حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کا مکمل واقعہ

admin

حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کا مکمل واقعہ

 

ابلیس کی جنت سے نکالے جانے کے بعد ایک ہی سوچ تھی کہ وہ ایسا کیا کرے جس سے سیدنا آدم علیہ السلام کو رسوا کرسکےایک دن ابلیس نے دیکھا کہ جنت کے تمام دروازے بند ہیں مور اور سانپ باہر کھڑے ہیں ان کو دیکھ کر ابلیس نے چال چلنے کا سوچا 


ابلیس فوراً جنت کے دروازے پر کھڑے مور کے پاس پہنچا اور ہمدردانہ لہجہ اپنا کر کہنے لگا کہ بہت جلد تمہیں اور آدم علیہ السلام کو جنت سے نکال دیا جائے گا،ایسا کرو تم مجھے جنت میں لےجاؤ تو بدلے میں تمہیں ایک ترکیب بتاؤں گا میں دعوی کرتا ہوں جس پر عمل کرکے تم اور آدم علیہ السلام کبھی جنت سے نہیں نکلو گے


مور ابلیس کی بات سُن کر فکر مند ہوگیا کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا کہ تمہاری بات تو میرے دل کو لگی ہے، لیکن میں تمہیں اندر کیسے لیکر جاؤں؟ وہ بھی اتنے محافظوں کے ہوتے ہوئے، تو ابلیس نے فوراً جواب دیا کہ


 کیا تم نہیں جانتے میں منتر پڑھکر خود کو ایک موتی میں تبدیل کرسکتا ہوں؟ تم مجھے اپنے منہ میں دبا کر جنت کے اندر لےجانا یہ کہہ کر ابلیس نے منتر پڑھا اور خود کو چھوٹے موتی میں بدل لیا پھر مور نے ابلیس کو اپنے منہ میں رکھ کر جنت میں داخل ہوا.. 


یوں ابلیس ملعون ایک مور کی مدد سے جنت میں داخل ہوگیا یہ مور ابلیس کو منہ میں لیکر سیدھا اماں حوا کے پاس پہنچ گیا وہاں پہنچ کر ابلیس نے دوبارہ خود پہ منتر پھونکا اور انسان کی شکل میں آگیا.،. انسانی شکل میں آنے کے بعد اسنے اماں حوا کو ورغلانے کی کوشش کی اور کہنے لگا



اگر آپ نے اس درخت کا پھل نہ کھایا تو آپ کو جنت سے نکال دیا جائے گا.،. اماں حوا بولیں یہ درخت تو ممنوع ہے اسکا پھل کھانے سے منع فرمایا گیا ہے.،. ابلیس دوبارا بولا کہ اس درخت کا پھل نہ کھایا گیا تو آپ کو اور آدم علیہ السلام کو جنت سے نکال دیاجائے گا


 ابلیس ملعون آخرکار اپنے مکر میں کامیاب ہوگیا اور اماں حوا نے اسکی باتوں میں آکر ممنوع درخت کا پھل کھالیا اور پھر حضرت آدم علیہ السلام کے پاس پہنچیں اور فرمانے لگیں.،.


 کہ میں نے اس درخت کا پھل کھا لیا ہے جسے کھانے سے منع فرمایا گیا تھا اور آپ بھی..اسکا پھل کھالیں تاکہ ہم ہمیشہ جنت میں رہ سکیں 


حضرت آدم علیہ السلام فرمانے لگے ہائے افسوس تم نے یہ کیا کردیا ابلیس کے مکر میں آنے والی اماں حوا نے سیدنا آدم علیہ السلام کو مجبور کیا کہ وہ بھی اس درخت کا پھل کھالیں


 پھر آدم علیہ السلام نے بھی ایسا ہی کیا.،. اور پھر آپ دونوں کو جنت سے بےدخل کردیا گیا مور یہ سارا معاملہ دیکھ رہا تھا کیونکہ مور بھی ابلیس کے مکر میں آگیا تھا

اس لیئے مور اور اسکا ساتھ دینے والے سانپ کو بھی جنت سے نکال دیا گیا۔


 یوں سیدنا آدم علیہ السلام، اماں حوا، مور اور سانپ جنت سے اُتر کر زمین پر آگئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اماں حوا اور سیدنا آدم کے زمین پر اُترنے سے پہلے یہاں کیا تھا؟ اور کونسی مخلوق آباد تھی اور دنیا کیسے وجود میں آئی تھی؟ اور جنت اور آسمان کی تخلیق کیسے کی گئی تھی؟ 


یہ سب تفصیلات آپکے ساتھ شیئر کرنے جارہا ہوں دوستوں جو ممنوع پھل تھا اسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گندم تھا.،. اسی گندم کو پھر انسان کی خوراک بنادیا گیا اور انسان اب بھی گندم کی طلب میں رہتا ہے۔


 اور گندم کھا کر اپنے جسم کو طاقت فراہم کرتا ہے اور اب بات کرتے ہیں مور کی تو وہ میرے ربّ کی بہت پیاری تخلیق ہے اسکی خوبصورتی دیکھ کر انسان اس میں مگن ہوجاتا ہے.،. جسطرح اماں حوا ابلیس کے فریب میں مگن ہوکر گندم کا پھل کھا بیٹھی تھیں


 جب آدم علیہ السلام، اماں حوا، مور اور سانپ کو زمین پر اتارا گیا تو اسوقت یہ زمین بچھی ہوئی تھی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت زمین پر کیا تھا؟ 


اسوقت اللہ کا فرمان یاد آتا ہے کہ ہم نے زمینوں اور آسمانوں کو چھ دنوں میں تخلیق کیا ہے.،. ایک جگہ ارشاد ہے کہ اس زمین پر پہلے کچھ بھی نہیں تھا سوائے پانی کے


 تو دوستو یہ معلوم ہوا کہ اس زمین پر آباد ہونے سے پہلے پانی ہی پانی تھا اور کچھ نہیں تھا اور پھر اللّٰہ تعالٰی نے زمین کو پانی پر بچھایا، اگر بات کریں تفاسیر کی تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے


 جب اللہ نے زمین کو پانی پر بچھایا تو یہ زمین ہل رہی تھی پھر اللّٰہ پاک نے زمین کے اوپر پہاڑوں کو گاڑھ دیا جس وجہ سے زمین نے ہلنا بند کردیا اور ایک جگہ ٹک گئی


 پانی ایسی چیز ہے جس سے اللّٰہ تعالٰی نے مختلف قسم کی مخلوقات کو پیدا فرمایا ور پانی کو زندگی کی بنیاد بنایا، اور کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام سے پہلے آسمان بھی نہ تھے.،.


 تو اللّٰہ تعالٰی نے دو دنوں میں ساتوں آسمانوں کو بنایا،آسمانوں سے پہلے صرف دھواں ہی دھواں تھا اور کچھ نہ تھا پھر اللّٰہ تعالٰی نے دھوئیں سے آسمان بنائے


جب اللّٰہ تعالٰی نے آسمان تخلیق فرمائے تو اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ہم نے آسمانوں میں ستاروں کی مانند چراغ روشن کردیئے.،. یعنی آسمانِ دنیا میں اللّٰہ تعالٰی نے ستارے پیدا فرمائے جو رات کو چمکتے ہیں 


یاد رہے کہ اللّٰہ تعالٰی نے چار دنوں میں زمین اور اسکا سارا نظام بنایا یہ پہاڑ ، جنگل ، دریا ، سمندر ، صحرا اور بیداء، یہ سب اللّٰہ تعالٰی نے اپنے حکم سے صرف چار دنوں میں تخلیق فرمایا 


اور پھر اللّٰہ تعالٰی نے آسمانوں سے بارش برسائی اور زمین پر طرح طرح کے پھل درخت ، پودے اور سبزہ اُگا دیا


 دوستوں معلوم ہوا کہ جب سیدنا آدم علیہ السلام نہیں تھے تب بھی یہ کائنات موجود تھی جب آدم علیہ السلام کو اللّٰہ تعالٰی نے پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اللّٰہ تعالٰی نے اس کائنات کو تخلیق فرمایا 


اور جب آدم کو پیدا فرمایا تو اللّٰہ تعالٰی نے پہلے تو انکو جنت میں رکھا اور پھر ابلیس ملعون کے مکر میں آجانے کی وجہ سے سیدنا آدم علیہ السلام کو جنت سے نکال کر زمین پر بھیجا


 یہ سب اللّٰہ تعالٰی کی حکمت تھی کیونکہ اللّٰہ تعالٰی نے زمین کو آباد فرمانا تھا دوستوں روایات میں یہ بات ملتی ہے کہ یمن سے کچھ لوگ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں دین سیکھنے کےلیئے حاضر ہوئے


تو انہوں نے یہ سوال کیا کہ ” یہ کائنات کیسے پیدا ہوئی”؟جس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جب یہ کائنات موجود نہیں تھی تو تب اللّٰہ تعالٰی کی ذات موجود تھی تب اللّٰہ پاک کا عرش پانی پر موجود تھا 


اسکے بعد اللہ تعالٰی نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا اور لوحِ محفوظ میں ہر چیز کو لکھ دیا دوستوں اللّٰہ تعالٰی کی ذات تب بھی موجود تھی جب کچھ نہ تھا جب ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور دھواں ہی دھواں تھا


 اور اللّٰہ تعالٰی کی ذات اب بھی موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گی نہ وہ کسی سے ہے نہ اس سے کوئی ہے وہ واحد ہے جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند.،. صرف اللّٰہ ہی کی ذات بابرکت ہے جو عبادت کے لائق ہے اور تمام جہانوں کو پیدا فرمانے والی ذات اللّٰہ ہی کی ہے


 زمینوں کو آسمانوں کو جنت اور دوزخ کو پیدا کرنے والی ذات اللّٰہ ہی کی ہے.،. اللّٰہ تعالٰی کی مخلوقات کتنی پوشیدہ ہیں اور کہاں کہاں ہیں یہ اللّٰہ تعالٰی ہی جانتا ہے نہ ہم اللّٰہ تعالٰی کی قدرت کو سمجھ سکتے ہیں نہ اسکے علم کو سمجھ سکتے ہیں



اور انسان کی عقل محدود ہے.،. انسان صرف اتنا ہی جانتا ہے جتنا کہ اللّٰہ تعالٰی نے اسکو علم دیا ہےاور اس سے زیادہ کچھ نہیں جان سکتا، اللّٰہ تعالٰی بہتر علم رکھتا ہے اور بہتر حکمتوں والا ہے..؛