ایک ادھورے خواب کا منظر آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
راتوں کا وہ چاند بنا ہے ، صبحوں کی تعبیر ہوا ہے ۔
درد سے جسکی خوب بنی ہو،جس نے دل پہ چوٹ سہی ہو،
وہ ہی شیلے ،کیٹس بنا ہے ، وہ ہی غالب ،میر ہوا ہے۔
ہجر کی اندھی شش جہتوں میں،ذات کی سجدہ گاہوں میں
عشق ہمارا مرشد ِ اولیٰ ، عشق ہی قبلہ پیر ہوا ہے ۔
کیا کیا منظر دکھلائے ہیں ،وقت کے رستے زخموں نے
دکھ کا گہرا سناٹا اب آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
آنکھ کی رتھ پر بیٹھا سپنا ، اس کا نام ہی جپتا ہے ۔
جس غزنی کے ہاتھ سے میرا دل مندر تسخیر ہوا ہے ۔
صرف ِ نظر سے کیسے کیسے کم ظرفوں کو ظرف ملا
اور ہماری آنکھ کا تنکا ہر اِک کو شہتیر ہوا ہے ۔
آج بھی میرے سر کی چادر ،تیرے عشق کا حجرہ ہے ۔
آج بھی تیرا نقش ِ کف ِ پا ، قدموں کی زنجیر ہوا ہے ۔
لفظ بنے ہیں میری شہرت ،عشق ہوا ہے وجہ ِ شہرت
ایک کئے ہے ہر سو رسوا ،ایک مری تشہیر ہوا ہے ۔
عشق دھمالیں ڈالتی آئی رانجھا رانجھا کرتے ہیر
لیکن کیا کوئی رانجھا ابتک ،عشق میں مثل ِ ہیر ہوا ہے۔
ایماں ایک زمیں زادے کے عشق کا ہے اعجاز فقط
یہ جو ایک سخن دیوی سے شعر نگر تعمیر ہوا ہے ۔
ایمان قیصرانی