عابد عمر کی غزلوں کا خوبصورت مجموعہ

admin

عابد عمر کی غزلوں کا خوبصورت مجموعہ


 عابد عمر کی غزلوں کا خوبصورت مجموعہ


غزل نمبر : 1


تُو کر کے عشق ، ابھی زندہ و سلامت ہے

یقین مان .......... یہ تیری بڑی کرامت ہے


میں خود کو یاد ہوں اب تک تو شکر بنتا ہے

مرے حساب سے ۔۔۔۔۔ یہ ہوش کی علامت ہے


بہت تضاد ہے اس میں ہر ایک پہلو سے

وہ سرد جھیل ہے ،  جلوہ مگر قیامت ہے


حقیر جان کے وہ ہم کلام ہوتا نہیں

کہ پست سوچ ہے لیکن دراز قامت ہے


ملا جو اس سے فقط اک سوال پوچھوں گا

کیا جو تو نے تجھے اس پہ کچھ ندامت ہے؟


تمام عشق گزیدہ چلے ہیں صحرا کو

نمازِ عشق ہے اور قیس کی امامت ہے


عمر کیا شعر بھی اتنا بڑا ہے کوئی ترا ؟

کہ جس قدر ترے دیوان کی ضخامت ہے


عابد عمر


غزل نمبر : 2


پتھروں میں دل کے جیسی فِیل ہو ممکن نہیں

ہر جگہ پر پیار کی ترسیل ہو ممکن نہیں


اس کے دل میں پیار ہو اور میرے دل میں نفرتیں 

خشک صحراؤں میں کوئی جھیل ہو ممکن نہیں


غربت و افلاس کا رونا میں روؤں کس لیے

رونے سے قسمت مری تبدیل ہو ممکن نہیں


دیکھنے میں حرج کیا ہے دیکھ لیجے شوق سے

گو کہ ایسے خواب کی تکمیل ہو ممکن نہیں


دیکھ میں تو خود ہوں اپنی جھونپڑی کا حکمراں

شاہ زادی ـــــــــــــ حکم کی تعمیل ہو ممکن نہیں


جھوٹ کا کیا ہے یونہی بے موت مارا جائے گا

اور سچے عشق کی تذلیل ہو ممکن نہیں


لوٹ آیا قافلہ سالار یہ کہتے ہوئے

اس سے آگے کوئی سنگِ میل ہو ممکن نہیں


اس کی آمد کا کوئی امکاں نہیں باقی رہا

اور اس کی یاد کی تعطیل ہو ممکن نہیں


آخری دم تک وہ میرا ہجر  پالے گا عمر

بھول جانے میں اسے تعجیل ہو ممکن نہیں


عابد عمر

عابد عمر کی غزلوں کا خوبصورت مجموعہ


غزل نمبر : 3


جھیل سکتے نہیں اب ہوا معذرت

سب چراغوں نے مل کر کہا معذرت


درد کی انتہا تک مجھے لے گیا

اور ہولے سے پھر کہہ گیا معذرت


کہہ رہا  ہے دعا کر محبت ملے

تجھ کو دوں گا نہیں بد دعا معذرت


جانتا تھا سنبھلتا نہیں تجھ سے کچھ

بس یونہی تجھ کو دل دے دیا معذرت


تیرا زر ہو مبارک تجھے پاس رکھ

ہو سکوں گا نہ اس سے جدا معذرت


جز  ترے اور بھی ہیں مسائل بہت

اب جڑے گا نہیں سلسلہ معذرت


اس کی آنکھیں اسیرِ ہوس تھیں عمر

کیسے کرتا بھلا بے وفا معذرت


عابد عمر


غزل نمبر : 4


نگاہوں کا چرانا مار دے گا

ترا یہ دور  جانا مار دے گا


گریزاں ہوں رقیبِ بد زباں سے

وہ پھر سے تیرا طعنہ مار دے گا


اسے ملنے کا کہنا ہی عبث ہے

وہ پھر کوئی بہانہ مار دے گا


ادائے دلنشیں معصوم لہجہ

ترا ایسے بلانا مار دے گا


بچا ہے کونسا دل والا  اس سے

تجھے بھی یہ زمانہ مار دے گا


یہ جھوٹے وعدے جھوٹے ہی رہیں گے

مجھے یہ آنا جانا مار دے گا


غریبا کیوں الجھتا ہے بڑوں سے

کوئی رانا ٹوانہ مار دے گا


سیہ شب میں  ذرا چسکی لگا کر

ترا چائے پلانا مار دے گا


نہیں کرنا خلافِ طبع باتیں

وگرنہ یہ مولانا مار دے گا


نہ مارا سانپ نے غدار نے گر

اسے خود ہی خزانہ مار دے گا


عمر یہ ہجر شاید چھوڑ بھی دے

ترا یہ مسکرانا مار دے گا


عابد عمر


غزل نمبر : 5


خود ہے جس خواب میں وہ خواب دکھاتا ہے ہمیں

ہم ہیں خود دار بہت یاد دلاتا ہے ہمیں


ہم ہی تبدیلی کی خواہش کو جگا بیٹھے ہیں

ورنہ حاکم تو فقط خواب دکھاتا ہے ہمیں


بھوک مٹتی ہے نہ انصاف کہیں ملتا ہے

یہ مدینہ کی ریاست ہے ، بتاتا ہے ہمیں


ہم ہیں انسان یا کٹھ پتلی سمجھ آتی نہیں

جو بھی آتا ہے وہ مرضی سے نچاتا ہے ہمیں


جب ضرورت ہو اندھیروں میں ضیا کرنے کی

ہر کوئی حسبِ ضرورت ہی جلاتا ہے ہمیں


ایک مہنگائی کا طوفان لیے آیا ہے

صبر فرمائیں سبق روز پڑھاتا ہے ہمیں


سب رعایا ہے کرنسی کوئی  ڈالر جیسی 

جو بھی لیڈر ہو عمر خوب  کماتا ہے ہمیں


عابد عمر