اصنافِ نظم بہ لحاظ موضوع اور بہ لحاظ ہیت مکمل تفصیل

admin

اصنافِ نظم بہ لحاظ موضوع اور بہ لحاظ ہیت مکمل تفصیل

 


 اصنافِ نظم بہ لحاظ موضوع اور بہ لحاظ ہیت مکمل تفصیل

نظم کی اقسام بہ لحاظ موضوع

 حمد 


 حمد ایک عربی لفظ ہے ، جس کے معنی تعریف ’ ’ کے ہیں ۔ اللہ کی تعریف میں کہی جانے والی نظم کو حمد کہتے ہیں ۔ حمد باری تعالی ، کئی زبانوں  میں لکھی جاتی آ رہی ہے ۔ عربی ، فارسی ، کھوار اور اردو زبان میں اکثر دیکھی جاسکتی ہے ۔ حمد یعنی رب کی تعریف ہر زبان میں اور ہر مذہب میں پائی جاتی ہے ۔


 مناجات


 مناجات کا مطلب ہے ، ہم کلامی کر نا سر گوشی کر نا ۔ اور یہ اللہ سے دعا مانگنے کے مفہوم میں بھی بولا جاتا ہے ۔ دعا تو اللہ ہی سے کی جاتی ہے ، غیر اللہ سے مانگنا تو شریعت اسلامی میں جائز نہیں ہے ۔ مناجات تقریبا ہر مذہب کا حصہ ہیں ۔ شریعت اسلامی میں اس کی واضح مثال قرن شریف کی پہلی آیات ہیں ۔ یعنی الحمد ۔


 نعت


 پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت ، تعریف و توصیف ، شمائل و خصائص کے نظمی انداز بیاں کو نعت یا نعت خوانی یا نعت گوئی کہا جاتا ہے ۔ عربی زبان میں نعت کے لیے لفظ " مدح رسول " استعمال ہوتا ہے ۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے ۔ نعت لکھنے والے کو نعت گو شاعر جبکہ نعت پڑھنے والے کو نعت خواں یا شیاء خواں کہا جاتا ہے ۔


منقبت


 اشعار کے ذریعے کسی کی تعریف کرنے کو منقبت کہتے ہیں لیکن یہ لفظ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تعریف میں لکھے ہوئے اشعار کو کہا جاتا ہے ۔ مرزا غالب اور علامہ اقبال سمیت بیشتر مشہور شعرا نے منقبت لکھیں ہیں ۔ 


قصیدہ


لفظ قصید و عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد ( ارادہ ) کرنے کے ہیں ۔ گو یا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معانی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاء میں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں ۔ اردوادب میں قصید و فارسی سے داخل ہوا ۔ اردو میں میر زار فیع سودا اور ابراہیم ذوق جیسے شعرا نے قصیدے کی صنف کو اعلی مقام تک پہنچایا ۔ قصید و بیت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے بحر شروع سے آخر تک ایک ہی ہوتی ہے پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔ مگر قصیدے میں روایف لازمی نہیں ہے ۔ قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے ۔ بعض اوقات در میان میں بھی مطلعے لائے جاتے ہیں ایک قصیدے میں اشعار کی تعداد کم سے کم پانچ ہے زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں ۔ اردو اور فارسی میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے بھی ملتے ہیں ۔


ہجو


 ہجو یعنی بد گوئی ، غیبت ، نظم میں برا کہتا ۔ ایسا کلام یا ایسی نظم خواہ کسی بھی بیت میں ہو ، جس میں کسی کی مخالفت میں اس پر طنز کیا جائے یا اس کا مذاق اڑایا جائے ۔ اردوادب میں میر کی ہجو یات اور سودا کی نجویات مشہور ہیں ۔ سودا نے میر تقی میر کی جو میں جو قطع کہا ہے وہ کامیاب اور فنکارانہ طفر کی بہترین مثال ہے ۔


 غزل 


غزل اردو شاعری کی مقبول ترین صنف سخن ہے ۔ غزل توازن میں لکھی جاتی ہے اور یہ ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے ۔ مطلع کے علاوہ غزل کے باقی تمام اشعار کے مصرع اولی میں قافیہ اور روایف کی قید نہیں ہوتی ہے جبکہ مصرع ثانی میں غزل کا نام آواز قافیہ و ہم ردیف کا استعمال کرنا لازمی ہے ۔ غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم بجر اور ہم قافیہ و ہم رولیف ہوتے ہیں ، جبکہ غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے بشر طیکہ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے ورنہ وہ بھی شعر ہی کہلاتا ہے ۔ غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنے یا عورتوں کی باتیں کرنے کے ہیں ۔ چونکہ غزل میں روایتی طور پر واردات عشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہوتا ہے ، اس لیے اس صنف شعر کا یہ نام پڑا ۔ غزل اس پیج کو بھی کہا جاتا ہے جو شکار ہوتے ہوۓ مہران کے منہ سے نکلتی ہے ۔ اصطلاح شاعری میں غزل سے مراد وہ صنف نظم ہے جس کا ہر ایک شعر الگ اور مکمل مضمون کا حامل ہو اور اس میں عشق و عاشقی کی باتیں بیان ہوئی ہوں خواہ وہ عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی ۔ تاہم آج کل کی غزل میں عشق و عاشقی کے علاوہ موضوعات پر اظہار خیال کو روا جانا جانے لگا ہے ۔ غزل کا آغاز فارسی زبان سے ہوا ۔ 


مرثیہ 


عربی لفظ " رثا " سے بنا ہے جس کے معنی مردے کو رونے اور اس کی خوبیاں بیان کرنے کے ہیں ۔ یعنی مرنے والے کو رونا اور اس کی خوبیاں بیان کر نا مرثیہ کہلاتا ہے ۔ مرثیہ کی تصنف عربی سے فارسی اور فارسی سے اردو میں آئی ۔ لیکن اردو اور فارسی میں مرثیہ کی صنف زیادہ تر اہل بیت یا واقعہ کربلا کے لیے مخصوص ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی عظیم شخصیات کے مرثیے لکھے گئے ہیں ۔ اردو میں مرثیہ کی ابتداء کن سے ہوئی ۔ دکن میں عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتوں کے بانی امامیے مذہب کے پیروکار تھے اور وہ اپنے ہاں امام باڑوں میں مرثیہ خوانی کرواتے تھے ۔ اردو کا سب سے پہلا مرثیہ گو دکنی شاعر ملا وجہی تھا ۔ لکھنو میں اس صنف کو مزید ترقی ملی اور میر انیس اور میر دبیر جیسے شعرا نے مرثیہ کو اعلی مقام عطا کیا ۔ مرثیہ کا زیادہ استعمال واقعہ کر بلا کو بیان کرنے میں ہو تا ہے ۔ جدید تحقیدی بصیرت کی رو سے مرثیہ گوئی کو فن شاعری کا سب سے حساس اور کٹھن عمل قرار دیا گیا ہے ۔ بار یک بین افراد جانتے ہیں کہ کئی اصناف سخن پر فنی گرفت رکھے بغیر ایک فکر انگیز اور جاندار مرثیہ نہیں کہا جا سکتا ۔ شعر پر فنی گرفت کے ہمراہ جتنی فصاحت کلام ، بلاعت ، حساسیت اور علمی و فکری مواد پر دسترس کی ایک کامیاب مرثیہ نگار کو ضرورت ہوتی ہے اتنی سعی نقد کسی اور صنف سخن میں مطلوب نہیں ہوتی ۔


شہر آشوب


 شہر کے لیے فتنہ اور ہنگامہ ، نظم کی وہ صنف جس میں مختلف طبقوں اور مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لڑکوں کے حسن و جمال اور ان کی دلکش اداؤں کا بیان ہوتا تھا ۔ وہ شہر آشوب جس میں خوباں شہر کی فتنہ انگیزی کا بیان مقصود ہے ۔ وہ نظم جس میں کسی شہر یا ملک کی اقتصادی یا سیاسی بے چینی کا تذکرہ ہو یا شہر کے مختلف طبقوں کی مجلسی زندگی کے پہلو کا نقشہ خصوصاً مالید ، طنزیہ یا جو یہ انداز میں کھینچا گیا ہو ۔ اس کے بر عکس نعت ، تمہ اور واسوخت شہر آشوب سے اپنے معانی کے لحاظ سے ممیز ہوتی ہیں ۔ اس کے معنی شہر میں فتنہ و ہنگامہ یا شہر میں فتنہ پر پا کر نے والے کے ہیں ۔ اصطلاح میں وہ نظم جس میں شہر کے اور شہر کے لوگوں کے حالات کا ذکر ہو ۔ اس کے لیے کوئی خاص بیت مقرر نہیں ۔مہر بیت میں شہر آشوب لکھے جاسکتے ہیں ۔ 


واسوخت


 واسوخت اردو شاعری کی ایک صنف ہے ، جس سے مراد بیزاری ہے ۔ واسوخت مسدس یا مثمن کی ہیت میں عام طور پر لکھی جاتی ہے ۔ واسوخت نظم کی وہ قسم ہے ، جس میں شاعر اپنے محبوب کی بے وفائی ، تغافل اور رقیب کے ساتھ اس کے تعلق کی شکایت کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنا کسی اور محبوب سے واسطہ ظاہر کر کے اس کو دھمکاتا ہے ۔ مثال کے طور پر : تو جو بدلا تو اپنا بھی یہی طور سہی تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی عبد الحلیم شرر نے واسوخت کا مولد لکھنو کو قرار دیا ہے جب کہ گل رعنا کے مصنف عبد الھٹی نے میر تقی میر کو واسوخت کا پہلا شاعر قرار کہا جاتا ہے۔


 ریختی 


اردو میں نسوانی شاعری کی ایک شکل ہے جسے مرد شاعروں نے تخلیق کیا ہے ۔ اس صنف شاعری میں خواتین کی زبان میں ان کے اپنے بارے میں اظہار خیال کیا جاتا ہے ۔ انیسویں صدی میں لکھنو ، ریاست اودھ ( موجودہ اتر پردیش ، بھارت ) میں اس کی ابتدا ہوئی ۔ سعادت یار خان رنگین کو اس کا بانی تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ شاعری عام طور پر غزل کی شکل میں لکھی جاتی ہے جس میں خواتین کے خاص محاوروں ، انداز گفتگو اور تلفظ کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے موضوعات میں خواتین خواتین ، خواتین مردوں کی آشنائی اور خواتین کی جنسی خواہشات کا اظہار شامل ہوتے ہیں ۔ اردو نے وقت کے ساتھ مختلف نام بدلے ہیں ۔ ان میں سے ایک نام ریختہ ہے ۔ غالب نے کہا ہے 


ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب 

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا 


اسی نسبت سے ریختی بھی وجود میں آئی ۔ جس کے معنی ہی عورتوں کا باتیں کرنا ۔ عورتوں اور مردوں کی زبان میں الفاظ و محاورات میں فرق ہوتا ہے اور انہیں عام طور پر مر داستعمال نہیں کرتے ہیں ۔ نہ ہی عور تیں ثقل الفاظ نہیں بولتی ہیں ۔ ان میں شرم و حیا اور ضعیف الاعتقادی ہوتی ہے اس لیے وہ اپنے خیالات کو رمز و کنایہ ادا کرتی ہیں ۔ یہ چیز ان گھرانوں میں زیادہ ہوتی ہے جہاں پردے کی پابندی ہو تی ہے ۔ اس لئے انشاء در تمکین نے خاص طور پر اس طرز کو عورتوں کی زبان اور نیز عیاشی اور بداخلاقی پر رکھا ۔ عورتوں کی زبان میں فرق ہر زبان میں ہوتا ہے مگر اتنا نہیں جتنا کہ اردو میں ۔ اردو میں شاعری مردوں کی زبان میں کہی جاتی تھی ۔ حتی کہ عورتیں بھی مردوں کی زبان میں شاعری کرتی تھیں ۔ مولانا عبد الحلیم شرر کا کہنا ہے کہ ریختی کا فن باوجود غیر مہذب ہونے کے دلچسپ ہے ۔


 تحریف / پیروڈی


 یہ لفظ پیروڈیاسے بنا ہے جس کے لغوی معنی تحریف کے ہیں ۔ اصطلاح میں یہ وہ صنف ظرافت ہے جس میں کسی نظم یا نثر کی نقل اتاری گئی ہو ۔ خیالات کو بدل دیا گیا ہو جس سے مزاحیہ تاثرات پیدا ہو گئے ہوں ۔ بعض اوقات حرف اور حرکت کی تبدیلی سے بھی پیروڈی ہو جاتی ہے ۔ اس کو جوابی نغمہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔


 تضمین 


کسی دوسرے شاعر کے مصرعے یا پورے شعر یا غزل وغیرہ کو اپنے کلام میں اس طرح جگہ دیتا کہ وہ ایک نئی نظم یا شعر کی صورت اختیار کر جاۓ ، تضمین کہلاتا ہے ۔ پوری غزل پر تضمین اس طرح ہوتی ہے کہ ہر شعر پر تین مصرعے لگاتے ہیں جو ہر شعر کے مصرع اولی کے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔ شعر پہ تضمین یوں ہوتی ہے کہ اسے غزل یا نظم کا حصہ بنالیا جاتا ہے ۔ اگر کسی کلام میں کسی شاعر کا ایک مصرع اپنا ہو ، اور دوسرا مصرع دوسری زبان کا ہو لینی قرآن و حدیث سے لیا گیا ہو جو اس کا اپنا نہ ہو تضمین کہلاتا ہے ۔ مثلا 


دھوپ کی تا پیش آگ کی گرمی 


و قنار بنا عذاب النار 


گیت


موسیقی میں ، گیت سروں کی ایک ایسی لہر ہوتی ہے جس میں انسانی آواز بھی شامل ہو اور دو گیت کے بول گاۓ ۔ گیت کو گا یا جاتا ہے اور انسانی آواز جو سر میں ادا کی جاتی ہے ، اس کے ساتھ آلات موسیقی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے ۔ بعض حمیت ایسے بھی ہیں جن میں آلات موسیقی کا استعمال ممنوع ہوتا ہے اور گیت کے تمام تر جزویات انسانی آواز پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ گیت کے بول عام طور پر شاعری پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کو ادا کرتے ہوئے سر اور تال کا تمام تر احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے ۔ گیت کو یا تو ایک ہی گائک گاتا ہے یا پھر مرکزی گلوکار کے ساتھ کئی دوسری آواز میں بھی شامل ہوتی ہیں جو سر کو اٹھانے اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شامل کی جاتی ہیں ۔ دوسرے گائک عام طور پر بار بار دہرائے جانے والے گیت کے بول ادا کرتے ہیں یا پھر مرکزی گلوکار کے ہم آواز سروں کو جلا بخشتے ہیں ۔ گیت کی کئی قسمیں ہیں ، جو شاعری ، آواز اور خطوں کی بنیاد پر درجہ بندی میں ڈھالی جاتی ہیں ۔ لطیف گیت ، کاسیکی گیت ، پاپ گیت یا پھر اوک گیت اس کی چند مثالیں ہیں ۔ اس کے علاوہ گیتوں کی درجہ بندی موسیقی کی صنف اور گیت کے مقصد کے تحت بھی کی جاتی ہے ، جیسے کہ ڈانس ، ریپ ، جاز ، کنڑی وغیرہ ۔


 کافی


 کافی ( جمع کافیاں ) شاعری کی ایک صنف ہے ۔ صرف عربی ادب اور سرائیکی ادب میں حوالہ ملتا ہے ۔ خواجہ غلام فرید نے اپنے کلام میں اس صنف سے استفادہ کیا ہے ۔ ان کی کافیوں کی تعداد 2711 ہے ۔ ان کے کلام کے مجموعہ کو دیوان فرید کہا جاتا ہے ۔ ان کے کلام نے سرائیکی ادب کو بلند مقام پر فائر کر دیا ۔ دیگر شعرا بھی اس صنف طلع آزمائی کی ہے لیکن جس معیار کی خواجہ غلام فرید نے کافی کی صنف کو بام عروج تک پہنچایا ہے ۔ طویل عرصہ کے بعد بھی آج تک کوئی شاعر اس معیار کو آ گے نہیں بڑھا سکا ہے ۔ کافی شاعری کی مشکل ترین صنف ہے ۔ جب تک شاعر کو اپنے کلام پر مکمل دسترس نہ ہو اور طویل ذخیرہ الفاظ کے ساتھ خیالات کا تسلسل نہ ہو تو کافی کی تخلیق بہت مشکل ہے یہی وجہ ہے شعر احضرات کافی کی تخلیق پر توجہ کم ہی دیتے ہیں ۔


سہرا


 اردو شاعری میں سہر اوہ نظم ہوتی ہے ، جو شادی کے موقع پر نکاح کے بعد رشتہ داروں اور دولہا دلہن کو مبارک باداور دعائیں دینے کے لیے لکھی جائے ۔ عموماً اسے بعد از نکاح پڑھا جاتا ہے ۔ اس میں دولہا کی آنے والی زندگی کے لیے اچھی امیدوں کا اظہار کیا جاتا ہے اور دولہا کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں ۔ اس میں سہرے کی تعریف اور دولہا کے چہرے پر اس کی سجاوٹ کی شاعرانہ تثلیں اور تشبیہیں ہوتی ہیں ۔ سہرا کی ایک قسم نعتیہ ہے جس میں معراج النبی کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ سہرا ایک طرح کی فرمائشی نظم 

ہوتی ہے ۔



اصناف نظم بہ لحاظ ہیت 


مثنوی 


مثنوی کا لفظ ، عربی کے لفظ ” شنی " سے بنا ہے اور مشنی کے معنی دو کے ہیں ۔ اصطلاح میں بہیت کے لحاظ سے ایک صنف سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے ، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو ۔ مثنوی میں عموما لیے لیے قصے بیان کیے جاتے ہیں ۔ نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے ، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے ، مینی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں ۔ مثنوی ایک وسیع صنف سخن ہے اور تاریخی ، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں ۔ مثنوی عموما چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے لیے چند بھر میں مخصوص بھی ہیں اور شعرا عموماً اس کی پاسداری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے ، کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں ۔ 


ر بائی


 رباعی عربی کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں ۔ شاعرانہ مضمون میں ربا کی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جا تا ہے ۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے ، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لا نا ضروری ہے ۔ تیسرے مصرعے میں اگر قافیہ لایا جائے تو کوئی عیب نہیں ۔ اس کے موضوعات مقرر نہیں ۔ اردو فارسی کے شعرا نے ہر نوع کے خیال کو اس میں سمویا ہے ۔ رباعی کے آخری دو مصرعوں خاص کر چوتھے مصرع پر ساری ر باقی کا حسن واثر اور زور کا انحصار ہے ۔ چنانچہ علماۓ ادب اور فصحائے سخن نے ان امور کو ضروری قرار دیا ہے ۔ بعض نے رباعی کے لیے چند معنوی و لفظی خصوصیات کو بھی لازم گردانا ہے ۔ عروض کی مختلف ستابوں میں رہائی کے مختلف نام ہیں ۔ رباعی ، ترانہ اور دو بیتی لبعض نے چہار مصر کی ، جفتی اور خصی بھی لکھا ہے ۔ ربانی کا موجد فارسی شاعر " رودکی " کو مانا جاتا ہے ۔


قطعہ


دو شعروں کے مجموعے کو قطعہ کہتے ہیں ۔ قطعہ کی جمع قطعات ہے ۔ قطعہ مطلع کی قید سے آزاد اور اشعار کی پابندی سے مبرا ہو تا ہے ۔ ہر شعر کا دوسرا مصرح قافیہ و روایف سے مزین ہو تا ہے ۔ قطعہ کا ایک وصف خاص حقیقت نگاری بھی ہے ۔ 


مسمط


مسمط عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں " پروئی ہوئی چیز یا موتیوں کو لڑی میں پیر و تا " ۔ مگر اردو شاعری کی یہ کوئی ہیئت نہیں ہے بلکہ آٹھ مختلف پیتوں کا مجموعہ ہے ۔ ووآ ٹھ منتیں ہیں مثلث ، مربع ، مخمس ، مسدس ، مسبع مثمن متسع معشر ، و غیر و ۔ اگر نظم تین تین بندوں پر مشتمل ہو تواسے مثلث ، چار چار مصرعوں والی نظم کو مربع ، پانچ پانچ مصرعوں کے بندوں پر مشتمل نظم کو مس اور چھے ہتھے مصرعوں والی نظم کو مسدس کہتے ہیں ۔ سات سات آٹھ آٹھ ، نو نو اور دس دس مصرعوں کے بندوں پر پر مشتمل افلمیں بہت کم لکھی گئی یا ۔


 مثلث


 ایک ایسی نظم جس کا ہر بند تین مصرعوں پر مشتمل ہو مثلث کہلاتی ہے ۔ اس کے پہلے بند کے تینوں مصرعے ہم قافیہ ( یا ہم قافیہ و ہم ردیف ) ہوتے ہیں ، اس کے بعد مر بند کے پہلے دو مصرعے کسی اور قافیے میں ہوتے ہیں لیکن ہر بند کا تیسرا مصرع پہلے بند کے قافیہ کا پابند ہوتا ہے ایک مثلث کے دو بند یہاں مثال کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں ۔ 


مربع


ایسی نظم جس کے مہر بند میں چار مصرعے ہوں مربع کہلاتی ہے ۔ مربع میں عموما پہلے ہند کے چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد تین مصرعوں میں جداگانہ قافیہ ہوتا ہے ۔ چوتھے مصرعے میں پہلے بند کے قافیے کی پابندی کی جاتی ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پہلے بند کا آخری مصرعہ بلکل اسی طرح ہر بند کے آخر میں دہرایا جاتا ہے لیکن قافیے کے معاملے میں مربع لکھنے والے شاعروں نے کسی اصول کی سختی کے ساتھ پابندی نہیں کی ۔ مربع میں بھی چار مصرعے ہوتے ہیں اور باقی میں بھی ، لیکن دونوں میں کچھ نمایاں فرق ہے ۔ مثلا پہلا فرق یہ ہے کہ ربائی میں تیسرے اور مربع میں چوتھے مصرعے کا قافیہ الگ ہوتا ہے ۔ مربع کے پہلے ہند کے چاروں مصرعے بلعموم ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔ دوسر افرق یہ کہ رہائی کے بر خلاف اس کے لیے کوئی بحر مخصوص نہیں ۔


مخمس


 پانچ پانچ مصرعوں کے بندوں والی نظم کو مخمس کہتے ہیں ۔ پہلے بند کے پانچوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ، اس کے بعد ہر بند کے پہلے چار مصر کے الگ سے ہم قافیہ ہوتے ہیں ، پانچوں مصرعے قافیے کے معاملہ میں پہلے بند کی پیروی کرتا ہے ۔ بھی ایک ہی مصرع ہر بند کے آخر میں لینی پانچ میں مصر کے کے طور پر دہرایا جاتا ہے ۔


مسدس


دس چھ  مصرعوں کے بند پر مشتمل شاعری کو کہتے ہیں ۔ اس کے پہلے چار مصرعے ، ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔ پانچواں اور چھٹا مصرع ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔ طویل اور مسلسل منظومات کے لیے اس کا استعمال بہت ہوا ہے ۔ سب سے مشہور مولانا حالی کی مید کی مسدس حالی ہے ۔ 


متسع


متسع نو مصرعوں کا بند یا وہ نظم جس میں نو نو مصرعوں کے کئی بند ہوں ۔ مسمط جو تین مصرعوں سے دس مصرعوں تک ہوتا ہے ، اول کو مثلث ، ساتویں کو مسمع اور آٹھویں کو معشر کہتے ہیں ۔


 معشر


 وہ نظم جس میں دس مصروں کے بند ہوں ۔


 ترکیب بند 


ایک بھر میں مختلف قافیوں والے چند بند لکھنا اور مر بند کے بعد ایک ایسا شعر لا ناجو وزن میں متفق اور قافیوں میں مختلف ہو جس کی تکرار نہ ہو ان بندوں پر مشتمل کلام ترکیب بند کہلاتا ہے ۔


 ترجیع بند


 ترجیع بند اصطلاح عروض میں جب شاعر چند ایسے بند جو بحر میں موافق اور قافیہ میں مختلف ہوں بیان کر تا اور ہر ایک بند کے بعد ایک اسی وزن اور مختلف قافیہ کی معین بیت اس طرح بار بار لاتا ہے کہ یہ بیت ہر بند کی بیت آخر کے مضمون سے مربوط ہو تو اسے تر تیج بند کہتے ہیں ۔ ایک قسم کی نظم جس میں ایک شعر کئی شعروں کے بعد بار بار آتا ہے ۔


مستزاد


 وہ مربع نظم جس کے ہر مصرعے یا شعر کے آخر میں ایک ایسا ٹکڑا لگا ہو جو اس مصرعے کے رکن اول اور رکن آخر کے برابر ہو ۔ 


نظم معری 


نظم معرا جسے غیر مقفی نظم ، بلا قافیہ نظم یا بلینک ورس بھی کہا جاتا ہے ، اس شاعری کو کہتے ہیں جس میں قافیہ کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ یورپ اور بالخصوص انگریزی شاعری میں اس کا رواج رہا ہے ۔ ابتدا میں اردو میں اس طرز شاعری کو غلط سمجھا گیا لیکن بعد میں اس کا چلن عام ہو گیا۔


آزاد نظم


 قافیہ و ردیف سے آزاد لیکن پابند وزن و بحر پر مبنی شاعری کو آزاد نظم کہا جاتا ہے ۔ اس کی ابتدا انیسویں صدی میں فرانس سے ہوئی ۔ دی گر فک ، والیری ، بادلئیر اور ملار سے غیر وفرانسیسی شعرا نے آزاد نظمیں کہیں ۔ امریکی شعر افلفٹ ، آلد ملٹن ٹی ایس ایلیٹ اور اید را پاونڈ و غیر ہ نے اسے ترقی دی ۔ اردو میں سب سے پہلی آزاد نظم ( بیسویں صدی کے آغاز میں محمد اسماعیل میرٹھی نے کہی ۔ تصدق حسین خالد نام راشد ، میرایی آزاد نظم کہنے والے اردو شعرا کے سرخیل مانے جاتے ہیں ۔


نثری نظم 


وہ نظم جس میں قافیہ ردیف اور بحر کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ وزن کا ہو نا ضروری ہے ۔


 سائنٹ


 اطالوی الاصل مغربی صنف سخن ہے جو چودہ مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اطالوی شاعر پیٹرارک ( Somet ) سانیٹ نے اس صنف کو تکمیل بخشی اور اسے رواج دیا ۔ پیٹر ارک نے 317 سانیٹ لکھے ہیں ۔ سائیٹ کی دو ( Francesco Petrarcaa ) ) اقسام اطالوی یا پٹرار کن سانیٹ اور سے ور شیکسپیرین سانیٹ ہیں ۔ اردو میں سائیٹ کو متعارف کرانے کا سہرا اختر شیرانی کے سر ہے ۔ قیام نظر کے بیان کے مطابق : ایک بیان کے مطابق اردو کا پہلا سانیٹ ان م راشد نے لکھا تھا لیکن جو سانیٹ عوام کے سامنے شائع شدہ صورت میں آیا وہ اختر شیرانی کا تھا اور یوں ( اردو میں ) سانیٹ کے آغاز کا سہرا اختر شیرانی کے سر بندھا ۔ 


ہائیکو 


جاپانی شاعری کی ایک صنف ہے اپنی مقبولیت کی وجہ سے دنیا کی اور زبانوں میں بھی مروج ہے ۔ عام طور پر یہ 33 سطروں پر ہے ۔ ایک بائیکو میں 17 الفاظ استعمال ہوتے ہیں پہلی میں 5 دوسری میں 7 اور تیسری میں بھی 5 ۔


دوہا


 دوہا اردو ہندی  شاعری کی ممتاز اور مقبول صنف سخن ہے جو زمانہ قدیم سے تا حال اختیار رکھتی ہے ۔ وہ ہندی شاعری کی صنف ہے جو اب اردو میں بھی ایک شعری روایت کے طور پر تمام ہو چکی ہے ۔ اس کا آغاز ساتویں صدی اور آ ٹھو میں صدی کا زمانہ بتایا جاتا ہے ۔ دوسرا اور دو پر اس کے دوسرے نام ہیں ۔ دوہے کے دونوں مصرعے مقفی ہوتے ہیں ۔ اپ بھرنش میں قافیہ کا رواج دو ہے سے شروع ہوا ، اور نہ اس سے پہلے سنسکرت اور پراکرت میں قافیسہ نہیں تھا ۔ دوہا ، دو مصرعوں کی اپنی مختصر ترین بیت کی وجہ سے انفرادی حیثیت کا حامل ہے ۔ دوہا ایک ہندی صنف سخن سے تعلق رکھتا ہے ۔ مثال کے طور پر اردو میں شعر ۔ مگر ہندی کا دو بار دو کے غزل یا نظم کا حصہ شعر کی طرح پابند نہیں ہوتا بلکہ آزاد ہو تا ہے ۔ یعنی ایک آزاد شعر کو دوہا کہہ سکتے ہیں ۔ اس ہندی صنف کو اردو داں حضرات نے بھی اپنایا اور طبع آزمائی کر تے آ رہے ہیں ۔ اس صنف میں ماہر ہندی دوہا نگاروں میں کبیر ، تلسی داس ، عبدالرحیم خان خانہ مشہور ہیں ۔ کبیر کے دوہے ، تلسی داس کے دو ہے ، رحیم کے دو ہے ہندی ادب میں کافی مشہور ہیں ۔ اردو شعرا بھی اس صنف کو اپنایا اور آزمایا ۔ بر و باد و ہم قافیہ مصرعوں پر مشتمل ہو تا ہے ۔ ہر مصرعے میں 24 ماترائیں ہوتی ہیں ۔ ہر مصرعے کے دوحصے ہوتے ہیں ، جن میں سے ایک حصے میں 13 اور دوسرے میں 11 ماترائیں ہوتی ہیں اور ان کے درمیان ہلکا سا وقفہ ہوتا ہے ۔


 باره ماسہ


باره ماسہ خالص ہندوی چیز ہے ۔ سنسکرت میں اس کی کوئی روایت نہیں ملتی ۔ یہ خیال کہ بار وماسه " رت در شن " کی ایک رو بہ زوال ہیئت ہے ، اس لئے صحیح نہیں ہے کہ " رت درشن " میں چار رتوں کا بیان ہوتا ہے ۔ اس کے بر خلاف " بارہ ماسہ ” میں ہر مہینے کا ۔ پنجابی ، سریانی برج ، اور بھی اور اردو میں اس کی روایت ملتی ہے ۔ گرو گرنتھ صاحب میں بھی بارہ ماسہ ملتے ہیں ۔ بار وماسہ " کی ایک قدیم طرز خواجہ مسعود سعد سلمان کے دیوان فارسی میں ملتی ہے جو مر وجۂ حال بارہ ماسہ کی اصل مالی جاسکتی ہے اور جسے وہ " غزلیات شہور یہ ” کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ بارہ فارسی مہینوں کے نام پر بارہ نرزلیں لکھی گئی ہیں ۔


ماہیا


 ماہیا وہ کلام ہے جس میں تین مصرعوں میں شاعر اپنی بات کہتا ہے ۔ اس صنف کا پہلا اور تیسرا مصرع ہم وزن جب کہ درمیانی مصرع کے دو حروف پہلے اور آخری مصرع کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں ۔ پنجاب کی اس مقبول صنف نے اردو زبان اور شعرا کو بھی متاثر کیا اور فلموں اور ریڈیو میں اردو ماہنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ یہ بنیادی طور پہ گائی جانے والی صنف ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے ڈھن ، ردھم اور آوازوں کو اہمیت دی گئی ۔ 


نظمانہ


نظمانه جدید صنف نظم ہے ۔ نظمانہ کے لغوی معنی تو " نظم کر تا یا ضبط نظم میں لانا کے ہیں ، مگر اصطلاح میں یہ دو صنف الظلم ہے جس میں کسی کہانی یا مختصر افسانے کو نظم کہا جاتا ہے ۔


 تروینی 


ا ثلاثی ہائیکو اور ماہیا کی مانند تین مصرعوں پر مشتمل نظم ہے ۔ مشہور فلم ڈائر یکٹر اور ادیب گلزار نے اس کے موجد ہونے کا دعوی کیا ہے : " میں نے شاعری میں ایک نئی فارم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کا نام تروی رکھا ۔ یہ ہائیکو بھی نہیں ، مثلث بھی نہیں ، تیسرا مصرع روشن کی طرح کھلتا ہے ۔ اس کی روشنی میں پہلے شعر کا تاثر بدل جاتا ہے ۔ تیسرا مصرع کو منٹ بھی ہو سکتا ہے ۔