داڑھی کے بالوں کی گنتی,ایک سبق آموز واقعہ

admin

داڑھی کے بالوں کی گنتی

داڑھی کے بالوں کی گنتی


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی زندگی کا آخری سال تھا ایک دن آپؓ نماز ادا کرنے کے بعد منبر پر بیٹھ گئے ۔ آپ نے خطبہ پڑھا اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے لگے اس کے بعد ارشاد فرمایا: اے لوگو! دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی عنقریب اس دنیا سے رخصت ہونا ہے تم مجھ سے وہ باتیں پوچھ لو جو تم نہیں جانتے تاکہ تمہاری معلومات میں اضافہ ہو؟ 

 


مجلس میں چند لمحے خاموشی رہی اس کے بعد ایک کوفی شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے علی! اب جبکہ تم ہر چیز جانتے ہو ، مجھے بتاؤ کے میری داڑھی میں کتنے بال ہیں؟

 


حضرت علیؓ مسکرائے اور اپنے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے لیکن ابھی آپ نے کوئی بات شروع نہ کی کہ مجلس کی خاموشی ٹوٹ گئی اور ہر طرف سے چہ میگوئیوں کی آواز آنے لگیں سب نے اپنی گردنے بلند کیں اور سوال کرنے والے کو دیکھنے لگے اور انتظار کرنے لگے کہ آپؓ اس سوال کیا جواب دیتے ہیں۔

 


حاضرین میں کچھ دشمن بھی موجود تھے اس لئیے کہنے لگے علی کوئی جواب نہ دے سکیں گے ۔ ہر شخص کی داڑھی کے بالوں کی تعداد الگ الگ ہوتی ہے ۔ اس لئے حضرت علیؓ کو کیسے معلوم ہے کہ اس کے بالوں کی تعداد کتنی ہے ؟

 


اسی طرح حضرت علیؓ کے نادان دوست کہنے لگے کہ حضرت علیؓ اس کی داڑھی کے بالوں کی تعداد بتائیں گے۔ دانا دوست کہنے لگے جو کچھ بھی ہے حضرت علیؓ کا جواب درست اور مناسب ہوگا۔ جس شخص نے سوال کیا تھا اور سوچ رہا تھا کہ معلوم نہیں علی کو میرے سوال کا جواب معلوم ہے یہ نہیں، اگر اس نے کہ دیا کہ (تین ہزار) تو کیسے معلوم ہو گا کہ یہ جواب درست ہے یہ نہیں۔ اس طرح مجبورا علیؓ کا جواب قبول کرنا ہوگا لیکن اس کی دلیل بھی دریافت کروں گا، اگر علی نے مزاح کرتے ہوئے جواب دیا کہ تمہاری داڑھی کے بالوں کی تعداد تمہارے سر کے بالوں سے نصف ہے تو اس وقت پوچھوں گا کہ میرے سر کے بالوں کی تعداد کتنی ہے۔

 


چند لمحوں کے بعد حضرت علیؓ نے حاضرین سے پوچھا کہ اس سوال کا درست جواب کون جانتا ہے؟ حاضرین میں سے کوئی جواب دینے کے لئے تیار نہ ہوا اور مجلس میں چند لمحے خاموشی رہی، اس کے بعد پھر سر گوشیاں شروع ہو گئیں، دشمنوں نے دوستوں سے کہا، تم نے دیکھ لیا ہے علیؓ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔ نادان دوست کہنے لگے : کیوں نہیں علیؓ کو سب کی داڑھی اور سر کے بالوں کی تعداد معلوم ہے۔ ابھی صبر کرو تاکہ سب کچھ معلوم ہو جائے۔ دانا دوست کہ رہے تھے جلدی نہ کرو علیؓ چاہتا ہے کہ ہمیں بھی سوچنے کا وقت دےتا کہ تمہارے جواب کی طرف متوجہ ہو۔

 


کسی نے جواب نہ دیا  

حضرت علیؓ کی خدمت مین ایک آزاد کردہ غلام قنبر نامی رہتا تھا جو علیؓ کے مکتب کا تربیت یافتہ، آپکا خدمت گار اور جانثار تھا سب لوگ اس کو پہچانتے تھے جب بھی علیؓ مسجد سے نکلتے تو قنبر آپ کے ہمراہ رہتا اس موقع پر بھی قنبر دروازے پر نہایت خاموشی سے کھڑا تھا اور گفت و شنید سن رہا تھا۔ جب مجلس سے کوئی جواب دینے کے لیے نا اٹھا تو علیؓ نے قنبر کو آواز دی اور کہا: آؤ اور اس شخص کو جواب دو؟

 


لوگ اسی طرح باتیں کر رہے تھے۔ دشمن کہ رہے تھے۔ علیؓ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور پہلو تہی سے کام لے رہا ہے ابھی تھوڑی دیر میں قنبر اپنی تلوار کی زبان سے اس شخص کو دندان شکن جواب دے گا۔

 


نادان دوست کہنے لگے علیؓ چاہتا ہے کہ اس شخص کو سمجھائے کہ قنبر بھی تمہاری داڑھی کے بالوں کی تعداد کو جانتا ہے اس لئے میرے لئے اس کا جواب دینا ضروری نہیں ہے۔ دوست کہ رہے تھے ۔ اس شخص کا جواب اتنا اہم نہیں ہے کہ خود علیؓ اس کا جواب دیں حالانکہ قنبر بھی اسے جانتا ہے، اس طرح ہر شخص کچھ نہ کچھ کہ رہ تھا۔ 

 


قنبر نے سوال کرنے والے سے کہا! اے مرد، اگر تو لوگوں کا بدخوا نہیں ہے اور سچے ہو تو اس بات کی تصدیق کرو کہ اس سوال سے تمہارا کیا مقصد کیا ہے ؟ ایسا معلوم ہوتا ہے تمہارا مقصد اپنے علم میں اضافہ نہیں ہے بلکہ تجھے تمہاری غفلت اور بدبختی نے اس بات پر امادہ کیا ہے کہ مسلمانوں کے پیشوا سے عجیب و غریب سوالات پوچھو یا پھر چاہتے ہو کہ اپنے آپ کو نازک مزاج اور زیرک ثابت کرو اور حیرت انگیز سوالات سے جاہلوں کی توجہ اپنی طرف دلانا چاہتے ہو۔ لیکن یاد رکھو علیؓ کو وہ سب معلوم ہے جس میں تمہاری بھلائی ہے۔ 

 


میں تمہیں جواب دے سکتا ہوں لیکن اس سے قبل کہ تمہارے سوال کا جواب دوں تم کو معلوم ہونا چاہئے کے تمہاری داڑھی کے ہر بال میں شیطان بیٹھا ہوا ہے جو تمہارے دل میں وسوسے ڈالتا ہے، اور تمہیں راہ راست سے دور کر رہا ہے۔ اے مرد! ہم روز پانچ نمازوں میں کئی مرتبہ اللہ تعالی سے دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں سیدھے اور نیکوں کے راستے پر رہنمائی کرے اور ہمیں مجرموں اور گمراہوں کے راستے سے روکے لیکن تمہارا سوال اس قسم کا نہیں ہے کہ گمراہی سے بچے رہو، جو شخص راہ راست کی تلاش میں رہتا ہے وہ نیکی اور بھلائی کے سوالات پوچھتا ہے اور ایسی دعا مانگتا ہے کہ جس کو جاننے یا حاصل کرنے میں اس کی اپنی یا دوسروں کی سعادت اور بھلائی ہو، یہ تو محض شیطان کا وسوسہ ہی ہوتا ہے جو انسان کو ایسی چیزوں کا پوچھنے اور جاننے پر امادہ کرتا ہے جس میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

 


میں تمارا جواب دے سکتا ہوں لیکن یاد رکھو انسان کی عمر چھوٹی ہے، جو لوگ اپنا وقت، عمر اور سوچ بےہودہ باتوں میں ضائع کر دیتے ہیں تو انہیں مفید باتوں کے سیکھنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس لئے ہر روز تہی دست رہتے ہیں اس وقت ان کی کوئی قدر ع قیمت نہیں رہتی وہ کمزور اور زیر دست بن جاتے ہیں اور دشمن ان پر غلبہ پا لیتا ہے پھر ایسے لوگ آجاتے ہیں جو ان پر حکومت کرتے پہں۔

ہماری رہنمائی کے لیئے اللہ تعالیٰ کی کتاب موجود ہے جس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی کتاب بھی آسمان کے ستاروں، فرشتوں اور پیغمبروں کی تعداد بیان نہیں کرتی اس لئے کے کئی چیزوں کو شمار کرنا بے حاصل ہے جب تک کہ اس میں فائدہ نا ہو، جو شخص بیمار کی نبض کی گنتی کرتا ہے طبیب کہلاتا ہے۔ ایسا شخص بیماری کا سبب دریافت کرتا ہے لیکن دین کے پیشوا انسانی روح کے طبیب ہوتے ہیں۔

 


ہمارے پیغمبر ﷺ بھی اس لئے تشریف لائے کے لوگوں کی راہ راست کی طرف رہنمائی کریں۔ اس لئے تشریف نہیں لائے کے سالن میں پکی ہوئی دال کے دانوں کو شمار کیا جائے یا اپنی اور دوسروں کی داڑھی کے بال گنے جائیںں۔

 


سوال کرنے والا ابھی تک نہایت بے صبر تھا اس لئے کہنے لگا اے قنبر! تونے وعظ اور نصیحت تو کر دی ہے لیکن میرے سوال کا جواب نہیں دیا؟

 


قنبر نے کہا، میں اس کام میں مشغول ہوں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ موضوع زیر بحث زیادہ روشن ہو سکے، اس لئے مجھے بتاؤ کہ تمہارا پیشہ کیا ہے؟سوال کرنے والے نے کہا، میرا پیشہ ترازو سازی ہے۔ میں کھجور کی لکڑی، اس کے ریشے اور پتوں سے ترازو بناتا ہوں اور فروخت کرتا ہوں لیکن میرے پیشے اور سوال میں کونسا ربط ہے ؟

  

قنبر نے کہا اس میں ربط یہ ہے کہ اگر ایک ترازو ساز ایک سال خرچ کرے اور کوشش کرے کہ عمدہ اور بہتر ترازو بنائے تو یقینا ایسے ترازو کی پائداری اور فائدہ زیادہ ہو گا لیکن اگر وہ دو دن صرف کرے اور خود ہی اندازہ کرتا رہے کہ چند ماش اور چنا کے دانے ہم وزن ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے اپنا وقت ضائع کیا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ جاننے اور سمجھنے میں سعادت ہے لیکن مفید باتوں کو جاننا اور سمجھنا چاہئے۔ ہاں اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہاری داڑھی کے بالوں کی گنتی تمہارے لئے سود مند ہو سکتی ہے تو میں تم کو اس کا جواب بھی دے سکتا ہوں اور تمہیں مطمئن کر سکتا ہوں۔

 

 


سوال کرنے والا ابھی سنبھلنے ہی نہ پایا تھا کہ کہنے لگا مجھے اس کا کوئی خاص فائدہ تو معلوم نہیں ہے لیکن میں نے ایک سوال پوچھا ہے جس کا جواب جاننا چاہتا ہوں۔ قنبر نے کہا: مجھے بھی اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا لیکن ایسے سوال سے دوسروں کا وقت ضائع کرنے اور بچوں کے افکار کو گم راہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ لیکن تم ابھی تک اپنے سوال کا جواب مانگنے پر اصرار کر رہے ہو؟ بہت بہتر! کیا تم گنتی اور حساب جانتے ہو اور ہزار سے لے کر دس ہزار تک گنتی کر سکتے ہو؟ اس نے کہا ہاں جانتا ہوں۔

 


قنبر نے کہا: اے بھائی! جو لوگ عقل مند ہیں وہ کئی مفید کام کرتے ہیں اگر تجھے کسی کام کی فکر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مفید سوال پوچھنا چاہتے ہو تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ مکمن ہے اس گنتی سے تمہارا کوئی ذاتی مسئلہ حل ہو جائے گا، بہر حال یہ کام نہایت آسان ہے۔ تمہاری داڑھی کافی لمبی ہے اسے قینچی سے کاٹ دو اور اپنے سامنے رکھ لو اور بیٹھ کر نہایت آرام سے گنتی کر لو کہ کتنے بال ہیں اگر اب بھی راضی نہیں ہو تو مجھے بتاؤ۔

 


مسجد میں بہٹھے ہوئے لوگ بہت خوش ہوئے۔ کئی چہروں پر مسکراہٹ چھا گئی اور گنگناہٹ شروع ہو گئی۔ دوست اور دشمن ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ دشمنوں نے کہا، ہم بھی اس موضوع سے غافل تھے قنبر درست کہتا ہے۔ نادان دوست کہنے لگے واقعی عجیب سوال اور عجیب جواب تھا۔ دانا دوستوں نے کہا، یہی وجہ تھی کہ علیؓ نے اس کے جواب کے لیئے اپنے غلام کو حکم دیا ہے۔

 


سوال پوچھنے والے نے شرمندگی سے کہا، اے قنبر! تونے درست کہا ہے اور مجھے غفلت کے خواب سے بیدار کر دیا ہے۔ اور راہ راست پر لے آئے ہو۔ اب میں اپنی داڑھی کے بالوں کی گنتی معلوم نہیں کرنا چاہتا پہلے تو میں بھی خوش تھا کہ عجیب سوال پوچھ رہا ہوں لیکن اب سمجھ گیا ہوں کے کوئی عجیب اور بے حاصل مسئلہ پوچھنا ہنر مندی نہیں ہے۔ میں شیطانی وسوسوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتا ہوں اس کے علاوہ اس امر سے زیادہ خوش ہوں کہ اگرچہ سوال بہودہ تھا لیکن جواب دینے والا عقلمند تھا۔