علامہ محمد اقبال ؓ کی تصنیف بالِ جبریل کا تعارف اور تفہیم

admin

علامہ محمد اقبال ؓ کی تصنیف بالِ جبریل  کا تعارف اور تفہیم


 علامہ محمد اقبال ؓ کی تصنیف بالِ جبریل  کا تعارف اور تفہیم

بانگ درا اور بال جبریل کی اشاعت کے درمیان تقریبا 12 سال کا وقفہ ہے ۔ان 12 برسوں میں علامہ اقبال کا کوئی اردو مجموعہ کلام شائع نہیں ہوا البتہ فارسی کے دو مجموعے چھپے۔

بال جبریل جنوری 1935ء میں طبع ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس میں وہ اردو کلام شامل ہے جو علامہ اقبال نے بانگ درا کی تکمیل سے بالِ جبریل کی اشاعت تک کہا تھا اس لحاظ سے یہ کتاب بہت اہم ہے کہ ان کے فارسی کلام میں جو کچھ صراحت سے بیان ہوا ہے وہی کچھ بالِ جبریل میں اشارةً آگیا ہے ۔

بال جبریل کا پہلا حصہ غزلیات پر مشتمل ہے ۔دوسرے حصے میں نظمیں ہیں۔دونوں حصے علامہ اقبال کی شاعری فن کے اعتبار سے بے حد اہم ہیں ۔جہاں تک افکار و خیالات کا تعلق ہے ان نظموں اور غزلوں میں وہی کچھ کہا گیا ہے جو ان کی فارسی کتابوں یا بانگ درا کے تیسرے دور کی بعض نظموں میں ہے ،البتہ اس کتاب میں غزل گوئی اور منظر نگاری کے تجربات کیے گئے ہیں وہ فنِ شعر کے اعتبار سے معجزے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

پہلے حصے میں پہلی 16 غزلیں بقیہ غزلوں سے الگ درج کی گئی ہیں۔  اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ زیادہ تر بعدالطبیعات موضوعات پر محیط ہیں ۔یعنی خدا،کائنات اور انسان کے  تعلق کو واضح کرتی ہیں۔ان کے بعض اشعار خاصے دقیق ہیں ۔اس کے بعد حکیم سنائی (جو فارسی کے اہم شاعرہیں اور جن کی پیروی مولانا روم نے کی ہے)کی غزل میں قصیدہ نما غزل ہے اور پھر غزلیات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ان غزلیات میں وہ تمام موضوعات اشارے کنائے ،علامت یا صراحت  کے ساتھ آگئے ہیں جو ان سے پہلے بھی اقبال کے فارسی اور اردو کلام میں موجود ہیں مگر جن موضوعات کا ذکر کثرت سے آتا ہے وہ یہ ہیں :

خودی، عشق، کشمکش حیات ،فقر، وجدان اور عقل کا تقابل ،اسلام کی طرف واپسی یا دوسرے لفظوں میں ان تمام عناصر کا اسلام سے اخراج جو مسلمانوں نے غیر مذاہب سے لے کر اسلام میں داخل کر لیے ہیں ۔ان کے علاوہ صوفی و ملا کی بے عملی، مغرب کے مشرق پر ہلاکت خیز اثرات، مغربی تعلیم کے نقصانات وغیرہ کو بھی بار بار بڑے زور دار اشعار میں بیان کیا گیا ہے ۔

بالِ جبریل کی غزلیات اردو غزل کی پوری تاریخ میں ایک نئی آواز ہیں۔ ان کے انداز بیان میں ایسی ایسی جدتیں ہیں جو ان سے پہلے کی غزلیات میں نہیں ہے ۔ان کا ذخیرہ الفاظ نیا ہے ان کی تشبیہات، استعارات اور تصویریں نئی ہیں ان کے زمینیں نئی ہیں،  ان میں سینکڑوں نئی تراکیب ہیں اور ظاہر ہے کہ جو خیالات پیش کئے گئے وہ بھی اس سے پہلے غزل میں بیان نہیں ہوئے تھے گویا علامہ اقبال نے غزل کا باطن بھی تبدیل کر دیا ہے اور ظاہر بھی یہ صنفِ غزل میں بہت بڑا تجربہ ہے اس تجربے نے جدید غزل گو شعرا کو بہت متاثر کیا جدید اردو غزل میں تجربات کی جو افراط نظر آتی ہے ان کا بالواسطہ یا بلاواسطہ سلسلہ بالِ جبریل کی غزلیات تک جاتا ہے یہ غزلیات اپنے نقطہ آفرینی اور اندازِ بیان کی  دل کشی کی وجہ سے بہت متاثر کرتی ہیں ۔

غزل کا یہ انداز اردو غزل کی تاریخ میں یقیناً نیا ہے اور جب قاری اس سے کسی قدر آشنائی حاصل کر لے تو اس کی غرابت دور ہوجاتی ہے اور ایک نئی دنیا کا دروازہ اس پر وا ہو جاتا ہے ۔

بال جبریل میں اکثر نظمیں مختصر ہے مگر تین طویل نظمیں بھی اس میں شامل ہیں جن میں سے ہر ایک کے بارے میں مختلف نقاد یہ آراء رکھتے  ہیں کہ یہ علامہ اقبال کی بہترین نظمیں ہیں ذوق و شوق مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ  ایسے عظیم کارنامے ہیں جن پر کوئی بڑی سے بڑی ترقی یافتہ زبان بھی فخر کرسکتی ہے نقادوں  کے درمیان یہ فیصلہ تو شاید کبھی نہ ہو سکے کہ ان میں سے بہترین نظم کون سی ہے لیکن اس پر بہت سے نقاد متفق ہوجائیں گے کہ ان سے بہتر نظمیں اور علامہ نے نہیں لکھیں ۔ذوق و شوق ایک لاجواب نعتیہ نظم ہے مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ میں علامہ اقبال کے تمام نظریات کا خلاصہ موجود ہے تینوں نظموں کا خلوص اندازِ بیان اور موضوع کی ہم  آہنگی اور زورِ بیان ایسا ہے کہ بہت کم یکجا ہوپاتاہے پھر نظموں کا ربط و تسلسل دیدنی ہے ۔

مختصرنظموں میں طارق کی دعا ،الارض اللہ، لالہ صحرا ،زمانہ، شاہین وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں بالِ جبریل کے آخر میں چند نظمیں ایسی بھی ہیں جن میں خیالات کا اظہار براہ راست طریقے سے کیا گیا ہے مثلا آزادی افکار ،یورپ ،سینما فقر، وغیرہ اس اندازِ بیان کو علامہ اقبال نے ضربِ کلیم میں اور بھی چمکایا ہے ۔