غزوہ حنین کا پسِ منظر||غزوہ حنین کے واقعات||غزوہ حنین کے اثرات اور نتائج

admin

غزوہ حنین کا پسِ منظر||غزوہ حنین کے واقعات||غزوہ حنین کے اثرات اور نتائج

 


غزوہ حنین کا پسِ منظر||غزوہ حنین کے واقعات||غزوہ حنین کے اثرات اور نتائج


غزوہ حنین

حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی کا نام ہے ۔ہوازنوحات کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا تھا لیکن اہل عرب یہ دیکھ رہے تھے کہ مکہ اب تک محفوظ ہے ان کا خیال تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر قریش پر غالب آگئے اور مکہ فتح ہوگیا تو بلاشبہ وہ سچے نبی ہیں ۔جب مکہ فتح ہوا تو تمام قبائل خود آگے بڑھے اور اسلام قبول کرنا شروع کر دیا لیکن قبیلہ ہوازن اور ثقیف پر اس کا الٹا اثر پڑا یہ بہت جنگجو قبیلے تھے فتح مکہ کے بعد دونوں قبیلوں کے رؤسا نے سمجھ لیا کہ اب ان کی باری ہے ۔اس لئے انہوں نےایک دوسرے سے مشورہ کیا کہ مسلمانوں کے خلاف مل کر مکہ پرمشترکہ حملہ کر دیا جائے ۔

اس معرکے میں اگرچہ ثقیف اور ہوازن کی تمام شاخیں شریک تھیں تاہم کعب اور کلاب الگ رہے فوج کی سرداری قبیلہ ہوازن کے رئیس مالک بن عوف کو ملی لیکن مشیر کی حیثیت سے درید بن الصمہ کو بھی ساتھ لے لیا گیا ۔جس کی عمر سو سال سے زائد ہو چکی تھی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشیروں اور جاسوسوں کے ذریعے قبائل کی جنگ کی تیاریوں کی اطلاع ملی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت کے مطابق فورا جوابی کارروائی کا منصوبہ بنایا ۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ تھی کہ ان قبائل کو مکہ پر حملہ کرنے کی مہلت نہ دی جائے بلکہ جنگ ان کی سرزمین پر لڑی جائے گی ۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ معظمہ میں مختلف ذرائع سے اسلحہ اور رسد کی فراہمی کا انتظام کیا اور ان قبائل کی بغاوت ختم کر دینے کے لیے شوال 8 ہجری طائف کی طرف پیش قدمی کی ۔

دشمن کی فوج مکہ کی طرف بڑھ رہی تھی لیکن اسلامی لشکر کی پیشقدمی کی خبر سن کر مالک بن عوف نے وادی حنین میں جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اس نے لشکر کو کھلے میدان میں رکھا مگر اس کی حفاظت کے لیے تیر اندازوں کو تین اطراف میں پہاڑی گھاٹیوں اور دروں میں اس طرح چھپا دیا کہ اسلامی لشکر کو اس کا پتہ نہ چل سکے ۔مسلمانوں کو اللہ تعالی کی مدد سے زیادہ اپنی کثرت پر بھروسہ ہو گیا تھا اور دشمن کی چالوں اور منصوبوں سے غافل اور بے پروا ہو گئے ۔

صبح صادق ہوتے ہیں اسلامی لشکر کے اگلے دستے نے جس میں اہل مکہ کے نو مسلم جوان اور غیر مسلم حلیف شامل تھے حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں دشمن پر حملہ کر دیا ۔حضرت خالد بن ولید نے اپنے معمول کے مطابق بجلی کی سی تیزی کے ساتھ حملہ کیا اور دشمن پر اس قدر دباؤ ڈالا کہ وہ پیچھے ہٹ گیا ۔اسلامی لشکر کے جوان جوش میں آگے بڑھتے گئے یہاں تک کہ تیر اندازوں کی زد میں آ گئے انہیں اس کی خبر نہیں تھی پھر غضب یہ ہوا کہ مال غنیمت میں انہوں نے اپنی طرف متوجہ کرلیا ۔ادھر کو مال غنیمت پر لپکے ادھر تیر اندازوں نے تین اطراف سے تیروں کی بارش کردی وہ گھبرا کر بھاگ گئے اس بھاگ دوڑ میں سارے لشکر ایک درہم برہم ہو گئی قریب تھا کہ اسلامی لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال جرات اور ثابت قدمی نے صورتحال کو سنبھالا اور آپ صل وسلم کی شاندار قیادت نے مجاہدین کے ہاتھوں میں توانائی پیدا کر دیا آپ نے صفوں کو درست کیا اور سب سے آگے انصار اور مہاجرین کو رکھا اور اس سے پہلے کے دشمن حملہ کرتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جنگی منصوبوں کے مطابق دشمن پر بھرپور حملہ کرنے کا حکم دیا ۔نعرہ تکبیر کی صداؤں میں مسلمانوں نے جوش اور بے جگری سے مقابلہ کیا کفارِ اس کی تاب نہ لا سکے ان کے دلوں پر اس قدر ہیبت طاری ہو گئی  کہ وہ میدان سے بھاگ اٹھے ۔اس حملے میں ان کی تیر انداز بھی بے بس ہوگئے کیونکہ مسلمان ان کی زد سے باہر  تھے وہ بھی گھبرا کر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے ۔

دشمن کا اتحادی لشکر شکست کھانے کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ۔ایک حصہ درید بن الصمہ کی سرکردگی میں وادی حنین ہی میں اوطاس کے مقام پر جمع ہوا اور دوسرا حصہ مالک بن عوف کی قیادت میں طائف میں پناہ گزین ہوگیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسب معمول تیزی اور پھرتی سے دشمن کے تعاقب کا منصوبہ بنایا اوطاس پر حملہ کے لیے حضرت ابو عامر اشعری کی قیادت میں فوجی بھجی۔درید کے پاس اگرچہ کئی ہزار کا لشکر تھا  جس میں تیر انداز بھی تھے ۔لیکن مسلمانوں کی ہیبت اور رعب کی وجہ سے ان کی ہمت جواب دے گئی تھی لہٰذا وہ بے دلی سے لڑے اور شکست کھائی۔ اس بار مسلمانوں نے بھاگنے کا موقع نہ دیا اور انہیں جنگی قیدی بنا لیا ۔


محاصرہ طائف(شوال 8 ہجری) 

طائف ایک بڑا مضبوط اور مستحکم قلعہ تھا یہاں کے امراء اور رؤسا قریش کی ٹکر کے تھے یہ لوگ خوشحال اور جنگجو تھے اور اپنے عہد کے جدید آلات جنگ سے واقف تھے مالک بن عوف اپنی شکست خوردہ فوج لے کر اس قلعے میں محصور ہو گیا ۔اس کی فوج میں بہت جلدی قلعے کی مرمت کی اس میں سال بھر کا سامان رسد جمع کیا اور چاروں طرف منجنیقیں نصب کی اور اہم مقامات پر تیر انداز متعین کیے ۔

حضور پاک صل وسلم نے اپنی قیادت میں فوج کو طائف کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا اسلامی لشکر نے قلعے کا محاصرہ کر کے پہلی مرتبہ قلعہ شکن آلات دبابہ  اور منجنیقیں استعمال کئے۔ رات کی ۔لیکن اہل قلعہ  اس فن میں ماہر تھے اور پھر وہ قلعے کے اوپر بلند اور محفوظ مقامات میں تھے۔ لہذا بر وقت جوابی کارروائی کر کے حملہ آوروں کو نقصان پہنچا کر پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتے تھے ۔

محاصرہ بیس دن تک رہا محصورین کی وجہ سے باہر نکل کر لڑنے کی جرات نہ کرتے اور محاصرے کو طول دینا مسلمانوں کے مفاد کے خلاف تھا ۔اس لیے آپ نے مجلس شوریٰ منعقد کیا صحابہ کرام نے رائے دی کہ یہ لوگ ذہنی طور پر شکست کھا چکے ہیں لہذا ان کا دوبارہ بغاوت کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے اس کے علاوہ ان کے کھیت اور باغ ان کی معیشت کا انحصار کا برباد ہو چکے ہیں ۔

آپ کے پاس دس ہزار کے قریب جنگی قیدی تھے۔آپؐ نے حسب معمول عفودرگز کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو بلا فدیہ و شرط رہا کر دیا۔ ان جنگی قیدیوں میں آپ سے سلم کی رضاعی بہن شیما بھی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہچان لیا اور احترام و عزت کا برتاؤ کیا پھر چند اونٹ اور بکریاں  عنایت فرمائیں اور ان کی خواہش پر ان کے خاندان کے پاس پہنچا دیا ۔

لہذا سرد جنگ کے ذریعے انہیں مطیع کرنا زیادہ مناسب نہیں ہے ۔مشورہ معقول تھا آپؐ نے قبول فرمایا اور محاصرہ  اٹھا لیا اس موقع پر بعض صحابہ کرام نے ثقیف کو بددعا دینے کی درخواست کی آپؐ نے آسمان کی طرف دیکھ کر دعا کی :


 " یا اللہ ثقیف کو ہدایت دے کہ وہ میرے پاس چلے آئیں۔  


دعا قبول ہوئی اور جلد ہی ثقیف کا قبیلہ مسلمان ہو گیا "