غزوا احد کے واقعات، اسباب و وجوہات اور نتائج

admin

غزوا احد کے واقعات، اسباب و وجوہات اور نتائج

 غزوا احد کے واقعات، اسباب و وجوہات اور نتائج


غزوا احد کا پسِ منظر


کعب بن اشرف کا قتل (16 ربیع الاول 2 ہجری)


بدر میں مسلمانوں کی شاندار فتح کی خبر سے مدینہ کے یہود کو سخت صدمہ پہنچا ایک تو وہ تصور ہی نہیں کر سکتے تھے کہ مسلمان قریش جیسی عظیم قوت کو شکست دے سکتے ہیں ، دوسرے انہیں مسلمانوں کی عسکری قوت کا بھی اندازہ ہو گیا تھا چنانچہ وہ پہلے سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے لگے ان باغیانہ سرگرمیوں کا سرغنہ یہود کا ایک سردار کعب بن اشرف تھا ۔وہ مسلمان عورتوں کے فرضی عشقیہ قصے بیان کرتا اور اپنے شعروں میں حضور پاک صل وسلم کی ہجو یعنی برائی بیان کرتا ۔قریش کی شکست کی خبر سن کر اس سے رہا نہ گیا وہ بدر کے مقتولین کے افسوس کے لئے مکہ گیا ان کے مرثیے کہے پھر مختلف قبائل کا دورہ کرکے مسلمانوں سے بدلہ لینے پر اکسایا ۔چنانچہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سازشی کی نیت کو بھانپتے ہوئے اس کا خاتمہ ضروری سمجھا اور آپ نے ایک صحابی محمد بن مسلم رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں ایک چھوٹی سی چھاپا مار جماعت کو اس کے خلاف بھیجا ۔انہوں نے کعب بن اشرف کو قتل کر دیا اس سے یہود میں خوف پھیل گیا اور انہوں نے تحریری طور پر عہد کیا کہ آئندہ ایسی حرکتوں اور باغیانہ سرگرمیوں سے باز رہیں گے ۔

قریش کی تجارتی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش 


چونکہ قریش کی معیشت کا انحصار شام وعراق کی تجارت پر تھا بدر کی فتح کے بعد مسلمانوں نے شام اور مکہ کی قدیم تجارتی شاہراہ قریش پر بند کر دی تو انہیں مجبور عراق کی طرف رخ کرنا ۔ان کا ایک قافلہ بھاری مال و تجارت لے کر عراق کی طرف روانہ ہوا آپ کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے بر وقت اس قافلے کی اطلاع مل گئی ۔قریش کو معاشی محاذ پر زک پہنچانے کا یہ بہت اچھا موقع تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور حضرت زید بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں ایک دستہ نے کفار کے لاکھوں روپے کے سامان پر قبضہ کرلیا اس کاروان تجارت کے لٹ جانے کے بعد قریش پر شام و عراق کی دونوں شاہراہیں بند ہوگئیں چنانچہ معاشی بدحالی سے بچنے کے لئے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں تیز کردیں ۔

عرب کی بیرونی اور اندرونی تجارت پر قریش مکہ کی اجارہ داری تھی جو ان کی خوشحالی کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھی مسلمانوں نے ان کی تجارتی شاہراہوں کی ناکہ بندی کرکے ان کی تجارتی اجارہ داری ختم کر دی اور دوسرے ان کی جگہ خود لے لی ۔اس کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ قریش کی جنگ کی تیاریوں کے لئے مال کی ضرورت تھی اور اس طرح ان کے وسائل محدود ہوگئے ۔

غزوہ احد کے اسباب و وجوہات


1- جنگ بدر کے لیے محض عمر بن حضرمی کے قتل کو بہانہ بنایا گیا تھا لیکن میدان میں بڑے بڑے سردار مثلا ابوجہل ولید، عتبہ ،شیبہ وغیرہ مارے گئے تھے اب مکے کے نئے سردار ابوسفیان نے ان کا بدلہ لینے کے لیے جنگ کی تیاری شروع کر دی ۔

2-شام کی تجارتی شاہراہ جس پر مکے کی معیشت کا انحصار تھا اسے محفوظ کرنے کے لیے مدینہ کی حکومت کا خاتمہ ضروری سمجھا۔

3-مذہبی اور سیاسی اعتبار سے قریش کو تمام قبائل عرب پر خاص امتیاز حاصل تھا بدر کی شکست نے قریش کی شہرت کو بہت نقصان پہنچایا ۔اور قبائل عرب میں ان کی اہمیت کم ہو گی اس بات کا تقاضا تھا کہ اس کا بدلہ لے کر اپنے گرتے ہوئے وقار کو سنبھالا جائے ۔


مکہ کے نئےسردار ابوسفیان نے بدر کے مقتولین کا بدلہ لینے کی قسم کھائی تھی شام سے آنے والے قافلے کا تمام سرمایہ جنگی تیاریوں کے لیے وقف کر دیا ۔شاعروں نے جذبات بھڑکانے والی نظمیں کہیں اور عورتوں نے طعنے دیے اس طرح ایک سال میں تین ہزار آدمیوں کی فوج لڑائی کے لیے تیار ہوگئی ۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا حضرت عباس کے ذریعے سے قریش کی جنگی تیاریوں کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مشورے کے لیے مسجد نبوی میں بلایا ۔عبداللہ بن ابی منافق نے رائے دی کہ شہر میں رہ کر دشمن کا مقابلہ کیاجائے لیکن حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میری رائے میں شہر بند ہونے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ معلوم نہیں کب تک محاصرہ جاری رہے اس لئے شہر سے نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے باقی صحابہ کرام نے بھی ان کی رائے کی تائید کی آخر اکثریت کی رائے کے حق میں فیصلہ ہوا کہ دشمن کا کھلے میدان میں مقابلہ کیا جائے۔ قریش کا لشکر احد کے میدان میں پڑاؤ ڈالے پڑا تھا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے بعد ایک ہزار مجاہدوں کے ہمراہ شہر سے نکلے ۔شہر سے باہر عبداللہ بن ابی منافق نے اپنے تین سو سپاہیوں کو لے کر اسلامی لشکر سے الگ ہو گیا کہ چونکہ میری بات نہیں مانی گئی اس لیے میں آپ لوگوں کا ساتھ نہیں دوں گا اس طرح کفار کے تین ہزار کے مقابلے میں سات سو مسلمان رہ گئے ۔مسلمان عورتوں کی کافی تعداد بھی ساتھ تھی تاکہ زخمی سپاہیوں کی مرہم پٹی کریں انہیں پانی پلائیں اور تیر وغیرہ لا کر دینے میں سپاہیوں کی مدد کریں ۔

غزوہ احد کے واقعات اور تفصیل


احد کے میدان میں پہنچ کر حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہاڑ کو پشت پر رکھ کر پڑاو ڈالا۔احد کی پہاڑی کے جنوبی حصے میں ایک وادی تھی۔  حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہاڑی پر پچاس تیر انداز حضرت عبداللہ بن جبیر کی سربراہی میں مقرر کیے اور انہیں حکم دیا کہ جب تک کہا نہ جائے کسی حال میں اپنی جگہ سے نہ ہلیں ۔باقی سب سپاہیوں کو آپ نے میدان میں ترتیب سے صفوں میں کھڑا کیا اسی دوران قریش کی عورتیں رزمیہ گیت گاتی ہوئی آگے بڑھی پھر جنگ شروع ہوئی تو عرب کے دستور کے مطابق ان کا علمبردار طلحہ صف سے آگے آیا اور مقابلے کے لئے للکارہ ۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اس کے مقابلے کے لئے نکلے اور اسے قتل کر دیا ۔اس پر طلحہ کا لڑکا جوشِ انتقام سے نکلا حضرت حمزہ نے آگے بڑھ کر اس کا خاتمہ کردیا اب عام لڑائی شروع ہوئی حضرت علی حضرت حمزہ اور حضرت ابو دجانہ انصاری دشمن کی فوج کی صفوں میں گھس گئے اور دشمن کے سپاہیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا ۔حضرت ابو دجانہ کی بہادری پر حضور نے ایک تلوار بطور انعام عطا فرمائی ۔

جنگ بدر میں ابو سفیان کی بیوی ہندہ کا باپ عتبہ اور چچا شیبہ حضرت حمزہ کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور اس کے بھائی ولید کو حضرت علی نے قتل کیا اس لیے وہ انتقام کی آگ میں جل رہی تھی اس نے حبشی غلام وحشی کو انعام کا لالچ دے کر حضرت حمزہ کو شہید کرنے پر آمادہ کر لیا ۔وہ نیزہ پھینکنے میں بہت ماہر تھا اس نے حضرت حمزہ کو شہید کردیا ۔ہندہ نے جوشِ انتقام میں حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کرکے کلیجہ نکال کر دانتوں تلے چبا ڈالا ۔

اگرچہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی ان کے پاس ہتھیار بھی کافی نہ تھے لیکن جوشِ ایمانی سے انہوں نے ایسے جنگ کی کہ کفار کے قدم اکھڑ گئے اور وہ میدان سے بھاگ نکلے ۔اس پر مسلمانوں نے ان کا پیچھا کرنے کی بجائے غنیمت کا مال جمع کرنا شروع کر دیا۔ درے پرجن پچاس آدمیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقررکیا تھا وہ بھی مال غنیمت جمع کرنے میں شریک ہوگئے ان کے سردار نے کافی سمجھایا کہ حضور کے حکم کے بغیر کسی حال میں تم اس جگہ سے نہیں ہٹ سکتے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی ۔خالد بن ولید اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے درے کو خالی دیکھا تو اپنے سو سواروں کو ساتھ لے کر پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کردیا اب سامنے سے بھی دشمن پلٹ آیا اور مسلمانوں کو اچانک آگے پیچھے دونوں طرف سے دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا ۔اس بد حواسی میں مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی آپ کفار کا سارا زور حضور پاک صل وسلم کی جانب تھا کہ کس طرح سے آپ کو شہید کرتے ہیں ۔اس پر صحابہ کرام کی ایک بہادر جماعت نے آپ کو گھیرے میں لے لیا اسی اثنا میں حضرت مصعب بن عمیر شہید ہوگئے چونکہ ان کی صورت حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کافی ملتی تھی ۔اس لیے کفار نے شور مچادیا کہ نعوذباللہ حضور شہید ہو گئے اس پر مسلمانوں نے شدت سے جنگ شروع کر دی کہ حضور پاک صلی وسلم کے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے ۔اسی دوران ایک صحابی کی نظر آپ پر پڑی اس نے دوسروں کو آگاہ کیا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں موجود ہیں اس پر کچھ اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہوئے ۔کفار ہر طرف سے آپ پر حملہ کر رہے تھے لیکن جانثار صحابہ ہر وار کو اپنے اوپر برداشت کرتے۔ 

اسی اثناء میں حضور کا چہرہ مبارک زخمی ہوا دو دندان مبارک 

شہید ہو گئے اور خود کی کڑیاں چہرے میں چبھ گئیں لیکن اس حالت میں بھی آپ کی زبان مبارک پر جو الفاظ تھے وہ آپ کی وسعت قلبی کی واضح دلیل ہیں :

" اے خدا میری قوم کے اصولوں کو معاف فرما وہ نادان ہے اور نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں "

چاند جانثار صحابہ کرام آپ کو لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے کفار نے پیچھا کرنا چاہا لیکن پتھر برسا کر ان کا حملہ پسپا کر دیا گیا اس پر ابو سفیان ایک پہاڑی پر چڑھ کر دیوتا کے نعرے لگانے لگا جواب مسلمانوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے 


جنگ احد میں مسلمان خواتین کا کردار 

جنگ احد میں مسلمان خواتین نے جن میں امِ سلیط، امِ سلیم، ام عائشہ شامل تھیں۔  زخمیوں کو پانی پلانے کی خدمات سرانجام دیں ۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم زخمی ہوگئے تھے اس لئے آپ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ میدان میں پہنچ گئی اور آپ نے زخموں کو دھو کر ان پر چٹائی کا ٹکڑا جلا کر رکھا اس پر پٹی باندھی جس سے خون بہنا بند ہو گیا اسی طرح ایک انصاری خاتون کو یکے بعد دیگرے ان کے باپ، بھائی اور شوہر کی شہادت کی خبر ملی لیکن وہ حضور پاک کے بارے میں پوچھتی تھیں جب آپ کو سلامت دیکھا تو کہا کہ آپ خیریت سے ہیں تو پھر سب کی تکلیفیں ہیچ ہیں ۔

اس جنگ میں مسلمانوں کے 70 آدمی شہید ہوئے جن میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بھی شامل تھے کفار کے 22 آدمی مارے گئے ۔