میرحسن کی مثنوی نگاری اور مثنوی سحرالبیان کا اسلوب،اشعار اور کردار

admin

میرحسن کی مثنوی نگاری اور مثنوی سحرالبیان کا اسلوب،اشعار اور کردار

 

میرحسن کی مثنوی نگاری اور مثنوی سحرالبیان کا اسلوب،اشعار اور کردار


میر حسن کی مثنوی نگاری 


مثنوی کا لفظ ” مثنی " سے بنا ہے اور مثنی کے معنی دو کے میں اصطلاح میں ایسی صنف سخن کو کہتے ہیں جس کے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے ، مثنوی میں لمبے لیے قصے بیان کئے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے ، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے ۔ یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں ، مثنوی ایران سے ہندوستان میں آئی ۔ اردو مثنوی کی ابتداء و کن سے ہوئی ، دکن کا پہلا مثنوی نگار نظامی بیدری تھا ۔ 


مثنوی سحر البیان  کا اسلوب


جب قیامت کا ذکر مچھر جاتا ہے تو بات محبوب کی جوانی تک پہنچتی ہے اور جب مثنوی کا ذکر میچٹر جاتا ہے تو بات " سحر البیان " تک پہنچتی ہے یہ حقیقت ہے کہ جس قدر نشہ ، خمار ، کشش اور ساحری محبوب کی جوانی میں ہوتی ہے اسی قدر یہ خصوصیت دوسری اشیاء میں نہیں ہوتی ہیں اسی طرح سے اردو میں کافی تعداد میں مثنویاں کہی گئی ہیں مگر جو دلکشی اور ساحری مثنوی ” سحر البیان میں موجود ہے دوسری دوسری مثنویاں ان خوبیوں سے محروم ہیں اس لئے ہم بلا تکلف یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ سحر البیان اردو کی بہترین مثنوی ہے ۔


 سحر البیان " اردو کی ان زندہ جاوید مثنویوں میں سے ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص میں یکساں طور پر مقبول رہی ہیں اس مثنوی کی " مقبولیت پر غور کیجئے تو بہت فنی محاسن ایسے نظر آتے ہیں جو دوسری مثنویوں میں نہیں ملتے ہیں ۔ اس لئے ” سحر البیان “ ایک مقبول عام مثنوی ہے ۔ ” سحر البیان " کے فنی محاسن کے سلسلے میں اس کی کردار نگاری پلاٹ ، جند بات نگاری ، مکالمہ نگاری ، مرقع نگاری ، منظر نگاری اور سرا پا نگاری کے علاوہ ایک مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تصویر بے حد کامیاب کھینچی گئی ہے ۔


 اس مثنوی سے میر حسن اور ان کی سوسائٹی کے مذہبی افکار اور اخلاقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس معاشرت کے روائتی طرز فکر اور تصور زند گی کا جزو بن چکے ہیں ۔ ” سحر البیان " اس دور کے مذہبی معتقدات ، ذہنی امور اور اخلاقی تصورات کی عکاس ہے ۔ یہ مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے اودھ کی اس فضا میں جہاں تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ۔ ایک تہذیب بن رہی تھی ۔ ” سحر البیان " میں اس تہذیب کی تصویر میں بھی محفوظ ہیں ۔ میر حسن چونکہ دلی سے آئے تھے اور مغل تہذیب کے دلدادہ تھے اس لئے اس مثنوی ” گلزار شیم " کے مقابلے میں لکھنوی عناصر کم ہیں ۔ اس مثنوی کا اسلوب و لہجہ دہلوی ہے ۔ تکلفات و تصنعات کا وہ زور نہیں جو بعد میں گلزار نسیم کی صورت میں نمودار ہوا ۔ پروفیسر احتشام حسین اپنے ایک مضمون ” سحر البیان پر ایک نظر میں یوں لکھتے ہیں :


اگر کوئی شخص اختلاف کرنے پر آۓ تو اختلاف ہر بات سے ہو سکتا ہے اس لئے اگر کہا جاۓ کہ میر حسن کی مثنوی سحر البیان ( جس کا پورا نام کبھی کبھی مثنوی سحر البیان یعنی مثنوی میر حسن معروف بے نظیر و بدرمنیر لکھا جاتا ہے ) اردوزبان کی سب سے اچھی مثنوی ہے تو کہیں کہیں سے یہ آواز ضرور آئے گی کہ یہ راۓ درست نہیں ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یہ مثنوی اردو کی بہترین مثنویوں میں شمار کی جاتی ہے تو شائد کسی کو شدت کے ساتھ اختلاف نہ ہو گا ۔ کیونکہ کہانی اور انداز بیان میں ضرور کچھ ایسے عناصر ہیں جس کا مطالعہ اس کی عظمت کا پتہ دیتا ہے


 میر حسن نے کئی اور مثنویاں بھی لکھی ہیں لیکن کسی مثنوی میں یہ نہیں کہا ہے کہ : 


ذرا منصفو ! داد کی ہے یہ جا 

کہ دریا سخن کا ہے بہا

 ز بس عمر کی اس کہانی میں صرف

 تب ایسے نہ نکلے میں موتی سے حرف

 جوانی میں جب ہو گیا ہوں میں پیر

 تب ایسے ہوۓ ہیں سخن بے نظیر !

 نہیں مثنوی ہے یہ ایک کھلجھڑی 

مسلسل ہے موتی کی گو پالٹری

 نئی طرز ہے اور نئی ہے زبان

 نہیں مثنوی ہے یہ سحر البیان


 یہ میر حسن کی تعلی ہو یا روایتی شاعرانہ پیرایہ بیان لیکن ہم اس کو تنقید کی بنیاد بنا کر ” سحر البیان " پڑھیں تو بعض دلکش نتائج ضرور برآمد ہوں گے ۔ ” سحرالبیان " کا مطالعہ ہم مندرجہ ز میں عنوانات کے تحت کرتے ہیں ہر عنوان میں اس کی خوبیوں اور فنی محاسن پر تنقید و تبصر و کر کے اس کی قدر و قیمت نمایاں کی جائے گی ۔


 سحر البیان کا پلاٹ 


 جہاں تک اس مثنوی کے پلاٹ کا تعلق ہے ، اس میں کوئی نیا پن نہیں اس کہانی کے اجزاء مختلف منشور اور منظوم ، قدیم داستانوں میں بکھرے پڑے ہیں اور اس کی کہانی سیدھے سادھے انداز میں یوں ہے : 


کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جو اپنی منصف مزاجی کی وجہ سے رعایا میں ہر دلعزیز تھا ۔ بادشاہ کو تمام نعمتیں میسر تھیں مگر اولاد جیسی نعمت سے محرومی اس کی زندگی کی سب سے بڑی محرومی تھی ۔ اس محرومی و مایوسی کے عالم میں بادشاہ و نیا ترک کر دینے کا ارادہ کر لیتا ہے ۔ وزیروں کے مشورے پر دوسر دست اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیتا ہے ۔ شاہی نجومی بادشاہ کے ہاں چاند سے بچے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں۔لیکن اس کی سلامتی و زندگی میں چند خطروں کی نشان دہی کر تے ہوئے اس احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ بارہ سال کی عمر تک اسے محل کے اندر رکھا جائے اور رات کھلے آسمان تلے سونے نہ دیا جاۓ کچھ عرصے بعد واقعی بادشاہ کے ہاں لڑکا پیدا ہو تا ہے ۔ اس کا نام اس کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کے پیش نظر " بے نظیر " رکھا جاتا ہے ۔ تمام شاہی تکلفات اور ناز و نعم کے ساتھ ۱۲ سال تک اسے محل کے اندر رکھا جاتا ہے ۔ مگر سال کے آخری دن جب اس کی عمر بادشاہ کے حساب سے پورے بارہ سال ہو گئی تھی ( حالانکہ اتفاق سے ایک دن کم تھا ) وہ رات کو ضد کر کے مچھت پر سو جاتا ہے ۔ آدھی رات کے قریب ماہ رخ پری کا گزر وہاں سے ہوا ۔ اسے سوتے میں دیکھ کر اس پر عاشق ہوئی ۔ اور اپنے ساتھ پرستان میں لے گئی ۔ شہزادے کی گم شدگی پر صبح محل میں قیامت کا منظر پر با ہو جاتا ہے ۔ بڑی تلاش کی گئی مگر شہزادے کو نہ ملتا تھا نہ ملا ۔ اور خ پر کی طرح طرح سے شہزادے کو اپنی طرف مائل کرنے کی کو شش کرتی ہے ۔ شہزادہ اپنی صغر سنی کے باعث اداس ، ملول اور پریشان رہتا ہے ۔ اس پر پیشانی کو دور کرنے کے لئے ماہ رخ پر ی اسے کل کا گھوڑادیتی ہے ۔ اس گھوڑے پر سیر کرتا پھر تا شهراده " بدرمنیر شہزادی کے باغ میں اترتا ہے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر عاشق ہو جاتے ہیں اچانک ایک دن ایک دیوان دونوں کو وصل کی حالت میں دیکھ لیتا ہے ۔ اس کی اطلاع ماہ رخ پری کو ہوتی ہے تو وہ انتہائی غضبناک ہو کر شہزادے کو واپس آنے پر کوہ قاف کے اندھے کنوئیں میں ڈلوادیتی ہے ۔ بد منیر کا عجیب حال ہے اس کی راز دار سہیلی وزیر زادی نجم النساء بے نظیر کی تلاش میں نکلتی ہے ۔ اور آخر کار بڑی مشکلوں سے جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ کی مدد سے بے نظیر کو رہائی دلاتی ہے ۔ دونوں کی شادی وہ جاتی ہے خود نجم النساء فیروز شاہ کے ساتھ بیاہ کر لیتی ہے ۔ اور یوں یہ مثنوی طرب ناک انجام کو پہنچتی ہے ۔ 


ڈاکٹر وحید قریشی پلاٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :


 فتی لحاظ سے ” سحر البیان " کا جائزہ لیا جاۓ تو اس ضمن میں میر حسن کی ذہانت ، پلاٹ کی تشکیل میں بروۓ کار نظر آتی ہے " سحر البیان " اردو کے چند عظیم مثنویوں میں سے ہے اس میں اگر چہ محد ود زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے لیکن اپنی محدودیت کے باوجود میر حسن نے جس زندگی کو پیش کیا ہے وہ ہمارے لئے دکھی کا وافر سامان مہیا کرتی ہے ۔ مثنوی کی شہرت اور مقبولیت کا راز میر حسن کی اعلی صلاحیت میں مضمر ہے۔


تہذیب و ثقافت کی عکاسی 


 سحر البیان " کی فنی خوبیوں میں اس کی نمایاں خوبی تہذیب و ثقافت کی عکاسی ہے ۔ سید عابد علی عابد اس کی تہذ یبی و معاشرتی خوبیوں کا بیان یوں کرتے ہیں


 میر حسن نے جس معاشرت کی تصویر کھینچی ہے وہ نوا بان اودھ و لکھنو سے متعلق ہے رعایا خو شحال ، پر جا فارغ البال ، ہر ہفتے کوئی نہ کوئی تقریب ، میلے ٹھیلے ، ڈیرے دار طوائفیں ، شوخ و شنگ اور چست و چالاک ناچنے والیاں ، لوگ موسیقی کے رسیا ، ٹھمریوں کے بولوں کے شیدائی فرمانروا ، داستان گوئی اور داستان طرازی کی طرف مائل ، خو بصورت باغ لگوانے کے مشتاق ، شہر او یاں اور ناز و نعمت میں پلی ہوئیں ، سات محل کی خواصیں کہ جن کا نام سن کر آنکھوں میں نور ، دل میں سرور آ جاۓ ۔


میر حسن نے در حقیقت اس تہذیب و معاشرت کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا ۔ اور وہ اس سے خوب واقف تھے یہاں ہم موسیقی کی ایک محفل کی تصویر پیش کرتے ہیں جسے میر حسن کے فنی شعور نے تخلیق کیا ہے ۔ 


موسیقی 


 بنا تھا تھ نقار خانے کا سب

 مہیا کر اسباب عیش و طرب 

دیا چوب کو پہلے تم سے ملا

 گلی پھیلنے ہر طرف کو صدا

 بجے شادیانے جو واں اس گھڑی

 ہوئی گرد و پیش آ کے خلقت کھڑی


 رقص کی ایک اور محفل کا نظارہ کیجئے موقعہ یہ ہے کہ بدرمنیر اور بے نظیر کی شادی کی خوشی میں رقص و موسیقی کا اہتمام ہو تا ہے اس منظر کی تہذیبی قدر و قیمت یہ ہے کہ یہاں اس دور کی رقصائوں کی عمدہ تصویر دی گئی ہے ان کے رقص کا انداز ، پھرتی ، جسم کے اعضاء کی حرکات اور ان سے پیدا ہونے والے تاثرات ، اس تہذ یہی محفل کی قیمت بڑھاتے ہیں رقاصہ کا آر سی دیکھنا اور اس کے بعد رقص میں آنے کے لئے آستین اور مہرے کا چاک الٹ دینا اور نئے سرے سے انگلیا درست کر نا پھر ابر و درست کر کے چست و چالاک ہو کر دوپٹہ سر پہ الٹ کر صف چیر کر نکل آنا ۔ اس دور کے تہذ سبی رقص کی تصویر پیش کر تا ہے ۔ 


انگوٹھے کی لی سامنے آرسی

 وہ صورت کی دیکھ اپنی گلزاری

 الٹ آستیں اور مہرے کا چپاک

 لئے سر سے انگلیا کو کر ٹھیک ٹھاک

 دوپٹے کو سر پر الٹ اور سنبھل

 ریکا یک وہ صف چیر آنا ، نکل 


جبکہ اس دور کے فرماں روائوں کے نجوم کے قائل اور رسموں کے گھائل ہونے کا منظر تو مثنوی کی ابتداء ہی میں نظر آتا ہے ۔ جبکہ مختلف موقعوں پر چند رسومات کا بیاں بھی آیا ہے ۔ اگر ان کا جائر والیا جائے تو معاشرت و تمدن کی بڑی واضح اور جاندار تصویر میں ہمارے سامنے آ جاتی ہیں ۔ 


مثلا شہزادے کی پیدائش پر جس طرح مال اسباب لٹا یا جاتا ہے ۔ علماء و شیوخ کو جاگیر میں عطا کی جاتی ہیں ۔ سپاہیوں کو گھوڑے دیے جاتے ہیں ۔ ان سب سے اس معاشرے اور حکومت کی تصویر ہمارے سامنے آتی ہے ۔ وزیروں کو الماس و لعل و گومر جبکہ اس شعر میں تو آصف الدولہ عہد خود بخود جھلک رہا ہے ۔ جو کہ مثنوی کے آخر میں کہا گیا ہے ۔


ر ہے شاد نواب عالی جناب

 کہ آصف الدولہ جس کا خطاب 


ڈاکٹر وحید قریشی مثنوی ” سحر البیان " کے اس پہلو پر گفتگو کرتے ہوۓ لکھتے ہیں : دراصل " سحر البيان " ایسے معاشرے کی تصویر کشی ہے جسے فراغت حاصل ہے قصے کے تمام افراد اسی آسودہ حالی اور فارغ البالی کے مظہر ہیں ۔


 منظر نگاری 


میر حسن نے منظر نگاری میں جس وقت نظر کا ثبوت دیا ہے وہ ان کی بھر پور فن کاری کی دلیل ہے واقعات کے ضمن میں مناظر کی جزئیات کی تفصیل ان کے ہاں اتنی گہری اور وسیع ہے کہ پورا منظر متحرک ہو کر ہمارے سامنے آ جاتا ہے ۔ میر حسن کی منظر نگاری دکھانے کے لئے ہم نے " باغ کی تیاری " کا نقشہ منتخب کیا ہے ۔ اس باغ کے منظر کو دیکھئے آخری مغل عہد کا یہ باغ ہے اس کی تعمیر ، عمارات اور ترتیب کا بیان ہو بہو مغل باغات کے مطابق ہے باغ کا نقشہ اور عمارتوں کا بیان ، بے جان تصویر میں نہیں بلکہ ایک ایسا نگار خانہ ہے جس کی ہر شے متحرک ہے اور اس میں ایک ایسی تہذیب کے چہرے سے نقاب اٹھائی جارہی ہے جسکی تصویر کو میر حسن نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا تا کہ وہ اپنے عہد کی تہذیب اور زندگی کی رونقوں کی تصویر پیش کر سکیں ۔ میر حسن فطری مناظر میں دلچسپی رکھت ے تھے ۔ سید عابد علی عابد لکھتے ہیں : 


میر حسن اس معاملہ میں یکتا ہیں کہ انہوں نے فطری مناظر کی دلکشی اور رعنائی کو اپنی روح میں جذب کیا اور پھر اس رعنائی کو پڑھنے " والوں تک اس طرح منتقل کیا کہ ان کی صنعت گرمی کا عالم دیکھ کر بڑے سے بڑا نقاد انگشت بدنداں ہے ۔ 


باغ کی تیاری 


اب باغ کی تیاری کا منظر دیکھیے مختلف پھولوں ، درختوں کے نام ہی سنیے ان کی خوشبو بھی محسوس کیجئے ۔ میر حسن نے باغ کی فضا بناتے وقت کچل ، پھول ، درخت ، خوشبو ، روشنی ہوا کا حسین امتزاج تیار کر دیا ہے جس میں پڑھنے والا کھو کر رہ جاتا ہے ۔


 دیا شہ نے ترتیب اک خانہ باغ

 ہو رشک سے جس کے لائے کو داغ

 بنی سنگ مرمر کی چوپڑ کی شہر

 گئی چار سواس کے پانی کی اہر


غسل کا منظر 


 رقص و موسیقی اور باغات و عمارات کے تہذیبی نقشے دیکھنے کے بعد ایک روایتی عسل کا منظر بھی دیکھئیے شہرادہ بے نظیر عسل کے لئے آتا ہے ۔ اس مقام پر کیا اہتمام ہوتا ہے کیسے کیسے لوازمات برتے جاتے ہیں یہ منظر دیکھیے : 


ہوا جب کہ داخل وہ حمام میں

 عرق آگیا اس کے اندام میں

 نہانے میں یوں تھی بدن کی دمک

 بر سنے میں بجلی کی جیسے چمک


 جلوس کی تیاری 


 میر حسن نے یہاں جلوس کی تیاری میں اس دور کے روایتی جلوس کی بھر پور عکاسی کر دی ۔ مختلف سواریوں کا حال لکھا ہے ۔ شہری روپہلی عماریوں کا جلوس ہے ساتھ پالکیاں ہیں اور کہار ، زربفت کی کر تیاں پہنے دبے پائوں آگے بڑھ رہے ہیں اب جلوس میں شہنائیوں کی صدا آتی ہے اور نوبت کی دھیمی دھیمی صدا کانوں کو بھلی لگتی ہے ۔ اس منظر میں نقار پی بھی نظر آتے ہیں اس میں ہاتھیوں کی قطار میں بھی میں ، جلوس کے آگے آگے نقیب ، چوبدار اور جلوہ دار دکھائے گئے ہیں چونکہ شہزادے کا پہلا پہلا جلوس ہے اس لئے اس کو دیکھنے خلقت کثرت سے امنڈ آئی ہے ۔


 بجاتے ہوۓ شادیانے تمام 

چلے آگے آگے ملے شاد کام

 سوار اور پیادہ صغیر و کبیر 

جلو میں تمامی امیر و وزیر


 شادی کا منظر 


 یہ منظر بے نظیر کی شادی کا ہے اس تہد ہی مرقع میں شہزادوں کی روایتی شادی کا نقشہ پیش کیا گیا ہے ۔ اس نقشہ میں سواریاں ، آلات ، موسیقی اور شان و شوکت کے خطوط بہت روشن ہیں ۔ آلات موسیقی دیکھیے یہ دھولنے رعد کی طرح گرج رہے ہیں شہنائی کی سہانی دھنیں مست کر رہی ہیں ۔ طبل بج رہے ہیں سوار یاں دیکھیے تو تمامی کے تحت رواں ، ہاتھی ، گھوڑے وغیرہ ملتے ہیں سامان آرائش کا بیان سب سے بہتر ہے ۔ فانوس ، چراغوں کے تر پولئے ، ابرک کی ٹی ، مینے کا مجاز ، شمعدان ، آتش بازی اس تہذ میں نقشہ کی ہر شے حرکت و حرارت رکھتی ہے ۔ میر حسنگی نظر پورے جلوس شادی پر ہے وہ ایک ایک شے کو نظر میں رکھ کر اس کا حال لکھتے ہیں : 


وہ شہنائیوں کی سہانی دھنیں 

جنہیں گوش زمرہ مفصل سنیں

وہ طبلوں کا بجنا اور ان کی صدا " !

 یہ گا تا کہ " اچھا بنا لاڈلا


 شادی کے اس منظر میں رشتہ داروں کی چھیڑ چھاڑ ، شہرزادہ کا محل میں بلایا جاتا ۔ آرسی مصحف کی رسم ، دولہا دولہن سے ہنسی مذاق کی باتیں رنگ رلیاں اور رخصتی کی رسم ، کو میر حسن نے بڑی چابکدستی و صناعی سے پیش کیا ہے ۔ 


سرا پا نگاری و سامان آرائش 


 میر حسن نے سرا پا نگاری میں اس دور کے بہت سی تہہ میں اشیاء کو محفوظ کر دیا ہے ۔ مثلا زیورات سامان آرائش و غیره ، وہ بدر منیر کی پوشاک کا حال یوں لکھتے ہیں دو آب رواں کی طرح ایک پسوار پہنے تھی ، ایک ہلکی پھلکی اور ھٹی تھی ۔ گریہاں میں الماس کا محکمہ تھا بازو پر نورتن ڈھلک رہے تھے ۔ کرن پھول اور بالی کا نظارہ بھی تھا ۔ اس کے بعد اس کے قدو قامت اور عمارات کی تفصیل بتائی ہے ۔ بد منیر کے بعد بے نظیر کی پوشاک اور سامان آرائش کا بیان بڑا ہی مکلف ہے بے نظیر نے وہی پوشاک پہن رکھی ہے جو اس دور کے شہزادے پہنتے تھے اس کے زیورات وغیرہ کی تفصیل بھی حسن کے منافی ہاتھوں نے خوب مہیا کر دی ہے ۔


 کروں اس کی پوشاک کا کیا بیان

 فظ ایک پسوار آب رواں

 گر یہاں میں اک تکلمہ الماس کا 

ستار اسا مہتاب کے پاس کا 


جذبات نگاری 


 میر حسن کے ہاں جمہذبات نگاری کے بڑے ہی اچھے اور موثر مرقعے ملتے ہیں خوشی کے عالم میں خوشی اور غم والم اور دکھ کے مواقع پر رقت طاری ہو جاتی ہے ذراوہ منظر دیکھیے جب بے نظیر حیت پر سے غائب ہو جاتا ہے ۔ محل میں کہرام مچ جاتا ہے ۔ والدین کے لئے قیامت آ جاتی ہے ۔ اور ہر کوئی پریشان اور حیران کھڑا ہے ۔


 کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی

 کوئی غم سے بھی اپنا کھونے گئی

 رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب 

کسی نے کیا گھر ہوا یہ خراب 

سنی شاہ نے جس گھڑی یہ خبر 

گرا خاک پہ کہہ کے ہاۓ پسر


ایسی ہی درد ناک تصویر اس موقعہ پر نظر آتی ہے جب شہزادی " بدرمنیر " شہزادہ ” بے نظیر " کی جدائی میں بلکتی سسکتی اور روتی دھوتی دکھائی دیتی ہے ملاحظہ ہو :


 گیا اس طرح جب مہینہ گزر 

که دو ماه مطلق نہ آیا نظر

 تو اس کا ادھر رنگ گٹھنے لگا 

جگر خوں ہو ٹرکاں سے ٹپکنے لگا


 جزئیات نگاری 


 میر حسن نے جس واقعے کا بھی ذکر کیا اس کے مراک جز کو مکمل بیان کر دیا مثلا جب بادشاہ رمال کو بلا کر اولاد کے بارے میں ان سے دریافت کرتا ہے تو رمال نے اپنا کام یوں شروع کیا ۔ 


یہ سن کر وہ رمال طالع شناس

 لگے کھنچنے زائچے بے قیاس


 اس طرح میر حسن نے پوری تفصیل کے ساتھ نجومیوں کے حرکات و سکنات کو بیان کیا ہے ۔ اس طرح جب بادشاہ کا بیٹا ہو تا ہے اور قص کا اہتمام ہوتا ہے ۔ میر حسن نے رقص کا منظر نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا ہے انہوں نے ایسی باریک باتوں کا ذکر کیا ہے جس پر ہر شاعر کی نظر نہیں پڑتی ۔


 وہ گھٹنا دوبڑ ھنا ادائوں کے ساتھ 

دکھا نا وہ رکھ رکھ کے مچاتی پہ ہاتھ


 تصویر کشی 


سحر البیان " کا ایک بڑا کمال اس کی تصویر کشی ہے ۔ میر حسن نے جس منظر اور جس حالت کا جہاں بھی نقشہ کھینچا تصویر کشی کا حق ادا کر دیا " ۔ مولانا حالی مثنوی سحر البیان " کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :


 غرض کے جو کچھ اس مثنوی میں بیان کیا ہے اس کی آنکھوں کے سامنے تصویر کھینچ دی ہے ۔ اور مسلمانوں کے اخیر دور میں سلاطین " ” امراء کے یہاں جو حالتیں تھیں اور جو جو معاملات پیش آتے تھے ۔ بعینہ ان کا چہ بہ اتار دیا ہے ۔ میر حسن نے منظر نگاری کی تصویر کشی کی ہے اس میں ایسی محاکات کا ثبوت دیا ہے پورا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے ۔ 


 وہ اجلا سا میداں چمکتی سی ریت 

لگا نور سے چاند تاروں کا کھیت

درختوں کے پتے چمکتے ہوئے

 خس و خار سارے جھمکتے ہوئے 


ایک موقعہ پر شہزادی کی تصویر کشی کی ہے اور بہت جیتی جاگتی تصویر ہے :


 وہ بیٹھی عجب اک انداز سے 

بدن کو چراۓ ہوۓ ناز سے 

منہ آنچل سے اپنا چھپائے ہوئے 

مچاتے ہوۓ شرم کھاۓ ہوۓ 


مکالمہ نگاری 


 سحر البیان " میں مکالمہ نگاری نہایت فطری انداز میں موجود ہے چونکہ میر حسن کے تجربات وسیع تھے اور انھوں نے مختلف طبقے کے لوگوں میں زندگی بسر کی تھی اس لئے ان کو مختلف لوگوں کی زبان سمجھنے کا موقعہ ملا ۔ جب بدرمنیر سے ملاقات کر کے بے نظیر رخصت ہونے لگا تو اس نے بدر منیر سے کہا 


کہا اب پہر کی ہے رخصت مجھے

 زیادہ نہیں اس سے فرصت مجھے


 بدر منیر جواب دیتی ہے 


مر و تم پری پر ، وہ تم پر مرے

 بس اب تم ذرا مجھ سے بیٹھو پرے 

سے سن پائوں پر گرپڑا بے نظیر 

کہا کیا کروں آہ بدر منیر 


مثنوی سحرالبیان کی کردار نگاری


 سحر البیان " میں میر حسن کی سیرت نگاری کے بارے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ قصے کے تمام کر دار اس آسودہ حال اور فارغ البال " معاشرے کے افراد میں جہاں دولت عام ہے اور سواۓ عشق و عاشقی اور رقص و سرور کی محفلوں کے سوا کوئی کام نہیں یہی وجہ ہے کہ تقریبا تمام ہی کر دار بے عملی کا نمونہ ہیں ۔ ڈاکٹر وحید قریشی ” سحرالبیان " میں کرداروں کی اس بے عملی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ فراغت کی زندگی سے عیاشی پیدا ہوئی " سحر البیان " کے بے عمل کر دار یہی عیاش لوگ ہیں وہ واقعات کو آگے " بڑھانے میں مدد نہیں کرتے بلکہ حالات کے دھارے میں بے دست و پا ہیں ۔ بے نظیر دنیا بھر کے علم حاصل کرتا ہے بہادر ہے عقل مند بھی ہے لیکن اس کی زندگی میں جب بھی عمل اور پیش قدمی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہماری توقعات کو پورا کر نے سے قاصر رہتا ہے اس کا باپ بھی قسمت پر شاکر ہے اور شہزادے کے گم ہونے پر اسے واویلا کرنے کے سوا کچھ کام نہیں ۔ شفرادی بدرمنیر عشق و محبت میں صرف رونا جانتی ہے غشی کے مسلسل دورے اس کی بے بسی بے چارگی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ 

سحر البیان میں کرداروں کی تعداد زیادہ نہیں بادشاہ ، بے نظیر ، ماورخ ، بدرمنیر ، نجم النساء ، مسعود شاہ اور فیروز شاہ ، ان کرداروں میں " بے نظیر ، ماور ، بد منیر اور نجم النساء کے کردار اہم ہیں ۔


 بے نظیر کا کردار 


روائتی شہزادوں کا سا ہے بے نظیر کا کردار فعال نہیں ہے وہ اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے ۔ حالات کو بدلنے کی کو شش نہیں کر تا ۔ اگرچہ وہ کہانی کا مرکزی کردار ہے لیکن وہ فعال کردار نہیں ہے ۔ شہزادہ بے نظیر ملک شاہ بادشاہ کا بیٹا ہے اس کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ وہ بہت خوبصورت ہے ۔ اس کا ذکر میر حسن یوں کرتے ہیں :


 صاحب حسن پیدا ہوا

 جسے مہرومہ دیکھ شید ا ہوا 

نظر کو نہ ہو حسن پر اسکے تاب

 اسے دیکھے بے تاب ہو


 ماہ رخ پری 


 اس کردار میں خوبصورتی ، حیاداری اور عشق پسندی کے ساتھ ساتھ رقابت اور انتظام کا جذ بہ اپنی انتہائوں پر دکھائی دیتا ہے ۔ اس کا تعارف یوں ہوتا ہے پرستان میں بے نظیر کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ ماورخ کو اپنے سرہانے دیکھتا ہے ۔


 یہ گھر گو کہ میرا ہے تیرا نہیں 

پر اب گھر یہ تیرا ہے میرا نہیں 

تیرے عشق نے مجھ کو شیدا کیا

 ترا غم میرے دل میں پیدا کیا 


اس کے کر دار کا جلالی پہلو دیکھیں ، شہرادہ بے نظیر ، بدر منیر کے باغ میں مئے عشق کا جام نوش کر رہا ہے اسی عالم میں ایک جن یہ دیکھ کر ماہ رخ پری کے کان میں پورا منظر سنادیتا ہے ۔ ذرااس غضبناکی کا یہ عالم ملاحظہ ہو ۔


 تجھے سیر کو میں نے گھوڑ دیا 

کہ اس مالذادی کو جوڑا دیا 

الگ ہم سے رہنا اور یوں چھوٹنا 

یہ اوپر ہی اوپر مزے لوٹنا


بدر منیر 


 شابانه متانت ، و قار ، حسن و خوبی ، ناز وادا ، شان و شوکت اور عیش و محبت کا یہ پیکر قصے کی ہیروئن ہے ۔ اس کی نشست و برخاست ، گفتگو طور اطوار ، چال ڈھال اور حسن و ذوق سے اس کا عالی جاہ شہزادی ہو نا ثابت ہوتا ہے ۔ میر حسن نے اس کردار کی سیرت کشی میں اتنی محنت کی ہے کہ بے اختیار واہ واہ کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ دیکھیں بدر منیر کس شکوہ سے باغ میں جلوہ افروز ہے ۔


 برس پندرہ کاک سن و سال 

نہایت حسین اور صاحب جمال

 دھرے کہنی تکلیے پراک ناز سے

 سر شہر بیٹھی تھی اک انداز سے 


رشک و حسد کا یہ انداز دیکھیں شہزادہ اپنی مجبوریوں کا اظہار کر تا ہے پری کی قید سے رہائی نہیں ملتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ :


 مر و تم پری وہ تم پر مرے 

بس اب تم ذرا مجھ سے بے ٹھوپرے

 میں اس طرح کا دل لگاتی نہیں

 یہ شرکت تو بندی کو بھائی نہیں


 نجم النساء 


 مثنوی ” سحر البیان " کا سب سے زیادہ روشن ، رنگین ، شوخ اور متحرک کر دار نجم النساء کا ہے ۔ بقول عابد علی عابد مجم النساء کی تخلیق میں میر حسن نے اپنی ساری صنعت گری صرف کر دی ہے ۔ احتشام حسین کی رائے میں سحر البیان میں سب سے اہم کردار حجم النساء کا ہے ۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ " سحر البیان " ہی میں نہیں تمام مثنویوں میں اپنی مثال آپ ہے ۔ نجم النساء سحر البیان کے کینوس پر پہلی مرتبہ اس وقت نظر آتی ہے جب شہزادہ بے نظیر ، بدر منیر کے باغ میں آ چکا ہے اور بدر منیر سہیلیوں کی جھرمٹ میں بیٹھی ہوئی ہے سب ہی شہزادے کے حسن سے متاثر ہوتے ہیں ۔ بدر منیر شرما جاتی ہے اور ملاقات کی ہمت نہیں رکھتی ۔ اس موقعہ پر کہانی میں نجم النساء حرکت پیدا کرتی ہے ۔ اور  دونوں کو ملانے کی ترکیب کرتی ہے شہزادی کا اشتیاق بڑھاتی ہے اور حسن و جوانی سے لطف اندوز ہونے کی دعوت دیتی ہے ۔


 کہ اتنے میں آئی دو دخت وزیر 

گئی ہنس کے کہنے کہ بدر منیر

 مجھے چوچلے تو خوش آتے نہیں

 ترے ناز بے جایہ بھاتے نہیں

 کیا ہے اگر تو نے گھائل اسے

 تومت تھوڑ اب ٹیم نسل اسے


اس مقام پر نجم النساء کی ذہانت قابل داد ہے وہ جانتی ہے کہ بدر منیر پر حجاب غالب ہے اسے توڑنے کے لئے وہ دونوں کے درمیان شراب لا کر رکھ دیتی ہے پہلے شہزادہ پیتا ہے پھر بد منیر پیتی ہے اس طرح دونوں کھل کر راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں ۔ جب کہانی میں کوئی بیچ پڑتا ہے تو نجم النساء فورا سلجھادیتی ہے ۔ نجم النساء کے کردار میں وفاداری کا جذ بہ سب سے بڑا ہوا ہے وہ جب اپنی سہیلی کو سمجھا سکتی ہے کہ اب شہرادہ نہیں آۓ گا اس لئے اس کا خیال چھوڑ دے مگر وہ خیال ترک نہیں کرتی لہذا اپنی سہیلی پر جان وار کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے ۔ اور جو گن کا روپ اختیار کر کے بے نظیر کی تلاش میں نکلتی ہے ۔ نجم النساء کا کردار مجموعی طور پر ایک جاندار کردار ے ۔


 گلی کہنے وہ کیوں نہ آ نسو بہا

 ترے واسطے میں نے اب دکھ سہا

 اس اب سر بصحر ا نکالتی ہوں میں

 اسے ڈھونڈ لانے کو چلتی ہوں میں 


سحر البیان " کے تمام کرداروں میں نجم النساء کے کردار کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ یہ کر دار با عمل ہے ۔ اس کردار کے " باعث ” سحر البیان " کا پارٹ آ گے چلتا ہے ۔ نجم النساء اپنے مقصد میں آخر کار کامیاب ہو کر واپس آتی ہے ۔ بے نظیر اور فیروز شاہ اس کے ہمراد ہیں جب شہزادی سے ملتی ہے تو اس موقعہ پر اس کی گفتگو بے حد شوخ ہے وہ کہتی ہے کہ تیرا قیدی مچٹراتے تھٹرانے ایک اور قیدی باندھ کے لے آئی ہوں پھر سب کی ملاقات ہوتی ہے ۔ 


تیرا قیدی جا کر چھٹرالائی ہوں

 اور اک اور بند ھوائز الائی ہوں

 مگر ایک یہ آپری بے بسی 

کہ میں تیری خاطر ملا میں پھنسی


 یہ نجم النساء کی آخری تصویر ہے جو ” سحر البیان " میں نظر آتی ہے یہاں ووجو کن نہیں رہتی بحیثیت ایک دوشیزہ کے سامنے آتی ہے یہاں سے اس کی دوشینر کی کھر آئی ہے ۔ وواپنے عاشق کو جلا نا خوب جانتی ہے ۔ اس نے سرخ جوڑا پہن رکھا ہے اس کے تمام لباس اور جسم میں جنسی کشش عود کر آئی ہے ۔


 وہ جو گن ہوئی تھی جو نجم النساء 

جمی گرد وواپنے تن کی چھٹرا 

نہا دھو کے نکلی وہ اس شان سے

 کہ الماس نکلے ہے جوں کان سے


سحر البیان کا اسلوب 


سحرالبیان کے اسلوب کی مختلف خصوصیات ہیں جن کا احاطہ کرنا مشکل ہے تاہم اس کی چند خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں :


 زمان 


 شاعری میں زبان کی اہمیت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ میر حسن اس نکتے سے آگاہ تھے ۔ سحر البیان کی نمایاں خصوصیت اسکی زبان ہے ۔ انہوں نے سبک شمر میں اور نرم الفاظ کا استعمال کیا ہے ۔ میر حسن کی اس سادگی اور روز مرہ کو دیکھ کر محمد حسین آزاد حیرت سے پوچھتے ہیں ، کیا اسے سو برس آگے والوں کی باتیں سنائی دیتی تھیں کہ جو کچھ کہا صاف وہی محاور واور وہی گفتگو جو اب ہم تم بول رہے ہیں ۔ " انہوں نے ہر دو چار اشعار کے بعد ایک لفظ ایسا ضرور رکھا ہے ۔ کہ ان سب شعروں کا مضمون اس ایک ہی لفظ میں ادا ہو گیا ہے ۔ گو یا اشتیاق بڑھانے کے لئے پہلے تصویر کا ایک حصہ دکھا یا پھر کل تصویر سامنے رکھ دی ۔ 


غلاف ان پر بانات پر زر کے ٹانک

 شتابی سے نقاروں کو سینک سانک 


میر حسن کے یہاں اگرچہ عام طور سے سادہ اور صاف ستھرے الفاظ نظر آتے ہیں جو دور جدید کی انسانی خصوصیات کی نمائندگی کرتے ہیں اس کے یہاں ایسے الفاظ پاۓ جاتے ہیں جو دور قدیم میں دکن اور شمالی ہند سے بولے جاتے تھے ۔ مثلا میر حسن کئی جگہ نام کے بجائے ” ناوی “ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔


 دیے شاہ نے شاہزادے کے ناوں

 مشائخ کو اور پیزادوں کو گاوں 

ادھر آ تیاں اور ادھر جاتیاں

 پھر میں اپنے جو بن کو دکھلاتیاں


تشبیہات


 میر حسن کے ہاں حسین تشبیہات کے خزانے موجود ہیں ان کی تشبیہات کو پڑھ کر دل کلی کی طرح شافتہ ہو جاتا ہے ۔


 وہ گورا بدن اور بال اس کے تر 

کے تو کہ ساون کی شام و سحر

 نہانے میں یوں تھی بدن کی چمک

 بر سنے میں بجلی کی جیسے چمک


محاکات 


میر حسن کے یہاں محاکات کی حسین مثالیں نظر آتی ہیں میر حسن نے ایک جگہ بدر منیر کے بیٹھنے کا انداز دکھا یا ہے 


کہ زانو پہ اک پائوں کو رکھ لیا 

کہ اک پائوں مونڈھے سے لٹکادیا


 ضرب المثال " سحر البیان " کے بعض اشعار اس قدر رواں ہیں کہ وہ ضرب المثال بن گئے ہیں یہ مثنوی کی سادگی و سلاست کا ثبوت ہے مثلاً


 سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں

 گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

 کسی پاس یہ دولت رہتی نہیں

 سدا ناؤ کاغذ کی بہتی نہیں


 صنعتوں کا استعمال


 میر حسن کے ہاں تشبیہات کے سلسلے میں قوس قزح کے جو رنگ ملتے ہیں وہ ان کی رنگینی فکر اور حسن نظر کا ثبوت ہیں مگر ہم انہیں کلیتا ان کے معاشرہ اور ماحول کی رنگینیوں سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے ۔ اس دور کا مذاق حسن بھی ان پر اپنے جمالیاتی تصورات کی شعائیں ڈال رہا تھا ۔ میر حسن کے یہاں صنعتوں کا استعمال بھی ہے خاص طور پر صنعت ایہام جس کے لئے میر حسن نے " مگر بسیار بشی بسته شود " ، کی قید لگائی تھی ۔ جس پر میر حسن نے آزادی کے ساتھ کام کیا ہے ۔


 رعایت لفظی : کہا جاہ وا ، میں یوسف عزیز

 اری باولی چاہ میں کر تمیز 

تجنیس : نہادھو کے اس روزای بنی

 کہ دودن کی جیسے ہو پچ پچ بنی


 زبان کی صفائی 


 سحر البیان " کی زبان میں صفائی منتقلی اور روانی ہے یہ زبان میر و سودا کی زبان سے بہتر نظر آتی ہے ۔ میر حسن نے محاورے روز مرہ کا استعمال بڑی خوبی سے کیا ہے ۔ صنعتیں موجود ہیں لیکن وہ کلام کا ایک جزو بن کر سامنے آتی ہیں زبان کی صفائی اور مشکلی کے لئے چند اشعار ،


 وہ میٹھی عجب اک انداز سے

 بدن کو چرائے ہوئے ناز سے


بقول کلیم الدین احمد ، " اہم چیز ” سحر البیان " میں طرزادا ہے عبارت صاف ، پاکیزہ اور بامحاورہ ہے میر حسن نے روز مرہ کا نچوڑ اس مثنوی میں رکھ دیا ہے ۔


 مثنوی سحرالبیان کا  مجموعی جائزہ 


سحر البیان میر حسن کی زندگی کے آخری دور کا کارنامہ ہے ۔ انہوں نے اس کے لکھنے میں اپنی عمر کا ایک طویل حصہ صرف کیا ۔ چنانچہ وو خود اعتراف کرتے ہیں :


 مراک بات پر دل کو میں خوں کیا

 تب اس طرح رنگین مضمون کیا 


اس مثنوی کی سادگی پر کاری ، فن کارانہ نزاکت ، منظر کشی ، واقعہ نگاری ، کردار نگاری اور تفصیل نگاری کو دیکھ کر عجیب کیفیت محسوس ہوتی ہے ۔ خاص طور پر میر حسن کے انداز بیان نے اس نظم کو حیات جاوید سے ہمکنار کیا ۔ ان کی شاعرانہ انداز بیان ، طرزادا اور زبان پر قدرت نے مثنوی کو کہیں غیر دلچسپ نہیں ہونے دیا ۔ بقول خلیل الرحمن عظمی : واقعہ یہ ہے کہ اس تصنیف میں میر حسن نے اپناخون جگر صرف کیا ہے اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے اپنی ذہانت و فطانت فنی آگهی و اسانی شعور کا ثبوت اس مثنوی کے ہر مصرعے سے فراہم ہے یہ کہانی نہیں تہذ یبی دستاویز ہے یہ شعر نہیں صحیفہ حیات ہے ۔ میر شیر علی افسوس مثنوی کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ : مثنوی سحر البیان اسم بامسمی ہے کیونکہ اس کا ہر شعر اہل ذوق کے دلوں کو لبھانے کو موہنی منتر ہے اور ہر داستان اس کی سحر سامری کا ایک دفتر ۔ کیونکہ فصاحت و بلاغت کا اس میں ایک دریا بہا ہے ۔ میر حسن خود کہتے ہیں :


 رہے گا جہاں میں میرا اس سے نام

 کہ ہے یادگار جہاں یہ کلام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔