نسیم شیخ کی محبت بھری اردو شاعری

admin

نسیم شیخ کی محبت بھری اردو شاعری

 نسیم شیخ کی محبت بھری اردو شاعری


غزل نمبر 1


پتہ چلا ہے کوئی ہے جو کھوجتا ہے مجھے

یہ سن کے دل مرے اندر سے نوچتا ہے مجھے


میں اپنے کان میں اس وقت چیختا ہوں بہت

شکست خوردہ اگر کوئی بولتا ہے مجھے


بتا رہی ہیں مرے دل کی دھڑکنیں مجھ کو

وہ جانے والا شب و روز سوچتا ہے مجھے


یہ میری جان کا دشمن ہے روزنِ احساس

یہ آنسوؤں سے بھگو کر نچوڑتا ہے مجھے


ہوئی ہے جب سے میاں عاجزی مری دشمن

جہاں سے چاہے جسے دیکھو توڑتا ہے مجھے


ضرور ہاتھ دعا کے اٹھے ہیں میرے لیے

ہر ایک رستہ مری سمت موڑتا ہے مجھے

 

کوئی تو ہے کہیں نزدیک چاہنے والا

جسے بھی دیکھو تبھی تو ٹٹولتا ہے مجھے


اٹھا کے پھینک دیا گھر سے آئنہ کیونکہ

پتا لگا تھا کہ کم ظرف تولتا ہے مجھے


یہ جانتا ہے تبھی تو یہ شور کرتا ہے

یہ شور ٹوٹ کے بکھروں تو جوڑتا ہے مجھے


اے میری موجِ نسیمی تجھے تو ہے معلوم

ترا خیال زمانے پہ کھولتا ہے مجھے


نسیم شیخ


غزل نمبر 2


دلِ تباہ کے خانے تلاش کرتا ہوں

میں یعنی صرف فسانے تلاش کرتا ہوں


میں اپنی ذات کا منکر مگر یہی سچ ہے

ملن کے خود سے بہانے تلاش کرتا ہوں


یہ ڈائری ہے مری اس کے چار چھ کاغذ

سیاہ کرکے خزانے تلاش کرتا ہوں


کوئی تو ہو جو کرے مجھ پہ وا مری تصویر

شکست پا میں زمانے تلاش کرتا ہوں


خسارہ میرے مقدر میں جو گیا لکھ کر

اسی کو اپنے سرہانے تلاش کرتا ہوں


دھڑکتے آبلے پیروں تلے کچلتے ہوئے

میں اپنے جیسے دوانے تلاش کرتا ہوں


لگا کے خود میں ہی غوطے بنامِ شعر و سخن

امان دیں وہ ٹھکانے تلاش کرتا ہوں


لہو کے دیپ جلا کر اندھیری راتوں میں

کچھ اپنے دوست پرانے تلاش کرتا ہوں


صدائے عشق لگا کر انا پرستوں میں

کیوں اپنے آپ کو جانے تلاش کرتا ہوں


بہا کے موجِ نسیمی خود اپنی آنکھوں سے

اے مخلصی ترے شانے تلاش کرتا ہوں


نسیم شیخ


غزل نمبر 3


یقین ہوتا نہیں خود پہ گر گماں ہوتا

تو میرا قصہ کہانی میں پھر کہاں ہوتا


کمند ٹوٹ کے ہاتھوں سے کیا مرے گرتی

میں اپنے دل کی طرح سے اگر جواں ہوتا


اگر میں عشق نہ کرتا تو پھر خدا کی قسم

خزاں رسیدہ درختوں کا ترجماں ہوتا


خدا کا شکر تخیل سے بن گئی میری

وگرنہ حسن ترا حسن رائیگاں ہوتا


لگا کے دائرے دیتا نہ خود کو میں چکر

جمالِ ذوقِ طلب مجھ میں جاوداں ہوتا


میں عشق زادہ نہ ہوتا تو پھر یقیں ہے مرا

میں عشق زادوں کا سالارِ کارواں ہوتا


اٹھا کہ بانہوں میں اس شاعری نے بھینچ لیا

میں ورنہ شہر میں شرمندہِ فغاں ہوتا


وجودِ عشق پہ ہوتا اگر یقین مرا

تو رقصِ آبلہ پا اس طرح کہاں ہوتا


میں زندگی تری تصویر کھینچ لیتا اگر

نسیم شیخ مرا نام پھر کہاں ہوتا


نہ ہوتی موجِ نسیمی نہ ہوتا شورِ فغاں

زبان ہوتے ہوئے میں جو بے زباں ہوتا


نسیم شیخ