علامہ اقبال کی نظم خضر راہ کا تعارف،اشعار کی تشریح اور فنی و فکری جائزہ

admin

 
علامہ اقبال کی نظم خضر راہ کا تعارف،اشعار کی تشریح اور فنی و فکری جائزہ

علامہ اقبال کی نظم خضر راہ کا تعارف،اشعار کی تشریح اور فنی و فکری جائزہ


 نظم کا پسِ منظر 

i

 نظم خضر راہ علامہ اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے سینتیسویں  اجلاس میں پڑھی جو 13 اپریل  1922 ءکو اسلامیہ ہائی سکول اندرون شیرانوالہ دروازہ لاہور  میں منعقد ہوا تھا ۔ اسے شکوہ ، جواب شکو د ، شمع و شاعر اور طلوع اسلام ، نام کی نظموں کی طرح علامہ اقبال نے خود پڑھا۔نظم سوز و اثر میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ مجمع تمام تر مسلمانوں کا تھا اور ان کے دل جنگ عظیم اور اس کے بعد کے حادثوں کی مصیبتوں سے بھرے ہوئے تھے ۔

 بیان کیا جا تا ہے کہ اقبال پر جتنی رقت خضر راہ ‘ ‘ کے پڑھتے ہوئے طاری ہوئی ، اتنی کوئی اور ظلم پڑھتے ہوئے نہیں ہوئی ۔ وہ خود بھی روۓ اور انہوں نے مجمع کو بھی را یا ۔ یہ نظم اس زمانے کی تخلیق ہے جب پہلی جنگ عظیم کے بعد ہر طرف مسلمانوں کی حالت نا گفتہ تھی ۔ یورپ والے جاندار تھے ۔ان صدموں کو برداشت کر گئے لیکن مسلمان جو برسوں سے زوال کی منزلیں لے کر رہے تھے ، اس صدمے سے سنبھل سکے ۔ 

ترک لڑائی ہار گئے ۔ ان کا خلیفہ دشمنوں کے ہاتھ میں قید ہو گیا ، ملک فاتحوں نے آپس میں بانٹ لیا اور صاف ظاہر ہورہا تھا کہ ترک ختم ہو گئے ۔ ایران 1908 ء سے دم توڑ رہا تھا ۔ جنگ عظیم نے اس کو بالکل بے جان کر دیا تھا ۔ عرب ترکوں سے آزادی پانے کے لیے دشمنوں سے مل گئے لیکن ترکوں کے پنجے سے نکل کر فرانس اور برطانیہ کے چنگل میں پھنس گئے ۔ بیت المقدس پر صلیبی پرچم لہرانے لگا ۔ دمشق وبغدادانی ہاتھوں میں چلے گئے ، مکہ اور مدینہ نام کے آزاد تھے لیکن ان پر قبضہ دشمنوں کے وظیفہ خواروں کا تھا ۔

 جنگ ختم ہوئی تو ہندوستان میں بھی ہیجان پیدا ہوا ۔ 1919 ء میں امرتسر کے جلیا نوالہ باغ میں عوامی شورش کو دبانے کے لیے انگریزوں نے نہتے اور بے قصور لوگوں پر گولی چلائی ۔ اس پر بے چینی اور بڑھی تو ہزاروں ہندوستانی جیلوں میں بند کر دیئے گئے ۔ بے کسی اور بے بسی کا قہر و جبروت سے کیا مقابلہ ؟ سو یہ قومی تحریک ختم ہو کر رہ گئی ۔ ہندوستان کے مسلمان ترکی خلافت کے لیے اٹھے ، بڑی بڑی قربانیاں دیں ، ہنگامے بر پا کیے۔ترکی خلافت کے ساتھ ترکوں کا وجود بھی مٹاجارہاتھا ۔ قسطنطنیہ ( استنبول ) پر تو برطانیہ اور فرانس کا قبضہ تھا ۔ یونان کو'سمر نا ' دے دیا گیا اور یونانی فوجیں شہر اور گاؤں جلاتی انگورہ کی طرف بڑھ رہی تھیں کہ مصطفے کمال پاشا کی قومی یاس و نامرادی اور رنج و کرب کے مذکورہ بالا پس منظر میں علامہ اقبال نے ' ' خضر راہ' 'لکھی نظم کے اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوے آئے ہم پہلے نظم کا مطالعہ کرتے ہیں پھر اس کے بعد اس کی فکری اور فنی خوبیوں کی طرف متوجہ ہوں گے ۔

i

 بند اول 


ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محوِ نظر 

گوشہ دل میں چھپاۓ اک جہانِ اضطراب 


شب سکوت افزاء ہوا آسوده ، دریا نرم سیر

 تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصورِ آب !


 جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے  طفل شیر خوار 

موج مضطرب تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب


 رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر

 انجم کم ضو گرفتارِ طلسم ماہتاب 


دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پا خضر

 جس کی پیری میں ہے مانند سحرِ رنگِ شباب


 کہہ رہا ہے مجھ سے اے جو یاۓ اسرار ازل

 چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب !


 دل میں یہ سن کر بپا ہنگامہ محشر ہوا 

میں شہیدِ جستجو تھا یوں سخن گستر ہوا


توضیحات 


محونظر : نمو نظارہ دیکھنے میں مصروف ۔ جہان اضطراب : بے قراری کی دنیا ۔ سکوت افزا : خاموشی بڑھانے والی ، آسودہ : شہری ہوئی ۔ نرم سیر : آہستہ چلنے والا ۔ تصویر آب : پانی کی تصویر ، گہوارہ : پنگھوڑا بلفل شیر خوار : دودھ پیتا بچہ ۔ موج منظر : بے قرارائیر ۔ مست خواب : نیند میں کم ۔افسوں : جادو۔انجم کم تھو تھوڑی روشنی والے ستارے مدھم ستارے ۔ گرفتارظلم ماہناسی : چاند کے جادو میں گرفتار ۔ ایک جہاں پیا : دنیا میں پھرنے والا قاصد ۔ خضر : حضرت خضر مراد ہیں جو روایت کے مطاق بھولے بھٹوں کی رہنمائی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں اور سمندروں اور دریاؤں کے مالک بھی ہیں اور آپ کی عمر دوائی ہے ۔ ان کا زمانہ حیات حضرت نوح یا حضرت ابراہیم کے بعد سے شروع ہونا بتایا جا تا ہے ۔ نگہ شہاب : جوانی کا رنگ ۔ جو یائے اسرار ازل : ازل کے رازوں کا موج لگانے والا واکلی واضح ہے باب : بے نقاب ۔ لا محشر قیامت کا ساہنگامه شهید تو تو کادلداد وشق سخن است و از کار کرنا ، بولنا

 بند دوم 


اے تری چشم جہاں بیں  پر وہ طوفاں آشکار 

جن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش


 کشتی مسکین ' 'و ' ' جان پاک ' ' و' ' دیوار یتیم ' '

 علم موسی “ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش


 چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تو صحرا نورد 

زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا و دوش


 زندگی کا راز کیا ہے ؟ سلطنت کیا چیز ہے ؟

 اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش ؟


 ہو رہا ہے ایشیا کا خرقہ دیرینہ چاک

 نوجوان اقوام نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش ! 


گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی

 فطرت اسکندری اب تک ہے گرم ناؤ نوش !


بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین کوش

 خاک وخوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش


 آگ ہے ، اولاد ابراہیم ہے ، نمرود ہے!

 کیا کسی کو پھر کسی  امتحان مقصود ہے ؟


 توضیحات

 چشم جہاں میں دنیا کو دیکھنے والی آنکھ ۔ شکار : ظاہر کشتی سکین و جان پاک د بواریم اس مصرع میں ان تین واقعات کا طرف اشارہ ہے جن کا ذکر قرآن مجید کی سورہ کہف میں کیا گیا ہے ( پندرھو میں اور سولہویں پارے میں ) حضرت موی حضرت خضر سے ملے اور انہوں نے حضرت خضر سے علم راست اور تجربے کھنے کی خواہش ظاہر کی ۔ حضرت خضر نے پیشرط پیش می اد حضرت ولی ان کی کسی بات پر اعتراض نہ کر میں لیکن جب دوسفر پر نکلے تو تین مقامات پر حضرت موسی نے جناب حضرت خضر کی باتوں پر اعتراض کیا 

( ۱ ) جب دوران سفر حضرت خضر نے ایک کشتی میں سوراخ کر دیا 

( 2 ) جب حضرت خضر نے ایک بچے کو ہلاک کر دیا ۔ ( 3 ) جب انہوں نے ایک گرتی ہوئی دیوار کی مرمت کر کے اسے سیدھا کھڑا کر دیا اور کوئی معاوضہ طلب نہ کیا ۔ بعد میں جدا ہوتے وقت حضرت خضر ان تینوں واقعات کی وجہ بتادیتے ہیں اور حضرت موی حیران رہ جاتے ہیں کہ انہوں نے ظاہری نظروں سے دیکھ کر جن اعمال کو نامناسب سمجھا تھا ان کے پس پرد و تنی بہتری وجوتھی ۔ حضرت خضر نے غیبی اشارے کی بنا پر تین کام جو انجام دیئے تھے ، ان کی وجوہ قرآن مجید میں اس طرح آتی ہیں ۔

 ( 1 ) جس ملک میں حضرت موسی اور حضرت خضر کشتی میں سفر کر رہے تھے ، وہاں کا بادشاہ عمدہ اور بے نقص کشتیوں کو بغیر معاوضہ دیئے اپنی ملکیت میں لے لیتا تھا ۔ حضرت خضر نے ایک غریب آدمی کی اس کشتی میں اس لیے سوراخ کر دیا تھا کہ بادشاہ اس کو ہتھیا نہ لے اور غریب آدمی کی روزی کا یہ سہارا باقی رہے ۔ 

( 2 ) اس بچے کے والدین بڑے نیک تھے مگر بیٹے نے کفر اور فساد کی راہ اختیار کر ناتھی ۔ حضرت خضر نے اسے قتل کر دیا کیونکہ خدا نے ان والدین کو اس سے بہتر بیٹا عطا کرنے کا اشارہ کر دیا تھا ۔

 ( 3 ) جس گری ہوئی دیوار کو حضرت خضر نے حضرت موسی کی مدد سے بنایا اور کسی سے کوئی معاوضہ نہ مانگا وہ دوتیوں کی ملکیت تھی اور اس دیوار کے نیچےان کے والد کا خزانہ موجود تھا ۔ حضرت خضر نے غیبی اشارے سے تیموں کے مال کی حفاظت کا سامان بہم پہنچا یا تھا ۔ حضرت موسی نے ان امور کے ظاہری پہلو کچھ کر اعتراضات کیے تھے ۔ حیرت فروش : تیران صحرانورد : صحراود جنگل کی خاک چھاننے والا ، بے روز وشب فرداو دوش : مانی ومستقبل کی قید سے آزاد ۔ فروش : ہنگامہ بشور خرقہ دیر ینہ ، پرانا کرتا ۔ پیرایہ پوش : لباس پہنے ہوۓ ۔ آپ زندگی : زندگی بخش پانی مراد ہے جسے آب حیات کہتے ہیں اور جسے پینے سے ہمیشہ کی زندگی نصیب ہو جاتی ہے ۔ فطرت اسکندری : باشاہی کی فطرت ملوکیت ۔ گرم ناؤ نوش : کھانے پینے بیش وعشرت میں مصروف ۔ ہاشمی : مکہ مکرمہ کے شریف حسین کی طرف اشارہ ہے جسے سلطنت عثمانیہ نے مکہ کا شرایف مقرر کیا تھا اور جو پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ سے باغی ہوکر اتحادیوں سے بہا ملا اور اسے حجاز کا بادشاہ بنا دیا گیا ۔ ناموس دین مصطفی : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی عزت مراد ہے ۔ ترکمان تخت کوش : محنت کش ، بهادر و جری ترک اولا دا برانیم : حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی اولاد مسلمان قوم مراد ہے ۔


بندسوم 


جواب خضر


 صحرانوردی 


کیوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تھے ؟

 یہ تگا پوۓ دمادم زندگی کی ہے دلیل


 اے رہینِ خانہ تونے دہ سماں دیکھا نہیں

 گونجتی ہے جب فضاۓ دشت میں بانگ رحیل


 ریت کے ٹیلے پر وہ آہو کا بے پروا خرام 

وہ حضر بے برگ و ساماں ، دو سفر بے سنگ ویل !


 وہ نمود اختر سیماب پا ، هنگام صبح

 یا نمایاں بام گردوں سے میں جبرئیل !


 ده سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب

 جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بینِ خلیل ! 


اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں

 اہل ایماں جس طرح جنت میں گردِسلسبیل !


 تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش 

اور آبادی میں تو زنجیری کشت و نخیل !


 پختہ تر ہے گردش پیہم سے جام زندگی

 ہے یہی اے بے خبر ! راز دوام زندگی


 توضیحات

 صحرانوردی ویرانوں اور جنگلوں کی خاک چھاننا ۔ تکاپوۓ دمادم مسلسل جدوجہد محنت و کوشش میں خانہ : گھر میں رہنے والا ۔ سال : منظر فضاۓ دشت : جنگل کی فضاء بیابان کا ماحول ۔ بانگ رحیل : قافلے کے کوچ کی گھنٹی کی آواز ۔آہو : ہرن ۔ بے پروا خرام : بے فکری کی چال ۔ حضر : قیام بھہراؤ ۔ بے برگ و ساماں : بغیر کسی سامان اور اسباب کے ۔ بے سنگ ویل : راستوں میں میل کےنشانات وغیرہ کے بغیر مسافت کے حساب کے بغیر نموداختر سیماب یا پارے کی ی تیز حرکت کرنے والے ستارے کا طلوع ہوتا ۔ گام صبح صبح کے وقت ۔ بام گردوں : آسمان کی بہت حسین جبرئین : حضرت جبرئین کی پیشانی ۔ مقام کارواں قافلے کا پڑاؤ سکوت شام : شام کی خاموشی چشم جہاں بین : دنیا کو دیکھنے والی آنکھ مراد ، دانا اور صاحب بصیرت شخص خلیل حضرت ابراہیم جن کا لقب خلیل اللہ ہے ۔ سودائے محبت محبت کی دیوانگی ۔ زنجیری : گرفتار ۔ پابند کشت وقیل : کھیت اور کھجور یعنی زمین اور باغ وغیر دسلسبیل : بہشت کی ایک نہر کا نام ۔ پختر : مضبوط ۔ گردش پیم بمسلسل گردش ، دائی حرکت ول ۔ راز دوام زندگی ابدی زندگی کاراز ، پیشہ پینے کاران ۔


 بند چہارم 


زندگی 


برتر از اندیشہء سود و زیاں ہے زندگی 

ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی


 تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ

 جاو داں ، پیہم رواں ، ہر دم جواں ہے زندگی


 اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

 سر آدم ہے ، ضمیر کن فکاں ہے زندگی


 زندگانی کی حقیقت کوھکن کے دل سے پوچھ

 جوئے شیر و تیشه و سنگ گراں ہے زندگی


 بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوۓ کم آب

اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی


 آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے 

 گر چہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی


 قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب

 اس زیاں خانے میں تیرا امتحان ہے زندگی 


 خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو

 پختہ ہو جاۓ تو ہے شمشیر بے زنہار تو


 توضیحات 

برتر : بلند ۔ اندیشہ : فکر ، ڈر ، خوف ، سوچ و بچار سودوزیاں : نفع ونقصان تسلیم جان : جان کی سپردگی قربانی ۔ پیا نه امروز وفرد ) : حال اور مستقبل کا حساب ۔ جاوداں : ابدی ، ہمیشہ ۔ تیم دواں : ہر وقت بھاگنے والی مسلسل محوسفر سر : مجید ، راز ، کن وکان بعمل تخلیق ۔ کوچکن : پہاڑ کاٹنے والا فرہاد کی طرف اشارہ ہے جس نے اپنی محبوبہ شیر میں ‘ ‘ کی خواہش کی تعمیل میں بے ستوں نام کا پہاڑ کاتا ۔ جوئے شیر : دودھ کی نہر ۔ سنگ گراں : سخت پہاڑ ۔ بندگی : غلامی ۔ جوۓ کم آب : تھوڑے پانی والی نہر ۔ بحربیکراں : وسیع سمندر ۔ شکار : ظاہر ۔ قوت تسخیر : فتح کرنے کی طاقت و صلاحیت مٹی کا پیکر : انسان کا ظاہری وجودمراد ہے ۔ نہاں : پوشیدہ قلزم ہستی : زندگی کا سمندر ۔ مانند حباب بلبلے کی طرح ۔ زیاں خانہ : قید خانہ ، دنیا مراد ہے : خام : کچا ، ناپختہ ۔انبار : ڈھیر شمشیر بے زنبار : بے پناہ کاٹ والی تلوار ۔ 


 بند پنجم 


ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ

 پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے 


پھونک ڈالے یہ زمین و آسان مستعار

 اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے


 زندگی کی قوت پنہاں کو کروے آشکار

 تا به چنگاری فرونج جاوداں پیدا کرے


 خاک مشرق پر چمک جاۓ مثال آفتاب 

 تا بدخشاں پھر وہی لعل گراں پیدا کرے


 سوئے گردوں نالہ شبگیر کا بھیجے سفیر 

سات کے تاروں میں اپنے راز داں  پیدا کرے


 یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے

 پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے


توضیحات 

صداقت : سچائی ۔ پیکر خا کی بیٹی کا جسم مستعار : مانگی ہوئی ۔ خاکستر راکھ قوت یہاں پیشید وقوت ۔ آشکار : نظام فروغ جاوداں : ہمیشہ کی چمک ، دائمی چک ۔ بدخشان : افغانستان کے ایک مقام کا نام جہاں کے لحل مشہور ہیں ۔ سوۓ گردوں : آسمان کی طرف ۔ نالۂ شب گیر : رات کا رونا ۔ رازداں : راز کے جاننے والے ، دوست اور ہمدرد محشر : قیامت ۔ عرصہ محشر قیامت کا میدان ۔ دفتر : اعمال نامہ مراد ہے ۔


 بند ششم 


سلطنت


 آبتاؤں تجھ کو رمز آیہ ان الملوک 

سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری 


خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

 پھر سلادیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری


 جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز

دیکھتی ہے  حلقه گردن میں ساز دلیری


 خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں

 توڑ دیتا ہے کوئی موسی طلسم سامری


 سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے

 حکمران اک وہی ، باقی بتان آزری 


از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن

 تا تراشی خواجه ، از برمن کافر تری


 ہے وہی ساز کو کہن مغرب کا جمہوری نظام

 جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوۓ قیصری


 دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

 تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی نیلم پری


 مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق

 طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری


 گرمی گفتار اعضاۓ مجالس ، الامال

 یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری


 اس سراب رنگ و بو کو گلستان سمجھا ہے تو

 آہ ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو 


توضیحات

 رمز : مجید ، اشارہ ۔ آمیوان الملک : سورہ نمل کی اس آیت مقدس کی طرف اشارہ ہے جس میں حضرت سلیمان اور بلقیس کے قصے کے ضمن میں مرقوم ہے کہ جب بادشاہ کسی گاؤں میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کر دیتے ہیں اور وہاں کے معزز باشندوں کو رسوا ذلیل کر دیتے ہیں ۔ اقوام غالب : غلبہ رکھنے والی تو میں جو طاقت کے بل پر حکومت کر میں حکمران قومیں محکوم : غلام ۔ سامری : جادوگر ۔ جادوئے محمود : مراد ہے حکمران کا جادو اور فریب ۔ایاز : غلام مراد ہے ۔ ساز دلبری محبوبی کا ساز ۔ اسرائیل : حضرت یعقوب کی اولا و جنہیں قرآن میں بنی اسرائیل کہا گیا ہے ۔ یہاں اسرائیل سے حضرت موئی “ مراد ہیں طلسم سامری : سامری کا جادو ۔ سامری نے حضرت لوی کی غیر حاضری میں بنی اسرائیل کی عبادت کے لیے سونے اور چاندی کا نچڑا بنایا اور قوم کو گمراہ کیا ۔آخر حضرت موی نے اسے توڑا ۔ سروری : سرداری ۔ ذات بے ہمتا خدائے بزرگ و برتر ، جس کا کوئی شریک ثانی نہیں ۔ بتان آزری : حضرت ابراہیم کے والد آزر کے بناۓ ہوۓ بت ۔ نواۓ قیصری : شاہی آواز ۔ دیواستعداد ظلم و جبر کا جن مطلق العنان شخصی حکومت مراد ہے ۔ پاۓ کوب ، ناچنے والا ، جنگ زرگری : دولت کے لیے جنگ ۔ گرمئی گفتار : کلام ، باتیں گفتگو کی گرمی و جوش ۔ الامان : پناہ بخندا ۔ سراپ رنگ و بو : رنگ و بو کا فریب ، دھو کا قفس : پنجرہ 



بند ہفتم


سرمایہ ومحنت 


 بندہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے

خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیامِ کائنات


اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر 

شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات


 دست دولت آفریں کو مزدیوں ملتی رہی

 اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات 


سائر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیش 

اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات 


نسل ، قومیت ، کلیسار سلطنت ، تہذیب رنگ

 " خوانگی ' ' نے نوب چین چین کے بناۓ مسکرات


 کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے

 سکر کی لذت میں تو لٹوا گیا نقہ حیات


 مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

 انتہاے سادگی سے کھا گیا مزدور مات


 اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

 مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے 


توضیحات 

حیلہ گر : بہانہ تراش کر کر نے والا ۔ برات عاشقان برشاخ آہو ۔ فاری ضرب المثل ہے جس سے مراد یہ ہے کہ عاشقوں کا مقصد حاصل ہو ناممکن نہیں ۔ دست دولت آفر میں : دولت پیدا کرنے والے ہاتھ یعنی محنت کشش و مزدور ۔ مز دو اجرت مزدوری ، اہل ثروت : امیر لوگ ، دولت مند ۔ ساحر الموط : حسن بن صباح مراد ہے جس نے قزوین کی پہاڑیوں میں الموط نامی ایک قلعہ بنایا تھا ۔ برگ حشیش : بھنگ کی پتی ۔شاخ نبات : مھری کے کوڑے کی تیلیاں مصری مراد ہے ۔ خواہگی : آقائی سرمایہ داری مسکرات : مع مسکر ، نشہ آور چی زیں سکر : نشہ ۔ نقد حیات : زندگی ۔ بزم جہاں : دنیا کی محفل ۔ انداز : طورطریق


 بندہشتم


 ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول

 غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک 


نفره بیداری جمہور ہے ، سامان عیش

 قصہء خواب آور اسکندر و تم کب تلک


 آفتاب تازه پیدا بطن گیتی هوا

 آساں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک


 توڑ ڈالیں فطرت انساں نے زنجیر میں تمام

 دور کی جنت سے روتی پشم آوم کب تلک ؟


 باغبان سارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہار

 زخم گل کے واسطے تدبیر مرہم کب تلک


 کر مک تاوان طواف شمع سے آزاد ہو 

اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو !


 توضیحات 

ہمت عالی : بلند ہمتی غنچہ ساں : غنچے کی طرح نغمہء بیداری جمہورعوام کی بیداری کا گیت ۔ قصہ ، خواب آور : نیند لانے والے قصہ ، سلانے والی کہانی ۔ آفتاب تازہ : نیاسورج ۔ بطن گیتی : دنیا کا پیٹ ۔ زنجیر یں : پابندیاں مراد ہیں ۔ چارہ فرما : معالج ، چارہ گر مسیجا ۔ گرمک ناداں : نادان اور بے مجھ پنگا ۔ بجلی زار : جلوہ گاہ جہاں انوار کی بہتات ہوتی ہے ۔


  بندنہم


 دنیاۓ اسلام 


کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں 

مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز


 لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل 

" خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک مجاز


ہوگئی رسوا زمانے میں کلام اللہ رنگ

 جو سراپا ناز تھے ، ہیں آج مجبور نیاز


 لے رہا ہے سے فروشان فرنگستان سے پارس

 وہ مئے سرکش ، حرارت جس کی ہے مینا گداز


 حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی

 ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز 


ہو گیا مائند آب ارزاں مسلمان کا لہو

 مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز 


گفت رومی پر بنائے کہند کا باداں کنند

 می ندانی اول آن بنیاد را ویران کنند ؟


 توضیحات

 مثلیث کے فرزند : عیسائی مراد ہیں ۔ میرا خلیل : حضرت ابراہیم کی میراث ، مراد ہے مسلمانوں کا در خداور تر کہ خشت بنیاد : بنیاد کا پتھر کلاہ لالہ رنگ : سرخ ٹوپی ، مرادتر کی ٹوپی مجبور نیاز : بجز واطاعت پر مجبور ۔ سے فردشان فرنگستان : مرادفرنگی اور بی ومغربي شراب بیچنے والے ۔ سے سرکش : تیز و تند شراب ۔ مینا گداز : صراحی کو پگھلا دینے والی گاز قینچی ۔ ارزاں : ستا ، عام مضطرب بیقرار ۔ بناۓ کہنہ : پرانی بنیاد اور عمارت ۔ داناۓ راز : مجید سے واقف ، راز جانے والا ۔


  بنددہم


 ملک ہاتھوں سے کیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں 

 حق تراچشمے عطا کر دست نافل درنگر


 مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست

 مور بے پر ! حاجت پیش سلیما نے مبر 


ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات

 ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر


پر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو

 ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر


 ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

 نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر


 جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جاۓ گا

 ترک خرگاہی ہو یا اعرابی  والا گہر !


 نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی

 اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک را بگذر


 تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پر استوار

 لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر 


اے کہ نشاسی خفی را از جلی ، ہشیار باش

 اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش


 توضیحات 

 غافل درنگر : اے غافل غور سے دیکھے ۔ مومیائی : ہڈیاں وغیرہ جوڑنے کی دوا ۔ گدائی : بھیک مانگنا ۔ مور بے پر بے پر لینی حقیر چیونٹی حاجت پیش سلیمانے مبر : اپنی ضرورت حضرت سلیمان کے سامنے نہ لے جا ۔ ربط وضبط : اتحا دملت بیضا : ملت اسلامیہ ۔حصار دین : دومین کی چار دیواری ، پناہ گاہ - حفظ حرم : کعبہ کی حفاظت شمر : پھل ۔ ترک خرگاہی : شاہی خیمہ میں رہنے والا ترک ۔ اعرابی والا گہر : عالی خاندان سے تعلق رکھنے والا عرب ۔استوار : قائم ۔ اسلاف : آباؤ اجداد ، جمع سلف خفی : پوشیدہ چلی : ظاہر بند کا پہلا مصرع قبال کی نظم شمع وشاعر کا ہے مگر با نگ درا کی اشاعت کے وقت اقبال نے اسے حذف کر دیا تھا ۔ 


 بند یاز دہم 


عشق کو قریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی

 اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ


تو نے دیکھا موت رفتار دریا کا عروج

 موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ


 عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے

 اے مسلمان آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ


 اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود 

مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہاں پیر دیکھ


 کھول کر آنکھیں مرے آئینہء گفتار میں

 آنے والے دور کی دھندلی سی ایک تصویر دیکھ


 آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس

 سامنے تقدیر کے رسوائی تدبیر دیکھ 


مسلم استی سینه را از آرزو آباد دار

 ہر زمان پیش نظر لا یخلف المیعاد دار


 توضیحات 

سطوت : شان وشوکت ۔موج منفطر : بیقرارموج ۔حریت : آزادی ۔ خاکستر : راکھ خاک ۔ جہاں پیر : بوڑھی اور پرانی دنیا ۔ سمندر : آگ کا کیڑا ۔ آئینہ گفتار : کلام کا آئینہ ۔ آزمودہ : آزمایا ہوا ۔ رسوائی مد بیر : تدبیر کی ذلت عقل کی رسوائی ۔ ہر زماں : ہرلمحہ ، ہر گھڑی ۔ لا خلف المیعاد : اللہ تعالی اپنے وعدے سے نہیں بھرتا ، یعنی اللہ تعالی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ ان کلمات سے سورہ آل عمران کی ایک آیت کی طرف اشارہ ہے ۔



رہی ہے ۔ یعنی مغرب نے جو جمہوریت کا تصور پیش کی ہے وہ مطلق العنانی ہے کوئی نظام حکومت نہیں ۔ اگر یہ اچھا دکھائی دے رہاہے تو اظر کا دھوکہ ہے مجلس آئین وآئین و اصلاح رعایت اور حقوق کے نام سے مغربی حکومت نے جو اصلاحات نافذ کی ہیں اور جس و مطلب چھوٹی قوموں کے لیے خاص حقوق اور اہل ملک کے لیے بعض عہدوں کو عام کرتا ہے ۔ 
یہ اور پی طلب کے کرتے ہیں ۔ اور بی قانون ساز مجلسوں کے اراکین کی تقدیر میں خدا کی پناہ کا نقشہ ہے ان پرزور تقریروں کی میت پور میں چلے گا کہ طلب کے مزے تو مجھے میں گر اس کا اثر خواب آوری ہے ۔ بظاہر یہ گولیاں بھی تی ہیں مگر پی غفلت کی نیند طاری کر کے کھانے والے کے ذہن کو مفلوج و ماؤف کر دیتی ہیں ۔ بھی سرمایہ داروں کی ایک جنگ ہے ۔ یہ بھی عوام کو بہاۓ رکھنے اور فریب دینے کا ایک طریقہ ہے ۔ بیرنگ و گو کا سراب ہے جسے نظر کے دھوکے سے تو نے باغ سمجھ لیا ہے ۔ آہ ! تو کتنا سیدھا سادہ بھولا نادان ہے کہ تو نے اس پنجرے کو اپنا آشیاں ( گھر سمجھ لیا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ مغربی حکومت اور اس کا نظام اور طور طریق جسے تو نے اپنے لیے فائدہ مند سمجھا ہے ، تیرے لیے زہر قاتل ہے ۔ 

 بند ہفتم کی تشریح 


 سرمایہ و محنت


 اس بند میں تھر نے شاعر کے چوتھے سوال کا جواب دیتے ہوئے سر مایہ محنت کی حقیقت پر روشنی ڈال ہے ۔ خواجہ خضر شاعر کو کہتے ہیں کہ مزدور کو جا کر میرا یہ پیغام سنادے ۔ میرا یہ پیغام ذاتی پیغام نہیں بلکہ کائنات کا پیغام ہے ۔ یہ عصر حاضر کا پیغام ہے ۔ قدرت اور فطرت کا پیغام ہے ۔ میری آواز میں زمانے کی آواز شامل ہے ۔
 اے مزدور بھی کوئی لم اور کار سرمایہ دار ھیلوں اور بہانوں سے کیا گیا ہے ۔ نت نئے طریقوں سے تیرا خون چوستا رہا ہے ۔ تھے یوں محنت کرتے کرتے صدیاں گزر گئیں مگر مجھے تیری محنت کا بدلہ نہ ملا ۔ 
تجھے پیٹ بھر کر بھی روٹی نصیب نہ ہوئی ۔ تجھے تیری عرق ریزی کا صلہ نہ ملا ۔ تو نے دولت پیدا کی ۔اپنی شب و روز کی محنت سے سرمائے کو فروغ دیا ۔ بی سرمائے کے نشانات ملیں ، کوٹھیاں ، بلند عمارات تیری ہی محنت کا نتیجہ ہیں ۔ محنت و مشقت تو کرتا رہا ہے اور امیر امیر سے امیر تر ہوتا چلا گیا ہے ۔ اگر وہ تجھ کو بھی تیری محنت کا عوض ( اجرت ) دیتا بھی ہے تو یوں کہ جیسے وہ تجھے زکوۃ دے رہاہو یعنی اس نے وہ رقم تیری مزدوری کے بدلے میں نہیں دی بلکہ یوں دی ہے کہ گو یادہ تجھ پر ترس کھا کر تجھ پر تم کر رہا ہو ، احسان کر رہا ہو ۔ 
جس طرح حسن بن صباح لوگوں کو بھنگ پلا کر قلعہ الموط میں لے جاتا اور انہیں وہاں کی سیر کرا کے اپنا گرویدہ بنا لینے کے بعدان سے جو کام چاہتا ، لے لیتے ، اس طرح سرمایہ دار نے تجھے بھنگ پلا دی ہے اور تو مد ہوش ہو کر اس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے ۔ افسون ہے تو نے اس بھنگ کو کوزہ مصری سمجھ لیا ہے ۔ اس نے تجھے غفلت و بے ہوشی کا زہر پلایا ہےمگر تو اسے اپنے حق میں آب حیات مجھے ہے ۔ تو کتنا سادہ لوح ہے کہ خود کو سرمایہ دار کا محتاج سمجھ رہا ہے حالانکہ سرمایہ دار تیرا محتاج ہے ۔
ان سرمایہ داروں نے مجھے مد ہوشی کرنے اور فریب میں بنا رکھنے کے لیے مل قومیت کیا ہے اور تک کیا تھا کے پھندے پھیلاۓ ہوۓ ہیں ۔ جب بھی مزدور مل کر سرمایہ دار کے خلاف آواز بلند کرنے کی پیش کرتے ہیں سرمایہ داران کے درمیان انتشار پیدا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی فقط پیدا کر دیتا ہے ۔
 سبھی ذات پات کا سوال بھی قومیت کا مسئلہ بھی علی ساکا پر جس کی وجہ سے پادری سینکڑوں سال تک یورپ کے سیاہ سفید پرقابتی ہے ۔ بھی تہذیب کا بال بچھا کر عوام کو بیوقوف بنا یا اور کورے کالے کی تقسیم میں الجھا دیا گیا ۔ اے مزدورا تو سرمایہ دار کے ان جیلوں سے غافل رہا اور وہ تجھے طرح مرنے کے خواب دکھا کر فر یہاں میں اچھا کر تیرا خون پوستار ہا ۔ تو کتنا نادان ہے کہ ان خیالی و اوتاؤں کے لیے کٹ مر تار باور نشے کی لذت میں مدہوش ہو کر زندگی گنوا بیٹھا ۔ سرمایہ دار جیلوں اور بہانوں سے کامیاب ہوتا چلا گیا اور مزدور اپنی سادگی اور بھولپن میں مات کھا تا چلا گیا مگر جو ہونا تھا ہو گیا ۔ اسے مز دوراٹھ ، اب زمانے کی ہوا بدل چکی ہے ۔
 زمانے کے طور طریق اور ہی ہیں ۔ اب تیرے دور کا آغاز ہورہا ۔ تیرا زمانہ شروع ہورہا ہے ۔ ایشیا ہو یا یورپ ، مشرق ہو یا مغرب ، ہر جگہ تیری ترقی اور عظمت کے دور کی ابتدا ہو چکی ہے ۔ اب سرمایہ دار کے ہتھکنڈوں کا زمانہ گذر چکا ہے ۔ 1917 ء کے انقلاب روس نے سرمایہ داری کے طلسم کو پاش پاش کر کے دنیا کے تمام مزدوروں کو ایک مرکز پر جمع کرنے کی طرف قدم اٹھایا ہے ۔ تو اٹھ کر ہمت اور کوشش سے اپنے حقوق ہوا اور اپنی محنت کا پو راحت طلب کر ۔ 

  بند ہشتم کی تشریح


 یہ بند گذشتہ بنار سے پیوستہ ہے ۔ اس میں بھی حضرت خضر نے مزودر کو جد و جہد اور سی کا پیغام دیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ بلند ہمتی تو دریا بھی قبول نہیں کرتا اور تو نیچے کی طرح اپنے دامن میں شینم کے دو قطروں پر قناعت کر کے بیٹھا ہے ۔ یہ پست بھی چھوڑ اپنے ارادے بلند رکھ ۔ تو اپنی شب و روز کی محنت کے صلے میں معمولی سے معاوضے پر خوش ہو کر بیٹھا رہتا ہے ۔
 اب یہ روش ترک کر ۔ تیری عالی ہمتی کو تو دریا بھی قبول نہیں کرنے چاہئیں ۔ عزم و ہمت سے کام لے دنیا تیری ہی ہے ۔ تو کب تک سکندر و جمشید جیسے بادشاہوں کی رنگین کہانیاں سننے میں مگن رہے گا ۔ اب وہ زمانہ آ گیا ہے جبکہ ہر طرف عوام کی آزادی کے نفے گونج رہے ہیں ۔ ان افخموں کو سن ، جانگ اور منجیل ۔
 زمانے کی کوکھ سے ایک نیا سورج ابھرا ہے ۔ اے آسمان تو کب تک ڈوبے ہوئے تاروں کے ماتم میں مشغول رہے گا ۔ نئے سورج سے مراد سرمایہ داری کے خلاف انقلاب ہے ۔ انسان نے وہ تمام زنجیر میں توڑ ڈالی ہیں جو اس کی فطرت کو بے بس اور مجبور بنانے کے لیے تیار کی گئی تھیں ۔ آخر آدم کی آنکھ کب تک جنت کی دوری اور جدائی میں روتی رہتی ؟ اس شعر سے مراد یہ ہے کہ امیر ہو یا غریب انسان کی فطرت ایک ہی ہے ۔ 
مگر دنیا میں غریب اور امیر نے اپنے درمیان فاصلے حائل کر رکھے ہیں ۔ سرمایہ دار دنیا ہی میں بہشت کے سے مزے لے رہا ہے جب کہ غریب بیچارے کو دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ۔ اب آخر کار فطرت انسانی نے جوش مارا ہے اور امیر وغریب کا فرق مٹا کر انہیں ایک صح پر لانے کی ہمت کی ہے ۔ آدم بیچارہ کب تک جنت سے محرومی کے احساس میں روتا رہتا ۔ اب مزدور سرمایہ دارانہ نظام کو نیست و نابود کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوۓ 
ہیں فطرت انسانی دور نخیر یں تو رہی ہے جس نے اسے قید کر رکھا تھا ۔ با فیان پھولوں کے دنوں کے لیے مر مر کا بندو بست کر رہا تھا مگر اب بہار آ گئی ہے اور اس پارہ کر با بیان سے کہہ رہی ہے کہ تیری ان تدبیروں سے کہاں تک پھولوں کے زخم مندمل ہو سکتے ہیں ۔ میں آ گئی ہوں اب خود کو ان کا علاج ہو جائے گا ۔ 
اس شعر میں سرمایہ دار کو یا قربان اور مزدور کو چول سے تصور پر دی گئی ہے ۔ بہار ٹوٹی و صرت اور شادکامی کے وقت کی علامت ہے ۔ علامہ کی مراد ہے کہ جس طرح پھولوں کے زخم باغبان کی تر بیروں سے نہیں کر سکتے ۔ اسی طرح سرما بیداروں کی طفل تسلیاں بھی رکھی اور آزردہ حال مزدور توسلین نہیں دے سنیں ۔ اب مزدور بیدار ہورہے ہیں ۔ شادکامی اور کامرانی کا وقت آ رہا ہے اور یہ وقت خودان کے زنموں کا اند مال کر دے گا ۔ اے ناداں پتنے شمع کے طواف سے نکل ۔ اس کے دائر دائر سے باہر آ ۔ تیری فطرت خود روشن جلوؤں سے معمور ہے ۔ اس کی طرف رجوع کر ۔ اس شعر میں بھی پہلے سے مزدور اور شیع سے سرمایہ دار مراد ہے ۔ علامہ کہتے ہیں کہ اے نادان مزدور سرمایہ دار کے چنگل سے نکل ، اپنی ذات کونول ، تجھے بہت کچھ ملے گا ۔

  بندنہم کی تشریح 


 دنیاۓ اسلام 

شاعر نے نظم کے پہلے بند میں جو سوالات حضرت خضر سے کیے ہیں ، ان میں سے ایک سوال ، دنیائے اسلام کی بابت بھی تھا ۔ اس بند میں حضرت خضر اسلامی ممالک کی بد حالی بیان کرتے ہوئے ایک روشن مستقبل کی خوشخبری سناتے ہیں ۔ شاعر سے کہتے کہ تو مجھے عربوں اور ترکوں کی کہانیوں کیا سنا رہا ہے ؟ مجھے سب علم ہے ۔ میں مسلمانوں کے سوز و ساز اور ان کے حالات و کیفیات سے بے خبر نہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ اسلامی میراث تو عیسائی تو میں چین کے لئے گئی ہیں ۔
 حجاز کی مٹی گر جے کی عمارت کی بنیا دانیٹ بن گئی ہے ۔ گویا اسلامی کھنڈرات پر عیسائی سلطنت کی بنیادرکھی گئی ہے ۔ ترکوں کی سرخ ٹوپی زمانے بھر میں ذلیل ہوکر روئی ہے ۔ جن کی گردنیں کبھی فخر وغرور سے تی ہوئی تھیں ، آج بے بسی اور مجبوری سے سے بھی ہوئی ہیں ۔ یعنی کل کائنات میں جو معزز ومحترم تھے ، آج رسوا ہوئے ہیں ۔ ایرانی فرنگی سے فروشوں سے وہ تند و تیز شراب لے رہے ہیں جس کی حدت وزارت سے عراقی پکھل جائے گی ۔ مراد یہ ہے کہ ایران اور پی تہذیب اپنار ہا ہے جو اس کے حق میں زہر قاتل ہے ۔ 
مغر بی حکومت نے حیلہ و تدبیر سے اسلامی قوم کا شیراز ولیوں بکھیر دیا ہے جس طرح قینچی سونے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے ۔ مسلمانوں کا لہو پانی کی طرح ارزاں ہو گیا ہے ۔ تو اس بات پر مضطرب و بے قرار ہے کہ تیرا دل اس کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت سے ناواقف ہے ۔ مجھے مسلمانوں کی اس حالت پر کڑھنانہیں چاہیے کہ وہ کبھی دنیا پرحکمران تھے ۔
 آج متعدد گروہوں اور حکومتوں میں بٹ کر اپنی دیر ہی عظمت کیوں کھو چکے ہیں ۔ نیز مذہبی رشتے توڑ کر فرعی تہذیب و تمدن کی طرف کیوں جھک رہے ہیں ؟ اگر اسلامی قوتی منتشر اور جروح ہوگئی ہے اور زمانے میں مسلمانوں کا خون ستا ہو گیا ہے تو گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں تو نے 
از سرتو اس پر عمارت کھڑی کرتے ہیں ؟ ار مار کر رہی ہے یا کھاتے ہیں اور اسکے بعد مال یہ ہے کہ ترکوں اور مسلم ملکوں کی بربادی پر کرمند ہونے کی ضرور ہیں ۔ اسلام کے اندر سے سرے سے ایک تاز دروح پھونک دے گا ۔

  بند دہم کی تشریح 


اس بند میں علامہ اقبال نے حضرت خضر کی زبان سے مسلمانوں کومتحد ومنظم ہونے کا سبق دیتے ہوئے ان کی غیرت و اہمیت کو ابھارا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ ملک ہاتھوں سے گیا تو غافل ار بے خبر قوم کی آنکھیں کھل گئیں ۔ قوم بے بی کی نیند سے جاگ بھی جوہوتا تحاد وتو ہو گیا مگراے غافل دیکھ ، قدرت نے آنکھ عطا کی ہے ۔
 مومیائی کی بھیک مانگنے سے تو بہتر ہے کہ انسان اپنی ہڈیوں کوٹو ٹاہی رہنے دے ۔ اگر چہ تو بے پر کی چیونٹی کی طرح ہے لیکن تیری غیرت و ہمت کا تقاضا یہی ہے کہ تو کسی سلیمان کے پاس اپنی ضرورت لے کر نہ جا ۔ مراد یہ ہے کہ اگر زخموں کے علاج کے لیے مرہم کی ضرورت ہوتو ، اس کی بھیک مانگنے سے تیرے زخموں کا بے علاج رہنا ہی بہتر ہے ۔ اگر تو غریب اور بدحال ہے تب بھی کسی بادشاہ یا دوسری امیر قوم کا محتاج نہ بن ۔
 مشرق کی نجات اس میں ہے کہ ملت بیضا ایک مرکز پر متحد ومنظم ہو جاۓ لیکن افسوس ایشیا والے ابھی تک اس راز سے بے خبر ہیں ۔اے مسلمان ! سیاست کا پیچھا چھوڑ کر پھر دین کی پناہ گاہ میں آجا ۔ دولت اور حکومت یہ بھی کچھ کہنے کی حفاظت کا صلہ ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ملک وحکومت سب کچھ تجھے اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حرم پاک کی حفاظت کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک ایک مضبوط رشتے میں منسلک ہو جائیں یعنی دین اسلام کی حفاظت کے لیے ( جوان کا سب سے بڑا فرض ہے ) تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ذات پات ، رنگ ونسل اور فرقہ وگردہ کے بکھیڑے چھوڑ کر ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں ۔ جورنگ اور نسل کے امتیاز میں الجھارہے گادو ختم ہو جاۓ گا ۔ وہ چاہے شاہانہ خیموں میں زندگی بسر کر نے والا ترک ہوا درخواکسی اونچے گھرانے کا عرب !
 اگر مسلمان اپنے خون اور نسل کو مذہب پر ترجیح دے گا تو مٹ جائے گا اور اسے کے غبار کی طرح اڑ جائے گا ۔ ہمت اور کوشش کر کے کہیں سے بزرگوں جیسے حو صلے اور عزائم سے بھر پور قلب وجگر حاصل کر کہ دن میں اسلامی خلافت کی بنیاد پر قائم ہو سکے ۔ اس بند کے آخری شعر میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کے فرقوں کی باہمی کشمکش کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اے بے خبر اتو ظاہری اور بانی تھی وہ باتوں میں نہیں کر سکتے ہیں تا کہ ا و ر ر ر کیا تو حضرت 
ابوبکر اور حضرت علی کے متعلق جھگڑوں میں الجھا ہوا ہے کہ حضرت ابوبکر افضل تھے یا حضرت علی ۔ غیر ضروری مسئلے کے گرد گروہ بند ہوں چھوڑ اور ہوشیار ہو یا اقبال نے ان فرقہ بندی وں اور اختلافات کو شرک ھی پوشیدہ اور چھپا ہوا شرک ) قرار دیا ہے ۔

  بند یاز دہم کی تشریح 


اس بند میں علامہ اقبال حضرت خضر کی زبان سے ملت اسلامیہ کی نشہ تا تامیہ پر مسرت و خوشی کا سبق دیتے ہوئے مسلمانوں ۔ فرماتے ہیں کہ ۔ عشق کا ایک ہی فرض تھا کہ جو جو مصیبتیں اس پر ٹوٹی ہیں اور اس نے جو جو سختیاں جھیلی ہیں ، تاکہ وفریاد سے ان کا اظہار کر دے ۔ یہ کام انجام پا چکا ہے ۔اب ذراعیر کر اور اس فریاد کی تا شیرو لکھے ! و کچھ خدا کیا کرتا ہے ؟ تو نے دریا کی رفتار کی شان دیکھی ہے ۔ اب ذرا یہ بھی دیکھے کہ پانی کا بے قرارمونیں اس کے لیے زنجیر بنتی ہیں ۔ اس شعر میں علامہ اقبال نے 1912 ء میں لکھی ہوئی شمع و شاعر نظم کی پیش گوئی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ نظم ' ' شمع و شاعر ' ' کا شعر ملاحظہ ہو یہ پوری نظم یا تنگ درا میں ہے )

 دیکھ لو کے سطلوت رفتار دریا کا مآل 
موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جاۓ گی 

مراد یہ ہے کہ تم نے مغربی قوموں کا عروج تو دیکھ لیا ، اب دیکھنا ہے کہ ان کا عروج ان کی بربادی کا موجب کیسے بنتا ہے ۔ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے جو عام آزادی کا خواب دیکھا تھا ، اے مسلمان ! د کچھ اس خواب کی تعبیر تیرے سامنے ہے ۔ اب اسلام کے تصور آزادی عام ( ایمنی آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے ) کے پاکیزہ اصول پر کار بند ہونے کا زمانہ آ گیا ہے ۔ سمندر ( آگ کا کیر ) کو دیکھو جب وہ مر کر ختم ہو جا تا ہے تو اپنی را کھ ہی سے دوبارہ جنم لے لیتا ہے ۔ یہی کیفیت اس بوڑھی دنیا کی ہے یہاں نت نئے انقلار بات آتے رہتے ہیں اور یہ مرکر دوبارہ جنم لیتی رہتی ہے ۔
 آنکھیں کھول کر میری گفتار کے آئینے میں دیکھ ، تجھے آنے والے زمانے کی دھندلی سی تصویر نظر آۓ گی یعنی میری باتوں میں تھے مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والی بہت کی باتوں کا بھی پتہ چل سکتا ہے ۔ اس بات سے خبر داررہ کر کہ آسان کے پاس ایک اور بھی آزمایا ہو فتنہ ہے ۔ ووقتہ یقینا ظاہر ہو گا ۔
 رضائے الہی کے سامنے سب تدبیر میں بیکار ثابت ہوتی ہیں تو مسلمان ہے تو آزرو کو ہمیشہ اپنے سلیقے میں آبادر کھ اور پیشہ خدا کے اس فرمان کو پیش نظر رکھ کہ اللہ تعالی بھی اپنے دعدے کے خلاف نہیں کرتا ‘ ‘ ۔ خدا کا وعدہ ہے کہ جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی بسر کرے گا ۔ وہ ان کو نیا اور آخرت میں بلندی اور نیک نامی بخشے گا ۔ تو اس کی رحمتوں سے نا امید نہ ہو ، وہ اپنے وعدے بلد یا بد بیضرور پورے کرے گا اور تھے ضروری و کامرانی نصیب ہوگی ۔

نظم خضر راہ کا خلاصہ

 اس نظم کے دو کردار ہیں ۔ ایک شاعر اور دوسرے حضرت خضر لا تمثیلی انداز میں شروع ہوتی ہے ۔ رات کا سال ہے اور شاعر دریا کے کنارے ٹہل رہا ہے کہ اچانک اسے حضرت خضرمل جاتے ہیں ۔ شاعران سے ملاقات کا فائدہ اٹھا کر ان سے کچھ سوال کرتا ہے کہ آپ ہمیشہ سفر میں کیوں رہتے ہیں ؟ اس دائمی صحرانوردی کا راز کیا ہے ؟ زندگی کسے کہتے ہیں ؟ سلطنت کس کا نام ہے ؟ یہ سرمایہو محنت میں کیا کشمکش ہورہی ہے ؟ نیز مسلمانوں کی زبوں حالی کی وجہ کیا ہے ؟ حضرت خضر شاعر کے ایک ایک سوال کا جواب دیتے ہیں ۔ 
صحرانوردی کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ جومزے اور لطف اس گردش تیم اور مسلسل دوڑ دھوپ میں ہے ، ایک گھر میں بیٹھنے والا آدی اس کا احساس نہیں کر سکتا بلکہ صحرانور دہی صیح معنی میں مناظر قدرت سے لطف اندوز ہوسکتا ہے ۔ حضرت خضر شاعر کو بتاتے ہیں کہ یہی مسلسل تگ و تاز زندگی ہے ۔ 
اس گردش تیم سے زندگی کا جام پر ہو جا تا ہے ۔ زندگی کے بارے میں وہ شاعر سے کہتے ہیں کہ یہ بھی فنا نہیں ہوتی ۔ ہمیشہ رواں دواں اور جواں رہتی ہے ۔ صداقت کے راستے میں مرنے کی تڑپ زندگی کا سب سے بلند مقائم ہے ۔ بظاہر بیٹی کے پیکر میں پوشیدہ نظر آتی ہے ۔ لیکن یہ اپنی وقت تسخیر سے ظاہر ہوتی ہے ۔ آزادی کی زندگی ایک بحر بیکراں ہے ، جبکہ غلامی کی زندگی ایک چھوٹی سی ندی کی طرح ہے ۔
 زندگی کا لطف تب ہی ہے کہ تو اپنے زور بازو سے کام لے کر اپنی دنیا آپ پیدا کرے ۔ اپنے اندر وہ چنگاری پیدا کرے جو باطل کو نیست و نابود کر کے رکھ دے ۔ سلطنت کے بارے میں حضرت خضر فرماتے ہیں کہ غالب قوموں کی حکومت بھی ایک قسم کی جادوگری ہے ، و محکوم کو نت نئے حیلے بہانوں سے سلائے رکھتے ہیں ۔اگر بھی وہ ان کے خلاف ذرا سا سراٹھاۓ تو اسے ایسے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں کہ وہ پھر بے حس ہو جا تا ہے ۔ صحیح اور حقیقی حکومت تو خدا تعالی کی ہے ، باقی سب حکومتیں اور حکمران جھوٹے ، عاجز اور مجبور ہیں ۔
 سرمایہ محنت کے باہمی تعلق کی وضاحت کرتے ہوۓ حضرت خضر شاعر کو بتاتے ہیں کہ دولت تو مز دور ہی پیدا کرتا ہے مگر وہ خود اس سے محروم رہتا ہے ۔ سرمایہ دار غر یوں کا خون چوس چوس کر مال وزر جمع کرتا جا رہا ہے مگر غریب کو وہ اس کی محنت کا پورا اجر بھی نہیں دیتا ۔ اگر اسے مزدوری بھی دیتا ہے تو اس لیے انہیں کہ وہ اس کا حق ہے بلکہ اس طرح کہ گویا وہ اس پر احسان کر رہا ہے ۔ لیکن اب زمانہ بدل رہا ہے ۔ 
مز دور ہوشیار ہو کر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سراٹھا رہا ہے وہ اب اس کوشش میں ہے کہ سرمایہ داری نظام کو تار تار کر دے ۔ وہ خود کوسرمایہ دارانہ حلقہ اثر سے باہر نکال رہا ہے ( یادر ہے اقبال اشترا کی انقلاب اور مزدوروں کی قدر روانی کو اسلامی نظام حیات کا ایک پہلو سمجھتے تھے ) دنیاۓ اسلام کی زبوں حالی کا رونا روتے ہوۓ حضرت خضر نے فرمایا کہ اس بد حالی کی وجہ یہی ہے کہ مسلمان اسلامی تعلیمات کھول کرفرنگی تہذیب وتمدن کے دلدادہ ہور ہے ہیں ۔ یورپی اقوام نے مسلمانوں کو مختلف فرقوں ، حکومت اور گروہوں میں تقسیم کر کے ان کی وحدت پاش پاش کر دی ہے اور ان کے درمیان جو اسلام کارت ها و روز بروز کر ر ہوتا اور چلا جا رہا ہے ۔
 یہی وجہ سے کہ دنیا میں ان کی حالت نا گفتہ بہ ہے ۔ آخری بندوں میں حضرت خضر نے مسلمانوں کو ایک مرکز پر متحد اور منظم ہونے کا سبق دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کا نصب امین حلوم ہے ، دولت اور سلطنت نہیں بلکہ دین ہے ۔ انہیں چاہیے کہ وہ دین کی حفاظت کے لیے رنگ نسل اور ذات کے امتیازات مٹا کر اکٹھے ہو جا ئیں ۔ یورپ کی برتری اب زیادہ دیر تک نہیں رہے گی مسلمانوں کو نا امید ہونا چاہیے ۔ دور این اسلام پر کار بند رہ کر اپنے بلند مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں ۔ خدا نے ان سے جو وعدے کیے ہیں ، وہ انہیں ضرور پورا کرے گا ۔ خدا کا ایک وعدہ ہی ہے کہ حقیقی مسلمان دنیا میں غالب رہیں گے ۔ جواب شکوہ ‘ ‘ کے آخر میں اقبال نے خدا کی زبانی کہا تھا ۔ ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیرتری تو مسلماں ہوتو تقدیر ہے تد بیرتری کیر سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں۔

 نظم خضر راہ کا فکری تجزیہ

 نظم کا فکری تجزیہ یوں ہے کہ شاعر اضطراب کے عالم میں دریا کے کنارے ٹہل رہا ہے کہ اسے اچا نک حضرت خضر ملتے ہیں ۔ وہ ان سے صحرانوردی ، زندگی سلطنت پسر ما یہ ومحنت اور مسلمانوں کی موجودہ بدحالی کی بابت کچھ سوال کرتا ہے حضرت خضر ایک ایک کر کے اس کے سوالات کا جواب دیتے ہیں اور شاعر کو بتاتے ہیں کہ زندہ جاوید رہنے کا سبب سعی مسلسل ہے جس سے زندگی کی حقیقتیں انسان پر آشکا ہو جاتی ہیں ۔
طبیعت کی جستجو اور دل کی تڑپ کی نئی دنیائیں تلاش کرتی ہے جس سے زندگی کا ولولہ تاز دور ہتا ہے اور اس سے انسان کو دوام ملتا ہے ۔ نیز زندگی کو دن اور رات کے پیانوں سے نہیں نا پا جا سکتا ، میتو ہمیشہ رواں دواں ہے ۔ پھر حضر شاعر کو سلطنت کی حقیقت بتاتے ہوئے تنبیہ کرتا ہے کہ اصلاحات کے نام سے ہندوستان میں جو کچھ ہورہا ہے ، وہ غلامی کی زنجیروں کو اور محکم کر دے گا ۔ مجلس آئین ، اصلاحات اور رعایات وحقوق کے مزے تو میٹھے ہیں لیکن ان کا اثر برا ہے ۔ یہ بیدار ہوتی قوم کو پھر سے سلا کر رہیں گے ۔ پر خضر بندہ مزدور کی آزادی کا ذکر کرتے ہوۓ بتاتے ہیں کہ بادشاہت اپنی بساط سمیٹ رہی ہے ، سرمایہ دار کا جادو بے اثر ہور ہا ہے اور ہر طرف مشرق و مغرب میں بندہ مزدور کا زمانہ آ گیا ہے ۔
 آخری بندوں میں ملت اسلامیہ کی بے بسی اور بے کسی کا رونا ہے کہ مسلمان تباہ و برباد ہو گئے ہیں اور حجاز کی خاک پاک تک کلیسا کی زد سے نہیں بیچ سکی ۔ ترکوں کی کلا ولالہ رنگ کو زمانے نے رسوا کر دیا ہے اور اس کے پہننے والے جوکل تک سر بلند تھے ۔ آج خوار ہیں ۔ اور پی ریشہ دوانیوں نے ملت کو پارہ پارہ کر دیا ہے ۔ ان کی وحدت ملی کا شیرازہ منتشر ہو چکا ہے ۔ آخر میں انہیں جد و جہد کا سبق دیتے ہوئے ، وطنیت کے محدود دائرے سے نکلنے اور ایک ہی مرکز پر متحد ومنظم ہونے کی تلقین کرتے ہیں ۔ خطر انہیں سادات انسانی اور تربیت آدم کا پیغام دیتے ہوئے مالوں سے بچنے اور صیح اسلامی شعار پر زندگی بسر کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ 

نظم خضر راہ کا فنی تجزیہ 

معنوی خصوصیات کے علاوہ جہاں تک اس نظم کی فنی خوبیوں کا تعلق ہے ، اسے بانگ درا کی سب سے اچھی قلم کہا جا سکتا ہے ۔ اس کی ہیئت ترکیب بند کی ہے ۔ چونکہ بینظم موضوعات کے اعتبار سے مختلف مسائل کی عکاسی کرتی ہے الہندا اقبال نے ایک ایک بند میں ان مسائل پر الگ الگ روشنی ڈالنے کے لیے اس بیت کو منتخب کیا ہے ۔ مجموعی طور پر بھی فلم ایک بھر پور تاثر دیتی ہے ۔ اقبال کو اظہار خیال کے لیے ڈرامائی انداز بہت پسند ہے ۔ ڈرامائی انداز اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کے لیے مکالموں سے بھی کام لیتے ہیں ۔ ’ ’ شمع و شاعر ‘ ‘ با نگ درا کی ایک نظم کا آغاز بھی بڑے بے ساختہ ڈرامائی اور مکالماتی اسلوب سے ہوتا ہے ۔ ’ ’ خضر راہ میں بھی شاعر اس اسلوب سے کام لیتے ہوئے خضر سے سوال کرتا ہے اور جوا با خطر بھی اسی انداز میں گفتلوکر تے ہیں ۔ خضر راہ ‘ ‘ میں جگہ جگہ علامہ اقبال نے نادر اور انھوٹی تشبیہات اور استعارات سے کام لیا ہے ۔ مشا خضر کے بارے میں کہتے ہیں 

 " جس کی پیری میں ہے مانند کر رنگ شباب

 دیکھئے کتنی مکمل اور جامع تشبیہہ ہے۔مولا ناغلام رسول مہر کہتے ہیں 

 ” حضرت خضر کو پیراس لیے کہا ہے کہ عام تصور کے مطابق ان کی عمر بہت بھی ہے بیج سے تشبیہ سفیدی کے باعث دی ۔ پھر صبح کی روشنی میں ایک خاص شان اور چمک ہوتی ہے ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال نے اس ایک مصرع میں چند الفاظ کے ذریعے سے کتنی خوبیاں جمع کر دی ہیں اور لطف یہ ہے کہ مصرع میں بے تکلفی انتہائی نمایاں ہے ۔ دواور تشبیہات ملاحظہ ہوں 
۔ و نمود اختر سیماب پاہنگام صبح
 یا نمایاں بام گردوں سے جنین جبرئیل

 اور وہ پانی کے چشے پر مقام کارواں
 اہل ایماں جس طرح جنت میں گر وسلسبیل

 حضر راہ میں علامہ اقبال تراکیب سازی کے اعلی نمونے بھی پیش کیے ہیں جیسے جو یاۓ اسرار ازل ، تکاپو و ماوم زنجیری کشت دلیل نمیر کن فکاں ، پیا نه امروز وفردا ، دیواستبداد اسراب رنگ و بو ، دست دولت آفر میں سرمایہ دار حیله گر ، با غبان چار فرما ، حصار دیں وغیرہ ۔
خضر راوفی ومعنوی مصوری کی اعلی خصوصیات کے اعتبار سے علامہ کی دوسری نظموں کے مقابلے میں منفرد اور ممتاز ہے ۔ اس کا انداز دوسری نظموں سے جدا گانہ ہے ۔ اس میں نہ صرف اسلام بلکہ دنیاۓ انسانیت کے مسائل بھی روشنی ڈالی گئی ہے لہذا اس نظم کا معنوی دائرہ بہت وسیع ہو جا تا ہے ۔ بیلم اپنے محاسن شعری کی موجودگی کے سبب غزل سے بھی کچھ قریب ہو جاتی ہے کیونکہ یا یک کش تغزل کی امین بھی ہے ۔
 علامہ اقبال نے معترت خضر کی عمر اور طویل تجربے کی مناسبت سے نظم میں مناسب طوالت کے علاوواں میں ایک سنجید ولب ولہجہ اختیار کر کے کو یا معنوی اور فنی حکومت کو وحدت میں ڈھال دینے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔