50 Beautiful Stanzas About Mother||Maa ki Shan Main 50 Ashaar

admin

50 Beautiful Stanzas About Mother||Maa ki Shan Main 50 Ashaar

50 Beautiful Stanzas About Mother||Maa ki Shan Main 50 Ashaar

جب تک ماتھا چوم کے رخصت کرنے والی زندہ تھی 

دروازے کے باہر تک بھی منہ میں لقمہ ہوتا تھا 


اظہر فراغ


چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے 

میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ، ماں دیکھی ہے 

منور رانا


دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں 

کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے 

افتخار عارف


ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ 

میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے 

عباس تابش


بے مثل بے مثال رشتہ ہے

ماں کا رشتہ,  کمال رشتہ ہے

رمضان نجمی


ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا 

میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے 

منور رانا


اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے 

ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے 

منور رانا



کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی 

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی 


منور رانا


جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے 

ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے 

منور رانا


گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں 

مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں 

قیصر الجعفری


ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایا ہے 

آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے 


انجم سلیمی


کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں 

یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں بتاتا ہے 


منور رانا


جب تلک ماں سے گھر منور تھا

رحمتوں سے بھرا مقدر تھا

رمضان نجمی


تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک 

مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی 

منور رانا

 

منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا 

جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی 

منور رانا


 

یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا 

میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے 

منور رانا

 

ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج 

ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سُہانے سے ملے 

کیف بھوپالی


  

گھر کی اس بار مکمل میں تلاشی لوں گا 

غم چھپا کر مرے ماں باپ کہاں رکھتے تھے 

ساجد جاوید ساجد


 

دور رہتی ہیں سدا ان سے بلائیں ساحل 

اپنے ماں باپ کی جو روز دعا لیتے ہیں 

محمد علی ساحل


 یوں تو سب نعمتوں سے مجھکو نوازا رب نے 

ایک ماں کی کمی پوری نہیں ہونے والی

رمضان نجمی 


مدتوں بعد میسر ہوا ماں کا آنچل 

مدتوں بعد ہمیں نیند سہانی آئی 


اقبال اشہر

 

  

میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں 

صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا 


منور رانا


سب نے مانا مرنے والا دہشت گرد اور قاتل تھا 

ماں نے پھر بھی قبر پہ اس کی راج دُلارا لکھا تھا 


احمد سلمان


  

آج پھر ماں مجھے مارے گی بہت رونے پر 

آج پھر گاؤں میں آیا ہے کھلونے والا 


نواز ظفر


 

اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے 

دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے 


تنویر سپرا


 نہیں میں ڈوبتا  لہروں سے ٹکرا کر بھی یارو

یقیناً یہ مری ماں کی دعاوں کا اثر ہے

رمضان نجمی


باپ زینہ ہے جو لے جاتا ہے اونچائی تک 

ماں دعا ہے جو سدا سایہ فگن رہتی ہے 


سرفراز نواز


 

شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے 

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا 


اسلم کولسری

 

  

دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن 

ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے 


منور رانا

 

 

شہر کے رستے ہوں چاہے گاؤں کی پگڈنڈیاں 

ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا 


منور رانا

  

شاید یوں ہی سمٹ سکیں گھر کی ضرورتیں 

تنویرؔ ماں کے ہاتھ میں اپنی کمائی دے 


تنویر سپرا

 

 دیا تھا ماں نے جو بوسہ

وہ مہکی ہے جبیں اب تک

رمضان نجمی


اس لیے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر 

میری شہ رگ پہ مری ماں کی دعا رکھی تھی 


نظیر باقری


روشنی بھی نہیں ہوا بھی نہیں 

ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں 


انجم سلیمی

 

 

سامنے ماں کے جو ہوتا ہوں تو اللہ اللہ 

مجھ کو محسوس یہ ہوتا ہے کہ بچہ ہوں ابھی 


محفوظ الرحمان عادل


  

ماں مجھے دیکھ کے ناراض نہ ہو جائے کہیں 

سر پہ آنچل نہیں ہوتا ہے تو ڈر ہوتا ہے 


انجم رہبر


جب تک ماتھا چوم کے رخصت کرنے والی زندہ تھی 

دروازے کے باہر تک بھی منہ میں لقمہ ہوتا تھا 


اظہر فراغ



گھر سے نکلے ہوئے بیٹوں کا مقدر معلوم 

ماں کے قدموں میں بھی جنت نہیں ملنے والی 


افتخار عارف


جس نے اک عمر دی ہے بچوں کو 

اس کے حصے میں ایک دن آیا 


نامعلوم



شام ڈھلے اک ویرانی سی ساتھ مرے گھر جاتی ہے 

مجھ سے پوچھو اس کی حالت جس کی ماں مر جاتی ہے 


نامعلوم


اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے 

جو میری والدہ کے ہاتھ کا ہے 


سید ضمیر جعفری


ہوا دکھوں کی جب آئی کبھی خزاں کی طرح 

مجھے چھپا لیا مٹی نے میری ماں کی طرح 


نامعلوم


  

کہو کیا مہرباں نا مہرباں تقدیر ہوتی ہے 

کہا ماں کی دعاؤں میں بڑی تاثیر ہوتی ہے 


انجم خلیق


  

میں اس سے قیمتی شے کوئی کھو نہیں سکتا 

عدیلؔ ماں کی جگہ کوئی ہو نہیں سکتا 


عدیل زیدی


 

طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں 

چل دیئے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں 


افتخار نسیم


 

میں اپنی ماں کے وسیلے سے زندہ تر ٹھہروں 

کہ وہ لہو مرے صبر و رضا میں روشن ہے 


ابو الحسنات حقی


ستارے جیسی روشن ہے میری پیشانی اب

جب سے میری ماں نے اسے چوما ہے

نامعلوم


درد چلا جاتا ہے میرے گھر کی دہلیز سے اداس ہو کر

پریشان نہیں ہوتا میں کبھی اپنی ماں کے پاس ہو کر

نا معلوم


ہر چیز تو تقسیم ہوئی باپ کے مرتے

اک ماں تھی جو حصے میں کسی کے نہ آئی

نامعلوم


غریب ماں اپنے بچوں کو پیار سے یوں مناتی ہے

پھر بنا لیں گے نئے کپڑے یہ عید تو ہر سال آتی ہے

نامعلوم

پوچھتا ہے جب کوئی کہ دنیا میں محبت ہے کہاں؟

مسکرا دیتا ہوں میں اور یاد آ جاتی ہے ماں

نامعلوم