Iqbal Poems||Allama Muhammad Iqbal Poetry In Urdu Text

admin

Iqbal Poems
Here You Read All Famous Urdu Poems Of Dr.Allama Muhammad In Iqbal In Urdu Text.Allama Muhammad Iqbal Was Famous Poet Of Pakistan .His Poetry Is The Message Of Islam.
 

علامہ اقبال کی نظم::::: شکوہ::::: 

Allama iqbal poem shikwa

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں؟

فکر فردا نہ کروں ،محو غم دوش رہوں

نالے بلبل کے سنوں،اور ہمہ تن گوش رہوں

ہمنوا!میں بھی کوئی گل ہوں کہ خا موش رہوں؟

جرآت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو

شکوہ اللہ سے،خاکم بدہن،ہے مجھ کو

ہے بجا شیوہ تسلیم میں مشہور ہیں ہم

قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

ساز خاموش ہیں،فریاد سے معمور ہیں ہم

نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

اے خدا ! شکوہ ارباب وفا بھی سن لے

خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے

تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم

پھول تھا زیب چمن،پڑ نہ پریشاں تھی شمیم

شرط انصاف ہی اے صاحب الطاف عمیم

بوۓ گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم؟

ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی

ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی؟

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر

کہیں مسجود تھے پتھر،کہیں معبود شجر

خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر

مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر؟

تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟

قوت بازوۓ مسلم نے کیا کام ترا

بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی،نورانی بھی

اہل چین چین میں،ایران میں ساسانی بھی

اسی معمورے میں آباد تھےیونانی بھی

اسی دنیا میں یہودی بھی تھے،نصرانی بھی

پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے؟

بات جو بگڑی ہوئی تھی،بنائی کس نے؟

تھے ہمیں اک ترے معرکہ آراؤں میں!

خشکیوں میں کبھی لڑتے،کبھی دریاؤں میں

دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلسیاؤں میں

کبھی افریقہ کے تپتے ہوۓ صحراؤں میں

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی

کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

ہم جو جیتےتھے،تو جنگوں کی مصیبت کےلیے

اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے

تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے

سر بکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے؟

قو م اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی

بت فروشی کے عوض،بت شکنی کیوں کرتی

ٹل نہ سکتےتھے،اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے

پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے

تجھ سے سرکش ہوا کوئی،تو بگڑ جاتے تھے

تیغ کیا چیز ہے،ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے

زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے؟

شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے؟

توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے؟

کاٹ کر رکھ دیئے کفار کے لشکر کس نے؟

کس نے ٹھنڈا کیا آتش کد ہ ایراں کو؟

کس نے پھر زندہ کیا تذکرہ یزداں کو؟

کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی؟

اور تیرے لئے زحمت کش پیکار ہوئی؟

کس کی شمشیر جہانگیر جہاندار ہوئی؟

کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی؟

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوۓ رہتے تھے؟

منہ کے بل گر کے ھو اللہ احد کہتے تھے !

آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز

قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوۓ!

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوۓ

محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے

مۓ توحید کو لیکر صفت جام پھرے

کوہ میں دشت میں لیکر ترا پیغام پھرے

اور معلوم ہے تجکو کبھی ناکام پھرے؟

دشت تو دشت ہیں،دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے!

بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے

صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے

نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے

تیرے کعبے کو جبینوں سے سجایا ہم نے

تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

پھر بھی ہم سے یہ گلا ہے کہ وفادار نہیں

ہم وفادار نہیں،تو بھی تو دلدار نہیں

امتیں اور بھی ہیں،ان میں گناہ گار بھی ہیں

عجز والے بھی ہیں،مست مے پندار بھی ہیں

ان میں کاہل بھی ہیں،غافل بھی ہشیار بھی ہیں

سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں

ر حمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے

ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے

منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے

اپنی بغلوں میں دباۓ ہوۓ قرآن گئے

خندہ زن کفر ہے،احساس تجھے ہے کہ نہیں؟

اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں؟

یہ شکایت نہیں،ہیں ان کے خزانے معمور

نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور

قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور

اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور

اب وہ الطاف نہیں،ہم پہ عنایات نہیں

بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں؟

کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب؟

تیری قدرت تو ہے وہ جسکی حد ہے نہ حساب

تو جو چاہے تو اٹھے سینہ صحرا سے حباب

دہرو دہشت ہو سیلی زدہ موج سیراب

طعن اغیارہے،رسوائی ہے،ناداری ہے

کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟

بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا

رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا!

ہم تو رخصت ہوۓ اوروں نے سنبھالی دنیا

پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے

کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے؟

تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے

شب کی آہیں بھی گئیں،صبح کے نالے بھی گئے

دل تجھے دے بھی گئے،اپنا صلہ لے بھی گئے

آکے بیٹھے بھی نہ تھے،اور نکالے بھی گئے

آۓعشاق،گئے وعدہ فردہ لیکر

اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لیکر

درد لیلی بھی وہی،قیس کا پہلو بھی وہی

نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی

عشق کا دل بھی وہی،حسن کا جادو بھی وہی

امت احمد مرسل بھی وہی،تو بھی وہی

پھر یہ آزردگی غیر سبب کیا معنی؟

اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی؟

تجھ کو چھوڑاکہ رسول عربی کو چھوڑا؟

بت گری پیشہ کیا،بت شکنی کو چھوڑا؟

عشق کو،عشق کی آشفتہ کو چھوڑا؟

رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟

آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں!

زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں

عشق کی خیر،پہلی سی ادا بھی نہ سہی

جادہ بیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی

مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی یہ سہی

اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی

کبھی ہم سے، کبھی غیروں سے شناسائی ہے

بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہر جائی ہے

سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے

اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے

آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے

پھونک دی گرمی رخسار سے محفل تو نے

آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں

ہم وہی سوختہ ساماں ہیں،تجھے یاد نہیں

وادی نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا

قیس دیوانہ نظارہ محمل نہ رہا

حوصلے وہ نہ رہے،ہم نہ رہے،دل نہ رہا

گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا

اے خوش آں روز کہ آئی بصد ناز آئی

بے حجابانہ سوۓ محفل ماباز آئی

بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے

سنتے ہیں جام بکف نغمہ کوکو بیٹھے

دور ہنگامہ گلزار سے یک سو بیٹھے

تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ھو بیٹھے

اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افرازی دے

برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے

قوم آوارہ عناں تاب ہی پھر سوۓ حجاز

لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز

مضطرب باغ کے ہر غینچے میں ہی بوۓ نیاز

تو ذرا چھیڑ تو دے،تشنہ مضراب ہے ساز

نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کےلیے

طور مضطر ہےاسی آگ میں جلنے کیلے

مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے

موربے مایہ کو ہمدوش سلیماں کردے

جنس نایاب محبت کو پھر ارازاں کر دے

ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے

جوۓ خوں می چکداز حسرت دیرینہ ما

می تپد نالہ بہ نشتر کدہ سینہ ما

بوۓ گل لے گئی بیرن چمن راز چمن

کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمار چمن

عہد گل ختم ہوا،ٹوٹ گیا ساز چمن

اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن

ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم ابتک 

اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم ابتک

قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں

پتیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں

وہ پرانی روشیں باغ کو ویراں بھی ہوئیں

ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں

قید موسم سے طبیعت رہی آزار اس کی

کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی

لطف مرنے میں ہے باقی،نہ مزا جینے میں

کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں!

کتنے بیتاب ہیں جو ہر مرے آئینے میں

کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں

اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں

داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں

چا ک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں

جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں

یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں

پھر اسی بادہ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں

عجمی خم ہے تو کیا، مے تو حجازی ہے مری

نغمہ ہندی ہے تو کیا،لے تو حجازی ہے مری

___________

علامہ اقبال کی نظم جواب شکوہ

Allama iqbal poem jawab e shikwa

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے 

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے 

قدسی الاصل ہے رفعت پہ نظر رکھتی ہے 

خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ گزر رکھتی ہے 

عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا 

آسماں چیر گیا نالۂ بیباک مرا 

پیر گردوں نے کہا سن کے کہیں ہے کوئی 

بولے سیارے سر عرش بریں ہے کوئی 

چاند کہتا تھا نہیں اہل زمیں ہے کوئی 

کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی 

کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا 

مجھ کو جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا 

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا 

عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا 

تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا 

آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا 

غافل آداب سے سکان زمیں کیسے ہیں 

شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں 

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے 
تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے 

عالم کیف ہے دانائے رموز کم ہے 

ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے 

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو 

بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو 

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا 

اشک بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا 

آسماں گیر ہوا نعرۂ مستانہ ترا 

کس قدر شوخ زباں ہے دل دیوانہ ترا 

شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے 

ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے 

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں 

راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں 

تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں 

جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں 

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں 

ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں 

ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں 

امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں 
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں 

تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں 

بادہ آشام نئے بادہ نیا خم بھی نئے 

حرم کعبہ نیا بت بھی نئے تم بھی نئے 

وہ بھی دن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا 

نازش موسم گل لالۂ صحرائی تھا 

جو مسلمان تھا اللہ کا سودائی تھا 

کبھی محبوب تمہارا یہی ہرجائی تھا 

کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو 

ملت احمد مرسل کو مقامی کر لو 

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے 

ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے 

طبع آزاد پہ قید رمضاں بھاری ہے 

تمہیں کہہ دو یہی آئین وفاداری ہے 

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں 

جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں 

جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو 

نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو 

بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو 

بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو 

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے 

کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے 
صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے 

نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے 

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے 

میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے 

تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو 

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو 

کیا کہا بہر مسلماں ہے فقط وعدۂ حور 

شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور 

عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور 

مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور 

تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں 

جلوۂ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں 

منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک 

ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک 

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک 

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک 

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں 

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں 

کون ہے تارک آئین رسول مختار 

مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار 

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار 

ہو گئی کس کی نگہ طرز سلف سے بے زار 

قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں 

کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں 

جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب 

زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب 

نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب 

پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غریب 

امرا نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے 

زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے 
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی 

برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی 

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی 

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی 

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے 

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے 

شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود 

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود 

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود 

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود 

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو 

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو 

دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بیباک 

عدل اس کا تھا قوی لوث مراعات سے پاک 

شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نمناک 

تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الادراک 

خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود 

خالی از خویش شدن صورت مینا یش بود 

ہر مسلماں رگ باطل کے لیے نشتر تھا 

اس کے آئینۂ ہستی میں عمل جوہر تھا 

جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا 

ہے تمہیں موت کا ڈر اس کو خدا کا ڈر تھا 

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو 

پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو 

ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے 

تم مسلماں ہو یہ انداز مسلمانی ہے 
حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے 

تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے 

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر 

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر 

تم ہو آپس میں غضب ناک وہ آپس میں رحیم 

تم خطا کار و خطا بیں وہ خطا پوش و کریم 

چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم 

پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم 

تخت فغفور بھی ان کا تھا سریر کے بھی 

یوں ہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی 

خودکشی شیوہ تمہارا وہ غیور و خوددار 

تم اخوت سے گریزاں وہ اخوت پہ نثار 

تم ہو گفتار سراپا وہ سراپا کردار 

تم ترستے ہو کلی کو وہ گلستاں بکنار 

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی 

نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی 

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے 

بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے 

شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے 

بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے 

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا 

لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا 

قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے 

شہر کی کھائے ہوا بادیہ پیما نہ رہے 

وہ تو دیوانہ ہے بستی میں رہے یا نہ رہے 

یہ ضروری ہے حجاب رخ لیلا نہ رہے 

گلۂ جور نہ ہو شکوۂ بیداد نہ ہو 

عشق آزاد ہے کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو 

عہد نو برق ہے آتش زن ہر خرمن ہے 

ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے 

اس نئی آگ کا اقوام کہن ایندھن ہے 

ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے 

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا 

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا 

دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی 

کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی 

خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی 

گل بر انداز ہے خون شہدا کی لالی 

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے 
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے 

امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں 

اور محروم ثمر بھی ہیں خزاں دیدہ بھی ہیں 

سیکڑوں نخل ہیں کاہیدہ بھی بالیدہ بھی ہیں 

سیکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں 

نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا 

پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا 

پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا 

تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا 

قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا 

غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا 

نخل شمع استی و در شعلہ دو ریشۂ تو 

عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو 

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے 

نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے 

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے 

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے 

کشتئ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے 

عصر نو رات ہے دھندلا سا ستارا تو ہے 

ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا 

غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا 

تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا 

امتحاں ہے ترے ایثار کا خودداری کا 

کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے 

نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے 

چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری 

ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری 

زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری 

کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری 

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے 

نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے 

مثل بو قید ہے غنچے میں پریشاں ہو جا 
رخت بر دوش ہوائے چمنستاں ہو جا 

ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا 

نغمۂ موج ہے ہنگامۂ طوفاں ہو جا 

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے 

دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے 

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو 

چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو 

یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو 

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو 

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے 

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے 

دشت میں دامن کہسار میں میدان میں ہے 

بحر میں موج کی آغوش میں طوفان میں ہے 

چین کے شہر مراقش کے بیابان میں ہے 

اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے 

چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے 

رفعت شان رفعنا لک ذکرک دیکھے 

مردم چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا 

وہ تمہارے شہدا پالنے والی دنیا 

گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا 

عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا 

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح 

غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح 

عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری 

مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری 

ما سوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری 

تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری 

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
----------------------------
allama iqbal ki nazam kizar reh

علامہ اقبال کی نظم خضرِ راہ

 اقبال

شاعر 


ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر 

گوشۂ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب 

شب سکوت افزا ہوا آسودہ دریا نرم سیر 

تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصوير آب 

جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار 

موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب 

رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر 

انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب 

دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پيک جہاں پيما خضر 

جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب 

کہہ رہا ہے مجھ سے اے جويائے‌‌ اسرار ازل 

چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب 

دل میں یہ سن کر بپا ہنگامۂ محشر ہوا 

میں شہید جستجو تھا یوں سخن گستر ہوا 

اے تری چشم جہاں بیں پر وہ طوفاں آشکار 

جن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش 

کشتئ مسکين و جان پاک و ديوار يتيم 

علم‌ موسیٰ بھی ہے ترے سامنے حیرت فروش 

چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تو صحرا نورد 

زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا و دوش 

زندگی کا راز کیا ہے سلطنت کیا چیز ہے 

اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش 

ہو رہا ہے ایشیا کا خرقۂ دیرینہ چاک 

نوجواں اقوام‌ نو دولت کے ہیں پيرايہ پوش 
گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی 

فطرت‌ اسکندری اب تک ہے گرم ناؤنوش 

بیچتا ہے ہاشمی ناموس دين مصطفیٰ 

خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش 

آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے 

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے 

جواب‌ خضر 

صحرا نوردی 

کیوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تجھے 

یہ تگا پوئے دمادم زندگی کی ہے دلیل 

اے رہين خانہ تو نے وہ سماں دیکھا نہیں 

گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگ رحیل 

ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام 

وہ حضر بے برگ و ساماں وہ سفر بے سنگ و ميل 

وہ نمود‌ اختر سیماب پا ہنگام صبح 

یا نمایاں بام گردوں سے جبین جبرئيل 

وہ سکوت‌ شام صحرا میں غروب آفتاب 

جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بين خليل 

اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں 

اہل ایماں جس طرح جنت میں گرد سلسبيل 

تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش 

اور آبادی میں تو زنجيري کشت و نخيل 

پختہ تر ہے گردش پیہم سے جام زندگی 

ہے یہی اے بے خبر راز دوام زندگی 

زندگی برتر از سود و زیاں ہے زندگی 

زندگی برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی 

ہے کبھی جاں اور کبھی تسليم جاں ہے زندگی 

تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ 

جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی 

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے 

سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی 

زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ 

جوئے شير و تيشہ و سنگ گراں ہے زندگی 

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب 

اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی 

آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے 

گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی 

قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب 

اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی 

خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو 

پختہ ہو جائے تو ہے شمشير بے زنہار تو 

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ 

پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے 
پھونک ڈالے یہ زمین و آسماں مستعار 

اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے 

زندگی کی قوت پنہاں کو کر دے آشکار 

تا یہ چنگاری فروغ جاوداں پیدا کرے 

خاک مشرق پر چمک جائے مثال آفتاب 

تا بدخشاں پھر وہی لعل گراں پیدا کرے 

سوئے گردوں نالۂ شبگیر کا بھیجے صفیر 

رات کے تاروں میں اپنے رازداں پیدا کرے 

یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے 

پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے 

سلطنت 

آ بتاؤں تجھ کو رمز آيۂ ان الملوک 

سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری 

خواب سے بے دار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر 

پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری 

جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم اياز 

دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں ساز دل بری 

خون اسرائيل آ جاتا ہے آخر جوش میں 

توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری 

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے 

حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری 

از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن 

تا تراشی خواجۂ از برہمن کافر تری 

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام 

جس کے پردوں میں نہیں غير از نوائے قيصري 

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب 

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری 

مجلس آئين و اصلاح و رعايات و حقوق 

طب‌‌ مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری 

گرمئ گفتار اعضائے مجالس الاماں 

یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری 

اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو 

آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

سرمایہ و محنت 

بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے 

خضر کا پیغام کیا ہے یہ پيام کائنات 

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمايہ‌‌ دار حيلہ گر 

شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات 

دست دولت آفريں کو مزد یوں ملتی رہی 

اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ 

ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشيش 

اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات 

نسل قومیت کلیسا سلطنت تہذیب رنگ 

خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات 

کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے 

سکر کی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات 

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار 

انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات 

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے 

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے 

ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول 

غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک 

نغمۂ بيداریٔ جمہور ہے سامان عیش 

قصۂ خواب آور اسکندر و جم کب تلک 

آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا 

آسمان ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک 

توڑ ڈالیں فطرت انساں نے زنجیریں تمام 

دوریٔ جنت سے روتی چشم آدم کب تلک 

باغبان چارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہار 

زخم گل کے واسطے تدبیر مرہم کب تلک 

کرمک ناداں طواف شمع سے آزاد ہو 

اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو 

دنیائے اسلام 


کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں 

مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز 

لے گئے تثلیث کے فرزند ميراث خليل 

خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز 

ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ 

جو سراپا ناز تھے ہیں آج مجبور نياز 

لے رہا ہے مے فروشان فرنگستاں سے پارس 

وہ مے سرکش حرارت جس کی ہے مينا گداز 

حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی 

ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز 

ہو گیا مانند‌ آب ارزاں مسلماں کا لہو 

مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز 

گفت رومی ہر بنائے کہنہ کآباداں کنند 

می نداني اول آں بنیاد را ویراں کنند 

ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں 

حق ترا چشمے عطا کر دست غافل در نگر 

مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست 

مور بے‌ پر حاجتے پیش سلیمانے مبر 

ربط و ضبط ملت بيضا ہے مشرق کی نجات 

ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر 

پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار ديں میں ہو 

ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر 

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے 

نیل کے ساحل سے لے کر تا‌‌ بخاک کاشغر 

جو کرے گا امتياز رنگ و خوں مٹ جائے گا 

ترک خرگاہی ہو یا اعرابیٔ والا گہر 

نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی 

اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر 

تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار 

لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر 

اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش 

اے گرفتار‌‌ ابوبکر و علي ہشيار باش 

عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی 

اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ 

تو نے دیکھا سطوت رفتار‌ دريا کا عروج 

موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ 

عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے 

اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ 

اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود 
مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر دیکھ 

کھول کر آنکھیں مرے آئينۂ گفتار میں 

آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ 

آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس 

سامنے تقدیر کے رسوائی تدبير دیکھ 

مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار 

ہر زماں پیش نظر لایخلف المیعاد دار 
_____________

علامہ اقبال کی نظم۔ مسجد قرطبہ

نوٹ ۔مسجد قرطبہ بالِ جبریل میں شامل ہے
Allama iqbal ki nazam masjid qurtaba

سلسلۂ روز و شب نقش گر حادثات 

سلسلۂ روز و شب اصل حیات و ممات 

سلسلۂ روز و شب تار حریر دو رنگ 

جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات 

سلسلۂ روز و شب ساز ازل کی فغاں 

جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات 

تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ 

سلسلۂ روز و شب صیرفی کائنات 

تو ہو اگر کم عیار میں ہوں اگر کم عیار 

موت ہے تیری برات موت ہے میری برات 

تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا 

ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات 

آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر 

کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات 

اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا 

نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا 

ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام 

جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام 

مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ 

عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام 

تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو 

عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام 

عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا 

اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام 

عشق دم جبرئیل عشق دل مصطفی 

عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام 

عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک 

عشق ہے صہبائے خام عشق ہے کاس الکرام 

عشق فقیہہ حرام عشق امیر جنود 

عشق ہے ابن السبیل اس کے ہزاروں مقام 

عشق کے مضراب سے نغمۂ تار حیات 

عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات 

اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود 

عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود 

رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صوت 

معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود 

قطرۂ خون جگر سل کو بناتا ہے دل 

خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود 

تیری فضا دل فروز میری نوا سینہ سوز 

تجھ سے دلوں کا حضور مجھ سے دلوں کی کشود 

عرش معلی سے کم سینۂ آدم نہیں 

گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہر کبود 

پیکر نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا 

اس کو میسر نہیں سوز و گداز سجود 

کافر ہندی ہوں میں دیکھ مرا ذوق و شوق 

دل میں صلوٰۃ و درود لب پہ صلوٰۃ و درود 

شوق مری لے میں ہے شوق مری نے میں ہے 

نغمۂ اللہ ہو میرے رگ و پے میں ہے 

تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل 

وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل 

تیری بنا پائیدار تیرے ستوں بے شمار 

شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل 

تیرے در و بام پر وادی ایمن کا نور 

تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل 

مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے 

اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل 

اس کی زمیں بے حدود اس کا افق بے ثغور 

اس کے سمندر کی موج دجلہ و دنیوب و نیل 

اس کے زمانے عجیب اس کے فسانے غریب 

عہد کہن کو دیا اس نے پیام رحیل 

ساقی ارباب ذوق فارس میدان شوق 

بادہ ہے اس کا رحیق تیغ ہے اس کی اصیل 

مرد سپاہی ہے وہ اس کی زرہ لا الہ 

سایۂ شمشیر میں اس کی پنہ لا الہ 

تجھ سے ہوا آشکار بندۂ مومن کا راز 

اس کے دنوں کی تپش اس کی شبوں کا گداز 

اس کا مقام بلند اس کا خیال عظیم 

اس کا سرور اس کا شوق اس کا نیاز اس کا ناز 

ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ 

غالب و کار آفریں کار کشا کارساز 

خاکی و نوری نہاد بندۂ مولا صفات 

ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز 

اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل 

اس کی ادا دل فریب اس کی نگہ دل نواز 

آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال 

اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں 

بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے 

رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے 

دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں آسماں 

آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں 
کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے 

عشق بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں 

دیکھ چکا المنی شورش اصلاح دیں 

جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں 

حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت 

اور ہوئی فکر کی کشتئ نازک رواں 

چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب 

جس سے دگر گوں ہوا مغربیوں کا جہاں 

ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر 

لذت تجدیدہ سے وہ بھی ہوئی پھر جواں 

روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب 

راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں 

نرم دم گفتگو گرم دم جستجو 

رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز 

نقطۂ پرکار حق مرد خدا کا یقیں 

اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز 

عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ 

حلقۂ آفاق میں گرمئ محفل ہے وہ 

کعبۂ ارباب فن سطوت دین مبیں 

تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں 

ہے تہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر 

قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں 

آہ وہ مردان حق وہ عربی شہسوار 

حامل خلق عظیم صاحب صدق و یقیں 

جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمز غریب 

سلطنت اہل دل فقر ہے شاہی نہیں 

جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب 

ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں 

جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی 

خوش دل و گرم اختلاط سادہ و روشن جبیں 

دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا 

گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا 

وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب 

لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب 

سادہ و پرسوز ہے دختر دہقاں کا گیت 

کشتئ دل کے لیے سیل ہے عہد شباب 

آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی 

دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب 

عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں 

میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب 

پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے 

لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب 

جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی 

روح امم کی حیات کشمکش انقلاب 

صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم 

کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب 

نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر 

نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر 

______________

Allama iqbal ki nazam talooh islam

_____________

علامہ اقبال کی نظم طلوع اسلام
نوٹ یہ نظم اُنکے شعری مجموعہ "بانگِ درا " میں شامل ہے

دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی 

افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی 

عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا 

سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی 

مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے 

تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی 

عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے 

شکوہ ترکمانی ذہن ہندی نطق اعرابی 

اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل 

نوا را تلخ ترمی زن چو ذوق نغمہ کم یابی 

تڑپ صحن چمن میں آشیاں میں شاخساروں میں 

جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی 

وہ چشم پاک ہیں کیوں زینت بر گستواں دیکھے 

نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی 

ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے 

چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے 

سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا 

خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا 

کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے 

یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا 

ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را 

صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا 

اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے 

کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا 

جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی 

جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا 

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے 

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا 

نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے 

کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا 

ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے 

مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے 

خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے 

یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے 

پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی 

ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے 

مکاں فانی مکیں فانی ازل تیرا ابد تیرا 

خدا کا آخری پیغام ہے تو جاوداں تو ہے 

حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا 

تری نسبت براہیمی ہے معمار جہاں تو ہے 

تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی 

جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے 

جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر 

نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے 

یہ نکتہ سر گزشت ملت بیضا سے ہے پیدا 

کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے 

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا 

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا 
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی 

اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی 

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا 

نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی 

میان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک 

ترے بازو میں ہے پرواز شاہین قہستانی 

گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا 

بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی 

مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے 

وہ کیا تھا زور حیدر فقر بوذر صدق سلمانی 

ہوئے احرار ملت جادہ پیما کس تجمل سے 

تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے زندانی 

ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں 

کہ المانی سے بھی پایندہ تر نکلا ہے تورانی 

جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا 

تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا 

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں 

جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں 

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا 

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں 

ولایت پادشاہی علم اشیا کی جہانگیری 

یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں 

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے 

ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں 

تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے 

حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں 

حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو 

لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں 

یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم 

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں 

چہ باید مرد را طبع بلندے مشرب نابے 

دل گرمے نگاہ پاک بینے جان بیتابے 

عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے 

ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے 

ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے 

طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گہر نکلے 

غبار رہ گزر ہیں کیمیا پر ناز تھا جن کو 

جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر گر نکلے 

ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا 

خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے 

حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے 

جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے 

زمیں سے نوریان آسماں پرواز کہتے تھے 

یہ خاکی زندہ تر پایندہ تر تابندہ تر نکلے 

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں 

ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے 

یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیر ملت ہے 

یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے 

تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا 

خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا 

ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو 

اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا 

یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی 

تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا 

غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے 

تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا 

خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے 

نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہو جا 

مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر 

شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا 

گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے 

گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا 

ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی 

نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی 

ابھی تک آدمی صید زبون شہریاری ہے 

قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے 

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی 

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے 

وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو 

ہوس کے پنجۂ خونیں میں تیغ کارزاری ہے 

تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا 

جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے 

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی 

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے 

خروش آموز بلبل ہو گرہ غنچے کی وا کر دے 

کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاری ہے 
پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی 

زمیں جولاں گہہ اطلس قبایان تتاری ہے 

بیا پیدا خریدا راست جان نا توانے را 

پس از مدت گزار افتاد برما کاروانے را 

بیا ساقی نوائے مرغ زار از شاخسار آمد 

بہار آمد نگار آمد نگار آمد قرار آمد 

کشید ابر بہاری خیمہ اندر وادی و صحرا 

صدائے آبشاراں از فراز کوہسار آمد 

سرت گردم توہم قانون پیشیں ساز دہ ساقی 

کہ خیل نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد 

کنار از زاہداں برگیر و بیباکانہ ساغر کش 

پس از مدت ازیں شاخ کہن بانگ ہزار آمد 

بہ مشتاقاں حدیث خواجۂ بدرو حنین آور 

تصرف ہائے پنہانش بچشم آشکار آمد 

دگر شاخ خلیل از خون ما نمناک می گردد 

ببازار محبت نقد ما کامل عیار آمد 

سر خاک شہیرے برگ ہائے لالہ می پاشم 

کہ خونش بانہال ملت ما سازگار آمد 

بیا تا گل بفیشانیم و مے در ساغر اندازیم 

فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم