علامہ محمد اقبال اور عشقِ رسول

admin


 


 علامہ محمد اقبال اور عشقِ رسول


 اقبال اپنی شاعری میں نبی آخر الزمان س کو متعدد اساسے پکارتے ہیں اور ان سے اپنی قلبی محبت و موانست کا اظہار کرتے ہیں ۔ ان اسمائے مبارک میں دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کل پیس ، طه ، رسالت مآب ، رسالت پناه ، رسول مختار ، رسول پاک ، رسول عربی ، رسول ہاشمی ، سرور عالم ، شہنشاہ معظم ، میر عرب اور کملی والے جیسے تعظیمی القابات شامل ہیں جن کی وساطت اقبال بارگاہ رسول پی میں اس امت کے مسائل پیش کرتے ہیں جسے " امت احمد مرسل " اور " ملت ختم رسل کا درجہ حاصل ہے ۔ اقبال اپنے ملی تصور کو بھی جذبہ عشق رسول اسلام سے تقویت دیتے ہیں ۔

 وہ اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہوا ایک ایسے نبی اور رسول کی امت ہے جو اپنی ترکیب میں خاص ہے ، جس کی بنیاد جغرافیائی حدود و شعور پر نہیں بل کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پر رکھی گئی ہے ۔ یہ ایسی ادت ہے جس میں برتری کا حق رنگ ، نسل ، خون یا خطہ کو نہیں بل کہ صرف اور صرف تقوی کو حاصل ہے اور اس ملت کے لیے تا قیامت کامل ترین ہستی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے ۔ 

اقبال اپنے اردو اور فارسی کلام میں اس حقیقت کا شدت سے اظہار کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کے افراد کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عشق محمد کا جذ بہ ہی ہے جو دل مسلم کو قوی تر کر تا ہے اور  اسے حرارت اور سوز سے ہمکنار کر سکتا ہے ۔ چناں چہ ملت کی حالت زار دیکھ کر ان کی نظر بارگاہ رسالت کی طرف اٹھ جاتی ہے ، فرماتے ہیں 

شیراز و ہو امت مرحوم کا ابتر 

 اب تو ہی بتا ، تیرا مسلمان کد ھر جائے 

وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں 

پوشیدہ جو ہے مجھ میں ، وہ طوفان کد ھر جائے 

ہر چند ہے بے قافلہ دراصلہ و زاد 

اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کد ھر جائے 

اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمد

 آیات النبی کا نگہبان کدھر جائے


 اقبال اپنے کلام میں جا بجا دردمندی کے ساتھ ملت اسلامیہ کو اس نقطہ ارجمند کی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ عالم اسلام کی بقا اتباع رسول ہی میں مضمر ہے ۔


 نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا

 محمد عربی سے ہے عالم عربی

 ان کے نزدیک افراد ملت کا اپنی ملت کو اقوام مغرب پر قیاس کر ناکار عبث ہے ۔ جب تک روح محمد مسلمان کے بدن میں ہے ، وہ خدائے مطلق کے سوا کسی کا خوف دل میں محسوس نہیں کرتا ، کسی تہذیب سے اثرات قبول نہیں کرتا اور ایسی ہی ملت کے افراد سے باطل کو ہر آن خطرات لاحق رہتے ہیں ۔ اقبال نے اپنی ایک ڈرامائی رنگ میں مرقوم نظم : " ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام ” میں لکھا ہے کہ یورپ کے ابلیسی نظام کو نڈ راور متوکل مسلمانوں ہی سے ڈر رہتا ہے لذا طاغوتی طاقتیں ہر آن اس کو شش میں منہمک رہتی ہیں کہ فکر عرب فرنگی خیالات کی اسیر ہو جاۓ ۔ اقبال اس نظم میں عالم تخیل میں دکھاتے ہیں کہ ابلیس اپنے سیاسی فرزندوں کو ایسے غیور مسلمانوں کو راہ حق سے ہٹانے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہتا ہے


 وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا 

نہیں ذرا زوج محمد اس کے بدن سے نکال دو

 فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات

 اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو 

اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو

 آہو کو مرغزار خستن سے نکال دو 


اقبال اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ جب بھی مسلمانوں نے پیغام محمد سے دوری اختیار کی ، زوال ہی ان کا مقدر ٹھہرا ۔ جواب شکوہ " میں استفسار یہ رنگ میں زوال زد و مسلمانوں کو جھنجھوڑتے ہوۓ فرماتے ہیں 

کون ہے تارک آئین رسول مختار ؟ 

مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار ؟ 

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار ؟

 ہو گئی کس کی نگہ طرز سلف سے بیزار ؟

 قلب میں سوز نہیں ، روح میں احساس نہیں 

کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پا س نہیں


 دوسری طرف ایسے ادبیات بھی کثرت سے ہیں جہاں اقبال بار گاہ الہی میں ملتی ہیں کہ ملت کے بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سے سوئے حرم چلنے کی توفیق مل جاۓ ۔ اقبال جابجا قوت عشق رسول ڈیم کے تمنائی نظر آتے ہیں اور افراد ملت کے قلوب میں یہ بات رائج کر دینا چاہتے ہیں کہ محمد مصطفی سے وفا نبھانے والوں کو دنیا تو ایک طرف لوح و قلم بھی عطا کر دیئے جاتے ہیں 


 قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

 دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے 

چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے 

رفعت شان رفعنالک ذکرک دیکھے 

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

 یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں 

یوں کلام اقبال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تذ کرہ جلیلہ و جمیلہ کثرت سے ملتا ہے اور علامہ کے نزدیک مرد مومن کی حتمی اور کامل صورت آپ کی ذات مبارکہ ہی ہے ۔ اقبال ن ے حیات رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی و قابل تحسینی پیرایے میں موزوں کیسے ہیں اور خالصتا قرآنی تلمیحات کی وساطت سے بھی مسلمانوں کو نبی آخر الزمان کے مرتبے سے آگاہ کرایا ہے ۔ اس سلسلے میں واقعہ معراج کی پیش کش کو وہ خاص اہمیت دیتے ہیں اور اس واقعے کو انسانی قوتوں کی بیداری ، جرات و ہمت اور استقامت کے استعاروں کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔

۲۷ رجب کی مبارک رات میں خدائے سمیع و بصیر نے نبی پاک کو اپنی نشانیاں دکھانے کے لیے رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی کی سیر کرائی ۔ اس موقعے پر آپ نے آیات و تجلیات الہی کا مشاد فرمایا اور اپنے باطن کی آنکھ سے ان حالات و واقعات کو یوں ملاحظہ فرمایا کہ نہ آپ کی نگاہ پیچھے ہٹی اور نہ حد سے بڑھی ۔ علامہ واقعہ معراج کے ان پہلوؤں کو تمام تر جزئیات کے ساتھ اپنے کلام میں برستے ہیں اور لیلۃ الاسری سے متعلق تلمیحوں کو عشق ر سوال کے جذبے کی بیداری کے ساتھ ساتھ عظمت بشر سے آگاہ کرنے کے لیے بطور علامت بھی استعمال کرتے ہیں ۔ خاص طور پر وہ عصر حاضر سے ان تلمیحوں اور علامتوں کو منسلک کرتے ہوۓ اصلاح احوال کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ علامہ اس سلسلے میں تنبیہی اور دعائیہ دونوں طرح کے لیے اختیار کرتے ہیں ۔

 واقعہ معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف جہتیں ان کے ہاں یوں محمود کرتی ہیں ۔

 اختر شام کی آتی ہے فلک سے آواز

 سجدہ کرتی ہے سحر جس کو وہ ہے آج کی رات

 ره یک کام ہے ہمت کے لیے عرش بریں

 پر میں کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات

 جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر 

نبوت ساتھ جس کو لے گئی ووار مغاں تو ہے 

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے 

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

 ناوک ہے مسلمان ہدف اس کا ہے ثریا

 ہے سر سراپر و نہ جاں نکتہ معراج

 

 کلام اقبال میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار کا ایک اور خوب صورت قرینہ وہ ہے جہاں وہ مصطفی اور ابولہب کی رعایت سے " مصطفوی " اور " بولہبی کی علامتیں وضع کر کے ان کو خیر اور شر کے مکاتب فکر کی وضاحت کے طور پر لائے ہیں جس کی رو سے ایک مومن کا راستہ ہے ، تو دوسرا کافر کا _ مصطفوی کفر و شرک کے بتوں کو خاک میں ملا دیتا ہے ، خود کو طریق احمد مرسل پر چلاتا ہے اور یہی اس کا منصب ہو نا چا ہیے ۔ 


عشق رسول پر اقبال کے فارسی اشعار


مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ است

 اگر به او نر سیدی ، تمام بوالهی است

 یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس امنت کو ؟

 ا و سال مصطفوی ، افتراق بولہبی

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

 چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی 

تازہ مرے تعمیر میں معرکہ کہن ہوا

 عشق تمام مصطفی ، عقل تمام بولہب

 یہاں اس امر کی طرف توجہ دلانی بھی ضروری ہے کہ اقبال نہ صرف خود عشق رسول کے جذبے سے سرشار تھے بل کہ دلی طور پر یہ خواہش بھی رکھتے تھے کہ مسلمان نوجوان بھی جذ بہ عشق رسول کے حامل ہوں کیوں کہ یہی جذ بہ حیات مسلم کو تا بنا کی عطا کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے نسل نو کے لیے " شاہین " کی علامت اختیار کی اور جہاں اس کے دیگر اوصاف بتاۓ ، وہیں اس کا نمایاں ترین وصف یہ قرار دیا کہ مسلم نوجوان " شاہین شہ لولاک " ہو تا ہے اور یہ وہ خوبی ہے جو نہ صرف اس کی خودی کی تعیین میں معاون ٹھہرتی ہے بل کہ اسی نسبت خاص سے اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ " فروغ دید افلاک " ہے ۔


 ترا جوہر ہے نوری پاک ہے

 تو فروغ دیدۂ افلاک ہے

 تو ترے صید زبوں افرشتہ و حور

 کہ شاہین شہ لولاک ہے تو