مکمل ہو گی لیکن شاعرانہ مصوری کے ذریعے ایک شاعر اصل شے کی تمام جزئیات نمایاں کئے بغیر اصل سے بڑھ کر اثر پیدا کر سکتا ہے ۔ مثلا سبنر و پر شبنم دیکھ کر وہ اثر پیدا نہیں ہو سکتا جو اس شعر سے ہو سکتا ہے ۔

 کھا کھا کے اوس اور بھی سبر ومرا ہوا 

تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا


 تصویر کا اصلی کمال یہ ہے کہ اصل کے مطابق ہو اور اگر مصور اس امر میں کامیاب ہو گیا تو اس کو کامل فن کا خطاب مل سکتا ہے ۔ لیکن شاعر اس مرحلے پر دوسری مشکل میں ہوتا ہے کیونکہ نہ اصل کی پوری پوری تصویر کشی کرتا ہے ۔ اور نہ اصل سے دور جا سکتا ہے ۔ اس موقع پر اس کو تخیل سے کام لے ناپڑتاہے وہ اسی تصویر کھنچتا ہے جو اصل سے آب و تاب اور حسن و جمال میں بڑھ کر ہو جاتی ہے ۔ لیکن وہ قوت تخیل سے سامعین پر اثر ڈالتا ہے کہ یہ وہی چیز ہے جسے لوگوں نے گہری نظر سے نہیں دیکھا تھا اس لئے اس کا حسن نمایاں نہیں ہوا تھا ۔

 ڈاکٹر عبادت بریلوی " اردو تنقید کا ارتقا " میں اس معاملے میں شبلی کا نقطہ نظر واضح کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ ، ارسطو ، ان ( شبلی ) کے خیال میں صرف محاکات کو شاعری بتاتا ہے لیکن وہ ارسطو کے خیال سے متفق نہیں ہیں وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ بہت سے اشعار میں صرف محاکات ہی ہوتے ہیں ۔ اور ان کو شعر مانا جاتا ہے ۔ لیکن اگر تخیل بھی اس میں شامل ہو تو صحیح معنوں میں شعر ہے ۔ اور اس لئے محرکات اور تخیل کا چولی دامن کا ساتھ کہا جا سکتا ہے ۔

تخیل شبلی کی نظر میں


 تخیل کی تعریف کے سلسلے میں شبلی سب سے پہلے ہنری لوئیس کے الفاظ یوں قلم بند کرتے ہیں ، کہ وہ قوت جس کا کام یہ ہے کہ ان اشیاء کو جو مرئی نہیں ہیں یا جو ہمارے حواس کی کمی کی وجہ سے ہم کو نظر نہیں آتیں ، ہماری نظر کے سامنے کر دے ۔ لیکن شبلی کے خیال میں یہ تعریف پوری جامع اور مانع نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی چیزوں کی منطقی جامع اور مانع تعریف ہو بھی نہیں سکتی ۔ بہر طور شیلی کے نزدیک تخیل دراصل قوت اختراع کا نام ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسفہ اور شاعری میں قوت تخیل کی یکساں ضرورت ہے ۔

 شاعران موجودات سے بھی کام لیتا ہے جو مطلق موجود نہیں ۔ جبکہ فلسفہ کے دربار میں ہما ، سیمرغ ، گائو زمین ، تخت سلیمان کی مطلق قدر نہیں لیکن یہی چیز میں ایوان شاعری کے نقش و نگار ہیں ۔ شاعر کے سامنے قوت تخیل کی بدولت تمام بے حس اشیاء ، جاندار چیز میں بن جاتی ہیں اس کے کانوں میں ہر طرف سے خوش آیند صدائیں آتی ہیں ۔ زمین ، آسمان ، ستارے بلکہ ذرہ ذرہ اس سے باتیں کر تا ہے ۔ 

اس بحث سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تخیل شاعری کا ایک بڑا ہی اہم عنصر ہے اس کے بغیر شاعری کو شاعری کی صورت اختیار کرنا نصیب نہیں ہوتا ۔ تخیل ہی کی بدولت شاعری وہ مخصوص شکل اختیار کرتی ہے ۔ جس میں تاثر اور جمال کا سحر ہوتا ہے ۔ اور یہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے اگر اس میں تاثر کا سحر نہ ہو تو وہ بے مقصد اور بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے ۔

 مولانا شبلی نے تخیل کا جو تصور پیش کیا ہے اس پر سب کے سب نقاد متفق ہیں ۔ بلکہ ڈاکٹر وزیر آغا نے ” تنقید اور جدید تنقید " میں مولانا شبلی کو متعقدین کی صف میں سے اٹھا کر اکابرین کی صف میں لا کھڑا کیا ہے ۔


شعر اور مقصدیت

 حالی کے زمانے کی تنقید نے شاعری کو مواد کی ترسیل کا ایک ذریعہ جانا تھا ۔ مراد یہ تھی کہ نظر یہ خیال یا منصوبہ اپنی ترسیل کے لئے شاعری کو برئوے کار لاتا ہے ۔ شبلی نے اس سے ہٹ کر انقلابی انداز میں یہ موقف اختیار کیا کہ تخلیق کاری کا عمل ترسیل سے زیادہ دریافت کے عمل سے منسلک ہے ۔ شاعر کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے اندر کی دنیا کا کیا عالم ہے ۔ وہ تو بس تخیل کے اڑن کھٹولے میں بیٹھ کر اپنے اندر کے ان دیکھے براعظم کی سیاحت کرتا ہے ۔ 

مقایقی عمل کے بارے میں شبلی کا یہ بیان سر سید اور ان کے مدرسہ فکر اس نظریے کو مسترد کرتا ہے جو پہلے سے تیار شدہ کسی مواد کی بذرایہ شعر تشہیر کرنے پر زور دیتا ہے ۔ شبلی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تخلیق سے قبل شاعر کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہنے والا ہے ۔ تنقید کا یہ رویہ ظاہر ہے اس دور کی عام تنقید کی افادیت پسندی اور منصوبہ بندی کے رویے سے قطعی مختلف تھا اس لئے ہم بڑی آسانی سے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ شبلی ، حالی کی مقصدیت کے خلاف رد عمل کا اظہار کرتے ہیں ۔ مگر بات اتنی آسان بھی نہیں ۔

 شبلی کے واضح نظریات کو ہم ان کی تنقیدی اپیچ تو قرار دے سکتے ہیں ۔ کوئی رد عمل قرار نہیں دے سکتے ۔ ان کے نزدیک شاعری اخلاق کی تعلیم بھی دیتی ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں ، کہ شریفانہ اخلاق پیدا کرنے کا ، شاعری سے بہتر کوئی آلہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔ اس بناء پراگر شاعری کے ذریعے سے اخلاقی مضامین بیان کئے جائیں اور شریفانہ جذبات مثلا شجاعت ، غیرت ، آزادی کو اشعار سے ابھارا جاۓ تو کوئی اور طریقہ اس کی برابری نہیں کر پھر اپنے تنقیدی نظریات کو پیش کرتے ہوئے شبلی نے فلسفیانہ بحثیں کی ہیں لیکن ان مباحث میں سماجی پہلوئوں پر زور کم دیا ہے ۔ حالانکہ اس کا احساس ضرور ہے کہ ادب و شعر سماجی اہمیت کے مالک ہوتے ہیں ۔ جب انہیں یہ تعلیم ہے کہ ہر ملک کی قومی می خصوصیات کے اثرات ان کے شعر وادب پر بھی پڑتے ہیں ۔ تو انہیں اس عمل کے تحت رد عمل کا تجزیہ بھی کرنا چاہیے تھا ۔ ان کی تنقید میں جمالیاتی تنقید کی جھلک نظر آتی ہے ۔ لیکن انہیں شاعری کی سماجی اہمیت کا احساس غرور ہے جس طرف ودخود جگہ جگہ اشارے کرتے ہیں ۔ 


حرف آخر 


الغرض شعر العجم بنیادی طور پر ایک تنقیدی کتاب نہیں ہے ۔ اگر وہ خالص تنقیدی کتاب ہوتی تو تنقیدی پہلواس میں نسبتاز یادہ نمایاں ہوتا ۔ مگر شبلی کی تنقید کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں اردو میں ان کی تنقید نگاری اپنا ممتاز مقام رکھتی ہے ان کی تنقیدی لفاظی میں ایک ایسا اسلوب پایا جاتا ہے جس سے اب تک اردو تنقید نا آشنا تھی ۔

i

مولانا شبلی نعمانی اور موازنہ انیس و دبیر 


میر انیس کا نام آتے ہی میرزاد بیر کا نام خود بخود ذہن میں ابھر آتا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ مرثیہ گو شعراء میں صرف مرزاد بیر ہی ان کے ہم رتبہ کیے جا سکتے ہیں ۔ معاصر کی حیثیت سے جتنے طویل عرصے تک یہ دونوں سایہ کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رہے شائد ہی دوسرے ہم عصر شاعر ساتھ رہے ہوں ۔ ان کی زندگی اور فن دونوں میں عجیب طرح کی مماثلت ہے ۔ دونوں کی تاریخ پیدائش اور وفات تقریبا ایک ہی ہے ۔ عمر میں بھی دونوں نے تقریبا برابر کی پائیں ۔

 میرانیس کے استاد میر خلیق اور وہیر کے استاد میر ضمیر بھی ہم عصر و ہم عمر تھے ۔ دونوں کو اہل بیت سے خاص لگائو اور فن مرثیہ نگاری سے خاص دلچسپی تھی ۔ دونوں نے اپنے ماحول کی مقبول ترین صنف کو چھوڑ کر مرثیہ کی طرف توجہ کیا ۔ دونوں نے اپنے دائر و شاعری کو سلام ، رباعی اور مرثیہ تک محدود رکھا ۔ دونوں نے اس شاعرانہ فضاء میں ترتیب پائی اور پروان چڑھے جو دہلی کی مد مقابل بن کر دبستان لکھنو کے نام سے وجود میں آئی ۔ دونوں مجالس عزا میں خاص اہتمام سے شریک ہوتے تھے اور دونوں کا انداز مرثیہ خوانی حاضر میں مجلس کی توجہ کا مرکز بنتا تھا ۔ دونوں نے اپنے اپنے عقیدت مندوں اور شاگردوں کے بڑے گروہ پیدا کر لئے تھے اور لکھنو کی فضائے شاعرانہ ان کے اور ان کے شاگردوں کی معاصرانہ چھیڑ چھاڑ کے سبب آباد اور پر رونق رہی ۔

 میر انیس نے دبیر سے صرف ایک سال پہلے جہان فانی کو خیر آباد کہا ۔ ان کی وفات پر بہت سے شاعروں نے قطعات تاریخ کہے لیکن مشہور تو دبیر کا کہا ہوا قطعہ اپنی مثال آپ ہے ۔ وہ قطعہ تاریخ جس کا مصرعہ ہے ۔ طور سینا بے کلیم اللہ و منبر بے انیس ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی جگہ ان میں سے ایک کا ذکر آۓ اور دوسرے کا نام نہ لیا جاۓ ۔

 قدیم تذکرہ نگاروں سے لے کر آج تک کے ناقدین میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہو جس نے مرثیہ نگاری پر کچھ لکھا ہوا اور ان دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ نہ کیا ہو ۔ لیکن ان کی معاصرانہ چشمک اور ان کے شاگردوں کی ادبی معرکہ آرائیوں کا ذکر ہر جگہ ملتا ہے ۔ 

شبلی کی موازنہ انیس و دبیر 


مولانا شبلی نعمانی کے جادو نگار قلم نے ” مواز ندانیس و بیر " کے ذریعے میرانیس اور مر زاد پیر کے درمیان ایسی حد فاصل قائم کر دی کہ ہمارے علمی ادبی حلقوں میں میرانیس کو مر زاد بیر سے بہتر مرثیہ نگار سمجھا جانے لگا ۔ اور یہی مولانا شبلی کا مقصود تھا ۔ لیکن بعض لوگ شبلی کے طرز تنقید سے مطمئن نہ ہوۓ ان کے خیال میں شبلی نے موازنہ انیس و دبیر میں دیر کے ساتھ زیادتی کی ہے اور ان کا پلہ نیچا کر نے کے لئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر میر انیس کی خوبیاں اور ان کی خامیاں گنوائی ہیں ۔ 

چنانچہ شبلی کے جواب میں چودھری سید النظیر الحسن نے ایک معرکتہ آرا کتاب " المیزان " کے نام سے شبلی کی زندگی میں شائع کی ۔ اور اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مرزاد بیر بہ حیثیت مرثیہ نگار میر انیس سے کسی طرح کم نہیں ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ نظیر الحسن نے کلام و بیر کے بہت سے ایسے محاسن ہمیشہ کے لئے اجا گر کر دیئے جو مولانا شبلی کے اثر سے دب گئے تھے ۔ لیکن ان کی کتاب موازنہ کا جواب نہ دے سکی ۔ 


موازنہ 


میرانیس اور مر زاد پیر صاحب کمال مرثیہ گو ، ہم عصر شعرا ، اپنے اپنے میدان میں لاجواب ہیں ۔ البتہ مولانا شبلی نے ” موازنہ انیس دیبر " میں میر انیس کی حمایت کی ہے ۔ در حقیقت اگر میر انہیں اپنی سادگی ، سلاست اور بے مثل جذبات نگاری کی وجہ سے مشہور ہیں تو شوکت الفاط ، مضمون کی بلندی اور خوبی ادا میں مر زاد بیر بھی لاجواب ہیں ۔

 مرزا دبیر کے کلام کا خاص جوہر زور بیان ، شوکت الفاظ ، بلندی ، تخیل اور صنائع کا استعمال ہے ۔ گر یہ انگیر غلط روایات انہوں نے میر انیس سے بہت زیادہ ادہ نظم کی ہیں ۔ لیکن واقعہ نگاری میں رابط و تسلسل اور مضمون کی ہو گی جو انیس کا خاصہ ہے ۔ مر زاد پیر کے ہاں نہیں ہے ۔ کردار نگاری کی نزاکت ، بلاغت کے تقاضے ، تصویر کا حسن اور واقعات و جذبات کے وہ مر تھے جو میرانیس نے بظاہر کافی احتیاط اور بے ساختگی سے پیش کئے ہیں مر زاد بیر سے ممکن نہیں ہو سکے ۔ لیکن جہاں تک خیالات کی بلند پروازی علمی اصطلاحات ، عربی فقروں کی تضمین اور ایجاد مضامین میں ان کا فن خوب پکا ہے ۔ اور یہ ان ہی کا خاصہ ہے کہ دو ہر واقعہ کو بیان کرنے میں تشبیہ اور استعارے اور تلمیح و صنائع کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔ جس سے اشعار کی شان و شوکت بڑھ جاتی ہے ۔ 

i

مرزاد بیر کے ہاں مناظر کی تصویر کشی میں اصلیت کا کافی رنگ ملتا ہے ۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں وہ میر انیس کے ہم پلہ ہوتے ہیں ۔ ان مناظر کی تصاویر کے علاوہ و بیر نے تلوار اور گھوڑے کی تعریف میں بھی پرواز خیال اور ایجاز مضامین کا بہت ثبوت دیا ہے ۔ جس سے ان کی طبیعت میں خلاقی کا عنصر غالب تھا ۔

 مرزاد بیر نے مرثیہ کا صرف ایک جزوینی مناظر فطرت ہر جگہ معیار سے پست لکھا ہے اور میر انیس کے مقابلے میں نہایت ادفی اور بالکل بے لطف اس کے علاوہ روز مر و محاورہ صنائع لفظی و معنوی ، استعاره و تشبیه ، جذبات واحساسات ، حقائق و واقعات اور لوازم ورزم فصیح و بلیغ بھی لکھے ہیں اور غلط اور بے محل بھی ۔ اعلی اور ادفی بھی ۔ پر اثر بھی اور بے تاثیر بھی ۔ مر زاد بیر کا کوئی مرشیہ دیکھیے مشکل سے دس میں بند مسلسل ایسے ملیں گے جو بے عیب ہوں ۔ جن میں کوئی حرف د یتا یا گرتا نہ ہو یا تعقید نہ ہو یا معنی میں پیچید گی نہ ہو ، یا طرزادا بلاغت کے خلاف نہ ہو یا بے محل شوکت الفاظ نہ ہو ۔ یا ناکام خیال آرائی نہ ہو یا بے لطف اثر بیان نہ ہو ۔ 


دبیر


وی گرمی دکھائی روشنی طور صبح نے

 ٹھنڈے چراغ کر دیئے کافور صبح نے


انیس


 چھپنا وہ ماہتاب کا وہ صبح کا ظہور 

یاد خدا میں زمزمہ پروازی طیور 


دبیر


دریا میں آنکھ بیٹھ گئی ہے حباب کی 

حدت ہی موج موج میں تیر شہاب کی 


انیس


خود شہر عقلمہ کے سوکھے ہوئے تھے لب

 خیمے جو تھے حبابوں کے پتے تھے سب

  مرزا دبیر کے کلام میں وہ فصاحت و بلاغت اور شائستگی نہیں جو میر انیس کے کلام میں ہے ۔ بعض الفاظ کو مر زاد بیر نے ایسی تراکیب کے ساتھ استعمال کیا ہے کہ ان کی وجہ سے ان میں نہایت ثقل اور بھدا پن پیدا ہو گیا ہے ۔ یہاں پر ایک مثال میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک ہی لفظ میر انیس اور مرزاد بیر دونوں نے استعمال کیا ہے ۔ حمل اتی ، انما ، قل کفی یہ الفاظ حضرت علی کے فضائل کی تلمیحات میں دونوں کا موازنہ ملاحظہ ہو ۔ 


دبیر

اہل عطا میں تاج سر حل آتی ہیں یہ

 اغیار لاف زن میں شہ لافتی ہیں یہ

 خورشید انور فلک انما میں یہ

 کافی ہے شرف کہ شہ قل کفی میں یہ


انیس


حق نے کیا عطا پہ عطامل اتی کیسے

 حاصل ہوا ہے مر تبہ لافتی کسے

 کو نین میں ملا شرف انما کسے 

کہتی ہے خلق ، بادشہ قل کفی کے


 فصاحت کے بعد بندش کی سستی اور ناہمواری ہے ۔ میر انیس اور مرزاد پیر میں اصل جو چیز امتیاز کرتی ہے وہ الفاظ کی ترکیب ، نشست اور بندش کا فرق ہے ۔ میر انیس کے کلام میں بندش کی چستی ، ترکیب کی دلآویزی الفاظ کا تناسب اور بر جستگی و سلامت موجود ہے اور یہی چیز میں مرزاد بیر کے ہاں بہت کم ہیں ۔ ان کے یہاں مصرع میں ایک لفظ نہایت بلند اور شاندار ہے تو دوسرا پست ۔ دو تین بند صاف اور سلیس نکل جاتے ہیں پھر تعقید اور بے ربطی شروع ہو جاتی ہے ۔

دبیر

 اے دیدہ یہ نظم دو عالم کو ہلا دے

 اے طنطنہ طبع جز و کل کو ملا دے 

اے معجزہ فکر فصاحت کو جلا دے 

اے زمزمہ نطق بلاعنت کا صلہ دے


 انیس

 ائیں بیٹے بھی نہیں ہے

 گود کا پالا بھی نہیں ہے 


ان کا تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے مر زاد بیر کے یہاں تشبیہات و استعارات کا بھی خاص جوہر ہے ۔ مر زاد بیراپی دقت آفری سے ایسے عجیب و غریب اور نادر تشبیہات و استعارات پیدا کرتے ہیں کہ کوئی اس کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا ۔ لیکن وہ اکثر اس قدر بلند کرتے ہیں کہ بالکل غائب ہو جاتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں میر انیس کے تشبیہات و استعارات کلام کو حسین بنا دیتے ہیں ۔ اور اس میں معنی کی لچک بھی پیدا کرتے ہیں ۔ 


دبیر

ار شمشیر نے جل تھل جو بھرے قاف تا قاف

 پر یاں ہوئیں مرغابیاں گرداب بنا قاف ہیں


انیس

 وہ گورے گورے جسم قبائیں و تنگ تنگ

 زیور کی طرح جسم پہ زیبا سلاخ جنگ 


میر انیس اور مرزاد بیر میں اصلی امتیاز پیدا کر نے والی چیز خیال بندی اور دقت پسندی ہے ۔ اور یہی چیز مر زاد بیر کے تاج کمال کا طرہ ہے ۔ خیال آفرینی ، دقت پسندی ، حدت ، استعارات ، اختراع تشبیہات ، شاعرانہ استدالال شدت مبالغہ میں ان کا جواب نہیں ۔ لیکن وہ اس زور کو سنجال نہیں سکے اس وجہ سے کہیں خامی ، کہیں تعقید اور کہیں اغراق ہو جاتا ہے ۔ مضمون آفرینی کے سلسلے میں ایک مثال ملاحظہ ہو ۔


 جب سر نگوں ہوا علم کہکشان شب

 خورشید کے نشاں نے مٹا یا نشان شب 

تیر شہاب سے ہوئی خالی کمان شب

 تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنان شب

 ائی جو صبح زیور جنگی سنوار کے شب نے

 زرہ ستاروں کی رکھدی اتار کے

 بلاغت میں میر انیس اور مر زاد پیر کی شاعری کی سرحد میں بالکل الگ ہو جاتی ہیں ۔ مر زاد ہیر کے کلام میں کہیں بھی بلاغت کا وصف نہیں پایا جاتا ۔ نوحہ ، غم ، فخر وادعا ، طنز و تشیع ، ہجو و بد گوئی سوال و جواب ، گلہ شکوہ ، کسی بھی مضمون کو مر زاد پیر حالت کے موافق نہیں لکھ سکے ۔ مثلا ایک مرثیہ میں امام حسین کی شہادت پر حضرت شہر بانو کا جو نوحہ لکھا ہے اس میں لکھتے ہیں ۔


 تم جانو جہاں سے شہ عالی کو لے آئو حضرت سے میں گذری میرے والی کو لے آئو


تم جانو جہاں سے " اس محاورے کے ابتذال سے قطع نظر کر کے یہ امر کس قدر خلاف حال ہے کہ کوئی شریف عورت یہ کہے کہ میں ” اپنے بیٹے سے گزری میرے شوہر کو جہاں سے ممکن ہو پیدا کرو ۔ اس طرح بہت سے مثالیں شبلی بتاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے مر زاد بیر کی طبیعت میں اصولی بلاغت کا لحاظ نہ تھا ۔ ذہن صحیح طور پر متوازن نہ تھا ۔ اور مذاق اصلی حد تک سلیم نہ تھا ۔ وہ بے محل اور خلاف موقع بات کہہ جاتے ہیں اور ان کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ کیا بات کی یا کس طرح کہنی چاہیے تھی ۔ ایک جگہ حضور کی زبان سے مرزاد بیر نے یہ مضمون ادا کیا ہے ۔ 


محبوب ہوں خدائے ذوی الاحترام کا

 نانا ہوں میں حسین علیہ السلام کا


 آنحضرت کی زبان سے امام صاحب کے لئے " علیہ السلام " کا لفظ کس قدر ناموزوں ہے ۔ اس طرح ایک اور جگہ میدان کربلا میں ایک مسافر اترتا ہے اور حضرت امام صاحب سے ان کا نام پوچھتا ہے مر زاد بیر کے قول کے مطابق امام صاحب جواب دیتے ہیں ہمیں حسین علیہ السلام کہتے ہیں خود اپنے آپ کو علیہ السلام کہنا اور بھی نامناسب ہے ۔ اس موقع پر میرانیس لکھتے ہیں : 


یہ تو نہ کہہ سکے کہ وہ مشرقین ہوں 

مولا نے سر جھکا کے کہا میں حسین ہوں 


ایک جگہ  مر زاد بیر لکھتے ہیں 

 زیر قدم والد و فردوس بریں ہے 

یہ ترکیب فنی نفسہ کچھ خوبصورت اور لطیف و نازک نہیں لیکن میرانیس کے اس مصرع کے سامنے بہت بھدی ہو جاتی ہے ۔ کہتے ہیں ماں کے پائوں کے نیچے بہشت ہے ۔ ڈاکٹر ابوالیث صدیقی فرماتے ہیں کہ انیس و دبیر کی شاعری میں دہلی اور لکھنو کے رنگ کا فرق ہے ۔


 مجموعی جائزہ 

مولانا شبلی نعمانی نے ” موازنہ انیس وہ پیر " میں مرزاد بیر پر میر انیس کو ترجیح دی ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مر زاد ہیر کا کلا م قابل توجہ نہیں ، مرزا صاحب بھی صف اول کے شاعر اور ایک بلند پایہ استاد فن میں ان کا رنگ میرانیس کے رنگ سے جدا ہے اور ایسی انفرادیت رکھتا ہے جس کی مثال اردو مرثیہ کی تاریخ میں نظر نہیں آتی ۔ دراصل دو دبستان شروع ہی سے ساتھ چل رہے ہیں ایک کی نظر صرف زبان کی سادگی اور جذبے کی نرم روی پر رہتی ہے ۔ دوسرا نگین بیانی اور خروش الفاظ پر جان چھڑ آتا ہے ۔ دونوں کی الگ الگ حیثیت و اہمیت ہے ان میں سے کوئی اسلوب غیر ادبی یا غیر شاعرانہ نہیں ہے ۔ خارجی حالات بدلتے ہیں تو ہماری داخلی دنیا بھی بدل جاتی ہے ۔ پسند یدگی و ناپسندیدگی کے معیار کچھ سے کچھ ہو جاتے ہیں ایک زمانہ تھا کہ مناعی سب کچھ تھی ۔ سادگی معیوب تھی آج سادگی سب کچھ ہے صناع نا مقبول ہے ۔ لیکن پھر بھی بقول سید فیاض محمود کہ اثر اندازی کی بناء پر میر انیس کا پلہ دبیر پر بھاری ہے ۔