غزل کا مفہوم اور تعارف||اردو غزل کا آغاز و ارتقا

admin

غزل کا مفہوم اور تعارف||اردو غزل کا آغاز و ارتقا


 غزل کا مفہوم اور تعارف||اردو غزل کا آغاز و ارتقا

 
اردو غزل کی تعریف اور مفہوم


اصنافِ سخن میں غزل اہم ترین صنفِ شاعری ہے اردو شعری ادب میں سب سے زیادہ سرمایہ بھی غزل ہی کا ہے یہ وہ صنف ہے جس میں عشق و محبت کا ذکر ہوتا ہے اور شاعر اپنے فکرو خیال کا اظہار علائم و رموز کے ذریعہ نہایت لطیف پیرائے میں کرتا ہے ۔

غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کے حسن و جمال کی تعریف کرنا کے ہیں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب غزال( ملک عرب کا نہایت خوبصورت آہو) کو شکاری کتے دبوچنے کو ہوں تو اس کے منہ سے اس وقت جو دردناک چیخ نکلتی ہے اسے غزل کہتے ہیں ۔گویا غزل میں عشق و محبت اور سوز و درد کا بہت نمایاں ہونا ضروری ہے ۔

آہستہ آہستہ اردو غزل کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اب غزل میں ہر موضوع لایا جانے لگا ہے بلکہ کچھ قد آور شاعروں مثلاً علامہ اقبال ،مولانا ظفر علی خاں اور فیض احمد فیض نے غزل کا مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا ہے اور غزل میں ہر قسم کے افکار و خیالات اور مشاہدات و تجربات کو پیش کیا جاتا ہے ۔


غزل کی ہیتِ ترکیبی 


تعداد میں اردو غزل کے اشعار کم ازکم پانچ اور کثرت میں بیس پچیس بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں مگر اشعار کی تعداد کا طاق ہونا ضروری سمجھا جاتا رہا ہے۔غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں ۔مطلع کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں ۔(قافیہ کا ہونا ضروری ہے ردیف کا ہونا ضروری نہیں )اگر تیسرا اور چوتھا مصرع بھی ہم قافیہ و ہم ردیف ہو تو اسے حسن مطلع کہتے ہیں ۔مطلع کے بعد غزل کا ہر دوسرا مصرع ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتا ہے ۔پوری غزل ایک ہی بحر میں کہی جاتی ہے۔بحر چھوٹی ہو یا بڑی البتہ غزل کے لیے بالعموم مترنم بحروں کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔غزل کے آخری شعر کو مقطع کہتے ہیں اور اس میں شاعر بالعموم اپنا تخلص بھی استعمال کرتا ہے کسی زمانے میں غزل قصیدے ہی کا ایک حصہ ہوتی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ آج تک قصیدے اور غزل کی ہیئت ایک ہے ۔

غزل کا ہر شعر اپنی جگہ جداگانہ مفہوم کا حامل ہوتا ہے اور ایک علیحدہ اکائی کی حیثیت رکھتا ہے جو قافیہ اور ردیف کے ذریعے پوری غزل سے منسلک ہوتا ہے لیکن اساتذہ کے ہاں مسلسل مضمون کی حامل غزلیں بھی مل جاتی ہیں عوام و خواص میں صنفِ غزل سب سے زیادہ مقبول  ہے ۔دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں غزل کی زبان بالعموم سادہ سلیس اور رواں ہوتی ہے اور اس میں ایک بانکپن ہوتا ہے تشبیہ اور استعارہ اور صنائع بدائع  کا موزوں اور مناسب استعمال غزل میں حسن اور دلکشی 
پیدا کرتا ہے ۔

:اردو غزل ک آغاز و ارتقاء 


جیسا کہ ہم اوپر کہیں بیان کر چکے ہیں کہ کسی زمانے میں غزل قصیدے ہی کا ایک ابتدائی حصہ ہوا کرتی تھی جسے تشبیب کہا جاتا تھا فارسی شاعری کے ایک قدیم شاعر رودکی نے اسے قصیدہ سے علیحدہ کر کے اس کو غزل کا نام دیا فارسی میں بشمول حافظ شیرازی اور شیخ سعدی شیرازی کے غزل کے بڑے بڑے شاعر ہو گزرے ہیں ۔جن کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے البتہ اردو غزل فارسی غزل کے تتبع میں لکھی گئی اور جلد ہی اس صنف نے ہرکہ ومہ  سے خراج وصول کرنا شروع کر دیا ۔اردو غزل کا بہترین دور میر اور غالب کا دور تھا اس دور میں اور بھی بہت سے ممتاز غزل گو پیدا ہوئے جن میں ناسخ، آتش، سودا، ذوق، مومن،شیفتہ نواب داغ، مولانا حالی، علامہ اقبال، حسرت موہانی، اصغر، جگر، فراق،  فانی،  فیض اور ناصر کاظمی کے نام شامل ہیں ۔