محاورہ اور روزمرہ میں فرق||روزمرہ اور محاورہ کی مثالیں

admin

محاورہ اور روزمرہ میں فرق||روزمرہ اور محاورہ کی مثالیں

 

محاورہ اور روزمرہ میں فرق||روزمرہ اور محاورہ کی مثالیں


 :محاورہ کی تعریف 


محاورہ کے لغوی معنی بات چیت کرنا کے ہیں مگر زبان کی اصطلاح میں جب کوئی کلام دو یا دو سے زیادہ الفاظ سے مرکب ہو اور اہل زبان کی بول چال کے مطابق ہو اور اپنے لغوی معنوں کی بجائے مجازی معنی دیتا ہوں تو وہ محاورہ کہلاتا ہے ۔جیسے پانی پینا محاورہ نہیں ہے اس لیے کہ یہاں  پینا اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے اس کے برعکس غصہ پینا ، آنسو پینا وغیرہ محاورے ہیں کیونکہ یہ اہل زبان کی بول چال کے مطابق ہیں اور اپنے مجازی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔

وضاحت 

محاورے میں کم از کم دو الفاظ کا ہونا ضروری ہے یہ الفاظ اپنے حقیقی اور لغوی معنوں کی بجائے ہمیشہ مجازی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں اور ان الفاظ کا استعمال اہل زبان کی بات چیت کے مطابق ہوتا ہے جس میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی ۔مثلا گل کھلانا کی جگہ پھول کھلانا اور گھوڑے بیچ کر سونا کی جگہ گھوڑے فروخت کر کے سونا درست نہ ہوگا کیونکہ اہل زبان کبھی ایسا نہیں بولتے البتہ مصادر کو ہر قسم کے افعال میں ڈھالا جاسکتا ہے مگر محاورہ قواعدِ زبان کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔محاورے کے استعمال میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے اہلِ زبان کی تحریروں کا بغور مطالعہ کرنا ضروری ہے ۔


:مثالیں 


لائے اس بت کو التجا کر کے 

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے 


کل تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے 

 کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے 


مندرجہ بالا اشعار میں بالترتیب کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے آنکھیں چرانا اور کھو جانا محاورے استعمال ہوئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ اپنے لغوی معنوں کی بجائے مجازی معنوں میں آئے ہیں اور اہلِ زبان کی بول چال کے عین مطابق ہیں ۔


:روزمرہ کی تعریف 


روزمرہ بول چال اور اسلوبِ بیان کو کہتے ہیں جو خاص اہل زبان استعمال کرتے ہیں اس میں قیاس کو دخل نہیں بلکہ سماعت پر دارومدار ہے مثلا بلاناغہ پر قیاس کرکے اس کی جگہ بے نا غہ اور روز روز کی جگہ دن دن نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اہل زبان کے یہ الفاظ بول چال میں اس طرح کبھی نہیں آتے ۔

:وضاحت 

روزمرہ زبان کی اس بات چیت کا نام ہے جس کے مطابق بولنا ہی درست تسلیم کیا جائے ۔روزمرہ میں الفاظ کے استعمال کا ایک خاص انداز ہوتا ہے لیکن وہ الفاظ اپنے لغوی اور اصلی معنی دیتے ہیں ۔تحریر و تقریر میں اور نظم و نثر میں جہاں تک ممکن ہو روزمرہ کی پابندی کو ضروری سمجھا جاتا ہے کلام میں جس قدر روزمرہ کی پابندی ہوگی اسی قدر وہ فصاحت کے درجہ سے ساقط سمجھا جائے گا ۔روزمرہ قواعدِ زبان کے اصولوں سے بالا ہوتا ہے یعنی اس پر قواعد کے اصول و ضوابط کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے کسوٹی اہل زبان کا اسلوب بیان ہی ہے ۔
نوٹ: ہر محاورہ روزمرہ بھی ہوتا ہے لیکن ہر روز مرہ کا محاورہ ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔

:مثالیں 

 میری چشم میں درد ہے یہ جملہ روزمرہ کے خلاف ہے کیونکہ اہل زبان اس طرح کبھی نہیں بولتے درست یوں ہے کہ میری آنکھ میں درد ہے ۔

عابد اور ساجد کی عمروں میں اٹھارہ بیس کا فرق ہے یہ جملہ بھی غلط ہے درست یوں ہے عابد اور ساجد کی عمر میں انیس بیس کا فرق ہے کیونکہ اہل زبان معمولی فرق کو واضح کرنے کے لیے انیس بیس کا فرق ہی کہتے ہیں ۔

 میرے ساتھ چار پانچ مت کرو غلط ہے میرے ساتھ تین پانچ مت کرو یہ درست ہے ۔

آپ نا وقت آئے ہیں یہ جملہ غلط ہے آپ بے وقت آئے ہیں یہ جملہ درست ہے ۔

 لڑکی نے دوپٹہ پہنا یہ جملہ غلط ہے لڑکی نے دوپٹہ اوڑھا یہ جملہ درست ہے ۔

سڑکوں پر آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں یہ جملہ غلط ہے سڑکوں پر آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں یہ جملہ درست ہے ۔