غزوہ خندق کے اسباب، واقعات اور اثرات کا تفصیلی جائزہ

admin

غزوہ خندق کے اسباب، واقعات اور اثرات کا تفصیلی جائزہ


غزوہ خندق کے اسباب، واقعات اور اثرات کا تفصیلی جائزہ

غزوہ خندق یا جنگِ احزاب (ذیقعد 5 ہجری) 


غزوہ خندق کے اسباب

اگرچہ احد کے میدان میں قریش نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا تھا اور وہ کہتے تھے کہ ہم نے بدر کی شکست کا بدلہ لے لیا ہے لیکن پھر بھی وہ جانتے تھے کہ اسلام مدینے میں اب بھی ترقی کر رہا ہے اور ان کا اصل مقصد یعنی اسلام کی اشاعت کو روکنا پورا نہیں ہوا ۔اس لیے وہ حسد کے مارے جل رہے تھے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے ۔

-دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کا اثر و رسوخ مدینے سے نکل کر دور دور تک پھیل گیا تھا جس کی وجہ سے شام ، مصر اور عراق جانے والے تجارتی راستوں میں ان کا اختیار تھا اور قریش کو بہت مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔

مدینہ کے جو یہودی قبائل اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے جلا وطن کر دیے گئے تھے وہ مشرکین مکہ سے مل گئے اس کے علاوہ بھی مکہ کے آس پاس کے قبیلے قریش سے مل گئے اس طرح ایک بہت بڑا لشکر تیار ہو گیا اور دو سال تک مسلسل جنگ کی تیاری کے بعد مدینہ پر حملہ کے لیے روانہ ہو گیا ۔

حضور پاک صل وسلم کو جب ان تیاریوں کا علم ہوا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کو مشورے کے لئے بلایا اتنی بڑی تعداد کے مقابلے میں کھلے میدان میں لڑنا بہت مشکل تھا اس لیے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ نے رائے دی کہ ایران کے دستور کے مطابق شہر کے گرد خندق کھود کر اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے ۔

آپ نے اس تجویز سے اتفاق فرمایا اور  اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ شہر کے گرد چکر لگا کر فوجی اہمیت کے مقامات کا جائزہ لیا ۔آخر طے پایا کہ عورتوں، بچوں، مویشیوں اور قیمتی سامان وغیرہ کو گڑھیوں اور چھوٹے چھوٹے قلعوں میں منتقل کر دیا جائے جو مدینے میں بکثرت تھے اسی طرح مدینہ کے تین اطراف میں باغات اور محلے تھے جن کی حد بندی دیواروں سے کی جاتی تھی ۔اس طرح دشمن کے اس طرف سے حملے کا خطرہ نہیں تھا صرف شمالی حصہ کھلا تھا اس لئے اس طرف نیم دائرہ نما خندق کھودی گئی اس کی تیاری میں حضور پاک صل وسلم نے صحابہ کرام کے ساتھ حصہ لیا مٹی کھودی پتھر ڈھوئے اور بھوک و پیاس کی شدت برداشت کی ۔

دشمن کا لشکر جب مدینہ کے قریب پہنچا تو خندق دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ اہلِ عرب کے نزدیک یہ نئی چیز تھی۔ آخر وہ خندق کی دوسری جانب پھیل گیا مسلمانوں کے مختلف گروہ باری باری پہرا دیتے کبھی کبھی دشمن خندق کے زیادہ نزدیک آنے کی کوشش کرتا تو تیر اندازی کی جاتی کبھی کوئی خندق پھلاگنے کی کوشش کرتا تو تلوار سے حملہ کر کے اسے جان سے مار دیتے ۔

بنو قریظہ کی بد عہدی 


مثاق مدینہ کی رو سے یہود اس بات کے پابند تھے کہ مدینہ پر حملہ کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے شروع شروع میں تو انہوں نے کچھ تعاون کیا لیکن جب تحویل قبلہ ہو گیا تو وہ بھی غداری کرنے لگے اس پر حضور پاک صل وسلم نے تقریبا دو سو آدمیوں کا ایک دستہ ان کے مقابلے کے لیے مخصوص کر لیا تاکہ بوقت ضرورت ان اندرونی دشمنوں سے نمٹا جا سکے ۔

یہودی قبیلہ بنو قریظہ نے جب دیکھا کہ مسلمانوں سے مقابلہ آسان نہیں ہے تو ایک دن وہ ان گڑھیوں کی طرف گئے جہاں مسلمان عورتیں اور بچے تھے تاکہ وہ جائزہ لے سکیں کہ ان پر کیسے حملہ کیا جا سکتا ہے ایک یہودی حالات کا جائزہ لینے کے لئے گڑھی میں اترا ۔اتفاق سے حضور پاک صل وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ نے اسے دیکھ لیا وہ ایک بڑا لکڑی کا لٹھ کر آئیں اور اس کے سر پر دے مارا جس سے وہ وہی مر گیا ۔آپ نے اس کا سر کاٹ کر باہر پھینک دیا جس سے یہودی خوفزدہ ہوئے شاید یہاں بھی کچھ فوج موجود ہے اس طرح وہ حملہ 
کرنے سے باز رہے ۔

ایک نئی حکمت عملی 

دشمن سے جان چھڑانے کی ایک صورت یہ تھی کہ اس کے مختلف گروہوں کو آپس میں بد گمان کر دیا جائے چنانچہ اس حکمت عملی پر عمل کیا گیا نعیم بن مسعود قبیلہ غطفان کے سردار تھے اور اسلام قبول کر چکے تھے لیکن اس بات کا بھی کسی کو علم نہیں تھا ۔انہوں نے بنو قریظہ سے کہا کہ قریش کی فتح یقینی نہیں ہے اگر تم نے ان کا ساتھ دیا اور اسی دوران وہ محاصرہ اٹھا کر چلے گئے تو تم تنہا مسلمانوں کا مقابلہ نہ کرسکو گے اس لیے ضمانت کے طور پر ان کے کچھ آدمیوں کو طلب کر لو ۔دوسری طرف قریش تک یہ بات پہنچائی کہ بنو قریظہ نے مسلمانوں سے ملے ہوئے ہیں اور کسی بہانے تمہارے سرداروں کو بلا کر مسلمانوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں اب بنو قریظہ نے جب کچھ سردار بطورِ ضمانت طلب کئے تو انہیں نعیم بن مسعود کی بات سچ لگی اس طرح بے اعتمادی کی فضا پھیل گئی ۔

اسی طرح انہیں دنوں بہت زور کی آندھی آئی۔ سردی کی شدت میں اضافہ ہوا اور بنو غطفان اپنے گھروں کو چلے گئے قریش کے پاس سامان رسد کم ہو رہا تھا ۔ان میں مختلف قبیلوں کے لوگ تھے جن کی آپس میں دشمنی تھی محاصرے کی طوالت سے وہ پھر سر اٹھا رہی تھی فتح کے امکانات بہت کم تھے ایک مہینے کے بعد بد دل ہو کر کے قریش واپس مکہ چلے گئے ۔

اس جنگ میں مسلمانوں نے سامانِ جنگ اور خوراک کی کمی کے باوجود بہت ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جس کے مقابلے میں دشمن کی فوج میں آپس میں پھوٹ پڑ گئی  اوپر سے سامانِ رسد بھی کم ہونے لگا اور سردی میں حیرت انگیز اضافہ ہوگیا ۔اس کے علاوہ قریش کے مقدس مہینے ذیعقد کی آمد تھی شوال ختم ہو رہا تھا اس مہینے میں وہ لڑائی نہیں کرتے تھے ان سب وجوہات کی بنا پر قریش ناکام واپس چلے گئے ۔

جنگ خندق کی وجہ تسمیہ 


اسے جنگ خندق یا جنگ احزاب اس لیے کہتے ہیں کیونکہ مسلمانوں نے اپنی حفاظت کے لیے خندق کھودی تھی اسی طرح کفار کے مختلف گروہ اکٹھے ہوکر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے آئے تھے اس لیے اسے جنگ عذاب یعنی مختلف گروہوں کی متفقہ لڑائی بھی کہا جاتا ہے ۔

جنگ خندق کے نتائج  

یہ لڑائی بالکل فیصلہ کن ثابت ہوئی کفار کے مختلف گروہ مل کر مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچا سکے۔اب مسلمانوں کو بھی یقین ہو گیا کہ عرب کی کوئی طاقت انہیں ختم نہیں کر سکتی ۔اب قریش کی جانب سے حملے کا خطرہ ٹل گیا اور مدینہ ان کی طرف سے محفوظ ہو گیا اس کے قبیلوں پر مسلمانوں کا روپ دھار گیا ان میں سے جو محض قریش کی طرف سے مسلمانوں کے قریب نہیں آتے تھے اب آگے اور بہت سوں نے اسلام قبول کر لیا جن میں یمامہ کا سردار بھی شامل تھا قریش کی تجارت شام عراق کے بعد یہی ہوتی تھی ۔اب وہ معاشی اعتبار سے بالکل تباہ ہوکر مسلمانوں کے رحم و کرم پر تھے اسی جنگ میں بد عہدی کے نتیجے میں یہود کے قبیلہ بنو قریظہ سے مسلمانوں کی لڑائی ہوئی اور ان کا خاتمہ ہوگیا یہود کے دو قبیلے پہلے ہی جلا وطن کر دیے گئے تھے اس طرح پورا مدینہ یہود سے پاک ہو گیا ۔