اردو افسانہ کی روایت اور اردو افسانہ نگاری| |اردو افسانے کا ارتقا

admin

اردو افسانہ کی روایت اور اردو افسانہ نگاری| |اردو افسانے کا ارتقا

 

اردو افسانہ کی روایت اور اردو افسانہ نگاری

 

افسانہ ایک ایسی مختصر تحریر کا نام ہے جس میں کسی واقعے، کردار یا لمحے کی جھلک دکھائی جاتی ہے ۔اردو زبان میں افسانہ انگریزی ادب کے اثر سے آیا ۔مغربی زبانوں میں افسانے سے پہلے طویل قصے کہانیاں اور ناول لکھنے کا رواج تھا مگر جوں جوں انسان عدیم الفرصت ہوتا گیا تو کسی ایسی صنفِ ادب کی ضرورت محسوس ہوئی جو کم سے کم وقت میں پڑھنے والے کو مسرت اور تسکین کے لمحات میسر کر سکے ،چنانچہ اردو افسانہ لکھا جانے لگا جس کے اثرات ہندوستان میں بھی در آئے ۔

 افسانہ کے اجزائے ترکیبی


جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، اختصار افسانے کی سب سے بڑی خصوصیت ہے یعنی افسانے میں بیان ہونے والی کہانی اتنی مختصر ہونی چاہیے کہ اسے ایک ہی نشست میں بخوبی پڑھا جا سکے ، اس لیے وحدت تاثر اس کا بنیادی عنصر ہے اور اس میں مرکزی خیال کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔


ناول کی طرح افسانے میں بھی اسلوبِ بیان ،کردار نگاری اور مکالمہ نویسی بہت اہم سمجھے جاتے ہیں ۔ناول اور افسانے میں فرق یہ ہے کہ ناول نگار قاری کے لیے کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑتا طرح نہیں چھوڑتا اور اس میں پوری تفصیل بیان ہوتی ہے مگر اب زمانہ اور ہے، پڑھنے والے بھی تیز ہیں، وہ کچھ کڑیاں خود بھی ملا لیتے ہیں چنانچہ افسانے میں جابجا کھانچےنظر آسکتے ہیں، جنہیں ایک اچھا قاری خود ملا لیتا ہے

i

افسانہ نگار کمال یہ ہے کہ وہ کم ازکم الفاظ کا استعمال کرے اور الفاظ سے زیادہ جذبات سے اپنے افسانے کو نمایاں کرے۔لوگ عام طور پر الفاظ کے ذریعے نہیں سوچتے بلکہ انسان کے دل و دماغ میں خیالات اور جذبات پہلے آتے ہیں، جنہیں وہ لفظوں کا جامہ پہنا تا ہے اور خوبصورت شکل بنا دیتا ہے ۔اس طرح افسانہ ایک خیالی پیکر کی عملی تشکیل کا نام ہے ۔یہ کسی امر کا ایسا بیان ہے جس میں تمہید ہو ،ارتقا ہو، عروج ہو اور پھر اسے کسی موزوں نتیجے پر ختم کیا گیا ہو یار نتیجے کا اخذ قاری پر چھوڑ دیا گیا ہو یعنی افسانے میں ایک منطقی ترتیب و تنظیم ہوتی ہے ۔


اردو افسانہ نگاری کی روایت

اردو میں افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں ہوا۔ منشی پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم نے اردو افسانے کے اولین نقوش پیش کیے ۔پہلی جنگ عظیم کے بعد اردو میں انگریزی ،فرانسیسی، ترکی اور روس کے معیاری افسانوں کے تراجم کثرت سے شائع ہوئے، جن کا اثر اردو افسانے پر پڑا مگر جلد ہی اردو افسانہ نگاروں نے اپنی کارگاہ کو وسعت دی اور اپنی کہانیوں کو فطری اور حقیقی پلاٹوں سے منظم کیا اور اپنے گرد و پیش کی تمام زندگی کو اپنا موضوع بنایا ۔اس کے ساتھ ساتھ عمدہ کردار نگاری اور خوبصورت منظر نگاری سے اپنے افسانوں کو جلا بخشی اور یوں افسانے کو موثر ترین صنفِ ادب کا درجہ حاصل ہو گیا ۔


اردو افسانہ نگاروں کی فہرست


1935 کے لگ بھگ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر افسانے میں نئے رجحانات پیدا ہوئے اور اس کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوگیا آزادی کے بعد ملک کو جن نئے نئے حالات و  مسائل سے دوچار ہونا پڑا انہوں نے لوگوں کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے،  چنانچہ افسانے کے موضوعات میں مزید وسعت پیدا ہوئی۔  آزادی کے بعد سے لے کر زمانہ حال تک افسانہ لکھنے والوں میں بڑے بڑے نام یہ ہیں ۔قرۃالعین حیدر ، غلام عباس ، انتظار حسین ، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ ، غلام ثقلین نقوی ، سعادت حسن منٹو ، خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کے نام شامل ہیں ۔یہ یقینا ناتمام فہرست ہے مگر یہ ضرور ہے کہ ان میں سے بعض افسانہ نگاروں نے زبان و بیان کی حلاوت کے ساتھ تکنیک کی جدت پر بھی خاصی توجہ دی ان لوگوں کی مساعی سے آج اردو افسانے کو عالمی ادب میں ایک باوقار مقام اور اونچا مرتبہ حاصل ہے یہاں تک کہ لکھنے والوں میں سے بعض کے افسانوں کو دنیا کے بہترین افسانوں کے موازنے میں بخوبی رکھا جا سکتا ہے ۔