ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر لطیف ساجد کی ایک خوبصورت غزل

admin

ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر لطیف ساجد کی ایک خوبصورت غزل


 جانے کس سمت رخِ لالہ و گُل جاتے ہیں

لوگ خوشبو کے نشانات پہ رُل جاتے ہیں


اب یہ اعجاز ہے مخصوص، عدالت کے لیے

کچھ گنہگار یہاں دودھ سے دُھل جاتے ہیں


جو کسی دشت وغیرہ میں نہیں جا سکتے

تیرے  لاہور کی آغوش میں رُل جاتے ہین


روز پربت سے بلاتا ہے کوئی شخص ہمیں

روز ہم شبنمی  آواز  میں گُھل جاتے ہیں


آمد  و  رفت   مفادات   سے  بالا   رکھنا

بند اونچے ہوں تو سیلاب میں پُل جاتے ہیں


ورنہ یہ دھوپ کبھی پیچھا نہیں چھوڑے گی

ایسا کرتے ہیں کسی پیڑ پہ کُھل جاتے ہیں


صرف رخسار ہی شاداب نہیں ہوتے لطیف

اشک گرنے سے کئی پاپ بھی دُھل جاتے ہیں


لطیف ساجد