Amazing urdu poetry by Naseem Shaikh

admin

Amazing urdu poetry by Naseem Shaikh

Naseem Shaikh  Poetry in Urdu is famous among poetry lovers. Everyone love to read Naseem Shaikh Urdu Shayari. Best and vast collection of Naseem shaikh Urdu Shayari is available at best urdu poetry for u. We update it regularly so that you don’t miss any latest Naseem shaikh Poetry in Urdu.

GHAZAL NO 1 :


اے دل تو مرے واسطے اس بار دعا کر

اک شخص روانہ ہوا اوقات دکھا کر


تنہائی ملی آنسو ملے ہجر ملا ہے

اک راز فقط دل کا زمانے کو بتا کر


کہنے کو بھلا اپنی صفائی میں کہوں کیا

دیوار سے جب خوش ہوں میں خود کو ہی لگا کر


جب وقت مرا آئے گا کہہ دوں گا میں سب کچھ

رکھی ہے بہت میں نے بھی آواز بچا کر


کرلوں گا میں اس ہجر کی شدت کو بھی تسخیر

اک منشی کو کاندھے کہ محبت سے پٹا کر


میں دشتِ پریشاں سے غزل کہنے کی خاطر

پہنچا ہوں کئی آبلے پیروں میں سجا کر


لے آئی مجھے کھینچ کے بازار میں قسمت

قد کاٹھ یہ اوقات سے کچھ میرا بڑھا کر


دے دوں گا تجھے تیرے دھڑکنے کا صلہ میں

اے دل تو زمانے سے نہیں مجھ سے وفا کر


اک دو نہیں چھ سات ہیں اس شہر میں ایسے

جو زیر و زبر کر تے ہیں دل ہاتھ ملا کر


یہ رنج و الم کم تھے کہ یہ موجِ نسیمی

منسوب ہوئی مجھ سے مری سانسیں پھلا کر


نسییم شیخ


GHAZAL NO 2 :

Amazing urdu poetry by Naseem Shaikh


مجھ سے آباد کرایا گیا وہ شہرِ سخن

جس میں سوچوں کو ملا حرف کا انمول بدن


میرا حاصل ہے محبت کی عبادت میں یہی

ایک آنکھوں کی نمی دوسری چہرے کی تھکن


پہلے تنہائی کو حاوی کیا خود پر میں نے

پھر کہیں جاکے سہی خون کے رشتوں کی چبھن


سانس لینے کے بھی پڑ جاتے ہیں لالے اس میں

ایسی ہوتی ہے محبت میں محبت کی گھٹن


پیاس اشکوں سے بجھاتے ہوئے سورج کی سنو

منتقل مجھ میں ہوا خود سے ہی  جل جانے کا فن


کس کو اپنا کہے اور کس کو پرایا سمجھے

زندگی نام کے صحرا میں بھٹکتا ہوا من


میں نے آواز لگائی تھی فقظ بہروں کو

ہوگئی منزلِ مقصود مری دارِ رسن


خواہشیں مار کے تسخیر کیا ہے میں نے

شورشِ غم سے پگھلتا ہوا یہ کوہِ دمن


دشتِ حیراں تجھے آنکھوں میں بسایا میں نے

ختم ہو تاکہ مری خود سے یہ ملنے کی لگن


میری آنکھوں میں رہا موجِ نسیمی کا خمار

اس لیے دنیا سمجھتی ہے مجھے شیریں سخن


نسیم شیخ


GHAZAL NO 3 :


جو مجھ میں ہے کیا اس کا بھلا نام و نسب ہے

اس کھوج میں رہنا مرے جینے کا سبب ہے


اے کاش کوئی پوچھ لے اک بار یہ مجھ سے

کس بات کا غم ہے مجھے کیا میری طلب ہے


میں اپنی ہی جاگیر میں ہوں ایک مسافر

یہ عام سی اک بات بھی کیا بات عجب ہے


اس بار تو آنا ہے مجھے اپنی ہی زد میں

اس بار زباں پر مری اب ہے نہ کہ تب ہے


کہنے کو تو یہ موت پڑی ہے مرے پیچھے

اور زندگی اس پر مری آرام طلب ہے


کل رات مجھے خواب میں دکھلائی وہ بستی

جس بستی میں روٹی کو مکیں کہتے ہیں رب ہے


رکھ لوں تجھے تقدیر کا عنوان بنا کر

لیکن یہاں افسوس مری آخری شب ہے


روتی ہیں مرے حال پہ تنہائی کی آنکھیں

یہ حال مرا پہلے کہاں تھا جو یہ اب ہے


سر پھوڑتا میں رہ گیا مانی نہ کسی نے

یہ عالمِ بے چارگی بھی یار غضب ہے


جوگی بھی نہیں ہوں نہ میں درویش یہاں پر

میں موجِ نسیمی ہوں خضر میرا لقب ہے

نسیم شیخ

GHAZAL NO 4 :


نہیں چلے گا کسی بھی صورت نہیں چلے گا نہیں چلے گا
کسی کا سکہ بنامِ چاہت نہیں چلے گا نہیں چلے گا

کیا ہے خود کو ہی ہم نے صدقہ بنامِ حسرت دیارِ دل میں
سو ہم پہ جادو کسی بھی قیمت نہیں چلے گا نہیں چلے گا

کیا ہے تبخیر خود کو ہم نے لگا کے داؤ پہ زندگی کو
سو اب تمہارا لگانا تہمت نہیں چلے گا نہیں چلے گا

ہمیں سنا نی ہے گر سزا تو ہمی سے ہمت ادھار لے لو
قلم تمہارا بغیر ہمت نہیں چلے گا نہیں چلے گا

یہ حلقہ حلقہ ہے سر پھروں کا یہاں ںنظامِ سرور و مستی
بنامِ حجت کسی بھی صورت نہیں چلے گا نہیں چلے گا

غموں کا دل پر پہاڑ دھر دے رگوں میں ہجراں اتار دے تو
مگر زباں پر غلافِ لکنت نہیں چلے گا نہیں چلے گا

یہ میکدہ ہے ترے مخالف یہاں پہ کوئی بھی رند ساقی
ہو چاہے جتنی بڑی ضرورت نہیں چلے گا نہیں چلے گا

جواب خط کا ضرور آتا اگر مجھے اتنا علم ہوتا
کہ اس کی چوکھٹ پہ حرفِ علت نہیں چلے گا نہیں چلے گا

ہمارے ہاتھوں ہمی کو دیوار سے لگا کر مگر کے آنسو
بہا بہا کر کرو سیاست نہیں چلے گا نہیں چلے گا

دریدہ آنکھوں میں بھر گیا ہے جو خواب موجِ نسیم تیرے
پلٹ کے آئے کرے حکومت نہیں چلے گا نہیں چلے گا

 نسیم شیخ