ہجرتِ مدینہ || مسجد نبوی کی تعمیر || اذان کی ابتداء

admin

ہجرتِ مدینہ || مسجد نبوی کی تعمیر || اذان کی ابتداء

 ہجرتِ مدینہ ، مسجد نبوی کی تعمیر ، اذان کی ابتداء


قبا میں آمد


رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے 3 دن تک غارِ ثور میں رہے اور پھر عام راستوں کی بجائے تقریبا غیر آباد راستوں سے ہوتے ہوئے آٹھ روز کے سفر کے بعد آٹھ ربیع الاول 14 نبوی کو دوپہر کے وقت کو پہنچے ۔قبا مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر ہے اور وہ مدینہ کا ہی ایک معلہ سمجھا جاتا تھا مکہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی خبر کئی روز پہلے مدینے پہنچ چکی تھی اس لیے انصار مدینہ روزانہ صبح سے دوپہر تک بستی سے باہر نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں کھڑے رہتے تھے کہ آپ تشریف لاتے ہوئے نظر آئیں گے جب دھوپ بہت تیز ہوجاتی تو واپس اپنے گھروں کو چلے جاتے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ قبا کے نزدیک دوپہر کے وقت پہنچے اس لئے اہلِ قبا اپنے گھروں کو جا چکے تھے اتنے میں ایک یہودی کی نظر آپ پر پڑی اور اس نے پکار کر لوگوں کا اطلاع دی کہ جن کا انتظار تھا وہ تشریف لے آئے ہیں ۔یہ آواز سنتے ہی لوگ اپنے گھروں سے نکل پڑے اور سارے قبا میں خوشی سے شور مچ گیا اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فورا پیچھے سے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر چادر کا سایہ کر دیا ۔اس طرح لوگوں کو آسانی سے معلوم ہوگیا کہ آنے والے قافلے میں نبی کون ہے انصار کی چھوٹی چھوٹی بچیاں خوشی سے گیت گا رہی تھی غرض اہل مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال بہت شاندار طریقے سے کیا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں  کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالی عنہ  کے مکان میں ٹھہرے اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم دی گئی یہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹی سی مسجد کی تعمیر کرائی ۔یہ اسلام کی سب سے پہلی مسجد ہے قبا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 14 دن قیام  فرمایا ۔

آپ کو یاد ہوگا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی رات حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے بستر پر سلایا تھا بعد میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی لوگوں کی مانتیں واپس کرکے مدینہ کو ہجرت کر آئے اور قبا میں ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملے 14 دن حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں قیام کرنے کے بعد شہر کی طرف روانہ ہوئے راستے میں بنو سالم کے محلے میں نماز کا وقت آگیا ۔اتفاق سے دن جمعہ تھا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز یہیں ادا فرمائی۔ نماز سے پہلے خطبہ دیا اس طرح حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی نمازجمعہ تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمائی ۔مدینہ شہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے وقت لوگوں کو خوشی اپنی انتہا پر تھی ۔عورتیں مکانوں کی چھتوں پر چڑھ آئی تھیں۔  سب لوگوں کی خواہش تھی کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر آکر ٹھہرے ۔سب سے بڑھ کر آپ سے درخواست کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مہمان بنیے۔  ہماری جان و مال سب کچھ حاضر ہے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو اللہ کے حکم سے یہاں کہیں ٹھہرے گی وہی میرا قیام ہوگا آخر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کے سامنے اونٹنی بیٹھ گئی اس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے میزبان بنے۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات ماہ تک یہاں قیام فرمایا یہاں تک کہ مسجد نبوی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے حجرے تعمیر ہوگئے تو آپ وہاں منتقل ہوگئے ۔


مسجد نبوی کی تعمیر 

| مسجد نبوی کی تعمیر


مدینہ میں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد رسول خدا نے مسجد کی تعمیر کا فیصلہ کیا اس کے لئے جو زمین منتخب کی گئی وہ بنی نجار کے قبیلے کے دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی ۔انہوں نے مسجد کے لیے بلاقیمت نذر کرنا چاہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس کی قیمت ادا کردیں اس طرح مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا ۔مسجد بالکل سادہ بنائی گئی فرش بالکل کچا تھا اینٹیں کچی مٹی کی تھی جن سے دیواریں بنائی گئیں چھت کھجور کے پتوں اور لکڑی سے بنائی گئی تھی ۔مسجد کے ایک سرے پر ایک چبوترہ بنایا گیا اسے صفحہ کہتے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے تھا جو اسلام قبول کرتے تھے لیکن ان کا کوئی گھر نہیں ہوتا اس مسجد کی تعمیر میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عام مزدور کی حیثیت سے کام کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مٹی کھودتے اور اینٹیں اور پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے ۔

جب مسجد نبوی کی تعمیر ہو چکی تو مسجد کے بالکل ساتھ ہی آپ نے ازواج مطہرات کے لئے حجرے بنوائے ۔اس وقت حضرت عائشہ اور حضرت سودا ہی آپ کے نکاح میں تھیں۔  اس لیے دو ہی ہجرے بنے بعد میں جب دوسری بیویاں آپ کے نکاح میں آئیں تو ان کی ضرورت کے مطابق اور حجرے بنائے گئے یہ سب بھی کچی اینٹوں کے تھے اور چھت اتنی اونچی تھی کہ آدمی کھڑا ہو کر چھت کو آسانی سے چھو سکتا تھا ۔


اذان کی ابتداء

اذان کی ابتداء


اب تک کسی خاص علامت کے نہ ہونے کی وجہ سے نماز باجماعت کا کوئی انتظام نہیں تھا لوگ وقت کا اندازہ کرکے آتے اور نماز پڑھتے تھے ۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ طریقہ پسند نہیں آیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ سے مشورہ کیا کہ لوگوں کو کیسے نماز کے وقت کی اطلاع دی جائے تاکہ سب ایک ہی وقت میں مسجد میں آ جائیں ۔لوگوں نے مختلف رائے دیں لیکن آپ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے پسند آئی اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ نماز کے وقت اذان دیا کریں اس طرح ایک طرف تو نماز کی اطلاع ہو جاتی تھی دوسری طرف دن میں پانچ دفعہ اسلام کا اعلان ہو جاتا تھا ۔