علامہ اقبال کی نظم طلوعِ اسلام کا تعارف||طلوعِ اسلام کے اشعار کی تشریح||طلوعِ اسلام کا فنی و فکری جائزہ

admin

علامہ اقبال کی نظم طلوعِ اسلام کا تعارف||طلوعِ اسلام کے اشعار کی تشریح||طلوعِ اسلام کا فنی و فکری جائزہ



 علامہ اقبال کی نظم طلوعِ اسلام کا تعارف||طلوعِ اسلام کے اشعار کی تشریح||طلوعِ اسلام کا فنی و فکری جائزہ


اقبال نے اپنی مشہور نظم طلوع اسلام ‘ 31 مارچ 1923 کو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں پڑھی ۔ یہ نظم اقبال کے اس دور شاعری سے تعلق رکھتی ہے جب وہ پورے عالم اسلام کے اتحاد کا خواب دیکھ رہے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ مسلمان من حیث القوم متحد ہوکر مغربی استعمار کے خلاف جدوجہد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔ چنانچہ ترکی میں مصطفے کمال کی شاندار فتح سے متاثر ہوکر انہوں نے اس نظم کی تخلیق کی ، اس لیے کہ مصطفے کمال کی فتح کی صورت میں انہیں مسلمانوں کے اتحاد کا خواب پورا ہوتا نظر آرہاتھا ۔

 مشہور انگریزی شاعر ٹینی سن نے ایک جگہ لکھا ہے ' ' جس شاعری سے قوم کے افراد کا دل مضبوط ہوتا ہے اور اس کی ہمتیں بلند ہوتی ہیں ، اس شاعری کو اعلی درجے کی نیکیوں میں شمار کرنا چاہیے ۔ اقبال نے اپنی فکر اور شاعری سے جو کام لیا ہے ، اگر اس کو پیش نظر رکھا جائے تو بلاشبہ ان کی شاعری ٹینی سن کے اس قول پر پوری اتر کے اعمال حسنہ کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے ۔

 اقبال کو جو زمانہ میسر ہوا وہ ملک وقوم کی زندگی کے ہر شعبے میں انتشار پر اگندگی کا زمانہ تھا ۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح شعر و ادب میں بھی نئی قدروں ، نئے خیالات و تصورات اور نئے آہنگ کی شدیدضرورت محسوس کی جارہی تھی ۔ اردو شاعری جس کی اصل کائنات غزل تھی ، اپنے تمام امکانات کو بروئے کار لا کر بظاہر اپنے مقصد کی تکمیل کر چکی تھی اور اب اس میں کوئی جان باقی نہ رہی تھی ۔


 اس کا بیشتر حصہ یا تو حزن و یاس میں ڈوبا ہوتا تھا یا وقتی خوش باشی کی ترغیب دیتا تھا ۔ شاعری کا زندگی اور اس کے مسائل سے براہ راست کوئی رابطہ نظر نہ آتا تھا ۔ ہمارے شاعروں میں اجتماعی حقیقتوں سے آنکھ ملانے کا حوصلہ باقی نہ رہا تھا ۔ 


مولانا حالی نے طویل قومی نظم مد و جز ر ا سلام لکھ کر ( جو بعد میں مسدس حالی کے نام سے مشہور ہوئی ) قومی احساس کو بیدار کرنے کی سعی جمیل کی تھی اور قومی شاعری کا باب ضرور کھول دیا تھا ۔ لیکن ہماری شاعری میں آفاقی اور اجتماعی زندگی کا شعور پیدا کر کے اس میں نئی وسعتیں اور نئے امکانات اقبال ہی نے پیدا کیے ۔ اقبال نے روایتی اور رسمی مضامین کی تقلید سے آزاد ہو کر اور مروجہ مصنوعی اور تقلیدی شاعروں کو چھوڑ کر اپنی شاعری کی لگام اپنی فطرت کے باطنی تقاضے کے ہاتھ میں دے دی تھی ۔ 

1905 ء تک اقبال نے جو شاعری کی ، اسے انہوں نے اپنی شاعری کا دور اول قرار دیا تھا ۔1905 ء میں وہ عازم یورپ ہوۓ اور قیام یورپ نے ان کی فکر پر بہت کچھ اثر ڈالا ۔ اس دوران میں انہوں نے محسوس کیا کہ یورپی اقوام مشرق کی کمزور قوموں کے وسائل کو اپنے قبضے میں لینے کے لیے مختلف حیلوں اور بہانوں سے انہیں اپنا زیرِ نگیں اور محتاج بنا رہی ہیں ۔ انہیں سب سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ مغرب اقوام کی اس مجرمانہ جارحیت کا شکار سب سے زیادہ مسلمان ممالک بن رہے ہیں ۔


 ان حالات کے مطالعے اور مغربی سیاست کی ریشہ دوانیوں کے مشاہدے نے ان کے دل میں ملت اسلامیہ کا دہ درد پیدا کر دیا جو بعد ازاں ان کی شاعری میں شعلے کی طرح چمکتا اور اپنی جھلک دکھا تا ہے ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے پڑھے لکھے طبقے میں غلامی سے بیزاری اور آزادی کی طلب بڑی تیزی سے پیدا ہورہی تھی ۔ جدید تعلیم نے افراد میں حب الوطنی کے جذبات کو بیدار کر دیا تھا اور اپنے آپ کو آزاداور ترقی یافتہ اقوام کی صف میں دیکھنے کی خواہش زور پکڑتی جارہی تھی ۔ اسی زمانے میں اقبال یورپ میں تین سال قیام کے بعد وطن لوٹے اور اپنے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ اس نظریے میں پیش کیا کہ ہندوستان کے مسائل کا حل مغربی انداز کی جمہوریت میں نہیں بلکہ ایک ایسے نظام سیاست میں ہے جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کر نے کا موقع حاصل ہو ۔ 

i

اقبال نے مغرب میں نسلی اور لسانی قومیت کے تاریک پہلوؤں کا بغور مطالعہ کیا تھا اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ جغرافیائی نسلی اور لسانی وحدت ایک خود ساختہ اور مصنوعی شے ہے جسے مغربی استعمار نے اپنے مخصوص سیاسی اور معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے جنم دیا ہے ۔ جبکہ اصل وحدت فکری اور نظریاتی وحدت ہے اور اس لحاظ سے تمام دنیا کے مسلمان ایک ہی لڑی میں پروۓ ہوئے دانوں کی مانند ہیں ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس وحدت سے باہر جانے کی کوشش نہ کر یں


 ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے 

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر


 یہی وجہ ہے کہ جب مصطفے کمال پاشا نے 1922 ء میں سقاریہ کی جنگ میں غیر ملکی قوتوں ( یونانیوں اور انگریزوں کے خلاف فتح حاصل کر کے ترکوں کی غیرت مندی بعزم و حوصلے ، ہمت و جرات اور بہادری کا لوہا دنیا سے منوالیا تو اقبال نے اپنے آپ کو اس فتح اور مسرت میں شریک سمجھا ۔ وہ مشرق وسطی کے ممالک اور ہندوستان میں مسلمانوں کی زبوں حالی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود مسلمانوں کے مستقبل سے مایوس نہیں تھے اور انہیں یقین تھا کہ مسلمان ایک بار پھر دنیا میں کھویا ہوا مقام حاصل کر لیں گے ۔ اس لیے مصطفے کمال کی کامیابی میں انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آئی اور اس کامیابی کوانہوں نے طلوع اسلام سے تعبیر کیا ۔ ان کے خیال میں اب اس دور کا آغاز ہو گیا تھا ، جس کا خواب وہ ایک عرصے سے دیکھ رہے تھے ۔ ان کی یہ نظم جنگ سقاریہ میں مصطفے کمال کی اسی کامیابی کے پس منظر میں لکھی گئی ہے ۔



نظم طلوعِ اسلام کی تشریح 


پہلا بند

دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی 

افق سے آفتاب ابھرا ، گیا دورِ گراں خوابی


عروقِ مرده مشرق میں خونِ زندگی دوڑا 

سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی 


مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے

 تلاطم ہاۓ دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی


 عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے

 شکوه ترکمانی ، ذہن ہندی ، نطقِ  اعرابی 


اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل !

 نوا ارا تلخ ترمی زن چو ذوق نغمہ کم یابی 


 تڑپِ صحن چمن میں ، آشیاں میں ، شاخساروں میں

 جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی 


وہ چشم پاک میں کیوں زینت برگستواں دیکھے

 نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی


 ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کردے 

چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے


مشکل الفاظ کے معانی


فاری مصرع : نوارا تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی : یعنی جب تجھے نغمے کا ذوق کم ملے تو اپنی آواز کو تلخ تر کر دو ۔

 تنک تابی : کم کم جلنا ۔ گران خوابی : گہر نیند کی حالت میں ہونا ۔ عرق : عرق کی جمع ہے ، اس کے معانی رگ کے ہیں ۔ مشرق سے مراد شرقی اقوام ہیں ۔ سینا و فارابی : دومسلمان حکیموں کے نام ہیں ۔ ( بوعلی سینا اور ابونصر فارابی ) طوفان مغرب : سقاریہ کی جنگ مراد ہے ۔ تلاطم ہاۓ دریا : دریا کی موجیں ، یہاں جنگ اور حالات کی سختی مراد ہے ۔ گوہر : موتی یہاں مسلمان مراد ہیں ۔ شکوہ ترکمانی : ترکی میں مسلمانوں ( ترکمانوں کی شاندار حکومت کی طرف اشارہ ہے ۔ ذہن ہندی : ہندوستان کے لوگوں کی ذہانت ۔ نطق اعرابی : عربوں کی زبان دانی ۔ تقدیر سیمابی : پارے کی فطرت ( پارے کی فطرت یہ ہے کہ وہ ہر وقت حرکت میں رہتا ہے ) چشم پاک میں : پاک نگاہ ۔ برگستواں : ایک قسم کا کپڑا جسے گھوڑے کی پشت پر سجاوٹ کے لیے ڈالتے ہیں ۔ زینت : خوبصورتی ۔ مرد غازی : مجاہد ۔ سپاہی ۔ جگر تابی : روحانی آب و تاب میمیر لالہ لالہ کا باطن ، مراد مسلمان کا دل ، اس لیے کہ اقبال کی شاعری میں لانے کا پھول اکثر اسلام اور مسلمانوں کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ چراغ آرزو : آرزو کا چراغ ، آرز و و چراغ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ یمن : باغ ، یہاں مسلمان قوم مراد ہے ۔ شہید نستجو جستجو کا شوقین ۔ 


پہلے بند کے اشعار کی تشریح 


( 1 ) علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ستاروں کا ٹمٹمانا اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ اب صبح ہونے والی ہے ۔ اس لیے کہ جب صبح کا سورج طلوع ہونے کا وقت ہوتا ہے تو ستاروں کی روشنی آہستہ آہستہ ماند پڑنے لگتی ہے ۔ دراصل اس شعر میں علامہ اقبال نے یہ کہا کہ مسلمان ایک عرصے تک غفلت کی نیند سوتے رہے لیکن ترکی میں کمال اتاترک کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ اب مسلمانوں کی بیداری کا دور شروع ہو گیا ہے ۔ اس شعر میں مسلمانوں کی غفلت اور غلامی کے زمانے کورات ( دورگراں خوابی ) سے اور کمال اتا ترک کی فتوحات کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے ۔


 ( 2 ) بیشتر مشرقی اقوام چونکہ صدیوں سے غلامی کی زندگی بسر کر رہی تھیں ۔ اس لیے وہ ایسی ست اور بے عمل ہو چکی تھیں جیسے کوئی بہت کمزور اور بیانس چلنے پھرنے سے معذور ہو مسلمان قوموں کی مردہ رگوں میں نئے سرے سے زندگی کے آثار پیدا ہو گئے ۔ اس حیرت انگیز بات کو وہ لوگ ہر گز نہیں سمجھ سکتے جو ہر معاملے کومنطق و فلسفہ کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھتے ہیں ۔ اس لیے کہ بہت سی باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنی جگہ ایک ٹھوس حقیقت ہوتی ہیں لیکن ان کی عقلی تو جہ نہیں کی جاسکتی مسلمانوں کی مداح بھی کچھ اس نوعیت کا واقعہ ہے ۔ ایک کمنر در قوم اپنے سے بڑی قوت کے مقابلے میں کیسے فتح یاب ہوئی ، یہ بات عقل کی گرفت سے باہر ہے ۔

 ( 3 ) اس جنگ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو اپنی غفلت اور پسماندگی کا احساس ہو گیا ۔ جیسے دریا میں تلالم برپا ہونے کی وجہ سے موتی میں چمک پیدا ہوتی ہے ، بالکل اسی طرح جنگ نے خود مسلمانوں پر ان کے جوہر عیاں کر دیئے ہیں اور ان کو یہ معلوم ہو گیا ہے کہ جد و جہد کے بغیر دنیا میں عزت اور ناموری حاصل نہیں ہوسکتی ۔


 ( 4 ) ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خداوند عالم مسلمانوں کو ایک بار پھر دنیا میں باعزت اور سرخرو کرنے والا ہے اور انہیں ایک بار پھر ترکوں کی کی شان وشوکت ( ترکی میں مسلمانوں کی عظیم الشان حکومت قائم رہ چکی ہے ، یہاں اس کی طرف اشارہ ہے ) اہل ہند کی کی ذہانت اور عربوں کی کی فصاحت و بلاغت عطا ہونے والی ہے ۔ یادر ہے اہل ہندا پنی ذہانت اور عرب اپنی فصاحت و بلافت کے لیے ہمیشہ سے مشہورر ہے ہیں ۔


 ( 5 ) یہاں اقبال خود اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے اقبال ؟ اگر تو محسوس کرے کہ مسلمان قوم بھی غفلت کی نیند سے پوری طرح بیدار نہیں ہوئی ہے تو تجھے چاہیے کہ اپنی شاعری میں مزید آب و تاب اور تاثیر پیدا کرے ۔ اس شعر کا دوسرا فارسی مصرع عرفی شیرازی کا ہے جس کا لفظی مطلب یہ ہے کہ اگر سامعین میں گانا سنے کا ذوق نہیں ہے تو گانے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی آواز میں اثر پیدا کرے کہ سننے والے بے اختیار متوجہ ہو جائیں ۔ پہلے مصرعے میں نچوں کا استعارہ لوگوں کے لیے اور بلبل کا استعارہ شاعر نے خود اپنے لیے استعمال کیا ہے ۔


 ( 6 ) شاعر کو یہ چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو بیدار کرنا اپنا فریضہ حیات بنا لے ۔ جس طرح پارے کی فطرت میں قدرت نے تڑپ رکھ دی ہے کہ وہ کہیں ہو لیکن اپنی فطرت نہیں بدل سکتا ، اسی طرح شاعر اپنی قوم کے عشق میں پارے کی طرح بے قرار ہے اور وہ جہاں بھی موقع ملتا ہے ، اپنے اس درد کا اظہار کرتا اور قوم کو بیداری کا پیغام دیتا ہے ۔

 ( 7 ) ایک مسلمان مجاہد کا سرمایہ حیات اس کی ہمت و جرات ، بہادری اور ایمان ہے ۔ پا کیزہ فطرت رکھنے والا انسان غازی کے گھوڑے کی زمین یا اس کی ظاہری سجاوت پر نظر کرنے کے بجاۓ اس کی باطنی خصوصیات ( یعنی بہادری اور ایمان وغیرہ ) کو دیکھتا ہے اور پھر جو مجاہد اپنے بہادرانہ کارناموں کا عملی صورت میں ثبوت دے رہا ہوتو ایسے موقع پر یہ دیکھنا کہ اس کے گھوڑے کی ظاہری آرائش کیسی ہے یا اس کے پاس جنگی ساز و سامان کیسا ہے ، بڑی عجیب سی بات ہے ۔ مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے عمل کو دیکھتا ہے اور اس سے اس کے کردار کا انداز واگا تا ہے ۔


 ( 8 ) اس شعر میں اقبال ، اللہ تعالی سے یہ دعا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں اپنی عظمت رفتہ کو واپس لانے کی آرزو بیدار کر دے ۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ قوم کے ایک ایک فرد کے دل میں میتمنا پیدا ہو جائے اور جس طرح ترکی میں وہاں کے بہادر عوام نے اپنی آزادی دعزت کا دفاع کیا ۔ اسی طرح ہندوستان بھی انگریز کی غلامی سے جلد آزاد ہو جائے ۔


دوسرا بند کے اشعار کی تشریح


سرشکِ چشمِ  مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا

 خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا 


کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے

 یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا


 ر بودآن ترک شیرازی دل تبریز و کابل را 

صبا کرتی ہے ہوۓ گل سے اپنا ہم سفر پیدا


 اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

 کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا


 جہاں بانی سے  ہے دشوارتر کار جہاں بینی

 جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا 


ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

 بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا


 نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے

 کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا


 ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے

 مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے

مشکل الفاظ کے معانی


 مصرع : ربود آن ترجمہ : اس شیرازی ترک ( محبوب ) نے اہل تبریز اور کابل کے دل موہ لیے ہیں ۔

 سرشک چشم مسلم : مسلمانوں کی آنکھوں کے آنسو ۔ یہاں دل میں پیدا ہونے والا جذ بہ مراد ہے ، اس لیے کہ جب دل میں گداز  پیدا ہو گا تب ہی آنکھ میں آنسو آ ئیں گے ۔ نیساں : روی برسات کا مہینہ یہاں اس سے مراد بر نیساں ہے یعنی وہ بادل جس کے قطروں سے موتی پیدا ہوتے ہیں ۔ اپریل کے مہینے میں ایک مخصوس بارش کوابر نیساں کہتے ہیں ۔اس بارش کے قطرے جب سمندر یا دریا میں گرتے ہیں تو سیپیوں کے کھلے منہ میں ٹیک کر قطرے موتی بن جاتے ہیں ۔

 یہاں مسلمانوں کے جذ بے وموتیوں کی مانند یتی قراردیا گیا ہے خلیل اللہ : حضرت ابراہیم کا لقب ہے ۔ خلیل امت کا دریا سے ملت اسلامیہ مراد ہے ، اس لیے کہ آں حضرت بھی حضرت ابراہیم کی نسل سے ہیں ۔ گہر : موتی ۔ کتاب ملت بیضا : مسلمانوں کو کتاب سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ شیراز و بندی : کتاب کی جلد باندھنا ، یہاں مسلمانوں کا اتحادمراد ہے ۔ شاخ ہاشمی : مسلمان قوم مراد ہے ۔ باشم حضور اکرم کے پردادا کا نام ہے ۔ برگ و بر پتے اور پھل ۔ یہاں مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی مراد ہے ۔ ترک شیرازی : شیرازی ترک اور محبوب ، یہاں مصطفے کمال کی طرف اشارہ ہے ۔ 

تبریز : ایران کا مشہور شہر ہے ۔کابل : افغانستان کا دارالحکومت ہے ۔ تبریز و کابل سے مراد دنیاۓ اسلام ہے ۔ بوۓ گل پھول کی خوشبو ۔ ثانی : ترکی کی سلطنت عثمانی ترک قوم مراد ہے ۔ کو پٹم بم کے پہاڑ ۔ خون صد ہزار انجم : کئی ہزارستاروں کی موت واقع ہونا یعنی ستاروں کا ڈوب جانا ۔ جہاں بانی : حکومت کرنا ۔ جہاں بینی : دنیا کو دیکھنا ۔ قوموں کے عروج وزوال کا مشاہدہ کرنا اور اس سے نتائج اخذ کر کے سبق سیکھنا ۔ جگر خون کرنا : بہت زیادہ غور وفکر کرنا ۔ نرگس : ایک پھول کا نام جس کی شکل آنکھ سے مشابہت رکھتی ہے ۔ دیدہور : آنکھ والا ، ایسی نظر رکھنے والا جو حقیقت کی تہہ تک پہنچ جاۓ ۔ نوا پیرا : نفر گری کرنے والا ۔ بلبل : شاعر نے اپنے آپ کو بلبل کہا ہے ۔ تریم : ترنم سے مراد شاعری ہے ۔ کبوتر : مرادکمزورمسلمان ۔ شاہیں کا جگر ہمت اور بہادری مراد ہے ۔


 تشریح 


( ۱ ) مسلمانوں کے جذبے میں اتنی تاثیر موجود ہے کہ اگر وہ خداوند دو عالم کے منصور پوری توجہ اور خلوص کے ساتھ گریہ و زاری کرے تو خدا اس کے آنسوؤں کی لاج رکھتے ہوۓ ضرور اس کی دعا قبول فرمائے گا ۔ اقبال کہتے ہیں کہ مجھے امید ہے مسلمان قوم ایک بار پھر دنیا میں عزت اور سر بلندی حاصل کرے گی اور اللہ اس پر اپنا خاص فضل و کرم نازل فرمائے گا ۔ 

( 2 ) مسلمان قوم ایک عرصے تک منتشر اورزوال ز دور ہنے کے بعد پار تسجل رہی ہے اور اس میں اتحاد پیدا ہورہا ہے ۔ یہاں شاعر نے مسلمانوں کے انتشار کو ایک ایسی کتاب سے تشبیہ دی ہے جس کے اوراق بھر چکے ہوں لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس کتاب کے ورق اکٹھے کیے جارہے ہوں ۔ دوسرے مصرعے میں شاعر نے ملت اسلامیہ کو ایک ایک شاخ سے تقریہہ وی ہے جس میں برسوں سے چل پھول نہ آۓ ہوں ۔ لیکن اب بی شاخ پھر سے ہری بھری ہوتی نظر آرہی ہے ۔ دراصل اس شعر میں ترکوں کی کامیابی کی طرف اشارہ سے جس سے اقبال کو یہ امید پیدا ہوئی تھیکہ ترکی کی مانند دوسرے ممالک میں بھی مسلمان اسی طرح متحد اور مسلم ہو جا میں گے ۔


 ( 3 ) کمال اتا ترک نے جوشان دار حاصل کی ہے ، اس نے اسے تمام عالم اسلام کی آنکھ کا تارا بنا دیا ہے ۔ جس مرج پھول کی خوشبو ہوا کے دوش پر سوار ہو کر سفر کرتی ہے اور ساری فضا میں پھیل جاتی ہے ، اسی طرح مصطفے کمال کی کامیابی کی خبر خوشہوگی طرح سارے عالم اسلام میں پھیل گئی ہے ۔ 


( 4 ) بلقان کی ریاست کی جنگوں ، پہلی جنگ عظیم اور جنگ ستار یہ میں ترکوں کو بڑا بھاری جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا ۔ شاعر اس نقصان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر ترکوں کو یہ نقصان اٹھانا بھی پڑا تو اس میں پریشان یا فکر مند ہونے کی کوئی بات نہیں ہے ، اس لیے کہ دنیا میں کوئی بڑا مقام قربانی کے بغیر نہیں ملتا ۔ صبح کے وقت لاکھوں ستارے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں تب کہیں جا کر صبح طلوع ہوتی ہے ، اسی طرح ملک وقوم کے لیے کچھ افراد کا قربانی دینا ، ملک وقو م کو حیات تازہ عطا کرتا ہے ۔ 


( 5 ) جہاں بانی یعنی حکومت کرنے سے جہاں میں دشوارتر ہے ۔ جہاں بینی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کوقوموں کے عروج وزوال کے واقعات اور ان کے اسباب پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر کسی قوم کو زوال آیا تو کیوں آیا ۔ اگر ہم کسی قوم کے زوال کے اسباب جان لیں گے تو فطری طور پر اپنے یہاں ویسے حالات رونما نہیں ہونے دیں گے اور زوال سے بچے رہیں گے لیکن یہ بڑا مشکل کام ہے اور اس کے لیے بڑی سوچ بچار اور غور وفکر کی ضرورت ہے ، تب جا کر انسان میں اتنی صلاحیت اور فراست پیدا ہوتی ہے کہ وہ جہاں بیان ہونے کا دعویدار ہو گئے ۔

 ( 6 ) نرگس ایک پھول ہے جو آنکھ سے مشابہت رکھتا ہے ۔لیکن اس کی آنکھ میں تو نہیں ہوتا۔اقبال کہتے ہیں کہ نرگس ہزاروں سال تک اس بات پر روتی رہتی ہے کہ اس کی آنکھیں بے نور ہیں ۔تب کہیں باغ میں کوئی صاحب بصیرت پیدا ہوتا ہے جو اس کی قدرکر سکتا ہے ۔ یہاں دید و در کا لفظ کمال اتا ترک کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور شعر کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی شخصیت جو کسی بے حس اور مردہ قوم میں زندگی کی روح پھونک دے ، کہیں صدیوں میں جا کر پیدا ہوتی ہے اور کمال اتا ترک ایسی ہی شخصیات میں سے ایک شخصیت ہے جس نے ترکی میں ایک نئے دور کی بنیا در کھ دی ۔


 ( 7 ) اس شعر میں اقبال نے خود اپنے آپ سے خطاب کیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ موجودہ حالت میں بحیثیت شاعر میر افرض یہ ہے کہ میں اپنی شاعری سے مسلمان قوم کو بیدار کروں ۔ میری شاعری میں ایسا اثر پیدا ہو جاۓ کہ وہ مسلمان قوم جو کبوتر کی مانند حالات سے ڈر کر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور اپنے آپ میں مقابلہ کرنے کی سکت نہیں پاتی ، شاہین کی طرح بہادر اور بلند ہمت ہو جاۓ ۔ کبوتر چونکہ ایک کمزور اور ڈرپوک پرندہ ہے ، اس لیے یہاں مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی کمزوریوں کے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ، جب کہ شا ہین اقبال کو اس لیے پسند ہے کہ وہ بلند پرواز ، بلند ہمت اور حالات سے 

مقابلہ کرنے والا پرندہ ہے ۔


انکی آرزو ہے کہ مسلمان کبوتر کی طرح بزدلی کا ثبوت دینے کے بجاۓ شاہین کی طرح حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا سیکھیں ۔ 

( 8 ) اس شعر میں بھی پچھلے شعر کی طرح ایک خود کلامی کی سی کیفیت ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ چوں کہ میں زندگی کی پوشیدہ حقیقتوں سے واقف ہوں اس لیے میں مسلمانوں کو ان حقائق سے ضرور آگاہ کروں گا اور انہیں یہ بتاؤں گا کہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کون کون سے ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں ۔ یہاں سوز سے مراد جذبے کی صداقت اور ساز سے مراد دنیاوی ساز و سامان ہے اور یہی دو چیز میں دنیا میں کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی ہیں ۔اگر کسی قوم میں اپنے نصب العین سے والہانہ لگاؤ اور اس کے ساتھ ساتھ مادی وسائل موجود ہوں تو اس کے لیے کامیابی حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں ہوتا ۔


  تیسرابند 


 خدائے لم یزل کا دست قدرت تو ، زباں تو ہے

 یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے


 پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلمان کی 

ستارے جس کی گرد راہ ہوں ، وہ کارواں تو ہے


 مکاں فانی ، مکیں آنی ، ازل تیرا ، ابد تیرا

 صدا کا آخری پیغام ہے تو ، جاوداں تو ہے 


تیرا حنا بند عروی لالہ ہے خون دیگر تیرا

 تیری نسبت براہمی ہے معمار جہاں تو ہے


 تری فطرت امیں ہے ، ممکنات زندگانی کی 

جہاں کے جوہر مضمر گویا امتحاں تو ہے


 جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر 

نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے


یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہے پیدا 

که اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے


 سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا

 لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

 مشکل الفاظ کے معانی


 خدائے لم یزل : وہ خدا جسے بھی زوال نہ ہو ۔ دست قدرت اللہ کی قدرت کا مظہر ، اس کے دین کا پھیلانے والا ۔ مغلوب گماں : شک سے مغلوب ، جس میں یقین کی کمی ہو ۔ چرخ نیلی فام : آسمان ۔ گردراہ راستے کا غبار بے حیثیت چیز مراد ہے ۔ آنی : آن ، وقت کا سب سے چھوٹا اور مختصر حصہ ۔ ازل : وقت کا نقطہ آغاز ابد : وقت کا نقطہ ، انجام یکمین : رہنے والا ، یہاں انسان مراد ہے ۔ جاوداں : ہمیشہ رہنے والا ۔ زندہ بادید ۔ حنابند : مہندی لگانے والا ، یہاں آراستہ کر نے اور جانے والا مراد ہے ۔ عروس االہ : اللہ کے پھول کو لین سے تشبیہ دی ہے ، لالہ کے پھول سے یہاں دنیا مراد ہے ۔ خون جگر : دل کا خون مسلمانوں کے جذ بہ مشق اسلام کی طرف اشارہ ہے ۔ نسبت بتعلق ۔ معمار جہاں : دنیا کو بنانے والا ، یوں تو دنیا کو سنوار نے والا خدا ہے لیکن یہاں مراد یہ ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی دنیا کو سنوار نے اور کیا نے و ۱۱ ۔ میں : امانت دار ممکنات زندگی : زندگی میں ترقی کی جتنی صورتیں ممکن ہیں ۔ جوہر مضمر : پوشید و جو ہر راز جہاں ۔ آب وگل : یہ مادی دنیا جو پانی اورمٹی وغیرہ سے بنی ہے ۔ عالم جاوید : دوسری دنیا اسے عالم جاوید ہمیشہ رہنے والا ) اس لیے کہا کہ اس دنیا کوفتا نہیں ہے۔ارمغاں : تحفہ ۔ سرگذشت ملت بیضا : ملت اسلامیہ کی تاریخ ۔ پاسباں : حفاظت کرنے والا صداقت : سچائی ۔ عدالت : عدل و انصاف قائم کرنا ۔ شجاعت : بہادری ۔ امامت : سرداری ، راہبری ۔


 تشریح 

( 1 ) اس بند کے اس شعر میں اقبال مسلمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہں کہ تو اللہ اور اس کے لیے دین کا صیح معنوں میں مدد گار ہے ۔ تو نے اس کے دین کو پھیلانے کے لیے دنیا میں عملی جد و جہد کی ہے اور تیرے ہی ذریعے سے خدا ، دنیا والوں کو اپنا پیغام دینا چاہتا ہے ۔ دوسرے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ وہ لوگ جنہیں اللہ اور اس کے دین پر ابھی کامل اعتقاد پیدا نہیں ہوا اور جو ابھی شک وشبہ کی منزل سے گزررہے ہیں ، انہیں چاہیے کہ اپنے اندر اللہ پر یقین پیدا کر لیں ۔ اس لیے کہ اب اللہ کے دین کے پھیلنے کا زمانہ قریب ہے۔


 ( 2 ) مسلمانوں کو یہ چاہیے کہ وہ بلند سے بلند مقام کو بھی اپنی منزل قرار نہ میں یہاں تک کہ آسمان کی بلندی بھی ان کے سامنے آ گیا ہے سے حقیقت ہو تجاۓ ۔ مسلمانوں کی مثال تو اس قافلے کی طرح ہے جوا کی ترقی اور عروج کے سفر میں ستاروں کو بھی نیچے چھوڑ جائے گا اور ستارے اس کے نزدیک راستے کی گرد سے زیادہ حیثیت نہ رھیں گے ۔ اقبال اس نظریے کے حامی ہیں کی منزل کا تعین انسان د تسلی قوتوں کوست کو دیتا ہے ، اس لیے جہاں تک ممکن ہوانسان کو سی ایک جگہ قیام کر کے اسے اپنی منزل قرار نہیں دینا چاہیے ۔ یہاں تک کہ اگر ستاروں پر بھی پہنچ جائے تو اسے چاہیے کہ اس سے بھی آگے اپنا سفر جاری رکھے اس لیے کہ انسانی جد و جہد کا کوئی نقل نہیں ہوتا ۔ ایک اور جگہ کہتے ہیں ۔


 ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

 ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔


 ( 3 ) مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ یہ دنیا ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں ہے اور یہاں کی ہر شے ایک نہ ۔ ایک دن فنا ہو جاۓ گی ۔ چنانچہ انسان کا قیام بھی اس دنیا میں ایک عارضی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلمان کو بھی سمجھتا چاہیے کہ اگر چہ اس کا جسم فانی ہے لیکن اپنے کارناموں کے اعتبار سے وہ ہمیشہ کی زندگی بھی حاصل کر سکتا ہے ۔ چونکہ وہ دنیا میں خدا کے آخری پیغام یعنی اسلام کا نام لیوا ہے ، اس لیے اگر وہ اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا رہے تو اس نسبت سے اسے ہمیشہ کی زندگی اور ناموری حاصل ہو سکتی ہے ۔

 ( 4 ) علامہ اقبال مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تیری ذات میں خداوند عالم نے وہ خوبیاں اور صلاحیتیں پوشید و رکھی ہیں کہ اگر تو ان سے کام لے تو دنیا میں ترقی کا سبب بند سکتا ہے لیکن سیاسی وقت ممکن ہے جب تو اسلام کے اصولوں پرمل پیرا ہو ۔ عروس لالہ سے مراد دنیا ہے ۔ جس طرح دلہن کو مہندی لگا کر اس کی تزئین و آرائش کی جاتی ہے ، اسی طرح مسلمان اس دنیا کی خوبصورتی میں اضافہ کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس کا عظیم کا جذ بہ اپنے دل میں پیدا کر لیں اور اسلام کے حوالے سے اپنا فرض ادا کر نے کی کوشش کر یں ۔ مسلمانوں کو حضرت ابراہیم سے خاص نسبت ہے ۔ اسلام دین ابراہیم ہی کا تسلسل ہے ۔ حضرت ابراہیم نے کعبہ کی تعمیر کی تھی مسلمان اس سنت ابراہیمی پر مل کر تے ہوۓ ایک ایسی ہی دنیا کی تعمیر کر میں جس میں ہر طرف اسلام کا بول بالا ہو ۔


 ( 5 ) زندگی کوئی جامد یا ساکن چیز نہیں ہے کہ ایک جگہ شہری رہے ۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہر اظ تغیر و تبدل اور ارتقا کامل جاری ہے ۔ مسلمان کی فطرت میں خدا نے یہ صلاحیت رکھ دی ہے کہ وہ اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بروے کار لاتے ہوئے زندگی کی تعمیر وترقی میں اپنا کردارادا کرے ۔مسلمان کا یہ فرض ہے کہ اس کائنات کے اندر فطرت کے جو راز پوشیدہ ہیں اور اس کی جونمتیں ابھی تک ہم پر آشکار نہیں ہوسکیں انہیں بے نقاب کر کے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائے ۔ اگر انسان اپنی ان صلاحیتوں سے کام نہیں لیتا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے اپنے مقصد تخلیق کونہیں پہچانا اور خدا نے اسے جس آزمائش میں ڈالا تھا ، وواس میں نا کام رہا ۔


 ( 6 ) اس شعر میں اقبال کا اشارہ ان نیک اور صالح مسلمانوں کی طرف ہے جن کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں ارشادفرمایا ہے کہ میں تمہاری وجہ سے قیامت کے دن دوسری امتوں پر فخر کروں گا ‘ ‘ ۔ مسلمان اگر اپنے کردار نسل کے اعتبار سے بیچ معنوں میں مسلمان ہے تو دو ایک ایسا تحفہ ہے جسے حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خدا کے حضور فخریہ انداز میں پیش کر سکتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر خدا نے مجھے دنیا میں نبی بنا کر بھیجا اور لوگوں کے اخلاق کی تکمیل کے لیے مامور کیا تھا تو میں نے بھی حق ثبوت اس طرح ادا کیا کہ میری تربیت کے اثر سے ایسی ایسی شخصیات وجود میں آ میں جن پر میں بجا طور پر فخر کرکے عالم فانی سے عالم باقی کی طرف آتے ہوئے میں یہی تنہا یا ہوں ۔

 ( 7 ) اس شعر میں بھی عام مسلمانوں سے خطاب ہے ۔اقبال کہتے ہیں کہ اگر تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کیا جاۓ اور ماضی قریب میں ترکی میں مسلمانوں کو جو فتح حاصل ہوئی ہے ، اس کو بھی پیش نظر رکھا جائے تو میرا ندازہ کرنا مشکل نہیں کہ مسلمان اور ایشیائی اقوام بہت جلد یورپ کے سیاسی غلبے سے نجات حاصل کر لیں گی اور اس کے بعد ایشیا کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں آ جاۓ گی ۔ غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد مسلمان ایک نئی اور تازہ قوت کے طور پر ابھر میں گے جیسا کہ ترکی میں مسلمانوں کی حالیہ فتح سے ظاہر ہوتا -


 ( 8 ) اس شعر میں اقبال مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چونکہ حالات مسلمانوں کے حق میں ساز نظر آرہے ہیں اور اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ مستقبل میں مسلمان ایک بار پھر دنیا کی قیادت اور سرداری سنبھائیں ، اس لیے ان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس منصب اور ذمہ داری کا اہل ثابت کر یں ۔ اہل اختیار کے لیے بیضروری ہے کہ وہ اپنے قول میں کچے ، لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کرنے والے اور حالات کا بہادری سے مقابلہ کر نے والے ہوں ۔ مسلمان اگر اپنے آپ کو ان تین صفات سے متصف کر لیں گے تو کوئی تعجب نہیں کہ خداستقبل میں دنیا کی سرداری انہیں عطا کر دے ۔ 


چوتھا بند


 یہی مقصود فطرت ہے ، یہی رمز مسلمانی 

اخوت کی جہانگیری ، محبت کی فراوانی


 بتان رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا 

نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی ، نہ افغانی


میان شاخساراں صحبت مری چین کب تک 

ترے بازو میں  ہے پرواز شاہین قہستانی 


گمان آباد بستی میں یقیں مرد مسلمان کا 

بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی 


منایا قیصر و کسری کے استبداد کو جس نے

 وہ کیا تھا ، زور حیدر ، فقر بوذر ، صدق سلمانی


 ہوئے احرار ملت ، جادہ پیما کس تحمل سے

 تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے زندانی


 ثبات زندگی ، ایمان محکم سے ہے دنیا میں

 کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تورانی


 جب ان انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا 

تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا

مشکل الفاظ کے معانی


 د ، خدا کی مرضی ۔ رمز مسلمانی : اسلام کی حقیقت ۔ اخوت : بھائی چارہ ۔ جہانگیری : جہان کی فتح ، حکومت کرنا ۔ فروانی : کثرت ۔ پتا ع ہے بت کی ۔ بتان رنگ وخوں : یہاں بت تشبیہ کے طور پر آیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ رنگ اور نسل کو پرستش کی حد تک اہمیت دیتالینی جس طرح بتوں کی پوجا ہوتی ہے ، اسی طرح اپنے رنگ نسل کو پو جنا ۔ ملت : ملت اسلامیہ مراد ہے ۔میان شاخساراں : درختوں کی شاخوں کے درمیان صحبت مرغ چمن : باغ کے پرندوں کی صحبت ، مرغ فارسی زبان میں پرندے کو کہتے ہیں ۔ پرواز اڑنا ۔ قہستان خراسان کے ایک مقام کا نام ہے جو بلندی پر واقع ہے ۔ گمان آبادانستی : دنیا مراد ہے لفظی مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا جس کی کوئی چیز یقین کے قابل نہیں ۔ قند میں را جہانی : راستہ دکھانے والا چراغ ، راہب یا درویش کی جھونپڑی کا دیا ۔ قیصرد کسری : قدیم روم اور ایران کے بادشاہوں کے لقب ہیں ۔ استبداد فظلم وستم ۔ زور حیدر : حضرت علی کی طاقت اور بہادری جو تاریخ اسلام میں ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے ۔فقر بوذر : حضرت ابوذرغفاری “ کا فقر یعنی در و پنی مشہور صحابی حضرت ابوذرغفاری " اپنے فقر کے لیے مشہور ہیں ۔ صدق سلمانی : حضرت سلمان فارسی کی حق گوئی اور سچائی ۔ 

حضرت سلمان فارسی ایک عظیم المرتبت صحابی گزرے

ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اس قدر قریب تھے کہ آپ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشادفر مایا کہ سلمان میرے اہل بیت میں شامل ہیں ۔ احرار : نفع ہے ترکی مطلب ہے آزادلوں ۔ جادہ پیا سفر پر روانہ ہونا ۔ قبل : شان ۔ شکاف در دروازے کا وہ سوراخ جس سے باہر تھا نکا جا سکے ۔ زندانی : قیدی ثبات زندگانی : زندگی کا قائم رہنا ۔ ایمان نظام مضبو با ایمان ۔ المانی : جرمنی کا باشند ہو ۔ تو رائی : ترکان عثمانی مراد ہیں ۔انگارہ نا کی : انسان مراد ہے ۔ روح میں : حضر


 تشریح 


( 1 ) فطرت کا تقاضا اور اسلامی تعلیمات کا مقصد یہی ہے کہ دنیا میں اخوت اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو ۔ انسانوں کے درمیان سے نفرت کی خلیج ختم ہو جائے اور انسان انسان سے اس طرح محبت کرنے لگے جیسے ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے اور یہی وقت ممکن ہے جب دنیا میں اسلامی تعلیمات عام ہوں اور لوگ النا پھل پیرا ہو جائیں ۔

i

 ( 2 ) اقبال مسلمانوں سے بنا طب ہو کر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو رنگ نسل ، خاندان ، قبیلے اور نام و نسب کے امتیاز کو یکسر مٹادینا چاہیے ۔ وہ لوگ جنہوں نے نسلی امتیاز کو دنیا میں اتنی اہمیت دے رکھی ہے جیسے کوئی بت پرست اپنے بتوں کو پوجتا ہے کسی طرح بھی لائق ستائشہ نہیں ایک مسلمان کے لیے تو اس تفریق کو اہمیت دینا ہرگز زیب نہیں دیتا ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایرانی ، افغانی یا کسی بھی ملک کا باشندہ کہلوانے اور اس پر فخر کرنے کے بجائے اپنے آپ کو امت مسلمہ کا ایک فرد مجھیں ۔ اس شعر میں اقبال نے قومیت کے سیاسی تصور کے بجاۓ قومیت کے مذہبی اور روحانی تصور کواہمیت دی ہے اور متلقین کی ہے کہ سرزمین سے وابستگی پر مذہب سے وابستگی کو فوقیت دینی چاہیے کہ یہی اسلام کی تعلیم ہے ۔


 ( 3 ) اس شعر کا لفظی مطالبہ یہ ہے کہ وہ پرندہ جو آزاداور کھلی فضاؤں میں پرواز کرنے کی طاقت رکھتا ہے ، باغ کی چند شاخوں کو اپنا آشیانہ کیوں قرار دے ۔ اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو سی ایک خطہ زمین تک محدود نہ کر لیں ، جب وہ ساری دنیا کو فتح کرنے اور کرہ ارض پر پھیل جانے کی طاقت رکھتے ہیں تواللہ تعالی کے پیغام کو عام کرنے کے لیے کیوں میدان عمل میں نہیں نکل آتے ۔


 ( 4 ) یہ دنیا ایک نا پائیدار جگہ ہے ۔ یہاں کی ہر شے فانی اور ناقابل اعتبار ہے لیکن یہاں اگر کسی چیز پر اعتبار کیا جا سکتا ہے تو وہ مردمومن کی قوت ایمان اور خدا پر اس کا یقین ہے ۔ دنیا میں ایمان کی وہی حیثیت سے جو صحرا میں کسی درویش کی جھونپڑی میں جلتے ہوۓ چراغ کی ہوتی ہے ۔ جس طرح درویش کی کنیا کا لملاتا ہوا دیا راتوں کو بھٹکے ہوئے مسافروں کو راستہ دکھا تا ہے ، اسی طرح ایمان بھی ایک چراغ کی مانند ہے جو زندگی کے صحرا میں راہ راست سے بنی ہوئی انسانیت کو نجات کے راستے پر لگا دیتا ہے ۔ اس شعر میں اقبال نے ایمان اور یقین کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور اسے درویش کی جھونپڑی کے چراغ سے تشبیہہ دی ہے ۔


 ( 5 ) اس شعر میں اقبال نے اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کی فتوحات کے حوا ۔ یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں نے اگر روم اور ایران کی عظیم الشان حکومتوں کو شکست دے کر وہاں سے بھی حکومتوں اور بادشاہوں کا خاتمہ کیا اور وہاں کے عوام کو ان ظالم اور جابر حکمرانوں سے نجات دلا کر وہاں اسلام کے عادلانہ نظام قائم کیا تو اس کی وجہ تھی کہ اس زمانے کے مسلمانوں نے اپنے اندر وو خوبیاں پیدا کر لی تھیں جو ان کی فتح اور برتری کا باعث نہیں ۔ ان اخلاقی خوبیوں میں سے نمونے کے طور پر اقبال نے مرت علی کی بهادری مضرت ابوڈ رفتاری کے فقر واستغناء اور حضرت سلمان فارسی کی حق گوئی و بے باکی کا حوالہ دیا ہے ۔ اس شعر میں اس بات کی صرف بھی اشارہ موجود ہے کہ اگر عہد جدید کا مسلمان بھی اپنے زمانے میں دیسے بھی کارنامے انجام دینا چاہتا ہے جیسے اس کے آباؤ اجداد نے انجام دیئے تھے تو اس کے لیے حضرت کی کی شجاعت حضرت ابور کا فقر اور حضرت سلمان فاری و صدق اپنے اندر پیدا کرنا پڑے گا ۔

 ( 6 ) مسلمانوں کی تاریخ ایک منفرد اور بے مثال تیری ہے ۔ پھراۓ عرب کے مٹھی بھر سحر انشینوں نے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد اس تیزی سے دنیا میں خدا کا پیغام پہنچایا کہ لوگ تیران رہ گئے ۔ وہ دنیا کے جس خطے میں گئے اور جس سر زمین پر بھی اپنی عومری قائم کی وہاں کے لوگوں کو نہ صرف مقامی حکمرانوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائی بلکہ صدیوں سے کفر وشرک ، بت پرستی ، جہالت اور تو ہمات کے جال میں ملکر ے ہوۓ مجبور و بے کس انسانوں کو ان پابندیوں سے آزاد کرایا ۔ 


( 7 ) دنیا میں وجود کو برقرار رکھنے کے لیے دنیاوی اور مادی وسائل و ذرائع کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن ایک چیز جو مومن کی زندگی کے استحکام کی ضمانت ہے ، اس کے ایمان کی مضبوٹی ہے ۔ اپنی اس بات کی تائید میں اقبال ترکوں کی حالیہ کامیابی کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر چہتر کی 1918 - 1914 ء کی جنگ میں شکست سے دو پار ہو چکے تھے لیکن ایک قلیل و تلنے کے بعد 1922 ء میں انہوں نے شاندار فتح حاصل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان اپنی قوت ایمانی کے بل بوتے پر زیادہ وسائل رکھنے والی قوتوں کو شکست دے سکتا ہے اور اس طرح ترک قوم ، جرمن کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور پائیدار ثابت ہوئی ۔ 


( 8 ) انسان عام حالات میں شاید تا بڑا کارنامہ انجام نہ دے سکے لیکن اگر اس کے اندر یقین کی قوت پیدا ہو جاۓ تو پھر وہ اپنی صفات کے اعتبار سے حضرت جبرئیل کا ہمسر ہو جا تا ہے ۔ اس شعر میں اقبال نے مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وواپنے دلوں میں یقین اور ایمان کی قوت پیدا کر میں کہ اس کے بغیر انہیں نہ تو دنیا میں کوئی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے اور ندوہ اللہ تعالی کی نظر میں کوئی مقام پاسکتے ہیں ۔ حضرت جبرائیل کا ہمسر ہونے سے مراد خدا کی نظر میں بلند مقام حاصل کر ۔

پانچواں بند


 غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

 جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیر یں


کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا !

 نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں 


ولایت ، بادشای ، علم اشیا کی جہاں گیری 

یہ سب کیا ہیں ، فقط اک نکتے ایہاں کی تفسیریں


 براہمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

 ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں


 تمیز بنده و آقا فساد آدمیت ہے

 حذر اے چیرہ دستاں ! سخت میں فطرت کی تعزیریں


 حقیقت ایک ہے ہر شے کی ، خاکی ہو کہ نوری ہو

 لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں


 یقین محکم ، عمل عیم ، محبت فاتح عالم 

جہاد زندگانی میں میں یہ مردوں کی شمشیر یں


 چه باید مرد راطبح بلندے ، مشرب نابے

 دل گرمے ، نگاہ پاک بینے ، جان بنتابے

مشکل الفاظ کے معانی 


فارسی شعر کاترجمه : انسان و کیا چاہیے ؟ بلندطبعیت پیچ مقصد گرم دل ، پا کیز و چیزیں دیکھنے والی کا اور بے قرار روح ۔ شمشیر : تلوار ۔ تدبیر : کوشش ۔ ذوق یقین مضبوط ایمان ۔ ولایت : خدا کا قرب تفسیر : وضاحت ۔ براہیمی نظر : حضرت ابرانیم بیسی نگاہ ۔ یہاں قوت ایمان مراد ہے ۔ ہوں : دنیا کی محبت ۔ دنیاوی چیزوں کی خواہش ۔ بندہ : غلام ۔حذر : ڈرنا یا گریز کرنا ۔ چیرہ دست : ظالم تعزیر : سزا۔

خاکی : خاک سے بنا ہوا۔اوری : نور کا بناہوا۔خورشید : سورج ۔ یقین محکم : مضبوط ایمان عمل پیہم : مسلسل کوشش اور جد و جہد ۔ فاتح عالم دنیا کو فتح کرنے والا



تشریح 


( 1 ) چونکہ اس زمانے میں بیشتر مسلمان ممالک غلامی کی لعنت میں گرفتار تھے ، اس لیے اقبال ان ممالک کے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ غلامی سے آزاد ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اپنے اندر ایمان کی پختگی پیدا کرو ۔ اگر مسلمانوں کے دلوں میں ایمان کی قوت ہی نہ ہو گی تو مادی وسائل رکھنے کے باوجود و واس غلامی سے نجات حاصل نہ کرسکیں گے ۔ دشمنوں پر نا بہ پانے کے لیے تیر اور تلوار جنگی ساز و سامان اور عقلی تدابیر سے زیادہ تین مقام کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر خدا اور اس کی رحمت پر تمہارا ایمان پختہ ہو گا تو غلامی کی زنجیر میں ایک نہ ایک دن ضروراٹ جائیں گی ۔


 ( 2 ) جب دلوں میں ایمان کی قوت موجود ہو اور مومن کو اللہ کے فضل و کرم پر پورا بھروسہ ہوتو د ودنیا میں بڑی سے بڑی طاقت سے فکر اسکتا ہے ۔اس شخص کی قوت بازو کا انداز نہیں لگایا جا سکتا جس کا دل نورایمان سے منور ہو ۔ یہاں تک کہ ایسا شخص محض ایک نگاہ ڈال دینے سے تقدیر کا رخ بدل سکتا ہے ۔اقبال اس شعر میں مومن کی روحانی قوت کی طرف اشارہ کرر ہے ہیں اور حقیقت ہے کہ اگر مسلمان کے دل میں خدا کا خوف موجود ہو اس کے ایمان میں کوئی کھوٹ نہ ہو اور اس کاکل پاک ہوتو اس میں اتنی روحانی قوت پیدا ہو سکتی ہے کہ اس کے ایک اشارے سے تقدیر کا رخ بدل جائے ۔


 ( 3 ) اس شعر کے پہلے مصرعے میں اقبال نے چند ایسی اشیا کا ذکر کیا ہے جنہیں پانے کی ہرشخص تمنا کرتا ہے ، مثلا قرب خداوندی حکومت و بادشاہی اور علم و حکمت کے اسرار و رموز سے آ گا ہیں ۔ دوسرے مصرعے میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ان تمام اشیاء کو حاصل کرنے کے لیے صرف ایک چیز کو حاصل کر لینا کافی ہے اور وہ چیز سے ایمان ۔ اگر تم ایمان کی دولت سے مالا مال ہو تو یہ تمام چیز میں خود بخو تمہارے تصرف میں آ جائیں گی ۔

 ( 4 ) لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ روحانی بلندی اور ایمان کی پیشگی بڑی مشکل سے حاصل ہوتی ہے ۔ اپنے اندرایی پیغمبرانہ نظر پیدا کر لینا جو تقدیر بدل ڈالنے پر قدرت رکھتی ہو ، اتنا آسان نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں دنیا اور دنیا کے مال و اسباب کے حصول کی خواہش ہر وقت موجزن رہتی ہے ۔ انسان زبان سے چاہے کتنا ہی خدا پرستی کا اظہار کرے لیکن اس کا دل دنیاہی کی محبت میں گرفتا ر ہتا ہے ۔ لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی محبت اور ہوس پرستی پر قابو پانے کی کوشش کر ے ۔


 ( 5 ) مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حضور اکرم کے ارشاد کے مطابق چھوٹے بڑے ، غلام اور آ قا ، محتاج اورنمنی کی تفریق کومٹاو میں کہ خداوند قدوس نے تمام انسانوں کو برا برقرار دیا ہے اور جولوگ انسانوں کے درمیان تفریق پیدا کرتے ہیں وہ انسانیت کے دشمن ہیں اور انسانوں کو آپس میں لڑواکر ان کے درمیان عدادت اور نفرت کی خلیج حائل کرنا چاہتے ہیں ۔ دوسرے مصرع میں اقبال نے انسانوں کے اس طبقے کو مخاطب کیا ہے جو دولت اور اقتدار کے نشے میں غریب انسانوں کو اپنے آپ سے کم تر اور اپنا غلام سمجھتا ہے اور ہم ۔ بات سے خبر دار کیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنا ظلم و ستم اسی طرح جاری رکھا اور کمزور اور غریب انسانوں کے حقوق کو اسی طرح پامال کر تے ہیں تو وہ دن دور نیں اب قدرت خوان سے اس انسانوں کی ہے سی کا ان سے انتقام لے گی ۔ ان ظالموں کو اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب قدرت انہیں ان کے لیے کی سزا دے کر ان کے ظلم کا خاتمہ کر دے گی ۔ 


( 6 ) دنیا میں خدا نے جتنی بھی موجودات پیدا کیں خواہ وہ نا کی ہوں یا نوری ، سب کی اصل اور حقیقت ایک ہے ۔ مثال کے اور پر اگر کسی ڈرے کا دل چیز کو دیکھا جائے تو اس میں سے سورج کا خون نکلنے لگے گا ۔ اگر چہ ڈرو سورج کے مقابلے میں ایک کم تر در پے کی مخلوق ہے لیکن چونکہ ان کی اصل ایک ہے اس لیے اس کے غم کار ڈکل ایک برتر مخلوق یعنی سورج میں بھی ظاہر ہو گا ۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ خدا نے سب انسانوں کو یکساں بنایا ہے اور چونکہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں ، اس لیے اس رشتے کے حوالے سے ان میں ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے اور محسوس کرنے کا جذبہ بھی موجود ہے ۔ چھوٹے بڑے کی تفریق ایک مصنوعی اور غیر فطری تفریق ہے ۔ انسان کیا ہے معاشرتی سطح پر کتنے ہی مختلف طبقوں میں بٹا ہوا ہو لیکن جب ایک طبقے یا متقام کے افراد کو کوئی دکھ پہنچے گا تو لازمی طور پر دوسرے طبقے کے افراد اس صد سے کوسوس کریں گے ۔ 

( 7 ) اس شعر میں اقبال نے زندگی کو میدان جنگ سے تشبیہ دی ہے اور جس طرح جنگ کے میدان میں تباہد کولٹر نے کے لیے ہتھیاروں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس طرح زندگی کے جہاد میں انسان کو جو تھیار درکار ہوتے ہیں وہ دوقسم کے ہیں ۔ ایک تو مادی وسائل یعنی رو پی پی اور مال واسباب وغیرہ اور دوسرے اخلاقی صفات اقبال نے اس شعر میں ان اخلاقی صفات کا شمار کیا ہے جن کے بغیر زندگی کے معرکے کو سرنہیں کیا جاسکتا ۔ اقبال کے خیال میں اگر مسلمان اپنے اندر پتلی ، ایمان مسلسل جدو جہد کا عزم اور بنی نوع انسان سے محبت کا جذبہ پیدا کر لیں تو وہ زندگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ یہی وہ تین اخلاقی ہتھیار ہیں جن کی زندگی کی جنگ میں ضرورت ہوسکتی ہے ۔


 ( 8 ) اس شعر میں بھی ، پچھلے شعر کی مانند اقبال نے کچھ اور ایسی خصوصیات کا ذکر کیا ہے جو وہ انسان کے اندر دیکھنا پسند کرتے ہیں ۔ اقبال کہتے ہیں کہ ایک انسان کو اس کے سوا اور کیا چاہیے کہ وہ بلند طبیعت ، مسلک میں سچا اور کھرا ، نیک سیرت ، پر جوش دل اور پاک نگاہ رکھتا ہو ۔ اگر کوئی انسان اپنے آپ میں ات پیدا کر لیتا ہے تو اس کے مردمومن ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا ۔


  چھٹا بند


 عقابی شان سے جھپٹے تھے ، جو بے بال و پر نکلے

 ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے


 ہوئے مدفون دریا ، زیر دریا تیرنے والے

 طماچے موج کے کھاتے تھے جو ، بن کر گہر نکلے 


غبار رہ گزر ہیں ، کیمیا پر ناز تھا جن کو

 جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر گر نکلے 


مارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا 

خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے


 حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے 

جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے 


زمین سے نوریان آسمان پرواز کہتے تھے 

یہ خاکی زنده تر ، پائنده تر ، تا بنده تر نکلے


 جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں

 ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے


 یقین افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے 

 قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے

مشکل الفاظ کے معانی 


عقاب ایک شکاری پرندے کا نام ۔ مدفون فن ہونا ، یہاں فناہ ہونے کے معنی میں آیا ہے ۔ گہر موتی غبارہ گزر راستے کا غبار ، یہاں بے حیثیت اور حقیر کے معنی میں آیا ہے ۔ کیمیا : سونا بنانے کافن ، یہاں دولت اور مادی وسائل کے معنی میں آیا ہے ۔ اکسیرگر کیمیا بنانے والا ۔ یہاں کامیاب کے معنی میں آیا ہے ۔ بجلیاں یہاں لاسکا بنا نظام مراد ہے جس سے جنگ میں خبر میں ادھر سے ادھر پہنچائی جاتی ہیں ۔ حرم : خانہ کعبہ اور اس کے اردگرد جواحاطہ ہے اسے نرم کہتے ہیں یہاں اہل عرب کے معنی مراد لیے گئے ہیں ۔ پیر حرم شریف مکہ ( حجاز کا گورنر ) مراد ہے ۔ کم نگاہی غفلت ۔ جوانان تاری : ترک نو جوان ۔ صاحب نظر عقلمند ۔ نوریان آسان پرواز فرشتے صورت خورشید : سورج کی مانند صورت گر بنانے والا صورت گر تقد سرملت ملت کی تقدیر بنانے والا ۔


تشریح


( ۱ ) اس بند میں علامہ اقبال نے جنگ ستقامیہ میں مسلمانوں کی میت کی وجوہات بتائی ہیں ۔ اس بند کی خوبی یہ ہے کہ جنگ کل تفصیلات اور اصلاحات کو نا اس شاعرانہ زبان میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جعلی معلومات سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ علامہ کی قدرت بیان اور شعری قفی نزاکتوں سے بھی پوری طرح لطف اندوز ہوتا ہے ۔ پہلے شعر میں اقبال اس بات پر امیتان و اظہار کرتے ہیں کہ دو یونانی فو میں جو ترکی پر برطانوی فوجوں کے ساتھل کر حملہ آور ہوئی تھیں اور جنہوں نے عقاب کی طرح مسلمانوں پر یلغار کی تھی یہ نہایت ذات کے ساتھ پسپا ہونے پر مجبور ہوئیں اور ان کی طاقت جن پر انہیں ناز تھا ، ان کے کسی کام نہ

 ( 2 ) وہ دشمن جن کو اپنی بحری قوت اور خاص طور پر آبدوز کشتیوں پر بہت بھروسہ تھا ، انجام کار اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ، اس لیے کہ بہادر ترک فوجوں نے انہیں اتنا موقع ہی نہیں دیا کہ و وان آبدوزں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر سکتے اور ان کو سمندر میں فرق کر دیا ۔ بظاہر مسلمانوں کے پاس کوئی بڑی جنگی بحری طاقت دیتھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے کامیابی حاصل کی ۔ سمندر کی سختیاں برداشت کر نے والے بے سروسامان ترک ہی آخر کامیاب ہوۓ ۔


 ( 3 ) وہ لوگ کہ جن کے پاس بے شمار دولت اور دیگر جنسی و مادی وسائل موجود تھے اور جنہیں ایک دوسری بڑی قوت یعنی برطانیہ کی مددبھی حاصل تھی ، آج غبار بگذر کی مانند بے حیثیت اور بے وقعت ہیں ۔ منزل پر پہنچنے کا خواب دیکھنے والے راستے کا غبار بن گئے ہیں ۔ اور جنہوں نے ( لینی مسلمانوں نے اس مشکل وقت میں اللہ کو یاد رکھا ، اس پر بھروسہ کیا اور اس کی مدد کے طلب گار رہے ۔ کامیاب و کامران اور خوش و خرم ہیں ۔


 ( 4 ) ترک فوجوں کے پاس موصلات کا کوئی جدید نظام نہ تھا ۔ نہ ان کے پاس لالکی کا انتظام تھا اور نہ ٹیلی فون اور ٹیلی گراف کا بندو بست ۔ لیکن مسلمان سپاہیوں کی بہادری اور بے جنگری نے اس تمام بے سروسامانی کی تلافی کر دی ۔ اس قدر کم وسائل رکھنے کے باوجودتر کی فوج نے اس فوج پر غلبہ حاصل کیا جو جدید ترین آلات حرب سے لیس تھی ۔ اس شعر میں نرم رو قاصد ، سے مراد ترک جوانوں کی مستعدی اور باخبری اور بنگالیوں سے مراد جدید اسلکی نظام ہے جو دشمنوں کی فوج کومیسر تھا ۔


 ( 5 ) اس شعر میں شریف مکہ ( حجاز کے گورنر ) کی اس بے وفائی کی طرف اشارہ ہے جب اس نے پہلی جنگ عظیم میں ملت اسلامیہ کے مفادات سے غداری کرتے ہوۓ انگریزوں کے ساتھ مل کر ترکی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا ۔ شریف مکہ کے اس اقدام سے عربوں کی جو بد نامی ہوئی ، علامہ اقبال نے اس کا ذکر اس شعر میں کیا ہے ۔ دوسرے مصرع میں علامہ فرماتے ہیں کہ ایک طرف تو عربوں کا یہ کردار تھا جس نے پوری دنیا میں عربوں کو  رسوا کر دیا اور دوسری طرف بہادر اور نو جوان ترک تھے جنہوں نے بڑی عقل مندی ، معاما نمی اور بہادری کا مظاہر کرتے ہوئے یونانی اور انگریزی فوجوں سے مقابلہ کیا اور اسلام سے اپنی محبت کا عملی ثبوت فراہم کر دیا ۔

 ( 6 ) ترک فوجوں نے اپنی آزادی کی اس جنگ میں جو کارہائے نمایاں انجام سے تھے ۔ اس کی صرف اہل زمین ہی آخر ایک نہیں کر ر ہے تھے بلکہ آسمان پر پرواز کر نے والے فر نے بھی ان کے اس کارنامے کے معترف تھے اور زمین کو مخاطب کر کے اندر ہے تھے کہ یہ خاک کے بنے ہوئے انسان ( ترکی باشندوں کی طرف اشارہ ہے بڑے بہادر اور وسا مند ثابت ہوئے اور آزادی کی ہے جنگ جیت کر انہوں نے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دے دیا ۔


 ( 7 ) اس شعر میں اقبال نے اہل ایمان کی زندگی کو سورج سے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح سورج کا بظاہر زوال اس کا حقیقت میں زوال نہیں ہوتا بلکہ وہ اگر ایک خطے میں غروب ہوتا ہے تو زمین کے دوسرے خطے میں طلوع ہو جا تا ہے ۔ اسی طرح اہل ایمان کو اگر کسی ایک معرکے میں شکست بھی ہو جاتی ہے تو اس کی نوعیت محض عارضی اور وقتی ہوتی ہے اور جس طرح سورج ڈوب گردو بارہ پھر نکل آ تا ہے اسی طرح مسلمان اپنے عارینی زوال کو شکست کو فتح سے بدل دیتے ہیں ۔ اس شعر میں علامہ اقبال کا اشارہ پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کی شکست اور پھر جنگ ستار یہ میں ان کی فتح کی طرف سے پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے جرمنی سے ایک معاہدے کے مطابق ، اس کا ساتھ دیا تھا )


 ( 8 ) ملت اسلامیہ کی تعمیر وترقی اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کے افراد یقین کی  دولت سے مالا مال ہوں ۔ اگر مسلمانوں کو اپنے نصب العین پر بھروسہ اور اللہ کی رحمت پر یقین کامل ہو گا تو وہ بڑی سے بڑی مشکل پر آسانی سے قابو پالیں گے ۔ اپنے عقیدے پر پختہ یقین ہی دو قوت ہے جس سے قوم کی بگڑی ہوئی تقدیر سنواری جاسکتی ہے ۔ اس شعر میں بھی اقبال نے واضح طور پر ترکوں کی کامیابی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ وہ ترکی جو شد ید داخلی انتشار اور بیرونی دباؤ کا شکار تھا اور جسے یورپ کا مرد بیمار کہا جا تا تھا محض ترکوں کے یقین محکم اور عمل پیہم کی بدولت آزادی سے ہم کنار ہو گیا ۔ یورپ کی دو بڑی قوتوں یعنی یونانیوں اور انگریزوں کے مقابلے میں ترکی کی کامیابی یقینا اس کے افراد کی ہمت و جرات اور استقلال ہی کی مرہون منت بھی جائے گی ۔ قوت یقین کے بل بوتے پر تقدیر کا رخ بدل دینے کی میرا یک روشن مثال ہے ۔ 


 ساتواں بند


 تو راز کن فکاں ہے ، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا 

خودی کا راز داں ہو جا ، خدا کا ترجماں ہو جا 


ہوس نے کر دیا ہے کڑے ٹکڑے نوع انساں کو

 اخوت کا بیاں ہو جا ، محبت کی زباں ہو جا 


یہ ہندی ، وہ خراسانی ، یہ افغانی ، وہ تورانی

 تو اے شرمندہ سائل ، اچھل کر بے کراں ہو جا


 غبار آلوده رنگ و نسب میں بال و پر تیرے

 تو اے مرغ حرم اڑ نے سے پہلے پر فشاں ہو جا


 خودی میں ڈوب جا غافل ، یہ سر زندگانی ہے

 نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا


 مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر

 شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا 


گزر جا بن کے سیل تندرو کوہ و بیاباں سے

 گلستاں راہ میں آۓ تو جوۓ نغمہ خواں ہو جا


 ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی

 نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی

مشکل الفاظ کے معانی


 کن فکاں : قرآن پاک کی ایک آیت ہے جس کا ترجمہ ہے : خدا نے دنیا سے کہا کہ ہو جا اور وہ ہوئی یہاں دنیا کی تخلیق اور ارتقا مراد ہے ۔خودی : علامہ اقبال کا فلسفہ جس کی رو سے ضروری ہے کہ انسان اپنی عزت نفس کی حفاظت کرے اور اپنی اندرونی صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں بروئے کار لاۓ ۔ ترجمان : نمائندہ ہوں : لا پیچ ، یہاں دنیاداری کے معنی میں آیا ہے ۔ اخوت ، بھائی پارہ شرمند و ساحل : و و موج جو صرف سائل تک می ودر ہے ، مراد ہے وہ انسان جو اپنے آپ کومند و ذکر لے ۔ بے کراں وسیع ، لامحدود ۔ غبار آلود و رنگ ونسب : رنگ ونسل کا احساس رکھنے والا ۔ مربع حرم : مسلمان مراد ہے ۔ پرفشاں : پروں کو جھاڑ نا یہاں مطلب یہ ہے کہ رنگ نسل کے احساس سے دست بردار ہو جاتا ۔ سرز ہو جاتا ۔ سرزندگانی : زندگی کا راز زندگی کی حقیقت ۔۔ جاوداں ہمیشہ رہنے والا ۔ مصاف لڑائی کا میدان حر یرو پریناں ، ریشمی کپڑوں کی دو قسموں کے نام ۔ سیل : سیلا ب ۔ جوئے فہ خواں : گاتی ہوئی ندی ، پانی کے بہتے اور پتھروں سے ٹکرانے کی آواز کو موسیقی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ساز فطرت : فطرت کو ساز سے تشبیہ دی ہے ۔ نوا : آواز ۔


( ۱ ) خداوند عالم نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کن میلون یعنی دنیا تلیق کی گئی اور اس میں ارتقا کامل برابر جاری ہے ۔ اقبال اس آیت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ دنیا کے ارتقا کی ذمہ داری بہت پڑھ انسان بھی عام ہوتی ہے ، اس لیے کہ انسان کو خدا نے لاشان پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے اور اس حیثیت سے انسان کا بالعموم اور مسلمان کا بالخصوص یفریضہ ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری محسوس کرے اور دنیا کی ترقی میں اپنا کردار بحسن و خوبی انجام دے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان پہلے اپنی ذات سے آگاہی حاصل کرے اور اپنی شخصیت میں پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں دنیا میں بروئے کارلائے ۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کی ذات انسانیت کی بھلائی اور دنیا کی ترقی کا سبب بنے گی اور وہ زمین پر اللہ کی نیابت کے مرتبے پر فائز ہو جاۓ گا صرف وہی انسان خدا کی نمائندگی اور ترجمانی کا دعویدار ہو سکتا ہے جو اپنی خودی سے آگاہ ہو ۔ جونس خود اپنی حقیقت نہ پہچانتا ہو ، وہ دنیا کی ترقی اور خدا کی نیابت کا حق کیسے ادا کر سکتا 

( 2 ) آج کا انسان اپنی فکر اور اپنے ر خان کے اعتبار سے مادہ پرست ہو چکا ہے ۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر لا پچ بخود غرضی اور نفسانی خواہشات کی تکمیل لوگوں کا صیح نظر ہے ۔ دنیاوی مال واسباب کی پرستش اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ انسانوں کے درمیان محبت ، اخوت اور روداری جیسی اخلاقی صفات باقی نہیں رہیں ۔ اپنی غرض حاصل کرنے اور اپنی خواہشات کے حصول کی خاطر انسان انسان کا دشمن بن چکا ہے ۔ نفسانفسی اور مادیت کے اس دور میں مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اخوت اور بھائی چارے کی تعلیم اور محبت کا درس دیں ، اس لیے کہ موجود وعبد کی بے چینی اور بے اطمینانی کامل اسلامی اخوت پرعمل پیرا ہونے ہی میں پوشیدہ ہے ۔ یہ اسلام ہی ہے جو انسانی اور اخلاقی تقاضوں کو دیگر مادی فوائد اور اغراض پرترجیح دیتا ہے ۔


 ( 3 ) اور ( 4 )


 ان دو اشعار میں اقبال نے جو مفہوم بیان کیا ہے اس سے قبل چوتھے بند کے دوسرے اور تیسرے اشعار میں بھی ادا کر چکے ہیں ۔ یہاں بھی اس بات کو دھراتے ہوۓ کہتے ہیں کہ آج کل مسلمان قومیت اور وطنیت کے سیاسی تصور کو اہمیت دے رہے ہیں جس کے مطابق کسی سرزمین سے اپنی وابستگی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے ۔ مثلا افغانستان کے مسلمان اپنے آپ کو افغانی یا خراسان کے مسلمان اپنے آپ کو خراسانی سمجھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں حالانکہ ان کے لیے سب سے زیادہ قابل فخر بات یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ قومیت کے سیاسی تصور کو اپنانے کے بجاۓ قومیت کے مذہبی اور اسلامی تصور کو اپنا ئیں ۔ اپنے آپ کو کسی خطے یا ملک سے وابستہ کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی موج کناروں تک محد ودر ہے اور اپنے سامنے پھیلے ہوۓ وسیع سمندر میں داخل ہونے سے گریز کرے ۔ اسلام جغرافیائی حدود سے بالاتر ، ایک آفاقی اور عالم گیرند ب ہے ، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کومتی رود نہ کر میں اور رنگ ونسل انسب اور قومیت کے احساس سے بالاتر ہوکر اپنے آپ کو ایک امت واحدہ کا فرد بجھیں ۔ آج کا مسلمان ا الى بيات في الارض عارية ( القرآن ) اس پرندے کی مانند ہے جس کے پروں پر رنگ ونسب کی پر بھی ہوتی ہے ۔اسے چاہیے کہ اڑ نے سے پہلے اس کر دو چھاڑ دے ینی مسلمانوں کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دو رنگ ونسل کے احساس تفاخر سے آزاد نہ ہو جا ئیں ۔


 ( 5 ) مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے علام فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو بی خودی ( ذات اور شخصیت ) معرفت حاصل کرنی چاہیے کیونکہ زندگی کی حقیقتیں ان پر اس وقت تک منکشف نہیں ہوں گی جب تک وہ خو دا پی حقیقت سے آشنا نہ ہوں گے ۔ اگر انسان خودشناسی کی منزل طے کر لے اور جان لے کہ قدرت نے اس میں کیا کیا سلائیتیں پوشید درکھی ہیں تو اس کی مدد سے ساری دنیا پر چھایا جا سکتا ہے جیسا کہ علامہ نے ایک اور جگہ فرمایا ہے ۔ 


خودی کے زور سے دنیا پر چھا جا 

مقامِ رنگ و بو کا راز پا جا


اگر انسان اپنی صلاحیتوں کو پہچان لے اور اپنی حقیقت سے آگاہ ہو جائے تو وہ اس قدر بلند مقام حاصل کر لیتا ہے کہ زمان ومکاں کی پابندیوں سے ماورا ہو جائے ، اس کے لیے ہمیشہ کی زندگی حاصل کر لیتا کیا مشکل ہے ۔


 ( 6 ) پہلے مصرعے میں انہوں نے زندگی کو میدان جنگ سے تشبیہ دی ہے یعنی زندگی میدان جنگ کی طرح ہے اور جس طرح میدان جنگ میں سختیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سپاہی کو فولاد کی طرح مضبوط ہونا چاہیے ، اسی طرح زندگی کے مسائل اور مشکلات سے نبردآزما ہونے کے لیے انسان کو صبر و استقامت سے کام لینا چاہیے ۔ دوسرے مصرعے میں زندگی کے دوسرے رخ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ انسان کو اپنے معاشرتی روابط میں ریشم کی طرح نرم اور ملائم ہونا چاہیے ۔ در اصل اس شعر میں اقبال نے انسانی زندگی کے دمکنہ اور بنیادی پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ہر دو مواقع پر ایک مسلمان کا طرزعمل کیسا ہونا چا ہیے ۔ یعنی اسے زندگی کی تختیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے تو فولاد کی طرح مضبوط ہونا چاہئے لیکن اپنے برادران ایمانی سے گفتگو یا معاملے کے دوران میں نرم و شیر میں لہجہ اختیار کر نا چا ہیے ۔

 ( 7 ) بی شعر بھی دراصل گذشتہ شعر کے مفہوم ہی کی وضاحت کر رہا ہے ۔ اس شعر میں کوہ بیاباں ، زندگی کی مشکلات و مسائل اور دشمن ، دونوں کا استعارہ ہوسکتا ہے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر زندگی میں تجھے مشکلات پیش آئیں یا کوئی دشمن پہاڑ کی مانند تیرے راستے میں حائل ہو جاۓ تو تجھے گھبرانے کے بجاۓ اس کا مقابلہ کرنا چاہیے اور جس طرح تیز سیلاب کا ریلا کوه و بیاباں کو روندتا ہوا گذر جاتا ہے ، تو بھی اپنے دشمن کا مقابلہ کر کے اسے پامال کر دے ۔ اس کے مقابلے میں اگر کوئی شخص تیری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاۓ تو تو اس کے ساتھ نرمی اور محبت کا برتاؤ کر ۔ مومن کی شان یہی ہے کہ وہ حالات اور موقع دیکھ کر اپنے رویے میں مناسب ردو بدل کر لیتا ہے ۔ اسی مفہوم کو انہوں نے اس طرح بیان کیا ہے 


ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

 رزم حق و باطل ہو تو فواد ہے مومن 


جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم 

دریاؤں کے دل جس سے دھل جائیں ، وہ طوفاں 


( 8 ) اقبال مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ خداوند عالم نے تم کو دوقو تیں ایسی عطا فرمائی ہیں جن کا بیج استعمال کر کے مسلمان کا میاب اور سرخرو ہو سکتے ہیں اور انہی قوتوں کی بنیاد پر مسلمانوں کو دوسری امتوں پر ترجیح دی گئی ہے ۔ ان قوتوں میں سے ایک قوت تو علم کی ہے یعنی مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے علم حاصل کر میں اور پی علمی اور فکری کا وشوں سے دنیا کو فائدہ پہنچا ہیں ۔ دوسری قوت محبت کی ہے یعنی مسلمان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کر میں اور اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کی محبت سے بھی غافل نہ ر ہیں ۔ میدوقو تیں ایسی ہیں جولا محدود میں اور کبھی ختم نہیں ہوسکتیں علم انسان اگر چاہے کتنا بھی حاصل کر لے ختم نہیں ہوسکتا ۔ اس طرح جذ بہ محبت بھی ایک لافانی اور امر جذ بہ ہے ۔ انسان اگر ان دونوں قوتوں کا صحیح استعمال کرے تو موجودات وتلوقات میں سے کوئی اس کی برابری اور ہم سری کا دعوی نہیں کر سکتا ۔


  آٹھواں بند 


 ابھی تک آدمی صید زبون شہر یاری ہے

 قیامت ہے کہ انساں نوع انسان کا شکاری ہے 


نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی

 یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے


 وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندان مغرب کو

 ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کارزاری ہے


 تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا

 جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے


عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

 یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے


 خروش آموز بلبل ہو ، گرہ غنچے کی وا گر دے

 کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاری ہے


 پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی

 ز میں جولان گہ اطلس قبابان تتاری ہے


 بیا پیدا خریدار است جان ناتوانے را "

 پس از مدت گذار افتاد برما کاروانے را “


 فارسی شعر کا ترجمہ : آجا ، جان ناتوان کا خریدار پیدا ہو گیا ۔ ایک مدت کے بعد ہماری طرف کسی قافلے کا گزر ہوا ہے ۔

مشکل الفاظ کے معانی


 صید : شکار ۔ زبوں : برا ۔ عاجز : بے چارہ ۔ شہر یاری : بادشاہت شخصی حکومت خیرہ : چکا چوند ۔ صناق : کاری گری ۔نگ : موتی ۔ ریزہ کاری : نازک اور بار یک کام ، زیورات میں نکلینے جڑنا ۔ حکمت عقل و دانش علم : فلسفه خردمند بعقل مند - کارزاری : میدان جنگ میں استعمال ہونے والی تلوار ۔ مدیر : تدبیر ، سیاست فسوں کاری : جادوگری ، یہاں سیاسی ہتھکنڈوں کے معنی میں آیا ہے حاکم : مضبوط خروش آموز بلبل : بلبل کوفہ گری پر مائل کرنے والا یہاں مراد انسانوں کومحبت کی تعلیم دینے والا ۔ باد بہاری : بہار کی ہوا ۔ اطلس قبایان تاری : اطلس کی قبائیں بہنے والے تا تاری ترک مراد ہیں ۔


 ( 1 ) جیسا کہ آپ کو  بتایا گیا ہے پاظم علامہ اقبال نے ترکی کے آزاد ہونے اور وہاں ایک نئی جمہوری حکومت قائم ہونے کی خوشی میں لکھی تھی ۔ چنانچہ وہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ ترکی میں تو جمہوریت کا آغاز ہو گیا ہے ۔ لیکن ابھی دنیا کے بیشتر ممالک میں ایسی آمرانہ اورشخصی حکومتیں قائم ہیں جن کی بنیا دملوکیت اور ظلم وستم پر رکھی گئی ہے ۔ یہ کس قدر دکھ اور افسوس کا مقام ہے علوم وفنون کی ترقی اور انسانی بیداری کے اس دور میں بھی انسان انسان کا غلام ہے اور ملوکیت کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ جہاں جہاں شخصی حکومتیں موجود ہیں انہیں ختم کیا جانا چاہیے تا کہ انسان کے حقوق اور آزادی کا تحفظ کیا جا سکے اور جس طرح ترکی میں ایک  پشش کرنی چاہیے ۔ آزاد جمہوری حکومت قائم کی گئی ہے ، اس طرح دوسرے ممالک اور بالخصوص مسلمان ممالک ماں ایساری جمہوری نظام نافذ کرنے کی


 ( 2 ) اس شعر میں اقبال مغربی تہذیب کو دنیا کے لیے ایک فریب قراردیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر چہ اس تہذیب کی ظاہری چیک دیکھنے والوں کی آنکھوں کو متاثر بھی کرتی ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائےتو معلوم ہوگا کہ در حقیقت یہ ایک ایساز اور ہے جس میں جھوٹے موتی لگے ہوئے ہیں یعنی اس کے ظاہر سے قطع نظر اس تہذیب کا باطمن نہایت بھیا نک اور مسلمان ممالک کے لیے ناقابل قبول ہے ۔ بظاہر یہ تہذیب بڑی پرکشش اور ایک خوبصورت زیور کی مانند کلش ہے لیکن جس طرح بچھو نے موتی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، اسی طرح اسلامی روایات و تہذیب کے مقابلے میں یہ تہذیب کوئی حیثیت نہیں رکھتی مسلمانوں کو کیا ہے کہ اس کی ظاہر کی چیک رنگ سے متاثر نہ ہوں ۔


 ( 3 ) و علم وحکمت ، فلسفه و دانش اور سائنسی ومنعتی ترقی جس پر اہل یورپ کو بڑا فخر تھا ، آج مغرب ہی کی سیاست کا شکار ہوکر ایک خونیں تلوار کا روپ دھار چکی ہے ۔ اس شعر میں اقبال کا اشارہ مغربی اقوام کی ہوں ملک گیری کی طرف ہے ۔مغربی اقوام نے اپنے اس جذ بہ استعمار کوتسکین دینے کے لیے سائنسی قوت اور ایجادات و مہلک ہتھیاروں بنانے میں استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور اس طرح علم و حکمت جیسی مفید سے بھی انسان کے منفی رویوں کی تسکین کا سامان بن رہی ہے ۔


 ( 4 ) اس شعر میں اقبال نے یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اور پی تہذیب وتمدن اور سیاست کی بنیا دسر ماد می داری پر قائم کی گئی ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں سرمائے کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور اگر کبھی سرماۓ اور اخلاقیات یا سرمائے اور انسانی اصولوں میں ٹکراؤ ہو جائے تو ہر قیمت پر سرمائے کو تحفظ فراہم کیا جا تا ہے ، اس لیے کہ وہی پورے نظام کی بنیاد ہے ۔ اس شعر میں اقبال اس طرزفکر پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغربی مفکرین ، دانشور اور سیاست داں کتنی ہی کوشش کر میں کہ پرفریب اور پر بیچ انداز بیان اختیار کر کے اپنے اس نظام کی کمر دریاں پر پردہ ڈال دیں لیکن چونکہ اس کی بنیاد انسانی حقوق کی پامالی پر رکھی گئی ہے ، اس لیے یہ نظام بھی دیر پا ثابت نہیں ہوسکتا ۔ مغربی سیاستداں اپنے سیاسی ہتھکنڈوں کی بدولت اسے بچانے کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن جلد یا بدیر ایک نہ ایک دن میختم ہو جائے گا ۔


 ( 5 ) اس شعر میں اقبال نے عمل کی اہمیت پر زور دیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان اپنی اصل کے اعتبار سے نہا اچھا ہوتا اور نہ برا بلکہ اس کے اعمال اسے اچھا یا برا بناتے ہیں ۔ جو لوگ اس دنیا میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بتاۓ ہوۓ راستے پر رہتے ہیں ۔ان کے لیے آخرت میں جنت کی نعمتوں کی خوشخبری ہے اور جولوگ اس راہ راست سے بھٹک جاتے ہیں ، ان کے واسطے دوزخ کا عذاب مقدر کر دیا گیا ہے ۔ اس طرح اس دنیا میں بھی وہی لوگ کامیاب ہوتے اور اپنے زندگی کو جنت کا نمونہ بنالیتے ہیں جن کے اعمال تھے ہیں ۔اس کے برعکس ان لوگوں کی زندگی جہنم کا نمونہ ہے جن کے اعمال درست نہیں ۔

( 6 ) مسلمان کو پیا ہے کہ ان کا وجود ، دنیادالوں کے لیے خوش اور راحت کا سبب بن جائے ۔ اس شعر میں اقبال نے دنیا کو بان سے اور مسلمان کو بہار کی ہوا سے تشبیہ دی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح بہار کی ہوا ، باغ کے لیے خوشی کا پیغام لاتی ہے اور اس کے چلتے ہیں پھول کھل اٹھتے ہیں ، پرندے ہونے لگتے ہیں اور سارے باغ پر ایک کیف و شادمانی کی فضا چھا جاتی ہے ، اسی طرح مسلمان اپنے فکر وعمل سے اس دنیا کوخوشی راحت اطمینان اور امن وسکون کا پیغام دے سکتا ہے ۔ جس طرح بہار کی ہوا ، باغ کا ماحول بدل کی ہے اسی طرح مسلمان دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کر سکتا ہے اور ایک ایسا فلامی معاشرہ قائم کر سکتا ہے جس میں 


( 7 ) اسلام کی تعلیمات میں چونکہ مروت ومحبت ، انصاف اور رواداری کو بہت اہمیت حاصل ہے ، اس لیے ترکی میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جانے پر اقبال اس بات کی امید کر رہے ہیں کہ اب اسلام کا وہ پیغام جو محبت پر مبنی ہے ، ساری دنیا میں پھیل جاۓ گا ۔ ترکی کے ان نو جوانوں کی تعریف کر رہے ہیں جنہوں نے اپنے ملک میں امن و محبت کی فضا قائم کر دی ہے اور اگر وہ مزید کوشش گر میں تو دوسرے ممالک میں بھی اسلام کا یہ محبت آمیز پیغام پہنچ سکتا ۔ فاری شعر نظیری نیشاپوری کا ہے جس میں اقبال نے معمولی سی تبدیلی کی ہے ۔ ترجمہ اوپر دیکھ لیں ۔ اقبال مسلمانوں کو اس بات پر آمادہ کر رہے ہیں کہ وہ اٹھیں اور بھنگی ہوئی انسانیت کو اسلام کا راستہ دکھائیں ۔ دنیا جس بات کی منتظر ہے کہ اسے کوئی مناسب دموزوں نظام مل جائے تو وہ اپنے دکھوں کا مداوا کر لے ۔ ترکی میں کامیابی حاصل کرنے سے بڑے عرصے کے بعد مسلمانوں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ دوسری قوموں کی رہنمائی کرسکیں اور اس کو اسلامی تعلیمات کی خوبیوں سے آگاہ کر کے انہیں ان کے مسائل سے نجات داسکیں ۔


  نواں بند 


بیا ساقی نواۓ مرغ زار از شاخسار آمد

 بهار آمد نگار آمد ، نگار آمد قرار آمد


 کشید ابر بہاری خیمه اندر وادی و صحرا

 صداۓ آبشاراں از فراز کوهسار آمد


 سرت گردم تو ہم قانون پیشین سازده ساقی

 کہ خیل نغمہ پروازاں قطار اندر قطار آمد


کنار از زاہداں بر گیرو بیباکانہ ساغر کش

 پس از مدت از یں شاخ کہن با بگ ہزار آمد


 به مشتاقاں حدیث خواجه بدر و حنین آور 

تصرف ہاۓ پیہانش بچشم آشکار آمد 


دگر شاخ خلیل از خون مانمناک میگردد

ببازار محبت نقد ما کامل عیار آمد 


سر خاک شہیدے برگ ہائے لالہ می پاشم

 که خونش با نهال ملت ما سازگار آمد


 ” بیا تاگل بیفشا نیم دمے در ساغر اندازیم 

فلک راسقف بشگافیم وطرح دیگر اندازیم “


 فارسی بند کالفظی ترجمہ 


 شعر نمبر 1۔ آساقی آ ! ( شراب کی محفل آراستہ کر ) کہ شاخوں سے دردمند پرندوں کے نغمات کی صدائیں آنے لگیں ۔ بہارآگئی ، محبو تا گیا اور محبوب کے آنے سے میرے دل کو قرار میسر ہوا ۔ 


شعر نمبر 2۔ بہار کے بادلوں نے اپناخیمہ وادی صحرا میں نصب کر دیا اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے آبشاروں کے گرنے کی آواز آنے لگی ۔


 شعرنمبر 3۔ اے ساقی ! میں تیرے قربان جاؤں تو بھی فیاضی و سخاوت اور انعام و اکرام کا پرانا دستور تازہ کر ، اس لیے کہ گانے والوں کے گروہ قطار اندر قطار آ رہے ہیں ۔


 شعر نمبر 4 زاہدوں سے کنارہ کشی اختیار کر اور بے باکی سے شراب پینا شروع کر دے کہ بڑے طویل عرصے کے بعد پرانی شاخ سے بلبل کا نغمہ سننے میں آیا ہے ۔


 شعر نمبر 5- بدروحنین کے آقا ( یعنی حضرت محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کا تذکرہ آپ کے چاہنے والوں کو نا ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پوشیدہ معجزے میری نظروں پر ظاہر ہو چکے ہیں ۔


 شعر نمبر 6۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی شاخ ہمارے خون سے پھر رنگین اور تروتازہ ہورہی ہے ۔ محبت کے بازار میں ہماری جنس وفا بالکل بچی اور خالص ثابت ہوئی ۔


شعر نمبر 7۔ میں شہید کے مزار پر الہ کے سرخ پھول بکھیر رہا ہوں اس لیے کہ اس کا خون چوری ملت کے درخت کے لیے بڑا مفید 


شعر نمبر 8۔ آنها کہ ( ایک دوسرے پر ) پھول برسائیں اور شراب یہ ڈالیں ۔ آسان کی جیت میں شگاف کر لیں اور اس کی ایک کی بنیا درکھیں ۔


مشکل الفاظ کے  معانی 

مرغ : فارس میں پرندے کو کہتے ہیں ، یہاں بلبل کے معنی میں لیا ہے ۔ نگار محبوب فراز : بلندی کو ہسار : بیہار ۔ آبشار جھرنا ۔ رست کردم : میں تیرے سر کےقربان ۔ قانون پیشین پرا نادستور ، دستور ، پرانانہ ، قانون ایک ساز کا نام بھی ہے ۔ نیل الشکر ، یہاں ہجوم کے معنی میں آیا ہے ۔ نغمہ پردازاں : گانے وائے ۔ کہنا پرانا ۔ ہزار : بلبل ۔ مشتاقال : شوقین ، مشتاقاری جمع ہے مشتاق کی ۔ حدیث کہانی ، قصہ ، بات خواجہ بدرومنین حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا تب ہے ۔ بدروستین دوغزوات کے نام ہیں ۔ تصرف : قبضہ ۔ یہاں چھپا ہوا ۔ آشکار : ظاہر ۔شار 


یہ آخری بند علامہ اقبال نے فاری زبان میں قلم بند کیا ہے اور اس پورے بند میں ملت اسلامیہ کی بیداری اور احیاء یرغیر معمول مسرت اور جوش و خروش کا اظہار کیا گیا ہے ۔ یوں تو یہ پوری نظم ہی امید خوشی ، اور رجائیت کے لہجے سے بھر پور ہے لیکن اس بند میں خاص طور پر کیف دسر دروستی کی ایک والہانہ نا شروع سے آخر تک چھائی ہوئی نظر آتی ہے ۔


 ( 1 ) اقبال کہتے ہیں کہ اے ساقی آاو محفل کو از سرنو آراستہ کر ، اس لیے کہ شاخوں سے پرندوں کے نغموں کی آواز میں آنے گئی ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ بہار آ گئی ہے ۔ بہار کی آمد کے ساتھ ہی محبوب بھی آ گیا ہے اور اس کے آنے سے میرے دل کو سکون نصیب ہوا ہے ۔ یہاں بہار سے مرادتر کی میں مسلمانوں کی حکومت کا قیام ہوتا ہے اور محبوب کا لفظ کمال اتا ترک کے لیے بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے ۔ کمال اتاترک نے مسلمانوں کو بیدار کر کے اقبال کے دل میں وہی جگہ حاصل کر لی تھی جوحبوب کے لیے عاشق کے دل میں ہوتی ہے ۔


 ( 2 ) بہار کے بادل نے ہر وادی و صحرا میں اپنے خیمے نصب کر دیئے ہیں اور پہاڑ کی چوٹیوں سے آبشاروں کے گرنے کی آواز میں آنی شروع ہوگئی ہیں ۔ اس شعر میں اقبال نے بہار کا منظر پیش کیا ہے کیوں کہ جب بہار آتی ہے تو کالے رنگ کی گھٹائیں اس طرح فضا پر چھا جاتی ہیں جیسے کسی نے خیمے نصب کر دیئے ہوں ۔ اس کے ساتھ ساتھ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف کا کھلا اور آبشار کی 

صورت میں رواں ہو جا نا بھی بہار کالازمہ ہے ۔


 ( 3 ) اے ساقی میں تیرے قربان جاؤں تو بخشش و فیاضی کے پرانے قانون کو پھر سے تازہ کر دے ۔ اس لیے کافہ کروں کی ٹولیاں قطار اندر قطار گاتی چلی آرہی ہیں ۔ اس شعر میں ساتی سے مراد مسلمان ہے اور اقبال مسلمان سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ نہیں موقع ہے کہ تو دنیا کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کر دے اور اسلام کے وو اصول و قوانین جنہیں ، نیافراموش کر چکی ہے پھر سے زمانے میں نافذ کردے ۔


 ( 4 ) تو زاہدوں سے الگ ہو جا اور بے خوفی سے پینا شروع کردے ۔ مدت کے بعد پرانی ستاخ سے بلبل کا فمہ پھر سننے میں آ رہا ہے ۔ اس شعر میں زاہد سے مراد وہ لوگ ہیں جو صرف عبادات اور نماز روزے ہی کو اصل اسلام سمجھتے ہیں ، جب کہ اسلام جدو جہد اور نمل کی تعلیم دیتا ہے ۔ عبادات کی اہمیت اپنی جگہ پر مسلم ہے لیکن انسان کونسل سے بھی پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے اقبال کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو شش گوشہ عبادت تک محدود نہ کر میں بلکہ میدان عمل میں نکلیں جس طرح کہ ترکی کے مسلمانوں نے بڑی مدت کے بعد مسل کا نمونہ پیش کیا ہے ۔


 ( 5 ) بدرونین کے آ تا یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عاشقوں کو سنا ، اس لیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ن پوشید ہ طور اپنے کمال روحانی کی بدولت مسلمانوں کی جومد دفرمائی و میری آنکھوں پر روشن ہے یعنی میں انی سے اچھی طرح واقف ہوں ۔ اقبال کے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ عا ۔ تو وہ اس کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتے تھے ۔ لمانوں کو حاصل نہ ۔۔۔


 ( 6 ) حضرت ابراہیم کی شاخ ہمارے خون کی بدولت پھر تروتازہ ہورہی ہے ۔ یہاں شاخ خلیل سے مرادملت اسلامیہ ہے ۔ اقبال امت مسلمہ کو شاخ سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح شاخ یا درخت کی نشونما کے لیے آبیاری کی ضرورت ہوتی ہے ، اسی طرح قوم بھی ایک ایسے درخت کی طرح ہے جسے افراد اپنے خون سے پہنچتے ہیں ۔ ترکی کے شہیدوں نے جنگ آزادی میں اپناخون دے کر ملت اسلامیہ کے درخت کو پھر سے تروتازہ کر دیا ہے اور اس طرح محبت کے بازار میں ہماری ( یعنی مسلمانوں کی جنس و فاداری بالکل کھری اور پی ثابت ہوگئی ہے یعنی مسلمان اپنے مذہب کا وفادار ہوتا ہے اور اس کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتا ۔


 ( 7 ) میں شہید کی تربت پر چڑھانے کے لیے لائے کا پھول لایا ہوں ۔ اس لیے کہ اس کا خون امت مسلمہ کے درخت کے لیے بڑا ساز گار ثابت ہوا ہے ۔ اس شعر میں ترکی کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور دوسرے مصرعے میں وہی تشبیہہ دہرائی ہے جو چھے شعر میں موجود ہے ۔


 ( 8 ) آ ، تا کہ مسرت کے اظہار کے طور پر جشن مناتے ہوۓ ہم ایک دوسرے پر پھول برسائیں اور شراب پیالے میں انڈیلیں ۔ آسمان کی حیرت میں شگاف کر میں اور ایک نئے عہد کی بنیاد رکھیں ۔ بی شعرمشہور ایرانی شاعر حافظ شیرازی کا ہے ۔ جو اقبال مسلمانوں کی فتح اور مصطفے کمال کی کامیابی کومسلمانوں کے ایک نئے دور کا آغاز سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں چونکہ یہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے خوشی کا مقام ہے ، اس لیے انہوں نے حافظ شیرازی کا یہ شعر یہاں نقل کر کے تمام مسلمانوں کے دلی جذبات کی نمائندگی کر دی ہے ۔ شراب پیالے میں انڈیلنا یہاں محض خوشی کے اظہار کے استعارے کے طور پر


 استعمال کیا گیا ہے اور نہ اقبال کا مقصد سوائے اس کے  چھوٹیں ہے کہ مسلمان اس مبارک موقع پر دل کھول کر اپنی مسرت کا اظہار کمر میں اور اس عزم کا اعادہ کر میں کہ وہ دنیا میں ایک ایسے دور کی بنیا درھیں گے جس میں چاروں طرف اسلام کا بول بالا ہوگا ۔


طلوعِ اسلام کا فنی و فکری جائزہ



جیسا کہ آپ نے گذشتہ صفحات میں پڑھا ، علامہ اقبال نے پالم اس وقت لکھی جب کمال اتاترک نے ترکی کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرا کے ترکی میں اسلامی جمہوریہ کی بنیادر کی ۔ اقبال مغربی عبارت نہ ذہنیت کے سخت مخالف تھے جس کا اظہار ان کے کلام میں جا بجا موجود ہے لیکن وہ قومی حکومتوں کے خلا فسانہ تھے ۔ انہیں اس کا اچھی طرح احساس تھا کہ دنیا میں ایک عالم کی حکومت کا قائم ہونا مشکل ہے ۔

 قوم نسل ، تاریخ ، آب و ہوا اور دیگر جغرافیائی اختلافات ان کی نظر سے پوشید دنہ تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ اسلام میں خلافت راشدہ کے بعد سے اب تک ایک بھی متحدہ اسلامی ریاست قائم نہ ہوسکی اور نہ اس کی کوئی امید دکھائی دیتی ہے ، البتہ اتحاد اسلامی کا تخیل اس معنی میں ضرور ملی جامہ پہن سکتا ہے کہ تمام اقوام آزاد ہوں اور وہ اسلامی مقاصد کے لیے باہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر لیں ۔ سی حکومتیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے اسلامی قومی حکومتیں ہوں گی مگر ان قومی حکومتوں کی بنیا وا خلاق اور محبت سے استوار ہونی چاہیے ۔

 یہی وجہ ہے کہ ' ' طلوع اسلام ' ' لکھنے سے قبل وہ اپنی دواور معرکتہ الآ را نظموں شمع اور شاعر اور محضر راہ میں مسلمانوں کی غفلت پر نوحہ خوانی اور ممالک اسلامیہ کی زوال آمادوروش پر تنقید کر کے اپنا کے زوال کے اسباب کی طرف اشارہ کر چکے تھے ۔ اس سے ان دو مذکورہ نظموں میں نہیں کہیں ان کا لہجہ تز شیر ہو جا تا ہے لیکن چوں کہ دو بنیادی طور پر حرکت وعمل اور امید کے پیامبر تھے ، اس لیے یہ خزان وملال ، مایوی سے نہیں بدلتا ۔ 

مسلمانوں کو زوال زودیکھ کر یہ کیفیت فطری طور پر ان کے اندر اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے کے اندر داورنم خوار تھے ۔ مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر ان کا دل بے چین ہو جا تا تھا لیکن ’ ’ طلوع اسلام ‘ ‘ کا میموی تا ثر رجائیت سے نجر پور ہے ۔ اس نظم کا پہلا ہی شعر اس کے آہنگ کا تعین کرتا ہے 


دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنگ تابی 

افق سے آفتاب ابھرا ، گیا دور گراں خوابی


 اور پھر ایک نشاطیہ لہراز اول تا آخری پوری نظم میں جاری و ساری نظر آتی ہے اور دل کرلی اور ملال کی ملکی سے پر چھائیں بھی طلوع اسلام میں نہیں نظر نہیں آتی ۔ طلوع اسلام میں اگر چہ مسلمانوں کی فتح پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے اور اس فتح کے ہیرو کمال اتاترک کوخراج تحسین پیش کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی اقبال نے اپنے مخصوص زاو پیکر کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ خوشی سے بے قابو ہو کر جذبات کی رو میں بہہ گئے ہیں اور نہ انہوں نے اپنے ممدوح کی شان بڑھانے کے لیے بے جا تعریف سے کام لیا ہے ۔ 

وہ شاعرانہ مبالغے کی آڑ لے کر ایسا کر سکتے تھے لیکن انہوں نے پوری نظم میں کہیں بھی رہی قصیدہ گوئی کا رنگ نہیں پیدا ہونے دیا ۔ اگر چہ اس نظم کے بعض اشعار سے یہ انداز و ہوتا ہے کہ اقبال کے ذہن میں مردمومن کا جو تصورتھا ، کمال اتاترک کی صورت میں اس کی پچھلی شکل نظر آنے لگی ہے لیکن اس کا اظہار انہوں نے بغیر کسی مبالغہ آرائی کے اس طرح کیا ہے ۔ 


جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا 

تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا 


کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا 

نگاه مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں


 اپنے مخصوص طرزادا میں اپنے ممدوح کی تعریف وتوصیف کے ساتھ ساتھ وہ مستقبل کے لیے اسے اور اس کے پردے میں مسلمانان عالم کو پچھیتیں بھی کرتے ہیں ، اس لیے کہ اقبال بڑی سے بڑی فتح کو بھی منزل قراردینے کے لیے تیار ہیں ۔ مثلا ایک مقام پر کہتے ہیں


 تو ره نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول 

لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول


 اس کی ایک وجہ بھی ہے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دواپنے مردمومن میں جن اوصاف کو دیکھنے کے خواہاں ہیں ، وہ ان سے محروم ہو جائے ۔ اس لیے وہ مر مسلمان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں 


پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی

 ستارے جس کی گر دراہ ہوں ، وہ کارواں تو ہے


  سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا 

لیا جاۓ گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا


 اقبال جاتے ہیں کہ نسلی تفاخر کس طرح ملت کے لیے زہر ہلالی کا کام کرتا ہے ۔ ان کے پیش نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ بھی کوھر لی اور عربی کونجی پر گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے ۔ اسی لیے وہ خبردار کرتے ہیں کہ

 

یہ ہندی ، وہ خراسانی ، یہ افغانی ، وہ تورانی

 تو اے شرمندہ ساحل انجل کر بے کراں ہو جا


غبار آلودہ رنگ و نسب میں بال و پر تیرے 

تو اے مرغ حرم ! اڑ نے سے پہلے پرفشان ہو جا


 اوراس کے ساتھ ساتھ عالمی اخوت کا درس دیتے ہوئے اس نظم میں ایک جگہ کہتے ہیں 


ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو 

اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا 

نظم کا چھٹا بند جس میں ترکوں کی کا میابی کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور یونانی اورانگریزی فوج کے کروفر کے مقابلے میں ترکوں کی بے سروسامانی کا ذکر کیا ہے ، اقبال کے شاعرانہ کمال اور ان کی خلاقی کی منہ بولتی تصویر ہے ۔ انہوں نے خفیہ کمک نظام لاسلکی ، ٹیلی گراف ٹیلی فون اور آبدوز کشتیوں کا ذکر اور فن کارانہ نزاکت کے ساتھ کیا ہے کہ کم از کم اردوشاعری میں تو اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔


 عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے 

ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے


 ہوئے مدفون دریا ، زیر دریا تیرنے والے

 طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گہر نکلے 


غبار رو گزر ہیں ، کیمیا پر ناز تھا جن کو 

جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو ، اکسیر کر نکلے


 ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا

 خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں ، وہ بے خبر نکلے


 غرض ' ' طلوع اسلام ' ' اقبال کی شاہکار اورنمائندہ نظموں میں سے ایک ہے ۔ ان کے الفاظ مضمون آفرینی اور نازک خیالی کے اعتبار سے منظم با نگ درا ‘ ‘ کی دوسری نظموں کے مقابلے میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے ۔ اس نظم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اپنے معنوی ربط اور باطنی تسلسل کے اعتبار سے ایک مکمل نظم ہونے کے باوجود اپنے لطیف استعاروں اور رمز و کنایہ کی باریکیوں کی بدولت اس میں ایک خاص قسم کا رنگ تغزل بھی پیدا ہو گیا ہے جس نے اس نظم کی دل کشی در عنائی میں بے عداضافہ کر دیا ہے ۔