علامہ محمد اقبال کی غزل گوئی پر ایک نظر

admin

علامہ محمد اقبال کی غزل گوئی پر ایک نظر

 



 علامہ محمد اقبال کی غزل گوئی پر ایک نظر


ان کے پہلے اردو مجموعے میں ایک سو سولہ تفلموں کے ساتھ نکل ستائیس غزلیں شامل رہیں ۔ پھر بھی یہ محسوس ہو تا ہے کہ غزل کا آسیب مسلسل اقبال کا تعاقب کرتا رہا ۔ اس صورت حال کا اطلاق اقبال سے پہلے اور بعد کے متعدد ممتاز نظم گویوں پر کیا جا سکتا ہے ۔ اقبال نے کم و ہیں اپنا تمام تر تخلیقی سفر غزل کے ساۓ میں ملے کیا ۔ یوں ابتدائی دور کی نظموں اور غزلوں پر بہ یک وقت نگاہ ڈالی جائے تو انداز و ہوتا ہے کہ غزلوں میں تقلید کا رنگ عیب کی حد تک نمایاں ہے جب کہ نظمیں اقبال کی خلاقی اور فن کارانہ انفرادیت کا ایک واضح نقش ابھارتی ہیں اور ان کے بنیادی شاعرانہ جومر کا پتا دیتی ہیں ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ کم و بیش ہر اعظم کے آئینے میں غزل کا مخصوص سایہ سامر نقش نظر آتا ہے ۔

 اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ یہ حیثیت صنف غزل شعر کی دوسری اصناف پر کسی ترجیح کی مستحق ہے یا یہ کہ غزل کا عمومی آہنگ دوسری اصناف کے لئے کسی نا گزیر میت کا حامل ہے ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ غزل کے معاشرتی حوالے نے اسے ہماری زندگی اور اردو کی شعری روایت میں جو جگہ دی تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غزل کے ظلم سے شعوری گریز کی کوششوں کے بعد بھی اکثر غزل گو خود کو اس سے محفوظ نہ رکھ سکے ۔ اس ظلم کے شکار اقبال اقبال کی بیش تر نظمیں غزل کے آہنگ ' اس کی داخلی اور خار کی ترکیب ہی کا ایک رخ سامنے لاتی ہیں ۔ عام غزل گولیوں کے بر عکس اقبال نے تو ریزہ خیال تھے نہ محض مستعار تجربوں پر قائع ۔

 وہ اپنے تمام پیش رووں اور معاصرین سے زیادہ باخبر ذہن رکھتے تھے اور ان سب سے زیادہ مسلسل اور مربوط طریقے سے سوچ سکتے تھے کہ ایک مرتب نظام اقدار اور اسلوب زیست میں ان کا یقین تھا ۔ موت اور زندگی اور زمانے کے الجھے ہوئے مسائل پر سوچتے رہنا ان کا مشغلہ بھی تھا اور ایک باضابطہ ریاضت اور تربیت کا جبر بھی ۔ اپنی تخلیقی استعداد پر انہوں نے جو تبند ہیں اور سماجی ذمے داریاں عائد کر لی تھیں اس کے پیش نظر ان کی فکر کا این ترتیب پا جانا تھا ۔ اچھے شاعر کی طرح اقبال کی حسیت دھیان کی آتی جاتی لہروں کے ساتھ پیچیدہ اور گاہے متضاد سمتوں میں بھی سفر کرتی ہے ۔ پھر مزاج کی نوعیت کے اعتبار سے وہ کتنے ہی گافتہ رہے ہوں شاعری میں اپنے نصب العین کے دباؤ اور شاید جر من اثبات پسندوں سے متاثر ہونے کی وجہ وہ مبالغہ آمیز حد تک سنجید ہ تھے اور ان کا احساس کمبیر مقاصد سے گراں بار تھا ۔

 اسی لئے ابتدائی دور میں اکبر سے متاثر ہونے کے باوجود ان کی ذہانت خوش طبعی کے باب میں اکبر کے ایک خام تنتبع کی حد سے آگے نہیں جاتی ۔ ان کے مزاح کی حس بالعموم سنجیدگی سے بو جھل دکھائی دیتی ہے اور رمز فقرے بازی نیز ایجاز بیان پر گرفت کی کمزوری کے باعث ناکام رہ جاتی ہے ۔

 اپنے عہد کے تہذ میں تضادات اور بے ڈھنگے پن سے ان کی آگہی اکبر سے کہیں زیادہ وسیع بسیط اور گہری تھی مگر تخلیقی تشویقات پر ان کے منظر کی نمو پذیر اور مسلسل چھیلتی ہوئی فضا کا تسلط بہت مضبوط تھا ۔ اسی طرح داغ سے تلمذ بھی اقبال کی ادبی زندگی کے بس ایک واقعے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ سلسلہ بھی اکبر کی تقلید کی طرح بہت جلد ختم ہو گیا کہ داغ نے اپنے شاگردوں کی صف میں اقبال کی شمولیت کو اپنے لئے ہمیشہ باعث فخر جانا اور اقبال نے بھی داغ کے مرثیے میں اس المیے پر تاسف کا اظہار کیا کہ اب مضمون کی باریکیاں یا فکر نکتہ آرا کی فلک پائیاں دکھانے والے جن میں بلیل شیر از بھی ہوں گے اور صاحب اعجاز بھی آتے رہیں گے لیکن داغ کی طرح عشق کی تصویر میں کون کھینچے گا ۔

داغ کے تمام شاگرد حفظ مراتب کے اس درجے قائل تھے کہ کوئی بھی استاد کے حد کمال تک پہنچنے کی جسارت نہ کر سکا ۔ اقبال نے بھی ایک الگ راہ نکال لی ۔ اولین ادوار میں ہی غزل کے مقابلے میں نظم پر ان کی توجہ سبقت لے گئی اور دوسری طرف ان کی نظم بلکہ پوری تخلیقی شخصیت پر خوداقبال کے قول کے مطابق ہیگل گیئے اور ورڈزور تجھ کے علاو دار دو اور فارسی غزل کے جن اکابر نے اثر ڈالا ان میں حافظ اور بیدل اور غالب کے نام تو روشن ہیں داغ کا کہیں نشان بھی نہیں ملتا ۔

 داغ اور غالب کے سلسلے میں رویے کا یہ فرق محض وقتی یا جذباتی ابال کا نتیجہ نہیں ۔ اس کی تہ میں اقبال کے اصل شعر ی کر دار کارمز پوشیدہ ہے ۔ اقبال کی فکر ایک مسلسل تعمیر کے عمل سے گزرتی ہے ۔ فلسفیانہ افکار کو انہوں نے جس لگن کے ساتھ شعر کے قالب میں ڈھالا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہ یک وقت ایک فن کار کے اضطراب ذوق جمال مجنس اور معجزہ کاری سے بھی متصف تھے اور ایک معمار کا ضبط توازن اور شعور بھی رکھتے تھے ۔ تخلیق اور تعمیر کے ان دو زاویوں میں اقبال نے مظاہمت یوں ڈھونڈی کہ باضابطہ فلسفوں سے زیادہ ایسے افکار کے قریب گئے جن کے تجزیے اور طریق کار میں وجدان اور تخیل کی مداخلت کسی انتشار کا سبب نہیں بن سکتی ۔

 ایک ساتھ دو شاعر اور مفکر اور ایک مذہبی انسان کے حقوق ادا کرتے رہے ۔ ان کے سب سے زیادہ پسندیدہ مفکروں میں نطشے اور برگساں رے فلسفی نہیں تھے اور بڑی حد تک اقبال سے ان کا رشتہ اپنے امتیازات کے باوصف دو شاعروں کا باہمی رشتہ تھا ۔ ہیگل کا فلسفہ انہیں رزمیہ شعر منثور کی مثال نظر آیا اور نطشے کی طرح اپنی تحریروں میں اقبال اپنے پورے وجود کو سمو دینے کے متمنی ہوۓ ۔ وہ تمام وسائل جنہوں نے اقبال کے شعری کر دار کی تشکیل میں حصہ لیا یا ان کی تخلیقی حس کے محرک بنے اقبال کے لئے صرف ذہنی مسائل نہیں تھے ۔ اس مضمون کے حدود میں اقبال کے افکار کی بحث محض ضمنی ہے ۔ ان معروضات سے مقصود اس امر کی جانب اشارہ تھا کہ اقبال اپنے متین ، اور تربیت یافتہ ذہن کے ساتھ طبعا نظم گوئی سے زیادہ مناسبت رکھتے تھے ۔ 

ان کے شاعرانہ وژن اور تہذ یہی مقصد کے پیش نظر نظم ہی کا پیر ایران کے لئے زیادہ موزوں تھا کہ حالی کی طرح اقبال بھی ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ اور سامعین کے حوالے سے شعر کہنے پر خود کو مجبور پاتے تھے لیکن اردو اور فارسی کی غزلیہ روایت کے اثرات ان پر اتنے تحکم تھے کہ نظم کے پیرائے میں بھی وہ غزل یا بھی بھی متفرق اشعار کرتے رہے اور داغ کے سحر سے نکلنے کے بعد جس نوع کی غزلیں کہیں نہ کسی پر ظلم کے جمی یا انگ اور فضا دائرے اس صورت حال نے اقبال کی شاعری کے سلسلے میں ایک معنی خیز مسئلے کو راہ دی ہے ۔

 غزل اور نظم دونوں کے صنفی امتیازات کا سوال وہ اس طرح حل کرتے ہیں کہ روایتی مفہوم میں انہیں نہ تو غزل کا شاعر کا جا سکتا ہے نہ نظم کی ترقی یافتہ منطق کے معیار پر انہیں محض نظم گو کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ وضاحت کے لئے یہ چند شعر دیکھئے ۔

 رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو

 و کھا یا اوج خیال فلک نشیں میں نے

 ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا

 کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے

 نکالا کہنے سے پتھر کی مورتوں کو بھی

 سبھی بتوں کو بنا یا حرم نہیں میں نے


کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا 

چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے

 اور اس کے ساتھ یہ چار شعر بھی

 گلزار ہست و بود نه بیگانه وار دیکھ 

ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

 آیا ہے اس جہاں میں تو مثل شرار دیکھ

 دم دے نہ جائے ہستی نا پائیدار دیکھ 

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں

 تو میرا شوق و کر مرا انتظار دیکھ

 کھولی میں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر 

ہر رہ گزر میں نقش کف پاۓ یار دیکھ


 پہلے چار شعر اقبال کی ایک نظم کے ہیں دوسرے ان کی غزل کے ۔ دونوں میں اشعار مسلسل ہیں اور فر دائر دا مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پہلے اور بعد کے شعر سے ایک معنوی رابط رکھتے ہیں ۔ تجربے کی بنیادی وحدت نے ان سب کو ایک ڈور میں پر اور کھا ہے ۔ پہلے چار شعروں میں الفاظ کا آہنگ علائم کا تاثر اور تلمیحات کی بلاغت سے جو فضا تقلیل پاتی ہے وہ غزل کے لئے اجنبی نہیں لیکن دونوں مثالوں میں اشعار اپنی داخلی اور خارجی بیت کے اعتبار سے یکساں ہیں اور ان میں ایک کو نظم اور دوسرے کو غزل کا عنوان دینے یا ایک دوسرے سے مختلف کہنے کا کوئی جواز نہیں نکلتا ۔ 

اس طرح اقبال کی بیش تر غزلیں یا توان کی نظم ہی کا قدرے نیم روشن روپ میں یا پھر نظمیں مسلسل نزلوں اور قطعہ بند اشعار کی ایک شکل ۔ اقبال نے غزل کے رسمی علائم استعاروں اور مرکبات کو نظم میں بھی ایک نئی سطح پر برسنے کی کو شش کی ۔ غزل کو انہوں نے عشق بازی بازناں و سخناں باز ناں کے حصار سے نکالا تو یوں کہ اپنی نظم و غزل دونوں میں عشق کو قوت حیات اور اس کے معاملات کو خود اپنے آپ سے یا خدا اور بندے کے مابین مکالمے کی بہت دے دی ۔ مئے باقی خو میں کفن " قطرہ محال اندیش خاطر امید وار شاہد مر جائی اور کار فروبستہ جیسی ترکیبیں جو اقبال کی غزل اور نظم دونوں کے ایڈیم میں یکساں طور پر جذب ہو جاتی ہیں اقبال تک فارسی کی کلاسیکی نزل ہی کے وسیلے سے پہنچی تھی ۔ 

اردو میں اقبال کی تخلیقی زرخیزی کے اہم ترین دور کا اشاریہ " بال جبریل ہے ۔ یہ بات محض اتفاقی نہیں کہ اسی دور میں انہوں نے سب سے زیادہ غزلیں کہیں مسلسل غزلوں کی ترکیب پر مشتمل نظموں سے قطع نظر اس مجموعے میں صرف غزلوں کی تعداد 7 7 ہے ۔ ‘ بانگ درا کی چند غزلوں مثلا 


گلزار ہست و بود نه بیگانه وار دیکھ

 کیا کہوں اپنے چین سے میں جدا ہوا

کیوں کر ہوا ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی 

جنھیں میں ڈھونڈ تا تھا آسمانوں میں زمینوں میں


الہی عقل مجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھادے

 زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا

 چمک تیری عیاں بھلی میں آتش میں شرارے میں 

نالہ ہے بلبل شوریدہ تراخام ابھی 

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آلباس مجاز میں

 گرچہ تو زندانی اسباب ہے 

 اقبال نے غزل کے جس ذائقے کا احساس دلا یا تھا بال جبریل کی غزلوں تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک واضح شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ چنانچہ اس دور کی غزلیں اکثر ان کی نظم کے مزاج سے زیادہ قریب ہیں ۔ یہ دور اقبال کی فکری اور تخلیقی بلوغ کا دور ہے کہ اب اقبال اپنی اولی روایت کے امکانات کی تسخیر کے بعد یہ ذات خود شعر کی ایک نئی روایت کا سر چشمہ بن چکے تھے ۔ 

بال جبرائیل میں اکثریت غیر مردف غزلوں کی ہے گویا کہ مسلسل فکر کی آزادانہ اظہار کی جستجواب ردیف کی دیوار کو بھی راستے سے ہٹا دینے کی طالب تھی ۔ اب اقبال کی غزل اس مفکرانہ آہنگ کو دریافت کر چکی تھی جس نے اپنی روایت کو ایک نئے موڑ تک پہنچایا ۔ ” بال جبریل کی غزلوں پر مکالمے یا خود کلامی کا رنگ غالب ہے ۔ نینجناب ان کی غزل ڈرانے یا کہانی کی فضا کو اسیر کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ اپنے تین اشعار میں اقبال نے شعور کے نفسیاتی مراحل کا تعین اس طور پر کیا تھا کہ 


 شاہد اول شعور خویشتن

 خویش را دیدن بنور خویشتن 

شاہد ثانی شعور دیگرے 

خویش را دیدن بنور دیگرے 

شاہد ثالث شعور ذات حق 

خویش را دیدن بنور دیگرے


 بال جبریل میں ' ' کی غزلوں میں دوان تینوں مراحل سے گزرتے ہیں ۔ استعاروں سے زیادواب وہ مجر وات سے کام لیتے ہیں ( اور ' ' یا شناختی نشانات کی ہوتی ہے جن کی حدود کا تعین مشکل نہیں ) ۔ codes استعاروں سے کام لیتے بھی ہیں تو اس طرح کہ ان کی نوعیت لیکن اقبال اپنے مکالماتی انداز کے ذریعے جس کا دوسرا سرا کبھی خود اپنے باطن سے جا ملتا ہے کبھی غیر خود سے اور کبھی خداسے مجرد فکر کے پچھلے پن کے باوجود ایک تمثیل کا تاثر خلق کرتے ہیں ۔ 

اس طرح ان کا تخیل استعارے سے عاری فضا کو بھی ایک مشہود و موجود منظر کا رنگ بخشتا ہے اور ایک بہ ظام منطقی اور فکری سر گرمی کو ظلم کے حیرت کدے کا وقوعہ بنادیتا ہے ۔ یا بادی النظر میں معنی کی ایک محدود اور واحد المرکز سطح رکھنے کے باوجود یہ طریق کاران کے خیال کو محض معنی کی فصیلوں کا پابند نہیں ہونے دیتا ۔ معینہ افکار کے پیر تسمہ پا کی بالادستی سے اقبال کی تخلیقی شخصیت کو اس طریق کار نے بھی بچایا اور ان کے تفکر کو اسرار یا رمز کی پیچیدگی سے ہم کنار کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ” بال جبر میں ” کی متعدد غزلوں کے بے استعار داور بہ راہ راست اشعار بھی تخیلی منطق کی گرفت میں پوری طرح نہیں آتے اور اقبال کے فکری تفاعل کے ساتھ ساتھ ان کے وجدان کی ریاضت کا حاصل بھی بن جاتے ہیں ۔

شاعر نے کے بعد اقبال کے افکار ان کے تخیلی مسائل میں اس طور پر گھل مل جاتے ہیں کہ ان افکار کار سمی شعور رکھنے والوں کے لئے بعض اوقات انہیں فکری حقیقت کے طور پر قبول کرنا یا ان کے تضادات کے معمے کو حل کر نا خاصا دشوار ہو جاتا ہے ۔ شاید اسی لئے شعر کے قاری کو اقبال نے متنبہ کیا تھا کہ شاعری میں منطقی سچائیوں کی تلاش محض بے سود ہے اور اس سے یہ تقاضا کیا تھا کہ کسی شاعر کی عظمت کے ثبوت میں وہ اس کی تخلیقات سے ایسی ہی مثالیں نہ نکالے جنہیں وہ صرف سائنسی صداقتوں کا حامل سمجھتا تھا ۔

 ان الفاظ میں کہ " فن ایک مقدس فریب ہے یا یہ کہ ایک ریاضی داں مجبور ہے مگر شاعر ایک مصرعے میں لامتناہیت کو مقید کر سکتا ہے ۔ اقبال نے شعر کی اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا تھا ۔ اقبال کی غزل کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اپنی پختگی کے موڑ پر اس نے ایک نئے لسانی تجربے کی حیثیت اختیار کر لی ۔ " بانگ درا کی ایک غزل کے دو شعر یوں ہیں 


 اے مسلماں ہر گھڑی پیش نظر

 آمر التخلف المیعاد رکھ 

یہ لسان العصر کا پیغام ہے

 ان و عبد اللہ حق یاد رکھ


 غزل کی زبان کا بندھ کا تصور رکھنے والوں کے نزدیک یہ طرز سخن غالباً معیوب ہو گا ۔ یہاں اس قسم کے شعر کی جمالیاتی قدر و قیمت کے سوال سے بحث نہیں ۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ غزل کے خیال کی نزاکت کے شانہ بشانہ غزل کی زبان اور اس کے اسلوب کی نزاکت بھی ایک پامال محاورہ بن گئی تھی ۔ ان موہوم بندشوں سے چھٹکارا پانے کی کو شش اقبال نے اس طرح کی کہ اپنی نظم کے بہ ظاہر منطقی اسلوب اس کی عجمی لے ' اس کے یہ جلال آہنگ اور فارسی قصائد کے یہ شکوہ نیز تحکمانہ لہجوں میں اپنی غزلوں کو بھی برتا ۔

 روایت ہے کہ لکھنو کے ایک بزرگ ( پیارے صاحب رشید نے ان کا اردو کلام سننے کے بعد مطالبہ کیا کہ میاں اب اردو میں بھی کچھ سناؤ ! " ان بزرگ کے سامنے مسئلہ فارسی آمیز یا ان کے نزدیک فارسی زدہ اردو کا تھاجب کہ اقبال توار دو میں پنجابی تک کی آمیزش کے حامی تھے ( اس امر کا تجزیہ صوتیات کے علماہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں کہ اقبال کی نظموں اور غزلوں کے صد ہاشار جن کا خاتمہ بلند بانگ مصمتوں پر ہوتا ہے کہیں ان کی اس آرزو مند ی کا غیر ارادی اظہار تو نہیں تھے ۔ 

" بانگ درا کی غزلوں میں محولا بالا دواشعار کے استثنا کے ساتھ عربی آمیز زبان یا فارسی کا آہنگ بس اس حد تک نمایاں ہے جسے اردو کی شعری روایت اپنی عادت کا جزو بنا کر قبولیت کی سند دے چکی تھی ۔ بعد کی غزلوں میں اقبال نے اس حد کو بھی عبور کر نا چاہا ۔ ان کی غیر مردف غزلوں میں بند و آزاد ' لذت ایجاد بامراد اور زیاد یا کدو من و تو اور خودرو یادی پیوندی آداب فرزندی اور راز الوندی بالب ریز پر ویز پر ہیز اور ستیز یا شاہبازی سازی اور رازی یا پازند مانند قند اور خورسند یا خویشی ہے نیشی اور ناخوش اندیشی یا زیر و بم حجم اور شکم یا دقیق طریق اور عہد عتیق یا کراری تاتاری اور زناری یا صف ' ہدف ' نجف تلف اور بانگ لا تخف یا فلک الافلاک نالہ آتش ناک اور خس و خاشاک یا خود آگاہی ہوۓ اسد اللمی اور روباہی یار حیل اصیل دلیل اور اسماعیل یا غازی سازی اور خارا گدازی با کشاف ناصاف اور اعراف جیسے قوافی فارسی کی نسبتا نامانوس تراکیب اور قرآن کی آیات یا عربی مرکبات کا بے تکلفانہ استعمال اردو غزل کی سرگزشت میں کم و بیش ایک ان ہو نے واقعے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ 

فلسفہ ' تہذیب اور سماجی علوم کے مختلف شعبوں کی بعض اصطلاحیں جو اقبال کی فکر سے گزر کر ان کے شاعرانہ وحیدان تک گئی تھیں ” بال جبر میں کی غزلوں میں جا بجا بکھری ہوئی ہیں ۔ اقبال کی یہ کوشش غزل کے نقاد کے لئے ایک نیا مسئلہ ہے اور اس سے ایک نئی بوطیقا کی ترتیب کا تقاضا کرتا ہے ۔

 اب رہی اقبال کی غزل کی فکری زاویوں اور اس کے عام فنی محاسن و معائب کی بحث تو اس باب میں اقبال نے نظم اور غزل کے بھی کوئی بڑا فرق روا نہیں رکھا ۔ ہر بڑے شاعر کی طرح ان کی تخلیقی شخصیت بھی ہمیں اس کے غیر منقسم ہونے کا احساس دلاتی ہے ۔