غوغا تھا کہ کچھ دیر میں لٹتا ہے مدینہ
آلِ شہِ لولاک ع سے چُھٹتا ہے مدینہ
یہ کس پہ زمیں تنگ ہے؟ گُھٹتا ہے مدینہ
گویا کہ مدینے ہی سے اُٹھتا ہے مدینہ
رخصت سے بری اور خبر کوئی نہیں تھی
محرومِ دُر اشک نظر کوئی نہیں تھی
رقصندہ جو طاؤس تھے سم بھول گئے تھے
آہو جو رمیدہ تھے وہ رم بھول گئے تھے
سب محتسباں کثرت و کم بھول گئے تھے
تحریر کے تیور ہی قلم بھول گئے تھے
منہ موڑ لیا آب سے مٹی کے گھڑوں نے
دم بھر کو زمیں چھوڑ دی پیڑوں کی جڑوں نے
اختر عثمان