الطاف حسین حالی تحقیقی و تنقیدی جائزے

admin

الطاف حسین حالی تحقیقی و تنقیدی جائزے

 الطاف حسین حالی تحقیقی و تنقیدی جائزے


الطاف حسین حالی حالاتِ زندگی


خواجہ الطاف حسین حالی ، ہندوستان میں اردو کے نامور شاعر اور نقاد گزرے ہیں ۔ حالی 1837 ء میں پانی پت میں پیدا ہوۓ ۔ ان کے والد کا نام خواجہ ایز و بخش تھا ۔ ابھی 99 سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا ۔ بڑے بھائی امداد حسین نے پرورش کی ۔ اسلامی دستور کے مطابق پہلے قرآن مجید حفظ کیا ۔ بعد ازاں عربی کی تعلیم شروع کی ۔ 177 برس کی عمر میں ان کی مرضی کے خلاف شادی کر دی گئی ۔ اب انہوں نے دلی کا قصد کیا اور 2 سال تک عربی صرف و نحو اور منطق وغیرہ پڑھتے رہے ۔ حال کے بچپن کا زمانہ ہندوستان میں تمدن اور معاشرت کے انتہائی زوال کا دور تھا ۔ سلطنت مغلیہ جو 3000 سال سے اہل ہند خصوصاً مسلمانوں کی تمدنی زندگی کی مرکز بنی ہوئی تھی ۔ دم توڑ رہی تھی ۔ سیاسی انتشار کی وجہ سے جماعت کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور انفرادیت کی ہوا چل رہی تھی ۔


 مقدمہ شعر و شاعری اور الطاف حسین حالی


 اردو تنقید کی ابتدائی کتاب ۔ مولانا الطاف حسین حالی کو اسی وجہ سے اردو کا پہلا باقاعدہ و انقاد تصور کیا جاتا ہے ۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے آج کل کے نقاد باوجود ڈگریوں کے جوان کے علم کی سند ہے ادب اور زندگی کے تعلق کو واضح کرنے میں کسی طرح حالی سے آگے نہیں بڑھ پائے تو ہمارے دل میں حالی کی قدر بڑھتی ہے ۔ حالی کی اہمیت کسی طرح کم نہیں ہوتی کہ انہوں نے اس موضوع ( لینی ادب اور زندگی کارشتہ ) پر غور کرنے والوں کے لیے راہ کے پہلے نقوش بناۓ ۔

 محمد احسن فاروقی ۔ یوں تو مولانا الطاف حسین حالی کی شخصیت کئی لحاظ سے مطالعہ کے قابل ہے ۔ آزاد اور شبلی کی طرح وہ بیک وقت شاعر ، ادیب ، سوانح نگار اور نقاد ہیں ۔ وہ ایک منفرد شاعر ، صاحب طر زادیب ، باذوق سوانح نگار اور وسیع النظر نقاد کی حیثیت سے اردوادب میں ہمیشہ یادگار ہیں ھے ۔ حالی کا تعلق سر سید کی تحریک اور سرسید کی شخصیت سے بہت زیادہ تھا ۔ اور سر سید کے زیر اثر ہی حالی نے مسدس حالی تصنیف کی ۔ 

سر سید کی رفاقت ، مولانا محمد حسین آزاد کی دوستی اور محکمہ تعلیم کی ملازمت کے دوران انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہونے والی کتابوں کے مطالعے نے حالی کو اردو شاعری میں نئے رجحانات سے آشنا کیا ۔ چنانچہ انھوں نے پرانی طرز شاعری کو ترک کر کے نئے اسلوب شعر کی طرف توجہ کی اور کچھ اس طرح توجہ کی اردو میں جدید شاعری کے اولین استاد کہلائے ، خود نئے انداز میں شعر کہنے شروع کیے ۔ اور دوسروں کو نئے شعر کی طرف راغب کیا ۔ ان کے تنقیدی نظریات مختلف کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں ۔ لیکن مقدمہ شعر و شاعری ان کی تنقید کی با قاعد و کتاب ہے ۔ انھوں نے مغربی تنقید کے اصولوں کو مشرق میں رواج دینے کی کو شش کی ۔

 اس کے علاوہ مختلف اصناف سخن پر بھی بحث کی ۔ مقدمہ شعر و شاعری کے دو حصے ہیں ۔ پہلے حصے میں شعر کی تعریف ، اس کی تاثیر وافادیب اور الفاظ و معانی کی اہمیت کی تشریح کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کے بنیادی اصول مرتب کر کے اس کے لیے ضروری شرائط پیش کی گئی ہیں ۔ جن کی بحث و ترتیب میں عربی معیار تنقید کے علاوہ مغربی تنقید کے خیالات کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ دوسرے حصے میں اردو کے اہم اصناف سخن کی تعریف و خصوصیات کے ساتھ ساتھ ان کے لیے صحیح معیار بتائے گئے ہیں ۔


در اصل حالی کی تنقید دو مثلثوں پر استوار ہے ۔ پہلی مثلث شعر کی خارجی ساخت کے حوالے ہے ۔ اور دوسری مثلث شعر کی داخلی ساخت کے حوالے سے ہے ۔ اس کے خیال میں شعر میں ان خصوصیات کا ہو نالازمی ہے ۔ پہلے ان کی خارجی مثلث کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں ۔ جن میں تین اجزاء شامل ہیں تخیل ، مطالعہ کائنات اور انتخاب الفاظ یا تخص الفاظ ۔


تخیل


 تخیل یا قوت متخیلہ کو حالی کی شاعری یا شاعری کے لیے ایک اور ضروری اور اول شرط قرار دیتے ہیں ۔ وہ تخیل کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجربہ یا مشاہدہ کے ذریعے سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہو تا ہے اس کو مقرر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے ۔ اور پھر اس کو الفاظ کے ایسے دلکش پیراۓ میں جلوہ گر کرتی ہے جو معمولی پیرائیوں سے بالکل یا کسی قدر الگ ہوتا ہے ۔

 ینی انسانی ذہن ایک سٹور کی مانند ہے جس میں تمام چیز میں بے ترتیب انداز میں پڑی ہوئی ہیں ۔ لیکن جب تخلیق کار تخلیق کے عمل سے گزرتا ہے تو شاعر ان چیزوں کو ایک نئی ترتیب دیتا ہے ۔ اور اس ترتیب سے ان چیزوں کی شکل ہی بدل جاتی ہے ۔ ان کا تخیل کا یہ نظریہ نیا نہیں بلکہ اس سے پہلے کولرج اس کو متخیلہ کی صورت میں پیش کر چکے ہیں ۔

 ڈاکٹر عبادت بریلوی " اردو تنقید کا ارتقا میں اس ضمن میں رقمطراز ہیں کہ ، ظاہر ہے کہ یہ تعریف کو لرج کی تعریف تخیل کی طرح جامع اور مانع نہیں اور نہ حالی سے اس بات کی توقع کی جاسکتی تھی ۔ کیونکہ انہوں نے کولرچ یا دوسرے رومانوی نقادوں کے تنقیدی خیالات کا مطالعہ نہیں کیا تھا اور نہ اس سے قبل اردو میں تخیل ا تخیل کی تعریف کی کوئی روایت موجود تھی ۔ حالی نے اس کو پہلی دفعہ پیش کیا ۔ اس لیے اس میں سطحیت یقین ہے لیکن اس کے باوجود تخیل کے متعلق ضروری باتیں ذہن نشہ ہن نشین ہو جاتی ہیں ۔ بہر طور حالی کے نزدیک یہ سب سے مقدم اور ضروری چیز ہے جو شاعر کو غیر شاعر سے ممیز کرتی ہے ۔ یہ ایسی لذت ہے جو جس قدر شاعر میں اعلی درجہ ہو گی اسی قدر اس کی شاعری اعلی درجہ کی ہو گی ۔


 کائنات کا مطالعہ 


تخیل کے علاوہ کائنات کا مطالعہ بھی حالی کے نزدیک ضروری ہے ۔ لیکن کائنات کے مطالعے سے ان کا مقصد صرف مناظر فطرت یا نیچر کا مطالعہ ہی نہیں بلکہ فطرت انسانی اور نفسیات انسانی سے بھی واقفیت ضروری ہے ۔ ان کے نزدیک اگرچہ متخیلہ اس حالت میں بھی جبکہ شاعر کی معلومات کا دائرہ نہایت تنگ اور محدود ہو ، اس معمولی ذخیرہ سے کچھ نہ ک چھ نتائج نکال سکتی ہے لیکن شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے ۔ کہ نسخہ کائنات اور اس میں خاص کر نسخہ فطرت کا مطالعہ نہایت غور سے کیا جاۓ ۔ اس طرح شاعر مختلف اشیاء سے متحد خاصیت بھی اخذ کر سکتا ہے ۔

 اس سلسلے میں حالی نے سر والٹر کی شاعری کی مثال دی ہے ۔ حالی کا یہ نظر یہ بھی مغربی تنقید کے مطالعے کی پیداورا ہے ۔


 انتخاب الفاظ ما تفحص  الفاظ


الفاظ حالی شاعری کے لیے تیسری شرط تخص الفاظ یا الفاظ کا صحیح استعمال بتاتے ہیں کیونکہ بغیر اس کا خیال رکھے ہوئے شاعر اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح پیش ہی نہیں کر سکتا ۔ ان کے مطابق شعر کی ترتیب کے وقت اول متناسب الفاظ کا انتخاب کر نا اور پھر ان کو ایسے طور پر ترتیب دینا کہ شعر سے معنی مقصود کے سمجھنے میں مخاطب کو کچھ تر دو باقی نہ رہے ۔ نہایت ضروری ہے کیونکہ شعر میں اگر یہ بلاعت یا بات نہیں تو اس کے کہنے سے نہ کہنا بہتر ہے ۔


مزید برآں شعر و شاعری کے سلسلے میں حالی الفاظ کے انتخاب پر اس لیے زیادہ زور دیتے ہیں کہ معانی الفاظ کے تابع ہوتے ہیں ۔ شاعری کے لیے ان ضروری شرائط سے یہ بھی واضح ہے کہ حالی شعر و سخن کی تخلیق میں غور و فکر کو لازمی قرار دیتے ہیں ۔ اس لیے وہ آمد سے بڑھ کر آورد کے حق میں ہیں ۔ پھر عالی اس بات پر بھی دھیان کرواتے ہیں کہ معانی کی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے کیونکہ ایک لفظ کو کئی معنوی جبات دی جاسکتی ہیں ۔

 یہ جہات اپنے طور پر قابل قدر ہوتی ہیں ۔ جبکہ لفظ اپنے لغوی یا سادہ مفہوم میں محدود ہی ہوتا ہے ۔ حالی نے شعر و شاعری کو مثالی پیکر عطا کرنے کے لیے غور و خوص کیا ہے اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اچھے اور قادر الکلام شعراء کے نمونے یاد کرنے چاہیے جس سے نہ صرف ذہن کی شعری مشق ہو تی ہے ۔ بلکہ تمیز کی صفت بھی پیدا ہوتی ہے ۔ تخیل کے سلسلے میں حالی نے ایک اور بڑی اہم بات کہی ہے کہ اسے قوت ممیزہ کا محکوم ہو نا چاہیے کیونکہ شعر و سخن میں اسی صورت سے اعتدال اور میانہ روی پیدا ہو سکتی ہے ۔ وگرنہ تخیل اگر مواز نے اور تمیز کرنے کی صفات کے تابع نہ ہو گا تو ایسی آزاد صورت میں شعر و سخن میں انتہا پسندی رواج پاۓ گی ۔ 

جیسے کہ ذکر ہو چکا ہے حالی کی تنقید دو مثلثوں پر استوار ہے اور ان میں سے ایک مثلث کا ذکر ہوا ۔ تخیل ، کائنات کا مطالعہ اور تفحص الفاظ جس کے تین کونے تھے ۔ دوسری مثلث شعر کی داخلی ساخت کے بارے میں ہے جنہیں حالی کے الفاظ میں ہم شعر کی تین خوبیاں کہہ سکتے ہیں ، یہ خوبیاں سادگی ، اصلیت اور جوش ہیں ، شعر کی ان خوبیوں کے بارے میں اپنے نظریات کی بنیاد حالی نے دراصل ملٹن کے خیالات پر رکھی ہے ۔ حالی ان کوایسی خصوصیات قرار دیتا ہیں جو دنیا کے مقبول شاعروں کے کلام میں عموما پائی جاتی ہیں ۔ جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے ۔ 


سادگی


 حالی اس ضمن میں ایک محقق کے الفاظ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سادگی سے صرف لفظوں ہی کی سادگی مراد نہیں ہے ۔ بلکہ خیالات بھی ایسے نازک اور دقیق نہ ہونے چاہئیں ۔ جن کو سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجائش نہ ہو ، محسوسات کی شارع عام پر چلنا ، بے تکلفی کے سیدھے رستے سے ادھر ادھر نہ ہونا اور فکر کی جولانیوں سے باز رکھنا اسی کا نام سادگی ہے ۔۔۔ شعر پڑھنے یا سننے والے کواہیں ہموار اور صاف سڑک ملنی چاہیے جس پر وہ آرام سے چلتا جائے ۔ 

حالی مزید لکھتے ہیں کہ سادگی ایک اضافی امر ہے وہی شعر جو ایک حکیم کی نظر میں محض سادہ اور سمپل معلوم ہوتا ہے ایک عام آدمی اس کو سمجھنے اور اس کی خوبی دریافت کرنے سے قاصر ہوتا ہے ۔ حالی کے نزدیک ایسا کلام جو اعلی و اوسط درجہ کے آدمیوں کے نزدیک سادہ اور سمپل ہو اور ادنی درجے کے لوگ اس کی اصلی خوبی سمجھنے سے قاصر ہوں ایسے کلام کو سادگی کی حد میں داخل رکھنا چاہیے ۔ یہ سچ ہے کہ جو عمدہ کلام ایسا صاف اور عام فہم ہو کہ اس کو اعلی سے لیکر ادفی تک ہر طبقہ اور ہر درجہ کے لوگ سمجھ سکیں اور اس سے یکساں لذت اور حظ اٹھائیں وہ اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ اس کو سادہ اور سمپل کہا جائے مگر حالی کے نز و یک سر نظم کے ہر شعر میں ایسی خاصیت آج تک دیکھنے میں نہیں آئی ۔ 

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک کلام کی سادگی کا معیار یہ ہو نا چاہئے کہ خیال کیساہی بلند اور دقیق ہو مگر پیچیدہ اور نا ہموار نہ ہو اور الفاظ جہاں تک ممکن ہو محاورہ اور روز مرہ کی بول چال کے قریب قریب ہوں ۔ جس قدر شعر کی ترکیب معمولی بول چال سے بعید ہو گی ۔ اسی قدر سادگی کے زیور سے معطل کبھی جاۓ گی ۔


 اصلیت


 اصلیت سے حالی کی مراد یہ ہے کہ جو کچھ پیش کیا جارہا ہے اس کی کچھ حقیقت یا اصلی رنگ ہو اور اس میں واقعیت کا ہونا ضروری ہے ۔ یعنی کلام میں راستی موجود ہے ۔ علاوہ ان میں حالی ایسے شعرا کے کلام بھی اصلیت پر مبنی قرار دیتے ہیں جس میں راستی مطلق نہیں ہوتی مگر حالی بعض شعراء کی خود ستائی اور فخر کو بھی اصلیت پر مبنی ٹھہراتے ہیں ۔ کیونکہ راستی نہ ہونے کے باوجود ان کے بیان میں ایسا جوش ہوتا ہے کہ


محسوس ہوتا ہے جیسے ان شعراء کو دلی طور پر اپنے آپ پر فخر بالیقین ہے ۔ چنانچہ ایسے فخر یہ اشعار اصلیت میں داخل سمجھیں جائیں گے ۔ پھر اصلیت سے مراد یہ بھی ہے کہ زیادہ تر واقعیت اور مرکزی حقیقت موجود ہونی چاہیے خواہ شاعر اس کے ساتھ کوئی کمی بیشی کر دے تو مضائقہ نہیں ۔


 جوش


 مولانا حالی بیان کرتے ہیں کہ جوش سے مراد یہ ہے کہ مضمون ایسے بے ساختہ الفاظ اور موثر پیرائے میں بیان کیا جاۓ جس سے معلوم ہو کہ شاعر نے اپنے ارادے سے یہ مضمون نہیں باندھا بلکہ خود مضمون نے شاعر کو مجبوراً اپنے تئیں بند ھوایا ہے اس طرح بے ساختہ موثر پیرایے کا ذکر کر کے اور ایک اور بین محقق کا قول درج کر کے کہ " عرب شاعروں کے کلام میں اس قدر جوش ہے کہ ان کے شعر سن کر یہ معلوم ہوتا ہے گو یا صحرا میں درخت جل رہا ہے ۔ " وہ جوش کو دل سوزی کے مضمون ہی میں لیتے ہیں ۔

 اگر جوش سے حالی کی مراد رجز یہ انداز یا زور دار اور جو شیلے الفاظ کا مظاہرہ ہوتا تو تب یہ قابل اعتراض تھا ۔ مگر حالی تو نرم و ملائم الفاظ میں بھی ” جوش " کی آمیزش کو مانتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ وہ جوش سے مراد " دل سوزی " لیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اپنے خیالات اور نظریات میں مزید صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شاعری کرنے کے لیے یا اس کے وقوع کے لیے استعداد کا سبق ، لیاقت اور قابلیت ضروری ہے ۔

 اس کا امر دو طرح سے ہے کہ ایک تو خدا کی طرف سے ودیعت صلاحیت ہو اس کے ساتھ ساتھ شعر و سخن سے متعلق تعلیم و تربیت کا فی حد تک مکمل کی جائے ۔ اس کے علاوہ حالی کے خیال میں شاعر کو جھوٹ اور مبالغے کے بیان سے بچنا چاہیے ۔ حالی شاعری کے لیے زبان کے درست استعمال کی طرف بھی رغبت دلاتے ہیں ۔ خاص کر وہ زور دیتے ہیں کہ اپنی مادری یا قومی زبان میں اشعار موزوں کیے جائیں ۔ حالی اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ جیسے تیسے ہو مادری اور قومی زبان میں موزوں وسعت کی جانی چاہیے ۔ کتاب کے دوسرے حصے میں جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں حالی نے مختلف اہم اصناف سخن کی تعریف و خصوصیات کے ساتھ ساتھ ان کے لیے صحیح معیار بتاۓ ہیں ۔ جو عملی تنقید کا بہترین نمونہ ہے ۔

 ان اصناف میں غزل ، قصیدہ ، مرثیہ ، مثنوی ، شامل ہیں ۔


 غزل


 غزل اردو ادب کی مقبول ترین صنف  ہے ۔ حالی غزل کی اصلاح چاہتے تھے ۔ غزل کے متعلق وہ لکھتے ہیں ۔ غزل کے میدان کو وسعت دی جائے اور اس میں عشق کے علاوہ محبت اور دوستی کی تمام انواع و اقسام داخل کر دی جائیں اور غزل میں ایسے الفاظ نہ استعمال کیے جائیں جن سے کھلم کھلا مطلوب مرد یا عورت ہو نا واضح ہو ۔ جیسے کلاو دستار ، سبز ہ خطہ ، مہندی چوڑیاں ، آری مجومر و غیر والفاظ مرد کو پالر کے کو مرد کا مطلوب قرار دینا بھی جو ایران اور ہند و پاک میں مروج ہے واجب الترک ہے ۔

 پرانے زمانے میں یہ خرافات اگر جاری رہیں تو ضروری نہیں کہ ہم آنکھیں بند کر کے ان کی تقلید کرتے چلے جائیں ۔ حالی کے خیال میں بااعتبار مضامین اور خیالات غزل کو وسعت دینا ضروری ہے ۔ اور اب اس میں دل میں اٹھنے والے جوش اور ولولہ کو خواہ اس کا تعلق خوشی یا غم سے ہو یا شکایت صبر سے ، رغبت یا نفرت ، انصاف یا ظلم غصہ یا تعجب ، شوق یا انتظار ، دین یادنیا کی بے ثباتی ، موت و حیات حب الوطنی یا غداری ، وفا یا جفا ، حسرت یا ندامت ، بڑھاپے یا جوانی ، کسی بات سے ہو غزل میں بیان کر نا چاہیے ۔ تاکہ غزل کا دامن وسیع ہو یا کہ غزل جد یدت کی طرف مائل ہو ۔


قصیدہ


قصیدہ بھی ایک اہم اور ضروری صنف ہے تاہم مدح کو خوشامد نہیں بنا چاہیے ۔ اور شاعر کو چاہیے کہ وہ تمام ان اوصاف کا ہی ذکر کرے جو ممدوح میں حقیقت پاۓ جاتے ہوں اور شاعر کے دل کو مدح اور ستائش پر مجبور کرتے ہوں ۔ یعنی حالی قصیدے میں مبالغہ آرائی اور جھوٹی تعریفوں کے پل باندھنے کے سخت خلاف ہے ۔ 


مرثیہ


حالی نے مرثیوں کی اصلاح کے لیے دواہم باتیں کی ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ کہ وہ نئے شاعروں کو مرثیوں کا اتباع کرنے سے منع کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ ” مرشیہ میں رزم بزم اور فخر و خود ستائی اور سرا پاو غیرہ کو داخل کر نا لبی لمبی تمہید میں اور طوطے باند ھنا ، گھوڑے اور تلوار و غیر ہ کی تعریف میں نازک خیالیاں اور بلند پرواز یاں کرنا اور شاعرانہ ہنر د کھانا مرثیہ کے موضوع کے بالکل خلاف ہے ۔ دوسری تجویز ان کی یہ ہے کہ مراثی میں توسیع کر نا ضرور کیا ہے ۔ اور ان کو واقعہ کر بلاتک محدود کر نا مناسب نہیں ہے ۔ یہ بھی اصلاح مناسب ہے اور حالی نے خود مرثیہ غالب لکھ کر اپنی تجویز پر عمل شروع کر دیا ۔


 مثنوی


 مثنوی بڑی مفید اور کارآمد صنف ہے کیونکہ غزل یا قصیدہ کے بر خلاف مثنوی میں قافیہ کی پابندی نہیں ہوتی ۔ مثنوی کے بارے میں حالی کا کہنا ہے کہ مثنوی میں مافوق العادت قصی نہ بیان کیے جائیں اور مبالغہ سے پر ہیز کرنا چاہیے ۔ حال کے تقاضے کے مطابق قصہ میں کلام ایزاد کر نا ضروری ہو جاتا ہے ۔ جو حالت بیان کی جاۓ وہ ایسی نیچرل ہونی چاہیے جیسی فی الوقع ہوا کرتی ہے ۔ یہ بھی لازم ہے کہ قصہ کا کوئی بیان دوسرے کی تکذیب نہ کرتا ہو ۔ اور ان سب میں باہم مطابقت ہو اور تجربہ و مشاہدہ کے خلاف بات کرنے سے پر ہیز کیا جاۓ ۔ وہ فارسی اور اردو کی مختلف مثنویوں میں مثالیں بھی دیتے ہیں ۔ 


حرف آخر 


حالی کی اولیت اس بات میں ہے کہ انہوں نے پہلی بار اردو میں نظری تنقید کو شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا اور وہ پہلے اردو ناقد ہیں جنہوں نے ایک منظم اور مر بوط شکل میں تنقیدی نظریات کو پیش کیا ۔ حالی نے سب سے پہلے معقول اور جاندار قسم کی تنقید کی ابتداء کی ۔ انہوں نے نہ صرف تنقید کے نظری مباحث کا آغاز کیا بلکہ عملی تنقید کے تحت غزل ، قصیدہ اور مثنوی کا تنقیدی جائزہ لینے کی بھی کوشش کی ۔ نیز نظری تنقید کے اصولوں کی روشنی میں بعض شعراء کے بارے میں اپنے تاثرات بھی مرتب کیے ۔ حالی وہ پہلے نقاد ہیں جنہوں نے خیال اور مادہ کے تعلق کو محسوس کیا انہوں نے ادب کے قومی اور ملی پہلو کی اہمیت ذہن نشین کرائی ۔ اس کے مقصدی ہونے پر زور دیا ۔ اس طرح ترقی پسند تحریک اور تنقید کی جھلک سب سے پہلے حالی کے یہاں نظر آتی ہے ۔