علامہ محمد اقبال کی تصنیف ضرب کلیم کا تعارف اور تفہیم

admin

علامہ محمد اقبال کی تصنیف ضرب کلیم کا تعارف اور تفہیم

 علامہ محمد اقبال کی تصنیف ضرب کلیم کا تعارف اور تفہیم


ضرب کلیم کی اشاعت 1936ء کے وسط میں ہوئی بالِ جبریل اور ضرب کلیم یکے بعد دیگرے شائع ہوئیں ان کے درمیان کوئی فارسی کتاب حائل نہیں ہے ۔ضرب کلیم کی تمام نظمیں ایک خاص انداز میں بیان کی گئی ہیں اس کتاب کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت موسی نے فرعونی قوتوں پر کاری ضرب لگائی تھی، اس طرح علامہ محمد اقبال اس تصنیف کے ذریعے سے دور حاضر کی فرعونی قوتوں پر کاری ضرب لگانا چاہتے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کتاب کو خود ہی دور حاضر کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا ہے۔ دور حاضر اقبال کی ایک مخصوص اصطلاح ہے مغرب نے اپنے افکار کے ذریعے دنیا بھر میں جو گمراہیاں پھیلائی ہیں اور جن گمراہیوں کو لوگ راہ راست سمجھتے ہیں اور جن کی وجہ سے دنیا روزبروز اخلاقی اور روحانی لحاظ سے زوال کا شکار ہوتی جا رہی ہے ان گمراہیوں میں مبتلا افراد کے بارے میں علامہ اقبال نے بال جبریل میں لکھا تھا :

 مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
 کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری 


تہذیب حاضر کی اسی انسانیت دشمن آزادی کو علامہ اقبال نے بڑی تفصیل سے ضرب کلیم میں موضوع بنایا ہے اس کتاب کے پہلے حصے میں اسلام اور مسلمانوں کی زیرعنوان متفرق نظمیں ہیں ۔ پھر تعلیم و تربیت،عورت ادبیات اور سیاسیات مشرق و مغرب کے عنوانات قائم کرکے ہر عنوان کی ذیل میں اس کے مختلف پہلوؤں پر متعدد نظمیں درج کی گئی ہیں آخری حصے میں" محراب گل افغان کے افکار " کے زیر عنوان ایک فرضی کردار کے نام سے کچھ نظمیں تحریر کی گئی ہیں ۔

ضرب کلیم کی اکثر نظمیں  بے حد مختصر ہیں۔  اکثر نظمیں دو تین یا چار اشعار سے تجاوز نہیں کرتیں ہیں۔ تمام نظمیں ہر قسم کے حشووزوائد  سے بالکل پاک ہیں ۔خیالات براہ راست طریقے سے اور پرزور الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔ اگرچہ انداز بیان میں عمداً شعریت نہیں رکھی گئی مگر اس کے باوجود نظموں کے مطالعے سے یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ غیر شاعرانہ ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں جذبات ایک آگ کی طرح رواں ہیں جو پڑھنے والے کو پگھلا کر رکھ دیتا ہے علامہ اقبال کی تمام زندگی کی شاعرانہ مہارت اور مطالعے کا نچوڑ اس کتاب میں موجود ہے۔

اگرچہ اقبال  اپنا نظام فکر اس سے پہلے پیش کر چکے تھے مگر اس میں بعض نظمیں اتی واضح ہیں کہ انہوں نے اقبال کے افکار کے متعلق تمام غلط فہمیاں دور کر دی ہیں اس کتاب کے اکثر اشعار علامہ اقبال کے خیالات کی وضاحت کے لئے سند پیش کی جاتی ہے خاص طور پر علامہ اقبال کا نظریہ فن کے بارے میں جو کچھ اس کتاب میں کہا گیا ہے اور کہیں موجود نہیں دوسرے موضوعات بھی اسی طرح واضح ہیں ۔

علامہ اقبال نے اس سے قبل مسلمانوں کی بے عملی اور مغربی فلسفے کے ان پر ہلاکت آفریں اثرات کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ اس قطعے میں تمام و کمال بڑی خوبصورتی سے آگیا ہے ضرب کلیم کی اکثر نظموں کا اندازہ یہی ہے مثلا یہ ایک شعر ملاحظہ ہو :


گریز کشمکش زندگی سے مردوں کی 
اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست 

غرض علامہ اقبال کی اردو شاعری کے مستقل مجموعے تین ہیں بانگ درا ، بال جبریل اور ضرب کلیم ان کے علاوہ ارمغان حجاز کے کچھ حصے میں اردو کلام شامل ہے اس کے علاوہ بہت سے لوگوں نے مختلف ناموں سے اقبال کا کلام مرتب کیا ہے جو ان کے اب رائج  مجموعوں میں شامل نہیں اسی سلسلے میں عبدالواحد معینی ،محمد عبداللہ قریشی کی مرتبہ" باقیات اقبال " اور مولانا غلام رسول مہر اور صادق علی دلاوری کئی مرتبہ "سرودرفتہ " زیادہ مکمل ہیں۔ 

مگر ان دونوں مجموعوں میں اکثر کلام مشترک ہے۔  علاوہ ازیں تقریبا سارا کلام وہی ہے جو اقبال کا رد کیا ہوا ہے فنی شعر یا خیالات کی پختگی کے اعتبار سے یہ کلام زیادہ اہم نہیں مگر اقبال کے ذہنی ارتقا کا مطالعہ کرنے کے لئے اس کی اہمیت یقیناً بہت زیادہ ہے ۔